Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا پروفیسرسید محمد اجتباء ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا پروفیسرسید محمد اجتباء ندوی
ARI Id

1676046599977_54338511

Access

Open/Free Access

Pages

749

آہ! مولانا پروفیسر سید محمد اجتباء ندوی مرحوم
افسوس کہ گذشتہ ماہ ہندوستان کی ملت اسلامیہ، ایک اور نمایاں اور قابل قدر ہستی کی خدمات سے محروم ہوگئی، خبر آئی کہ مشہور عالم، عربی اور اردو کے ممتاز صاحب قلم مولانا پروفیسر سید محمد اجتباء ندوی نے ۲۰؍ جون کو دہلی میں داعی اجل کو لبیک کہا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
مولانا مرحوم ہمارے علما کے اس طبقے سے تھے جن کی تعلیم و تربیت خالص دینی بنیادوں پر استوار ہوئی لیکن جن کے فیضان نظر سے عصری تعلیم کے ادارے بھی بہرہ ور ہوئے اور جنہوں نے اپنے علم و عمل سے جدید دانش گاہوں میں صرف دینی اداروں کی عظمت و توقیر میں ہی اضافہ نہیں کیا بلکہ اس مذہبی حمیت و غیرت اور خالص دینی تشخص کی پاسداری، بڑی استواری سے کی جس کا اولین سبق انہوں نے اپنے والد ماجد مولانا سید محمد مصطفی سے حاصل کیا تھا، ان کے والد ضلع بستی میں حضرت سید احمد شہیدؒ کی دعوت اور طرز تربیت میں اپنے جدامجد سید جعفر علی نقوی کے جانشین تھے جن کو امام شہیدؒ کی قربت ومعیت حاصل تھی، حضرت سید احمد شہیدؒ سے تعلق کا مبارک اثر ان کے پورے خاندان پر رہا، جس کی وجہ سے والدین نے بچپن ہی سے اسلامی و اخلاقی کہانیاں سنا کر اور خود اپنے عمل سے ایسی ذہن سازی کی کہ آئندہ زندگی میں وہ جہاں بھی رہے، راہ حق و جادۂ اعتدال سے ذرا منحرف نہیں ہوئے، دارالعلوم ندوۃ العلما کے بعد انہوں نے دمشق یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سندیں حاصل کیں اور طالب علمی کے بعد معلمی کا دور جامعہ ملیہ اسلامیہ، کشمیر یونیورسٹی اور الہ آباد یونیورسٹی میں پورا کیا، پروفیسر ہوئے، صدر شعبہ ہوئے، اس کے علاوہ درمیان میں کچھ وقفہ مدینہ منورہ، ریاض و جدہ میں بھی گزارا، روایت اور جدیدیت کی عام کشمکش سے دوچار ہوئے لیکن وہ ہر حال میں ان ہی اقدار کے امین و محافظ رہے جو ان کو پہلے گھر اور پھر دارالعلوم ندوۃ العلما سے حاصل ہوئی تھیں، دارالعلوم میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے ان کے تعلق میں خاندانی پس منظر کے ساتھ خود حضرت مولانا کی غیر معمولی توجہ و شفقت ان کی داستان حیات کا سب سے روشن باب ہے حضرت مولانا ندویؒ پر ان کی عربی کتاب دارالقلم دمشق سے شائع ہوئی اور یہ مرشد و مسترشد کے رشتہ عقیدت کی بہترین ترجمان ہے، مصروف ترین تدریسی زندگی کے باوجود انہوں نے تصنیف و تالیف سے رشتہ ہمیشہ قائم رکھا۔ ان کی کتابوں کی فہرست میں حضرت شاہ ولی اﷲ کے علمی کارنامے، نواب صدیق حسن خاں علمی و ادبی کارنامے، تاریخ فکر اسلامی، عورت اسلام کی نظر میں، حقوق انسانی اسلامی شریعت میں، جدید عربی شاعری، جدید معاصر، شامی ادب، التعبیر والمحادثۃ العربیہ اور نقوش تابندہ ان کے قلم کی روانی اور ان کے ذہن و فکر کی جولانی کی شاہد ہیں، نقوش تابندہ میں انہوں نے انتساب ’’ان تمام اسلام پسند حضر۱ت، خواتین اور مراکز کے نام کیا جو دنیا کو ازسر نو اسلام کے زیر سایہ سکھ چین عطاکئے جانے کے لیے کوشاں ہیں‘‘ اس انتساب میں ان کے دل کا تمام افسانہ سمٹ آیا، وہ اسلام کی سربلندی کے آرزو مند اور اس کے لیے ہر جگہ کوشاں رہے۔
گذشتہ سال ماہ جون میں خوش قسمتی سے ان کے ساتھ بھٹکل میں ہفتہ عشرہ گزارنے کا موقع ملا اور حقیقت یہ ہے کہ ان کی شخصیت کو دیکھنے، سمجھنے اور ان سے استفادے کی یہ فرصت بڑی بیش قیمت رہی، ان کے علم پر یقین تھا کہ وہ استاذ الاساتذہ تھے لیکن ان کے فضل پر دل سے ایمان وہیں نصیب ہوا، انکسار، فروتنی، سادگی، مروت، تجمل اور خورد نوازی کا ہر نقش کامل سے کامل تر نظر آیا، زندہ دلی اور بلند پایہ حس مزاح نے قدم قدم پر ان کے اخلاق کی بلندی و پاکیزگی کے نقوش ثبت کردیئے، انہوں نے بھٹکل کے اس سفر اور قیام کی روداد ’’تعمیر حیات‘‘ میں جس بے ساختگی سے لکھی وہ ان کے قلم کی جادو بیانی ہوگئی، قلم کے ساتھ ان کی خطابت بھی کم نہ تھی، سادہ، بے تکلف اور دل سے نکلی ہوئی بات، سیدھے سامعین کے دلوں تک جاپہنچتی، وہ ندوۃ العلما کی مجلس شوریٰ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ عربی کی مجلس تعلیمی اور رابطہ ادب اسلامی کے معزز رکن تھے، صدر جمہوریہ ہند نے ان کی عربی خدمات کے اعتراف میں صدراتی ایوارڈ سے نوازا تھا، حق یہ ہے کہ وہ ان اعزازات سے بھی بلند تر تھے، دارالمصنفین اور رسالہ ’’معارف‘‘ سے قلبی تعلق تھا، ان کے کئی مضامین رسالہ ’’معارف‘‘ کے صفحات کی زینت بنے، ’’عربی زبان کے ارتقا میں حدیث نبویؐ کا ارتقا‘‘ اپنے موضوع پر بہترین مضمون تھا، ایسا ہی ایک مضمون ’’ہندوستان میں عربی ادبیات‘‘ کے عنوان سے تین قسطوں میں شائع ہوا، اپنے موضوع پر حد درجہ جامع مضمون اس لائق ہے کہ اس کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے ان کی وفات سے جو علمی نقصان ہوا ہے دارالمصنفین اور معارف کو بھی اس کا احساس ہے، یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے نیک سرشت بندے کی نیکیوں کو قبول فرما کر آخرت میں ان کے درجات بلند فرمائے گا، اس دنیا میں بہرحال ان کے قدرشناس مدتوں رویا کریں گے۔
فخلوا کلامی ان الح بی البکا
فان فراق الصالحین عسیر
(’’ع ۔ ص‘‘، جولائی ۲۰۰۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...