Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا ضیاء الدین اصلاحی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا ضیاء الدین اصلاحی
ARI Id

1676046599977_54338504

Access

Open/Free Access

Pages

745

آہ! مولانا ضیاء الدین اصلاحی ؒ
دارالمصنفین کے ناظم اور معارف کے مدیر جناب مولانا ضیاء الدین اصلاحی ۲؍ فروری ۲۰۰۸؁ء کی صبح کو اپنے خالق حقیقی کے حضور پہنچ کر اس کی رحمت سے جاملے لیکن اپنے پیچھے دارالمصنفین کے ہر فرد بلکہ در و دیوار کو روتا، بلکتا چھوڑ گئے، شبلی و سلیمان کا یہ گلشن ویرانی کی تصویر بن گیا، اس جہاں علم و دانش کی روح بھی جیسے ان کی موت کے ساتھ رخصت ہوگئی اور سچ یہ ہے کہ علامہ شبلیؒ، مولانا سید سلیمان ندویؒ، مولانا شاہ معین الدین ندویؒ اور سید صباح الدین عبدالرحمانؒ کی قابل فخر روایات کی مسند اور بزم جس شمع سے روشن تھی، ایک حادثے نے اس کو گل کردیا، اِنا ﷲ وَاِنا اِلیہ رَاجِعونْ۔
مولانا اصلاحی ۳؍ جنوری کو سفر حج سے واپس آئے تھے اور بالکل چاق چوبند اور صحت مند تھے، یکم فروری کو وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک عزیز سے ملنے کے لئے سرائے میر کے قریب موضع کھریواں کے لئے قریب ساڑھے نو بجے صبح روانہ ہوئے، جمعہ کا دن تھا، خطبہ اور نماز پڑھانے کے لئے مجھے تاکید فرمائی، عین نماز جمعہ سے پہلے یہ خبر ملی کہ ان کی جیپ حادثہ کا شکار ہوگئی ہے اور وہ صدر اسپتال میں زخمی حالت میں لائے گئے ہیں، نماز کے فوراً بعد ان کے تمام متعلقین اسپتال پہنچے، وہ سراپا زخمی تھے، ان کی اہلیہ بھی زخمی تھیں، لیکن ہوش میں تھیں، مشورے کے بعد وہ ایک مقامی سرجن ڈاکٹر فرقان کے ہسپتال میں لائے گئے، خون بہت زیادہ نکل چکا تھا، خون دیا گیا اور پھر مناسب سمجھا گیا کہ ان کو فوراً بنارس کے بی ایچ یو ہسپتال میں منتقل کیا جائے، وہاں کچھ ضروری ٹسٹ ہوئے، دوائیں بھی دی گئیں لیکن افاقے کے آثار نہیں تھے، صبح کا انتظار تھا، صبح قریب ہوئی لیکن بیم و آس کے سورج کے طلوع سے پہلے ہی علم و فضل کا یہ ماہتاب روپوش ہوگیا، اس دن بھی طلوع شمس معمول کے مطابق ہوا لیکن ضیائے شمس سے محرومی کا احساس اس دن سے زیادہ شاید اور کبھی نہ ہوا، دن تمام سرکاری و قانونی کاروائی کی نذر ہوا، مغرب کے بعد ان کی نعش دارالمصنفین لائی گئی اور اگلے روز ساڑھے دس بجے شبلی ڈگری کالج کے وسیع میدان میں ہزاروں انسانوں نے مولانا سید محمد رابع ندوی ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد دارالمصنفین کے احاطے میں علامہ شبلی کے پہلو میں سپردخاک کردیا، پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا، قریب دو گھنٹے تک، منھا خلقناکم [ الطور:۵۵] کے بادیدۂ نم اقرار کے ساتھ خاک پوشی کا عمل جاری رہا اور اس اثنا میں دارالمصنفین کی مسجد میں مولانا سید محمد رابع ندوی کے کلمات تعزیت بے قرار اور مغموم دلوں کے لیے شبنم افشانی کرتے رہے۔
