1676046599977_54338508
Open/Free Access
749
ڈاکٹر صابر کلوروی مرحوم
شبلی ڈگری کالج اعظم گڑھ کے علامہ شبلی سمینار میں پاکستان کا ایک وفد جناب ریاض مجید کی قیادت میں آیا تھا، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر اور محترمہ رابعہ سرفراز کے ساتھ ایک شخصیت ڈاکٹر صابر کلوروی کی تھی، متین، کم سخن لیکن کشش کے مالک، شبلی کی تنقید نگاری کے عنوان سے ان کے مقالے نے بڑی داد حاصل کی۔
دو دن کے مختصر قیام کے بعد جب وہ اور ان کے رفقا رخصت ہوئے تو رخصت کرنے والوں نے کہا کہ سرحد پار سے آنے والے اس دستۂ علم نے ایک بار پھر دلوں کو فتح کرلیا، علامہ شبلی اور ان کی یادگاروں خصوصاً دارالمصنفین سے ان کی غیر معمولی محبت کسی عقیدت مند زائر کے جوش و شوق کی عکاس تھی، وہ بادیدۂ نم رخصت ہوئے تھے اور کسے خبر تھی کہ اتنی جلد وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوکر بے شمار پلکوں کو نم کرجائیں گے، ان کے انتقال کی خبر موقر رسالہ ’’اخبار اردو‘‘ اسلام آباد سے ملی، ۳۱؍ اگست ۱۹۵۰ء سے شروع ہوکر ۲۲؍ مارچ ۲۰۰۸ء کو ختم ہونے والا یہ سفر مختصر ہی کیا جائے گا لیکن کلوروی مرحوم نے اپنی صفت و لیاقت سے اس قلیل مدت کو پرثروت بنادیا، اقبالیات ان کی ادبی کاوشوں کا سر عنوان ہے، ’’یاد اقبال، داستان اقبال، اشاریہ مکاتیب اقبال، اقبال کے ہم نشین، تاریخ تصوف‘‘، کتابوں کے علاوہ ان کا اصل کارنامہ ان کی تھیسس ’’باقیات شعر اقبال‘‘ ہے ڈاکٹر عطش درانی اور دوسرے اہل قلم کی تحریروں سے اردو لسانیات میں ان کی منفرد اور امتیازی خوبیوں کا علم ہوا، مشفق خواجہ نے ان کو غریق تحقیق کہا تھا، اﷲ تعالیٰ غریق رحمت کرے، معارف، پشاور یونیورسٹی میں ان کے کسی رفیق یا شاگرد سے ان کے متعلق ایک مفصل مضمون کی توقع کرسکتا ہے۔
( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، جون ۲۰۰۸ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |