Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > شیخ نذیر حسین

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

شیخ نذیر حسین
ARI Id

1676046599977_54338503

Access

Open/Free Access

Pages

742

شیخ نذیر حسین
(ڈاکٹر محمود الحسن عارف)
’’محترم شیخ نذیر حسین صاحب بڑے عالم و محقق اور علم و فن کے قدرداں تھے، ’’معارف‘‘ ان کا محبوب رسالہ تھا، اگر ان کی کوئی چیز تیار ہوجاتی تو اس میں اشاعت کے لیے بھیجتے، معارف میں کوئی مسامحت اور فروگذاشت ہوجاتی تو فوراً توجہ دلاتے، ایسے صاحب نظر اور دیدہ ور لوگ اب عنقا ہوگئے ہیں، جب تک وہ اچھے تھے شاید ہی کوئی مہینہ ناغہ جاتا ہو کہ ان کا خط نہ آتا ہو، ادہر علالت کی وجہ سے جب ان کے خطوط آنے بند ہوئے تو میں نے شعبہ اردو، دائرہ معارف اسلامیہ لاہور کو متعدد خطوط لکھے مگر ایک خط کا بھی جواب نہیں آیا کہ دفعتہ ۲۲؍ اکتوبر کو یہ تحریر اور منسلک خط موصول ہوا تو دھک سے رہ گیا، قارئین معارف سے درخواست ہے کہ ان کے لیے دعائے مغفرت کریں!
ربنا اغفرلنا ولا خواننا الذین سبقونا بالایمان۔ ‘‘[الحشر:۱۰] (ض)
پانچ سوا پانچ فٹ منحنی سا جسم، ابرؤوں کے بال موٹے اور بے ترتیب، کلین شیو، چہرہ اور کمر قدرے خمیدہ․․․․․․ یہ تمام باتیں ذہن میں رکھیں تو اس سے فوراً شیخ نذیر حسین صاحب کی شکل و صورت ذہن میں آتی ہے․․․․․․ وہ اپنی وضع قطع اور چہرے مہرے سے قطعاً کوئی عالمِ دین یا اسکالر نظر نہیں آتے تھے، بلکہ ایک عام سے فرد دکھائی دیتے تھے۔
۷۰؁ء کی دہائی کے آخری سالوں میں جب میں اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں پہلے پہل آیا․․․․․․ تو میں نے ڈاکٹر سید عبداﷲ، پروفیسر سید امجد الطاف، پروفیسر عبدالقیوم کے ساتھ مذکورہ بالا․․․․․․ چہرے مہرے کے ایک شخص․․․․․․ کو دیکھا تو مجھے ان کی وضع قطع کی بنا پر تعجب ہوا کہ یہ کون صاحب ہیں، پھر مجھ پر منکشف ہوا کہ یہ تو اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مدیر شیخ نذیر حسین ہیں جو ایک معروف اور مسلمہ علمی شخصیت کے مالک تھے، جن کی مولانا حبیب الرحمان الاعظمی، جناب سید صباح الدین عبدالرحمان وضیاء الدین اصلاحی سے خط و کتابت رہی اور جن کے خطوط باقاعدگی سے ’’معارف‘‘ میں چھپتے تھے۔
شیخ صاحب کا تعلق شیخ برادری کی ’’قانون گو‘‘ شاخ سے تھا اور وہ ہوشیار کے قصبے شام چوراسی کے رہنے والے تھے اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہاں بھی وہ شام نگر کے علاقے میں آکر فروکش ہوئے، اس طرح ہندوستان میں بھی وہ ’’شامی‘‘ تھے اور پاکستان میں بھی وہ ’’شامی‘‘ ہی رہے۔
وہ ۱۹۱۴؁ء میں پیدا ہوئے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد محکمہ انہار (یا کسی اور محکمہ) میں ملازم ہوئے، انہوں نے ۱۹۷۰؁ء میں اس محکمہ سے ریٹائر منٹ لے لی اور بعدازاں ۹؍ دسمبر ۱۹۷۱؁ء کو سید نذیر نیازی مرحوم کے جانے سے خالی ہونے والی سیٹ پر شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں بہ طور مدیر (اڈیٹر) ملازم ہوگئے، یہ ملازمت بربنائے معاہدہ تھی اور ان کے معاہدۂ ملازمت میں دو سال کے بعد تجدید ہوتی تھی، اس طرح ان کے معاہدہ ملازمت میں آخری مرتبہ ۱۹۹۶؁ء کو دو سال کی تجدید ہوئی اور ۱۹۹۸؁ء میں ان کی بیماری کی بنا پر ان کے معاہدے میں تجدید نہ ہوسکی، اس طرح انہوں نے گویا ریٹائرمنٹ کے بعد ۲۷، ۲۸ برس شعبے کی خدمت کی ہے جو بہت طویل عرصہ ہے اور یہ گویا ڈبل ریٹائرمنٹ تھی جو انہیں ۱۹۹۸؁ء میں حاصل ہوئی، بعد ازاں وہ بستر علالت پر رہے اور ۲۲؍ دسمبر ۲۰۰۶؁ء کو انہوں نے انتقال کیا۔