مولانا کا وطن اعظم گڑھ شہر سے قریب ایک گاؤں سہریا ہے، ۱۹۳۷؁ء میں وہ اپنے نانہالی گاؤں جے راج پور میں پیدا ہوئے، ان کے والد شیخ عبدالرحمان ایک چھوٹے زمیں دار اور صاحب علم شخص تھے، اردو اور فارسی ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے، دس سال کی عمر میں مولانا مدرسۃ الاصلاح میں داخل ہوئے، اس وقت مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا صدرالدین اصلاحی، مولانا اختر احسن اصلاحی اور مولانا جلیل احسن اصلاحی جیسے علماء کی موجودگی نے مدرسۃ الاصلاح کو خاص مرجعیت بخشی تھی، ان ارباب کمال سے تلمذ و استفادے کے بعد قریب بیس سال کی عمر میں وہ دارالمصنفین سے وابستہ ہوئے، اس عمر میں دارالمصنفین کی علمی رفاقت آسان نہیں تھی لیکن مولانا نے روز اول سے ظاہر کردیا کہ وہ اس عظیم علمی ادارے کے لیے عطیہ الٰہی ہیں، وہ اس دور میں رفیق ہوئے جب دارالمصنفین کو قحط الرجال کا شکوہ نہیں تھا، اس کے سپہر علم و ادب پر مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا عبدالسلام ندوی جیسے آفتاب و ماہتاب تو روشن نہیں تھے لیکن ان حضرات سے براہ راست مستنیر شخصیتوں کی شکل میں مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی، سید صباح الدین عبدالرحمان اور مولانا مجیب اﷲ ندوی دبستان شبلی کے نظام شمسی کے بجائے خود روشن سیارے ہوچکے تھے، ان کی موجودگی میں مولانا مرحوم کی ابتدائی تحریروں سے ان کے قلم کی اٹھان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ان کاسب سے پہلا مضمون فروری ۱۹۵۵؁ء کے معارف میں چھپا ’’امام اعظم کی فقہ‘‘ (ترک حدیث کے جواب میں) کے عنوان سے، اس اولین مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۱۹۵۷؁ء میں دارالمصنفین آنے سے پہلے ہی وہ معارف کے ذریعہ متعارف ہوچکے تھے، ۱۹۵۵؁ء اور ۱۹۵۶؁ء میں بھی ان کے چند مضامین چھپے اور یہ سب قرآنی موضوعات پر تھے، مارچ ۱۹۵۸؁ء سے مطبوعات جدیدہ کے تحت کتابوں پر ان کی تبصرہ نگاری کا آغاز ہوا۔
۱۹۵۷؁ء سے ۲۰۰۸؁ء تک قریب نصف صدی کے دارالمصنفین اور معارف کی داستان میں وہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے اور غالباً سید صباح الدین عبدالرحمان مرحوم کے بعد اس ادارے کے لیے سب سے زیادہ ماہ و سال وقف کرنے میں ان ہی کا نام ہے، مضامین کا آغاز قرآنیات اور فقہ کے موضوعات سے ہوا لیکن ان کی پہلی تصنیف ’’ہندوستان عربوں کی نظر میں‘‘ ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے، اس کتاب کی پہلی جلد ۱۹۵۹؁ء میں شائع ہوئی اور دو سال کے بعد دوسری جلد بھی آگئی، جاحظ سے قلقشندی تک قریب اکیس عرب سیاحوں، جغرافیہ دانوں اور عالموں کی کتابوں میں ہندوستان کے متعلق جس قدر متنوع اور مفید معلومات تھے، مولانا اصلاحی مرحوم نے تالیف و ترجمہ کے ذریعہ اس کتاب میں جمع کردیا، یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اور حکومت ہند اور اس وقت کے وزیر ہمایوں کبیر نے اس کی قدر افزائی کی لیکن مولانا کا اصل کام ’’تذکرۃ المحدثین‘‘ کی تالیف و تصنیف ہے، صاحب تصنیف محدثین کے حالات کی تالیف، دارالمصنفین کے ذمہ داروں کے پیش نظر تھی، حضرت سید صاحب نے اس کی ابتداء کی تھی، ان کی خواہش تھی کہ اس سلسلے کو مکمل کیا جائے اور بالآخر