Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا مختار احمد ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا مختار احمد ندوی
ARI Id

1676046599977_54338497

Access

Open/Free Access

Pages

739

مولانا مختار احمد ندوی
افسوس اور سخت افسوس ہے کہ راقم کے بڑے کرم فرما اور ملک کے ممتاز عالم دین مولانا مختار احمد ندوی ۹؍ ستمبر ۲۰۰۷؁ء کو ممبئی میں انتقال فرماگئے، ان کی تدفین دوسرے روز جوہو قبرستان میں ہوئی، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
مولانا مؤ شہر کے محلہ و شوناتھ پورہ میں ۱۹۳۰؁ء میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد کو جمعیۃ اہل حدیث کے سرخیل مولانا ابوالوفا ثناء اﷲ امرتسریؒ سے بڑی عقیدت تھی اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ راقم کے والد بھی مولانا امرتسریؒ کے بڑے عقیدت مند تھے اور اکثر ان کا گن گاتے تھے، مولانا مختار احمد کے والد چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا بھی علم دین کی تحصیل کرکے دعوت و اشاعت دین کا کام کرے، ان کی یہ آرزو پوری ہوئی اور مولانا مختار احمد برابر دعوت و تبلیغ دین کی خدمت انجام دیتے رہے۔
مؤ میں جمعیۃ اہل حدیث کے کئی بڑے مدارس ہیں، انہوں نے جامعہ عالیہ عربیہ اور فیض عام میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں داخلہ لیا اور پھر دارالعلوم ندوۃ العلما سے کسب فیض کیا، کچھ عرصے بنارس میں مولانا ابوالقاسم بنارسی کی خدمت میں رہ کر صحیحین کا درس لیا، اس کے بعد وہ دین و دعوت کے کام انجام دینے میں مصروف ہوگئے، پہلے کلکتہ جاکر وہاں کی جامع مسجد اہل حدیث میں خطیب و امام کی ذمہ داری سنبھالی، ۱۹۶۷؁ء میں ممبئی آگئے اور مومن پورہ کی جامع مسجد اہل حدیث میں خطابت و امامت کے فرئض انجام دینے لگے، اس کے بعد بنگالی مسجد مدن پورہ کو اپنا مرکز بنایا، بعد میں صرف جمعہ کی امامت کرتے اور خطبہ دیتے تھے، خوش بیان تھے، ان کا خطبہ سننے کے لیے لوگ دور دراز سے آتے، راقم کو بھی یہاں ایک دوبار ان کی اقتدا میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کی سعادت میسر آئی۔
ممبئی میں مولانا مختار احمد صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ الدار السلفیہ کا قیام ہے جو عربی اور اردو کتابوں کا ایک بڑا اشاعتی مرکز ہے، حدیث کی کئی امہات کتب کو طباعت کے جدید معیار کے مطابق یہاں سے شائع کیا، اس ادارے سے کئی اہل علم وابستہ رہ کر تصنیف و تالیف اور عربی کتابوں کی تصحیح و ایڈٹ کا کام انجام دیتے تھے اور خود مولانا بھی تصنیف و تالیف میں منہمک رہتے تھے، یہاں سے ان کی سرپرستی میں ’’البلاغ‘‘ کے نام سے ایک مفید اصلاحی اور دینی ماہ وار رسالہ شائع ہورہا ہے جو ان کی محنت اور کدو کاوش سے ایک مفید اور باوقار رسالہ ہوگیا ہے، اس کے کئی کالم وہ خود لکھتے تھے اور اچھے لکھنے والوں سے بھی مضامین حاصل کر کے اس میں شائع کرتے تھے، اس میں ملک کے عام حالات، سیاسی واقعات پر تبصرہ و تجزیہ کے علاوہ متنوع قسم کی دینی معلومات پر مشتمل مضامین شائع ہوتے تھے جو اپنے انداز بیان کی خوبی کی وجہ سے شوق اور دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے ممبئی میں مولانا آزاد ہائی اسکول بھی مولانا کی دین ہے۔