بہ حیثیت ایک انسان شیخ صاحب بہت کم آمیز اور بہت کم گوتھے، زبان میں قدرے لکنت تھی، اس لیے تقریر نہیں کرسکتے تھے، اسی لیے میں نے انہیں کسی محفل میں تقریر کرتے یا مقالہ پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا، البتہ وہ ’’تحریر‘‘ کے ماسٹر تھے، ان کی تحریر شستہ سلیس اور ہلکی پھلکی تھی، وہ مشکل ترین مضمون کو آسان ترین الفاظ میں بیان کرنے کا گر جانتے تھے۔
کتابوں کے بارے میں ان کا علم بہت وسیع تھا، ہر نئی کتاب خصوصاً اردو اور عربی کی کتب کے بارے میں وہ ضرور علم رکھتے، اس سلسلے میں وہ ہر ہفتے کے آخری دن مولوی عبیدالحق کے ہاں مکتبہ علمی لیک روڈ ضرور جایا کرتے تھے، جہاں ان کے جانے کی غرض و غایت یہ ہوتی کہ وہ بیروت اور قاہرہ سے آنے والی نئی کتابوں کے بارے میں واقفیت حاصل کریں۔
مکتبہ علمیہ ہی کی طرح لاہور کے بعض دوسرے کتب خانوں سے بھی وہ اسی طرح کے روابط رکھتے تھے لیکن ان کتب خانوں کے ساتھ ان کا رابطہ محض علم کی حد تک تھا، کتب کی خریداری کو وہ ضروری خیال نہ کرتے تھے، غالباً اس کی ایک وجہ تو ان کی مالی حیثیت تھی کہ وہ اپنی محدود آمدنی میں اس کے متحمل نہ ہوسکتے تھے، دوسرے لاہور کے کئی ذاتی کتب خانوں کا انجام ان کے سامنے تھا جن میں مولوی محمد شفیع مرحوم کا ذاتی کتب خانہ بھی شامل ہے، جن کی قیمتی اور نایاب کتب ان کے صاحب زادے محمد رفیع نے ۱۰۰ روپے فی کتاب کے حساب سے فروخت کردیں، اسی لیے انہوں نے بہت کم کتب خریدی ہوں گی، دوست احباب سے البتہ اگر کوئی کتاب تحفتہً ملتی تو اسے بہت حفاظت کے ساتھ اور خوب سنبھال کر رکھتے، اس فہرست میں مولانا ابوالحسن علی ندوی مرحوم کی طرف سے ان کے دستخطوں کے ساتھ آنے والی کتب بھی شامل ہیں۔
شیخ صاحب کتب کی خریداری ہی کی طرح ’’دوست بنانے‘‘ کے معاملے میں بھی بہت محتاط واقع ہوئے تھے پورے شہر میں لے دے کے ان کے صرف دو یا تین دوست تھے ان کے ایک دوست مولوی عبیدالحق ندوی (مالک مکتبہ علمیہ، لیک روڈ لاہور) کا ذکر پہلے آچکا ہے، ان کے دوسرے دوست پروفیسر محمد اسلم مرحوم تھے جو شعبہ تاریخ میں تاریخ کے استاد اور اپنے شعبے میں صدر شعبہ اور پروفیسر کی مسند پر فائز رہنے والے ایک بلند پایہ عالم اور محقق تھے۔
