Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر محمد اسحاق جم خانہ والا

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر محمد اسحاق جم خانہ والا
ARI Id

1676046599977_54338512

Access

Open/Free Access

Pages

750

آہ! ڈاکٹر محمد اسحاق جم خانہ والا مرحوم
انجمن اسلام ممبئی کے صدر ڈاکٹر محمد اسحاق جم خانہ والا عین شعبان و رمضان کے قرآن کے سایے میں اپنے رب کی رحمتوں سے جاملے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
ہندوستان میں جن چند اداروں کو مسلمانوں نے اپنے زوروزر سے قائم کیا اور جنہوں نے ترقی اور کامیابی کے سفر میں مسلسل نئی منزلیں طے کیں ان میں ایک نہایت نمایاں نام ممبئی کی انجمن اسلام کا ہے، قریباً یہی بات ڈاکٹر محمد اسحاق جم خانہ والا کے متعلق بھی صادق آتی ہے، جن کی کتاب زندگی کے بعض ابواب کی سرخیاں طب اور سیاست سے روشن ہیں، خلق خدا کی خدمت میں انہوں نے ایک حاذق اور شفیق معالج کی حیثیت سے شہرت پائی، سیاست میں بھی ایک حازم اور خلیق وزیر کی شکل میں ان کی شناخت ہوئی لیکن ان کی اصل خدمت ، تعلیم کے میدان میں ممبئی ہی نہیں پورے مہاراشٹر کے مسلمانوں کے سامنے انجمن اسلام کی کارکردگی کو کارنامے میں بدلنا ہے۔
انجمن اسلام جب ۱۸۷۴؁ء میں قائم ہوئی تھی تو اس کے بانیویں خصوصاً اس کے پہلے صدر بدرالدین طیب جی کے سامنے یہ اذیت ناک سچائی تھی کہ ممبئی اور پونا کے اعلا تعلیمی اداروں اور مہاراشٹر کے ہائی اسکولوں میں مسلمانوں کی تعداد صفر کے برابر تھی، ۱۸۸۰؁ء میں ممبئی یونیورسٹی کے میٹرک میں پاس ہونے والے طلبہ کی تعداد ۱۵,۲۴۷ تھی جن میں مسلمان صرف ۴۸ تھے، انجمن اسلام کے قیام نے اس صورت حال کو کتنا بدلا، یہاں اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں لیکن اس کی قریب سوسال کی تاریخ میں بدرالدین طیب جی کے بعد متعدد نامور ہستیوں نے اس کی ذمہ داری لی، ان سب میں نسبتاً سب سے کم عمر ڈاکٹر محمد اسحاق مرحوم جب ۱۹۸۳؁ء میں اس انجمن میں آئے تو واقعی وہ شمع انجمن ثابت ہوئے، میڈیکل پریکٹس کو خیر باد کہہ کر، ان کے جوش عمل اور ولولہ و حوصلہ نے بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں انہوں نے دو یتیم خانوں، ایک کالج ایک پالی ٹیکنیک اور اٹھارہ ابتدائی اور ثانوی اسکولوں کی میراث کو قریب سو اداروں تک پھیلا دیا جن سے ایک لاکھ سے زائد طلبہ فیض یاب ہیں، یونانی میڈیکل کالج، کالج آف مینجمنٹ، انجینئرنگ، پالی ٹیکنیک وغیرہ جدید تکنیکی علوم کے یہ سرچشمے ان مسلمان طلبہ کے لیے سیرابی کا اہم ذریعہ بن گئے جن کی پیاس کے لیے تاحد نظر سراب تھے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم کے جذبے، محنت اور سب سے بڑھ کر ان کے سوز دروں نے ان کو سرسید ثانی کا لقب دیا اور یہ شاید اس لیے بے جا بھی نہیں کہ تعلیم کے ساتھ تہذیب و ثقافت اور اخلاق و مذہب کی عظمت کا احساس بھی ہمیشہ رہا، اسی لیے انجمن اسلام کی نئی شکل میں تعلیمی رنگ ہی نہیں ثقافتی، سماجی اور سب سے بڑھ کر دین کا رنگ شامل رہا اور اس سے خوب صورت کون رنگ ہوسکتا ہے، تعلیم و تعمیر پر یکساں نظر رکھنے کی صلاحیت نے صرف جدید پروفیشنل کورسز تک تگ و دو محدود نہیں رکھی، انہوں نے انجمن کے اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو بھی نئی توانائی عطا کی، اردو مراٹھی اشتراک کی عصری اہمیت کو بھی انہوں نے اہمیت دی اور سب سے قابل ذکر یہ کہ انجمن کے اس سلسلہ خطبات سیرت کو انہوں نے بڑی وسعت دی جس کا آغاز ۱۹۸۰؁ء میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے خطبے سے ہوا تھا، اس سلسلے کو ضیار الحسن فاروقی، نثار احمد فاروقی، شہاب الدین دسنوی، غلام احمد برہانی کالج وغیرہ کے خطبات نے سلسلہ زریں بنادیا، ان تقریبات میں جذب و مستی کی کیفیت، ڈاکٹر اسحاق مرحوم کی دین تھی اور یہ دولت ان کو ان کی فطرت سلیم سے حاصل ہوئی تھی، انہوں نے دین و مذہب کا ہمیشہ احترام کیا، مولانا عبدالعزیز بہاری سے تعلق اور مولانا شاہ وصی اﷲ فتح پوری سے بیعت وارادت خود ان کی طلب صادق کی دلیل ہے۔
دارالمصنفین سے تعلق مخلصانہ اور والہانہ تھا، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ انجمن کے قیام میں علامہ شبلیؒ کی ہم نوائی بدرالدین طیب جی کو حاصل تھی، علامہ شبلی ممبئی کے زمانہ قیام میں اس کے ماہانہ جلسوں میں شریک ہوتے اور تقریر بھی کرتے، انجمن اور دارالمصنفین کا یہ تعلق ہمیشہ قائم رہا، مولانا عبدالسلام ندویؒ پر جب ممبئی میں سمینار ہوا تو اس میں ڈاکٹر صاحب نے غیر معمولی دل چسپی لی، پورے سمینار میں وہ شریک رہے، المالطیفی ہال میں ان کی ہر ادا سے یہی ظاہر تھا کہ اس سمینار کی کامیابی گویا ان کی کامیابی تھی۔
وہ دارالمصنفین کے مسائل سے خوب واقف تھے اور مولانا ضیاء الدین مرحوم سے ان کی گفت وشنید اور خط و کتابت کا مرکزی موضوع اکثر یہی ہوتا، وہ دارالمصنفین آنے کے مشتاق تھے اور ایک بار تو جناب رضوان فاروقی کے ساتھ ان کا سفر بالکل طے تھا، ہم یہاں ان کے منتظر تھے کہ اچانک کسی، وجہ سے یہ سفر فسخ ہوا، ادہر کچھ عرصے سے ان کی ناسازی طبع کی خبریں ملتی تھیں، ان کے انتقال کی خبر اچانک ملی تو ان کی تصویر کے ساتھ ان کے پاک اعمال و عزائم بھی سامنے آگئے، ملت کو ایسے پاک نفس، بے غرض، باہمہ اور بے ہمہ رہنما کی کمی شدت سے محسوس ہوگی، اب ایسے صاحبِ جنوں کتنے ہیں جن کا ہر نقش پا، چراغ رہ گذر بن چاتا ہے۔
( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، ستمبر ۲۰۰۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...