اس کی تکمیل کا شرف مولانا اصلاحی مرحوم کو حاصل ہوا، انہوں نے تین ضخیم جلدوں میں اس عظیم تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر محققانہ اور مہتم بالشان کام انجام دیا، اردو میں بعض محدثین کرام کے حالات ضرور لکھے گئے تھے لیکن بعض حلقے جس طرح حدیث کے پورے ذخیرے کو مشکوک اور ناقابل اعتبار قرار دینے کی مہم میں مصروف تھے، اس کے پیش نظر ان جلدوں میں صرف تذکرہ ہی نہیں، تدوین حدیث کی تاریخ اور کتب حدیث پر نقد و تبصرہ نے اس کو اپنے موضوع پر بہترین مرجع و ماخذ بنادیا، مولانا کے قلم سے ایک اور اہم کتاب ’’مولانا ابوالکلام آزاد۔ مذہبی افکار، صحافت اور قومی جدوجہد‘‘ کے نام سے نکلی، مولانا آزاد سے ان کو غیر معمولی عقیدت تھی اور یہ اس وقت سے تھی جب وہ مکتب میں زیر تعلیم تھے، مولانا آزاد سے عقیدت و شیفتگی کا معاملہ خود مرحوم کی زبان میں ’’کچھ اور ہی تھا‘‘ ہمہ شہر پر زخوباں منم و خیال ما ہے۔ چہ کنم نگاہ کج بیں نہ کند بہ کس نگا ہے یہ کتاب اسی عقیدت کا نتیجہ ہے لیکن اس کی تالیف میں یہ جذبہ بھی پنہاں تھا کہ مولانا آزاد کا جو تعلق علامہ شبلی، سید صاحب، مولانا عبدالسلام ندوی اور دارالمصنفین سے رہا، اس کا تقاضا تھا کہ اس تعلق کا حق یہاں ادا کیا جائے، شاہ صاحب نے معارف کا ایک خاص نمبر نکالنے کا قصد بھی کیا تھا جو کسی وجہ سے پورا نہ ہوسکا، مولانا اصلاحی مرحوم نے اس کتاب کے ذریعہ اس قرض کو ادا کرکے اپنے پیش رو اکابر کی روح کو شادماں کرنے کی سعی کی، مولانا کی تالیفات میں ’’چند ارباب کمال‘‘، ’’انتخاب کلام اقبال سہیل‘‘ اور ’’مسلمانوں کی تعلیم‘‘ بھی ہیں، آخرالذکر کتاب تو گذشتہ سال ہی شائع ہوئی تھی، ان کی ایک کتاب ’’ایضاح القرآن‘‘ پاکستان سے شائع ہوئی تھی، یہ ان کے قرآنی مقالات و مضامین کا مجموعہ ہے، ان کا خاص موضوع تاریخ حدیث و محدثین رہا لیکن اصل ذوق قرآنیات ہی کا تھا، مدرسۃ الاصلاح اور مولانا حمیدالدین فراہیؒ کے علوم سے تعلق اور اثر پذیری نے اس ذوق کو مستحکم کیا تھا، دارالمصنفین میں مولانا سید سلیمان ندویؒ کے بعد قرآنیات سے شغف میں غالباً وہ اور حضرات سے نمایاں ہیں، انہوں نے تفسیر کبیر اور امام رازی کے متعلق خاص طور سے بڑی مبسوط اور مدلل بحث کی، ان کا خیال یہ تھا کہ قدیم مفسرین کی خدمات کی عظمت کے باوجود ان کی تفسیروں پر کلی اعتماد اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں شاذ، غریب اور مرجوح اقوال اور بہ کثرت ضعیف و موضوع روایات بھی نقد و تبصرے کے بغیر ہی شامل کرلی گئی ہیں۔
مولانا کی ان تصنیفات کے علاوہ ان کی علمی خدمات کا اصل میدان رسالہ ’’معارف‘‘ رہا، ۱۹۵۵؁ء سے اس کے صفحات ان کی تحریروں سے مزین ہونا شروع ہوئے اور یہ نصف صدی پر محیط ہوگئے، مطبوعات جدیدہ کے ذریعہ انہوں نے بے شمار کتابوں پر تبصرہ کیا، ان کے تعزیتی مضامین بھی آتے رہے اور جب ۱۹۸۷؁ء میں سید صباح الدین عبدالرحمان مرحوم ایک حادثے میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے تو معارف کی ادارت ان کے سپرد ہوئی اور یہ ان کی کتاب زندگی کا سب سے درخشاں باب ہے کہ انہوں