پروفیسر محمد اسلم اور شیخ صاحب میں کئی باتیں قدر مشترک کے طور پر موجود تھیں، دونوں میں ایک وجہ اشتراک تو ’’ندویت‘‘ تھی، شیخ صاحب ندوۃ العلما کی علمی کاوشوں اور خدمات کے معترف ہی نہیں بلکہ ہمیشہ اس کے مدح خواں اور وکیل بھی رہے ان کے سامنے اگر کوئی شخص ’’مولانا سید سلیمان ندوی‘‘ یا ’’علامہ شبلی نعمانی‘‘ کے بارے میں کوئی نازیبا بات کہتا تو انہیں شدید طور پر غصہ آجاتا تھا، جب کہ پروفیسر محمد اسلم بھی ’’ندوہ پسند‘‘ تھے البتہ وہ ندویت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگی ذہن بھی رکھتے تھے اور پاکستان اور تحریک پاکستان کے موقع پر قائد اعظم اور مسلم لیگ کے کردار کے معترف تھے جب کہ شیخ نذیر حسین قدرے’’ جمعیت علمائے ہند‘‘ کے زیادہ قریب تھے اور علمائے دیوبند خصوصاً شیخ الہند مولانا محمود حسن کے بہت مداح تھے، انہوں نے شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی پر ایک مقالہ بھی سپرد قلم کیا ہے، جو دائرہ معارف اسلامیہ میں میم کی پٹی میں شامل طباعت ہوچکا ہے۔
اس کے علاوہ دونوں میں ایک اور ’’قدر مشترک‘‘، ’’کلین شیو‘‘ ہونا بھی تھا، پروفیسر محمد اسلم صاحب نے اپنی زندگی کے آخری سال عمرہ کیا تو داڑھی بڑھالی تھی، وہ فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے اپنی اس داڑھی کو غلاف کعبہ کے ساتھ مس کیا ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ وہ اب اس کو نہیں مونڈیں گے پھر اسی مومنانہ شکل و صورت کے ساتھ انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا، جب کہ شیخ صاحب اپنی ہٹ پر آخری تک قائم رہے، اردو دائرہ معارف اسلامیہ کی ادارتی مجالس میں جب کبھی پروفیسر صاحب شریک ہوتے اور بات شیخ صاحب کی داڑھی تک ’’بڑھ‘‘ جاتی تو ایسے موقعوں پر پروفیسر محمد اسلم صاحب انہیں ’’بھرپور کمک‘‘ پہنچاتے اور فرماتے ’’شیخ جی داڑھی نہ رکھنا‘‘ ورنہ جو تھوڑا بہت آپ کا اعتبار ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا، اس پر ایک زور دار قہقہہ پڑتا اور بات آئی گئی ہوجاتی، بہر حال دونوں میں یہ دوستی بہت گہری تھی اور شیخ صاحب اس دوستی کی بہت قدر کرتے تھے اور اکثر ’’شب جمعہ‘‘ اور پھر ’’شب دوشنبہ‘‘ ان کے ہاں جاتے اور دونوں کے مابین طویل مجلس قائم رہتی۔
شیخ صاحب بہ طور مؤلف:ـشیخ صاحب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں بجا طور پر ’’چھپے رستم‘‘ کہنا چاہیے، وہ چہرے مہرے اور اپنی وضع قطع سے قطعاً علمی شخصیت نظر نہ آتے تھے، ان کی ابتدائی عمر تو ایک ٹیکنیکل محکمہ میں انگریز کی اور پھر پاکستان کی نوکر شاہی کی خدمت کرتے ہوئے گزری تھی اور اس ابتدائی عمر میں انہوں نے شاید ہی کوئی علمی کام کیا ہو، البتہ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں سید نذیر نیازی مرحوم کے جانے سے جو سیٹ خالی ہوئی، اس پر ان کی تقرری ۱۹۷۱؁ء میں عمل میں آگئی اور یوں انہیں ایک علمی ادارے کی رفاقت نصیب ہوئی، جس نے ان کی زندگی میں خوبصورت تبدیلی پیدا کی اور کلیریکل نوٹ اور کلیریکل ورک کرنے والا قلم، علمی جولان گاہ میں دوڑنے لگا اور ان کے قلم سے کئی مقالات اور کئی کتب کے مسودات تصنیف و تالیف ہوئے۔
پھر کیا وہ مولف اور مصنف کے طور پر زیادہ بہتر تھے یا مترجم کے طور پر اچھے تھے؟ میرے لیے اگرچہ ان کی ان دونوں جہتوں میں سے کسی ایک کی تعیین کرنا اور اس کو دوسری جہت پر ترجیح بے حد مشکل ہے، تاہم میرا خیال یہ ہے کہ وہ مصنف اور مولف کے طور پر زیادہ قدر آور تھے، یہ الگ بات ہے کہ بہ طور مصنف ان کی صلاحیتوں کو اجاگر ہونے کا موقع نہیں ملا، انہوں نے جو کتابیں تصنیف و تالیف کیں، ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ مسلمانوں کا طریقہ تعلیم و تربیت۔ ۲۔ تاریخ علوم اسلامیہ (دو جلد)
