Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > قرۃ العین حیدر

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

قرۃ العین حیدر
ARI Id

1676046599977_54338500

Access

Open/Free Access

Pages

741

قرۃ العین حیدر
اردو کی مشہور ادیبہ اور رجحان ساز افسانہ و ناول نگار محترمہ قرۃالعین حیدر ۲۱؍ اگست ۲۰۰۷؁ء کو انتقال کرگئیں، ان کی پیدائش ۲۶؍ جنوری ۱۹۲۶؁ء کو علی گڑھ میں ہوئی تھی جہاں ان کے والد سید سجاد حیدر یلدرم مسلم یونیورسٹی میں رجسٹرار تھے، مگر ان کی تعلیم لکھنو کے کرامت حسین گرلس کالج، آئی۔ٹی کالج اور لکھنو یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔
قرۃالعین کے والد اور والدہ نذر سجاد حیدر بھی اردو کے بڑے انشا پرداز تھے، جن کی روایت کو قرۃالعین نے بہت آگے بڑھایا، انہوں نے کم سنی ہی سے لکھنا شروع کیا تھا اور ناول، ناولٹ، افسانے، رپورتاژ، سفر نامے سب میں اپنے جوہر دکھائے، انہیں اردو ادب کی ورجینا وولف کہا جاتا ہے۔
ادبی دنیا میں ان کو جو شہرت و مقبولیت نصیب ہوئی وہ کم لوگوں کو ملی، بعض رسالوں نے ان کی زندگی ہی میں ان کے گوشے نکالے تھے، انہوں نے ایک اچھی اور کامیاب مترجم کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل کی، کئی کتابوں کے اردو سے انگریزی میں اور انگریزی سے اردو میں ترجمے کئے، ہنری جیمز کے ناول ’’پورٹریٹ آف اے لیڈی‘‘ کا ترجمہ ’’ہمیں چراغ، ہمیں پروانے‘‘ کے نام سے کیا تھا، شروع میں ان کا تعلق انگریزی صحافت سے بھی رہا، انہوں نے بی بی سی سے براڈکاسٹ کے فرائض بھی انجام دیے۔
قرۃالعین کے ناولوں میں آگ کا دریا، آخر شب کے ہم سفر، کا رجہاں دراز ہے، میرے بھی صنم خانے، چاندنی بیگم، سفینہ غم دل، گردش رنگ چمن اور افسانوی مجموعوں میں پت جھڑ کی آواز، ستاروں سے آگے اور شیشے کا گھر وغیرہ ہیں، آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہ کار خیال کیا جاتا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد قرۃالعین اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان چلی گئی تھیں لیکن ۱۹۶۰؁ء میں وہ ہندوستان واپس آگئیں، اس زمانے کے لکھے گئے ان کے ناولوں اور افسانوں میں تقسیم ہند کا درد و کرب بہت نمایاں ہے، انہوں نے اپنے افسانوں میں تقسیم وطن کو ’’تہذیبی المیہ‘‘ اور برصغیر کی ہزار سالہ ہند و مسلم روایت کی شکست کہا ہے، ان کے طبع زاد ناول افسانے ہوں یا ترجمے سب اچھے اور اعلا درجے کے ہیں، ان کے اسلوب میں ندرت اور انفرادیت تھی اور ادبی و فنی محاسن کی طرح ان میں تاریخی شعور بھی ملتا ہے، اس لیے ان کی تمام کتابیں مقبول ہوئیں اور ان پر وہ باوقار ادبی اعزاز سے نوازی گئیں، ساہتیہ اکادمی انعام ملا، گیان پیٹھ ایوارڈ سے مفتحر ہوئیں، سویت لینڈ نہرو ایوارڈ، غالب ایوارڈ اور اقبال سمان حاصل کیے، ملک و بیرون ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں گیسٹ لکچرر رہیں، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وزیٹنگ پروفیسر رہیں، جامعہ کی اکزیکٹیو کونسل نے طے کیا ہے کہ اس کی ایک نئی عمارت ان کے نام سے موسوم ہوگی، ان کی یاد میں ایک سالانہ یادگاری خطبے کا انعقاد کیا جائے گا اور انہیں آنریری ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے پس از مرگ نوازا جائے گا اور ایک چیئر بھی قائم کی جائے گی۔
حکومت ہند نے ۱۹۸۵؁ء میں پدم شری اور ۲۰۰۵؁ء میں پدم بھوشن اعزاز دیے، وہ زندگی بھر مجردر ہیں، ان کی سکونت نوئیڈا میں تھی، کیلاش اسپتال میں زیر علاج تھیں کہ وقت موعود آگیا اور جامعہ کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔
(ضیاء الدین اصلاحی، اکتوبر ۲۰۰۷ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...