مہاراشٹر کا مشہور صنعتی شہر مالیگاؤں ان کی سرگرمیوں اور قوت عمل کی خاص جولانگاہ تھا، یہاں شہر کے باہر ایک وسیع قطعہ آراضی میں انہوں نے علم و ہنر کا ایک تازہ جہاں آباد کیا تھا اور اس کا نام ’’منصورہ‘‘ رکھا تھا، اس میں طلبہ کے لیے جامعہ محمدیہ اور طالبات کے لیے کلیہ عائشہ قائم کیا تھا، مولانا کے نزدیک دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی ناگزیر ہے، ان کے ان اداروں میں دینی علوم کے ساتھ عصری تعلیم بھی اس قدر دی جاتی تھی کہ مہاراشٹر بورڈ سے طلبہ و طالبات ہائی اسکول کر کے کالجوں میں داخلہ لیتے تھے، ان اداروں سے ملحق منصورہ میں ایک طبیہ کالج اور سائر اسپتال بھی قائم کیا تھا، طبیہ کالج سے جامعہ محمدیہ کے علاوہ دوسرے اداروں کے طلبہ بھی فیض یاب ہوتے تھے اور سائر اسپتال میں طلبہ کو عملی مشق کے مواقع فراہم کیے جاتے تھے۔
مولانا مختار احمد نے اپنے آبائی وطن مؤ میں بھی عالیہ جنرل ہسپتال اور کلیہ فاطمہ زہرا قائم کیا تھا، یہاں بھی ایک طبی کالج قائم کرنا چاہتے تھے مگر یہ ادارہ عملی جامہ نہیں پہن سکا، بنگلور میں بھی انہوں نے اس طرح کے ادارے قائم کیے تھے اور ان میں بھی دینی و عصری تعلیم دلاتے تھے۔
مولانا کی ایک عظیم الشان دینی خدمت مسجدوں کی تعمیر ہے، انہوں نے ادارہ اصلاح المساجد کے زیر اہتمام ملک کے مختلف حصوں میں سیکڑوں مساجد تعمیر کرائی تھیں، ان کا تعمیری ذوق بہت عمدہ تھا، منصورہ مالیگاؤں میں ایک سے بڑھ کر ایک پرشکوہ اور عالی شان عمارتیں تعمیر کرائیں، ان کی تعمیر کردہ مسجدیں بھی خوب صورت اور پائدار ہیں۔
اصلاحی و دعوتی، دینی و تعلیمی اور ملی و سماجی کام کرنے میں ان کو بڑی لذت ملتی تھی، جمعیۃ اہل حدیث کے ہرکام میں پیش پیش رہتے تھے، مدتوں مرکزی جمعیتہ کے نائب امیر پھر قائم مقام امیر او ر ۱۹۹۰؁ء سے ۱۹۹۷؁ء تک امیر رہے، مسلم پرسنل لا بورڈ کے بھی سرگرم ممبر اور برسوں اس کے نائب صدر تھے لیکن آخر میں ان کی توجہ کا اصل مرکز الدارالسلفیہ ہوگیا تھا، سفر بھی کم کرتے اور یک سوئی سے صرف تصنیف و تالیف اور لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتے تھے، وہ اچھے خطیب و مقرر کی طرح اچھے اہل قلم بھی تھے، مختلف دینی موضوعات پر مفید رسائل و کتب عام فہم اور آسان زبان میں لکھے جن سے مسلمانوں کی ذہنی و فکری اصلاح کے علاوہ عقیدہ صحیحہ کی ترویج و اشاعت بھی ہوئی۔
مولانا مختار احمد ندوی دارالمصنفین کے مداح اور اس کی خدمت کے قدرداں تھے، جناب سید صباح الدین صاحب مرحوم سے ان کو بڑا لگاؤ تھا، سید صاحب بھی ان کی قوت عمل کے معترف تھے اور وہ جب دارالمصنفین آتے تو ان کی بڑی پذیرائی کرتے، مولانا مختار احمد کی مجھ پر بھی بڑی شفقت تھی، اکثر ٹیلی فون کر کے خیریت معلوم کرتے، مؤ یامشرقی اضلاع میں تشریف لاتے تو اس کا دعوت نامہ مجھے بھی بھجواتے اور اصرار کرکے بلاتے، کبھی دفعتاً مؤ آجاتے اور وقت کم ہوتا تو خود دارالمصنفین آجاتے، میں ممبئی جاتا تو میری قیام گاہ کا پتا لگا کر فون کرتے اور گاڑی بھیج کر الدارالسلفیہ بلاتے اور گھنٹوں اپنے منصوبوں اور دوسرے علمی، ادبی اور دینی و ملی امور پر تبادلہ خیال کرتے، اب ایسی محبت کرنے والے لوگ کہاں ملیں گے۔
مولانا مختار احمد صاحب بڑے متحرک اور فعال تھے، انہوں نے گوناگوں دینی، تعلیمی اور قومی و ملی خدمات انجام دیں، اﷲ تعالیٰ دین و ملت کے اس خادم کے درجات بلند کرے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی،اکتوبر ۲۰۰۷ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...