ان دونوں کتب کے سامنے لکھا ہے (زیر طباعت )۔ ۱؂
یہ ۱۹۹۶؁ء کی بات ہے، ۱۹۹۸؁ء میں وہ اپنی علالت کے باعث دفتری ملازمت جاری نہ رکھ سکے، اس لیے معلوم نہیں کہ ان کی یہ دونوں کتب طبع ہوئیں یا نہیں، بہر حال یہ دونوں کتب نہایت اہم موضوع سے متعلق ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے لیے کئی مقالات تحریر فرمائے، جن میں قرآن کریم کی سورتوں سے لے کر اہم ترین مسلم شخصیات اور اسلامی موضوعات وغیرہ شامل ہیں، ان میں سے اہم مقالات کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔سعد زغلول پاشا، ۲؂ (۲)الشابی، ابوالقاسم، ۳؂ (۳)شاد، ۴؂ (۴)شریف حسین بن علی، ۵؂ (۵)شکیب ارسلان (امیر)، ۶؂ (۶)شمس الحق ڈیانوی، ۷؂ (۷)طہٰ حسین، ۸؂ (۸)ظہران، ۹؂ (۹)علم منطق، ۱۰؂ (۱۰)تمہید علم طبیعیات، ۱۱؂ (۱۱)تمہید علم محاضرات، ۱۲؂ (۱۲)علی بن ربن الطبری، ۱۳؂ (۱۳)العتانیہ، ۱۴؂ (۱۴)مسکوکات، ۱۵؂ (۱۵)فن متفرقات، ۱۶؂ (۱۶)(شاہ) فیصل، ۱۷؂ (۱۷)کرد، ۱۸؂ (۱۸)کرمۃ، ۱۹؂ (۱۹)مادیت، ۲۰؂ (۲۰)مالی، ۲۱؂ (۲۱)محمد انور شاہ (سید)، ۲۲؂ (۲۲)محمد جمال الدین القاسمی، ۲۳؂ (۲۳)محمد رشید رضا، ۲۴؂ (۲۴)محمد عبدہ (مفتی)، ۲۵؂ (۲۵)(مولانا) محمد قاسم نانوتوی، ۲۶؂ (۲۶) محمد کرو علی، ۲۷؂ (۲۷)محمود حسن، ۲۸؂ (۲۸)المدینۃ المنورۃ، ۲۹؂ (۲۹)مصر، ۳۰؂ (۳۰)مکۃ المکرمہ، ۳۱؂ (۳۱)مورتانیا، ۳۲؂ (۳۲)النابغۃ الذبیانی، ۳۳؂ (۳۳)ناعورہ، ۳۴؂ (۳۴)نصر، ۳۵؂ (۳۵)نفیری علوی، ۳۶؂ (۳۶)ہارون الرشید۔ ۳۷؂
اس فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ شیخ صاحب محترم کا مطالعہ جدید افراد اور جدید موضوعات پر بہت گہرا تھا اور یہ کہ جدید عربی اور اردو کتب پر ان کی نظر بہت گہری تھی۔
بہ طور مترجم:شیخ صاحب عربی اور انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے میں بھی بے حد مہارت رکھتے تھے، وہ پاکستان کے ان چند اعلا پائے کے مترجمین میں سے تھے جو عربی اور انگریزی فنون کا موزوں ترین اور سہل ترین الفاظ میں ترجمہ کرسکتے تھے اور اس فن کی نزاکتوں اور باریکیوں سے خوب واقف تھے، ان کے ترجمہ میں سلاست اور مضمون کی روانی ایک ساتھ ہوتی تھی، انہوں نے درج ذیل کتب کو اردو کے قالب میں منتقل کیا:
۱۔مصلحین امت، ۲۔سیاحت نامہ روس، ۳۔سلطان صلاح الدین ایوبی، ۴۔سرگزشت حیات، ۵۔مختصر ترجمہ احیاء علوم الدین، ۶۔نثر عربی کی نگارشات، ۷۔امام عبداﷲ بن مبارک ۳۸؂
شیخ صاحب نے موخرالذکر کتاب کے متعلق لکھا ہے کہ وہ زیر اشاعت ہے، ان کی باقی کتب پہلے ہی زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ ۳۹؂
علاوہ ازیں انہوں نے اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے ۷۰ سے ۸۰ تک مقالات انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیے، یہ تمام تراجم اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں طبع ہوچکے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین! ( نومبر ۲۰۰۷ء)

