Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
ARI Id

1676046599977_54338495

Access

Open/Free Access

Pages

737

مولانا صفی الرحمان مبارک پوری
بہ روز جمعہ یکم دسمبر ۲۰۰۶؁ء کو مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کے سابق امیر اور صاحب الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمان مبارک پوری نے داعی اجل کو لبیک کہا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
ضلع اعظم گڑھ میں مبارک پور پارچہ بافی کی صنعت کے لیے ایک مشہور قصبہ ہے جو علمی و تعلیمی حیثیت سے بھی ممتاز ہے اور یہ بعض بڑے علما و مصنفین کا مولد و مسکن بھی رہا ہے، مبارک پور سے متصل جانب شمال میں حسین آباد کی بستی میں مولانا صفی الرحمان صاحب ۱۹۴۲؁ء میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے جامعہ فیض عام مؤ سے درس نظامی کی تحصیل کی اور اسی دوران الٰہ آباد بورڈ کے امتحانات مولوی اور عالم بھی پاس کئے، تعلیمی مرحلہ ختم کرنے کے بعد کئی مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں، ۱۹۷۱؁ء کی ہند و پاک کی جنگ کے زمانے میں وہ جامعتہ الرشاد سے وابستہ تھے، اس زمانے میں دارالمصنفین اکثر آتے اور کتب خانے سے استفادہ کرتے، مجھ سے اور مولوی ابوعلی عبدالباری صاحب مرحوم سے بہت بے تکلف ہوگئے تھے اور مختلف علمی ،دینی اور قومی و سیاسی مسائل پر گفتگو کرتے، اس سے ان کی ذہانت، قوت گویائی، اچھی صلاحیت اور مسائل حاضرہ سے باخبری کا انداز ہوتا، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔
مگر جامعۃ الرشاد سے ان کا تعلق بہت کم عرصے تک رہا اور بالآخر وہ اپنی اصلی جگہ پہنچ گئے یعنی جامعہ سلفیہ بنارس میں درس و تدریس کی خدمت انہیں تفویض کی گئی، یہاں ان کی مخفی صلاحیتیں جلاپانے لگیں، تقریر و خطابت کا ملکہ تو پہلے ہی سے ان میں نمایاں تھا، یہاں آکر قلم نے بھی گل کاریاں شروع کیں تو جامعہ کے ماہانہ رسالہ ’’محدث‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری ان کو سپرد کی گئی جسے انہوں نے حسن و خوبی سے انجام دیا، بعض کتابوں کے ترجمے کئے، ردو مناظرہ میں رسائل بھی لکھے، اس سے پہلے انہیں عربی بولنے اور لکھنے کی مشق و ممارست نہ تھی، یہاں آکر عربی لکھنے اور بولنے پر بھی قدرت حاصل ہوگئی ۔
مولانا صفی الرحمان مبارک پوری کی شہرت کا غلغلہ اس وقت مچا جب انہوں نے رابطہ عالم اسلامی مکہ معظمہ کے انعامی مقابلے کے لیے سیرت نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام پر ’’الرحیق المختوم‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ سپرد قلم کیا جو دوسرے مقالوں سے فائق ہونے کی بنا پر پہلے انعام کا مستحق قرار پایا، پچاس ہزار ریال کا یہ انعام ۱۹۷۹؁ء میں انہیں ایک باوقار تقریب میں مکہ معظمہ میں اس کے نائب گورنر امیر سعود بن المحسن کے ہاتھوں دیا گیا۔
رابطہ کے انعام سے ان کا آوازۂ شہرت دوسرے ملکوں میں بھی بلند ہوگیا اور وہ امریکہ، برطانیہ، خلیج کی ریاستوں اور پاکستان میں بھی دعوتی اور تبلیغی تقریروں کے لیے مدعو کئے جانے لگے اور ہندوستان میں بھی کئی جگہوں کے دعوتی اسفار کئے، ان کی اہمیت بڑھی تو انہیں مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کا امیر منتخب کیا گیا مگر ملک سے باہر قیام کی وجہ سے وہ خود اس بڑے منصب سے جلد ہی سبک دوش ہوگئے۔
’’الرحیق المختوم‘‘ کی گراں مایہ تصنیف نے ان کے لیے سرزمین عرب میں قیام کی راہ ہموار کردی جو بڑی سعادت اور خوش نصیبی کی بات تھی، پہلے تو مدینہ یونیورسٹی کے شعبہ مرکز السنۃ والسیرۃ النبویہ میں ان کا تقرر ہوا، یہاں وہ سیرت نبویؐ سے متعلق تاریخ و حدیث کے مواد کی تحقیق و تنقیح کا کام انجام دیتے تھے، جب یہ معاہدہ ختم ہوا تو ریاض کے مکتبۃ السلام کے سربراہ مقرر کئے گئے اور مدۃالعمر اس سے تعلق باقی رکھا، دارالسلام سے ان کی شاہ کار تصنیف ’’الرحیق المختوم‘‘ کے ترجمے کئی زبانوں میں ہوئے یہیں انہوں نے اس کتاب کا اختصار ’’روضہ الانوار فی سیرۃ النبی المختار‘‘ کے نام سے میٹرک تک کے طلبہ کے لیے کیا تھا اور خود ہی اس کا اردو ترجمہ ’’تجلیات نبوت‘‘ کے نام سے کیا تھا، یہ کتاب بھی مقبول ہوئی اور اسکولوں کے نصاب میں شامل کی گئی۔
دارالسلام کے ایک پروجیکٹ ’’موسوعۃ الحدیث النبوی الشریف‘‘ کے تحت صحاحِ ستہ کو ایک جلد میں شائع کرنے کا پروگرام بنا جس کے نگراں سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ تھے تو انہیں اس کی تصحیح و مراجعت کا کام سپرد کیا گیا۔مولانا نے احادیث کی بعض کتابوں کی شرحیں بھی لکھیں، مسلم شریف کی شرح منۃ المنعم فی شرح مسلم اور بلوغ المرام کی اتحاف الکرام فی شرح بلوغ المرام لکھی مولانا محمد سورتی نے عربی اشعار کا ایک منتخب مجموعہ ازھار العرب کے نام سے تیار کیا تھا اس کی بھی شرح لکھی تھی۔
انہوں نے کئی عربی کتابوں کے اردو ترجمے کئے تھے جیسے المصابیع فی مسئلۃ التراویح للسیوطی، کتاب الاربعین للسنووی، الکلم الطیب لابن تیمیۃ، تذکرۃ الشیخ محمد بن عبدالوہاب النجدی للقاضی الشیخ احمد بن حجر۔ ان کی بعض اردو تصانیف یہ ہیں:
صحف یہود و نصاریٰ میں آنحضرتﷺ کی بشارتیں، تاریخ آل سعود، قادیانیت اپنے آئینے میں، فتنہ قادیانیت اور مولانا ثناء اﷲ امرت سری وغیرہ۔
مولانا کی صحت اچھی تھی، چند برس پہلے ان پر فالج کا حملہ ہوا مگر اس میں سنبھل گئے آخر وقت موعود آگیا، اﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، جنوری ۲۰۰۷ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...