نے معارف کی ادارت اور شذرات لکھنے کی ذمہ داری غیر معمولی حسن و خوبی سے پوری کی اور معارف کے وقار و معیار کو قائم رکھا بلکہ اس میں اضافہ کیا، ملی اور ملکی اور علمی موضوعات پر ان کے شذرات نے سید صاحب، شاہ صاحب اور سید صباح الدین عبدالرحمان کی روایت کو زندگی ہی نہیں دی، اس کو نئی جلا بھی بخشی، اس کے لیے جس تصنیفی ذوق، مطالعہ کے شغف اور جگرکاوی کی ضرورت تھی، مولانا نے اس کا حق ادا کردیا اور کہیں بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ معیار و وقار میں کچھ فرق آیا ہے۔
معارف کی ادارت کے ساتھ انہوں نے دارالمصنفین کے عہدۂ نظامت کا بار بھی سنبھالا، وہ ۱۹۸۷؁ء سے تادم آخر اس عہدے پر فائز رہے، ان کو انتظامی معاملات سے زیادہ مس نہ تھا، اس ادارے کا نظم و نسق، مالی معاملات، حال و مستقبل کے اندیشے اور اداروں سے قطعی مختلف ہیں لیکن مولانا نے ان مراحل کو سکون اور تحمل سے پار کیا، مالی دشواریوں کا ذکر بھی کبھی وہ شذرات کے ذریعہ کرتے لیکن انہوں نے کبھی ادارے کی خودداری اور عزت نفس کا سودا نہیں کیا، پرانی کتابوں کی طباعت و اشاعت، تصحیح، حوالوں کی تحقیق مزید میں انہوں نے جس طرح اپنے آرام کو تج دیا، صحت کی پرواہ نہیں کی، اس کا بیان الفاظ میں ناممکن ہی ہے۔
کیا حوصلہ اور کیا ولولہ تھا کہ شبلی و سلیمان کی نسبت سے سمینار ہوں، علوم اسلامیہ پر لکچر ہوں، کتابوں پر مقدمے لکھنے ہوں، تقریظیں ہوں، تمام مصروفیات کے باوجود ان کا وقت سب کے لیے تھا، ان کی شرکت سے علمی مجلسوں کی رونق بڑھ جاتی اور سمیناروں میں جان پڑجاتی، پی ایچ ڈی کے بیسیوں مقالات میں ان کی معاونت کا اعتراف ان کے مقالہ نگاروں نے کیا اور یہ ساری تگ و دو محض اپنے عظیم المرتبت پیش رو بزرگوں کی روایت کے قیام اور دارالمصنفین کے علمی استحکام کے لیے تھی، ان کے زیر نگرانی رابطہ ادب اسلامی کا اور علامہ شبلی سمینار دارالمصنفین میں شان سے منعقد ہوا، تو سیعی خطبات کا سلسلہ بھی انہوں نے جاری رکھا، پروفیسر عبدالمغنی، پروفیسر ریاض الرحمان خاں شروانی وغیرہ کے خطبات ان کے دور میں ہوئے اور فروری میں اسی سلسلے میں انہوں نے پروفیسر عبدالحق سے فرمائش کی تھی، دارالمصنفین میں تعمیرات کا اضافہ بھی ان کے دور میں ہوا، ان کاموں کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ حالات نامساعد اور دشوار تھے، ایسے میں نشاط اور تازگی کی گنجائش کم تھی، تاہم ربط و ارتباط، خط و کتابت اور گفت و شنید میں انہوں نے کبھی تھکن یا مایوسی کا اظہار نہیں ہونے دیا۔
ان کی قوت عمل کا ایک مظہر مدرسۃ الاصلاح سے گہرا تعلق بھی ہے، ۱۹۹۶؁ء میں اس مدرسہ کے ناظم ہوئے، اس کی تعلیم و تنظیم سے ان کو بڑی دلچسپی تھی، باقاعدگی سے وہاں کی میٹنگوں میں شریک ہوتے، ان کی نظامت کے عمدہ نتائج بھی سامنے آئے، اس کے علاوہ دارالعلوم ندوۃ العلماء، دارالعلوم تاج المساجد بھوپال اور جامعۃ الفلاح کی مجالس انتظامیہ کے وہ رکن رکین اور مسلم یونیورسٹی کی کورٹ کے ممبر تھے، پابندی سے ان کے انتظامی جلسوں میں شریک ہوتے، یوپی اردو اکادمی، ہندوستانی اکیڈمی الٰہ آباد، مجلس تحقیقات و نشریات اسلامی لکھنؤ کے بھی رکن منتخب ہوئے، آکاش وانی گورکھ پور کی ایڈوائزر کمیٹی کے ممبر ہوئے، ان کے علم، عمل اور اخلاص کی قدر کی گئی، اردو اکادمی، میراکادمی، نے ان کو انعامات سے نوازا اور ۱۹۹۵؁ء میں صدر جمہوریہ ہند نے ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں سند اعزاز سے سرفراز کیا۔