۱؂ کوائف شیخ نذیر حسین، مرتبہ شیخ نذیر حسین، ۱۹۹۶ء، ص:۱۔ ۲؂ ایضاً، ۱۱:۳۶۔ ۳؂ ایضاً، ۱۱:۵۴۸۔ ۴؂ ایضاً، ۱۱:۵۶۰۔ ۵؂ ایضاً، ۱۱:۷۱۹۔ ۶؂ ایضاً، ۱۱:۷۶۶۔ ۷؂ ایضاً، ۱۱:۷۷۹۔ ۸؂ ایضاً، ۱۲:۵۹۸۔ ۹؂ ایضاً، ۱۲:۶۲۸۔ ۱۰؂ ایضاً، ۱؍۱۴:۲۴۸۔ ۱۱؂ ایضاً، ۱؍۱۴:۲۶۱۔ ۱۲؂ ایضاً، ۱؍ ۱۴:۳۲۱۔ ۱۳؂ ایضاً، ۱؍ ۱۴:۵۰۹۔ ۱۴؂ ایضاً، ۲؍ ۱۴:۸۷۔ ۱۵؂ایضاً، ۲؍ ۱۴:۵۳۶۔ ۱۶؂ ایضاً، ۱۵:۱۰۱۰۔ ۱۷؂ ایضاً، ۱۵:۱۰۰۲۔ ۱۸؂ ایضاً، ۱۵:۱۰۷۸۔ ۱۹؂ ایضاً، ۱۷:۱۶۲۔ ۲۰؂ ایضاً، ۱۷:۲۵۴۔ ۲۱؂ ایضاً، ۱۸:۲۵۶۔ ۲۲؂ ایضاً، ۴۵۳۔ ۲۳؂ایضاً،۱۹:۳۷۶۔ ۲۴؂ ایضاً، ۱۹:۴۰۹۔ ۲۵؂ ایضاً، ۱۹:۴۲۱۔ ۲۶؂ایضاً،۱۹:۴۴۷۔ ۲۷؂ ایضاً، ۱۹:۵۰۴۔ ۲۸؂ ایضاً، ۱۹:۵۱۲۔ ۲۹؂ ایضاً، ۲۰:۳۲۔ ۳۰؂ ایضاً، ۲۰:۲۲۸۔ ۳۱؂ایضاً، ۲۱:۱۸۶۔ ۳۲؂ ایضاً، ۲۱:۴۹۴۔ ۳۳؂ ایضاً، ۲۱:۷۷۲۔ ۳۴؂ ایضاً، ۲۲:۴۔ ۳۵؂ ایضاً، ۲۲:۶۵۔ ۳۶؂ ایضاً، ۲۲:۳۱۰۔ ۳۷؂ ایضاً، ۲۲:۳۴۱۔ ۳۸؂ ایضاً، کوائف شیخ نذیر حسین، مرتبہ شیخ صاحب مرحوم۔ ۳۹؂ ایضاً

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...