اعزازات اور بلند عہدوں کے باوجود فروتنی، انکسار اور تواضع کی مثال تھے، ان کی شخصیت سادگی اور بے ساختگی، دل نوازی اور ملن ساری کے عناصر سے مرکب تھی، اپنوں اور بیگانوں سے وضع داری تھی، بیس سال ناظم رہنے کے باوجود دارالمصنفین کے کسی کارکن اور ملازم کو ان کی زبان سے کسی سخت کلام یا انداز کی شکایت نہیں ہوئی، معمولی ملازم سے بھی بہت نرمی سے بات کرتے، صبروتحمل کی خوبی ان کی بڑی صفت تھی، ان خوبیوں نے ان کی شخصیت کو ایک عجب کشش اور محبوبیت عطا کردی تھی، ذاتی زندگی میں انہوں نے کئی بڑے صدموں کو جس صبرورضا سے برداشت کیا وہ ان کے راضی بہ رضا ہونے کی شہادت ہے، صوم و صلاۃ کے پابند تھے، خاص طور پر تلاوت قرآن پاک میں ہم نے ان کو سب سے زیادہ مشغول پایا، سفر حج کی سعادت پہلے ہی حاصل ہوچکی تھی لیکن اس سال انہوں نے اپنی استطاعت سے اہلیہ محترمہ کے ساتھ حج کیا، تین جنوری کو وہ اس مبارک سفر سے واپس تشریف لائے اور ابھی پورا ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا کہ یکم جنوری کو جس کے گھر کی مہمانی سے سرفراز ہوئے تھے اسی کے حضور اس طرح حاضر ہوئے کہ سرخ روہی نہیں سارا جسم شہید راہ وفا کی طرح لہولہان تھا، زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ،
بڑی آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
زخموں سے چور تھے، سر، سینہ خوں فشاں تھا، ایسے عالم میں بھی ان کے ہونٹوں سے جو لفظ نکلا وہ ان کے خالق حقیقی کا اسم اعظم تھا ’’اﷲ۔اﷲ‘‘ ہی لب پر تھا، یہ اپنے مالک حقیقی سے قربت و استجابت کا اقرار تھا، الذین استجابوا ﷲ والرسول من بعد ما اصابھم القرح [آل عمران:۱۷۲]، حسن خاتمہ ہر مسلمان کی تمنا ہے، جس اﷲ نے ان کے لیے دنیا میں اعزاز مقدر فرمائے اسی نے شہادت کا سب سے بڑا اعزاز بھی ان کو عطا فرمایا، وہ شہادت کے درجہ بلند پر فائز ہوئے، جس کا صلہ ہی تب و تاب جاودانہ ہے۔
ان کے پس ماندگان میں ان کے برادر اور اکبر مولانا قمرالدین اصلاحی اور چھوٹے بھائی جناب امام الدین و جناب نجم الدین ہیں، تین بیٹیاں اور تین بیٹے محمد عامر، محمد طارق اور سلیم جاوید ہیں اور سب ماشاء اﷲ صاحب اولاد ہیں، اہلیہ اب روبہ صحت ہیں، کامل شفا اور صحت اور صبرجمیل کے لیے قارئین سے دعاؤں کی درخواست ہے اور یہ بھی کہ اﷲ تعالیٰ اپنے نیک بندے اور دارالمصنفین کے بے لوث خدمت گزار کو اپنی رحمتوں کے سایے میں لے کر عفوومغفرت کی تمام نوازشوں سے نوازے، ان کی تربت کو ٹھنڈا رکھے، کاروان شبلی کے اس مسافر کو سکون و راحت کی منزل سے ہم کنار کرے، اللھم اغفرلہ وارحمہ۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، مارچ ۲۰۰۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...