Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > صلاح الدین اویسی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

صلاح الدین اویسی
ARI Id

1676046599977_54338513

Access

Open/Free Access

Pages

751

جناب صلاح الدین اویسی مرحوم
جناب غلام محمود بنات والا کی فرقت کا صدمہ ابھی کم نہ ہوا تھا کہ مجلس اتحاد المسلمین کے قائد، فرزند دکن اور سالار ملت، سلطان صلاح الدین اویسی بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے، امت ایک اور ہوش مند، جرأت مند اور حوصلہ مند راہبر سے محروم ہوگئی، وہ عرصے سے صاحب فراش تھے، عمر مستعار کم نہ تھی، وقت موعود آیا اور رمضان المبارک کے نہایت مبارک اور آخری عشرے میں یعنی ۲۸؍ رمضان کو وہ اپنے مالک حقیقی کی رحمتوں سے جاملے ، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
قریب ساٹھ ستر سال پہلے جب مجلس اتحاد المسلمین کے بانی نواب بہادر یار جنگ کا ۱۹۴۴؁ء میں انتقال ہوا تھا تو اس وقت مولانا سید سلیمان ندوی نے معارف میں ان کا ماتم کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ان کا سا آدمی صدیوں میں پیدا ہوتا ہے اور جب پیدا ہوتا ہے تو انقلاب انگیز ہوتا ہے، ان کی ذات سے امت اسلامیہ کو بڑی بڑی امیدیں قائم تھیں اور خصوصیت کے ساتھ دکن کے مسلمانوں کے حق میں ان کا وجود آب حیات کا حکم رکھتا تھا‘‘۔
۱۹۴۴؁ء اور ۲۰۰۸؁ء کا زمانی فرق، تغیرات احوال کے لحاظ سے زمین آسمان کا فرق ہے لیکن صلاح الدین اویسی مرحوم کی ہستی کے لیے ان الفاظ کی حقیقت میں ذرا فرق نہیں۔
سلطنت آصفیہ اسلامیہ میں مجلس اتحاد المسلمین کا قیام، قومی تخیل اور سیاسی جذبوں کو نئی زندگی دینے کے ساتھ مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشرتی ترقی کے لیے ہوا تھا، نصب العین تو ’’وسیع تر، عظیم تر، بیرونی و اندرونی مداخلتوں سے پاک اور کامل آزاد حیدرآباد تھا‘‘ اس وقت اس مجلس کے حوصلوں کو دیکھ کر کہا گیا تھا کہ دکن کے مسلمانوں نے صدیوں کے آرام کے بعد کروٹ لی ہے لیکن چند برسوں کے بعد تد اول ایام کی ایک اور تفسیر سامنے آئی، نہ سلطنت رہی نہ آصفی شان و شوکت، مسلم کی روایتی سادگی اور اوروں کی عیاری نے ساری بساط ہی پلٹ دی، سلطنت آصفیہ کی تباہی، زوال بغداد اور خلافت اسلامیہ کے سقوط سے کم تکلیف دہ نہیں تھی، احساس شکست وریخت نے قدرتاً سب سے زیادہ وہاں کے مسلمانوں کو ناتواں اور حیران و سرگرداں کیا مجلس بھی درہم برہم ہوئی، اس کے قائدین یا تو زندانی ہوئے یا پاکستانی، ایسے میں پاک نفس مولوی عبدالواحد اویسی ایڈوکیٹ نے جماعت کی جمعیت خاطر کی ہمت کی، شیرازہ بندی کی اس کوشش میں وہ پابند سلاسل ہوئے لیکن مجلس نے اپنے کردار کا احساس دلانا شروع کردیا، ۶۲؁ء میں عبدالواحد اویسی کے صاحبزادے صلاح الدین اویسی ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور ۷۵؁ء میں والد کے انتقال کے بعد مجلس کی باگ دوڑ بھی ان کے ہاتھوں میں آگئی، اس کے بعد حیدرآباد کی تاریخ گویا مجلس کی تاریخ بلکہ گرداب بلا کی داستان ہے، قلی قطب شاہ کے محبوب شہر کو ظالموں نے قرطبہ و غرناطہ کی طرح تاریخ زوال کے صفحات میں گم کردینا چاہا لیکن یہ اویسی مرحوم کی ہوش مند قیادت تھی جس نے فرخندہ بنیاد حیدرآباد کو برباد نہ ہونے دیا اور ارض دکن میں ہمت حوصلہ اور اجتماعیت کی قابل تقلید مثال پیش کردی، حیدرآباد ہی کے شاعر کے دل پر خدا جانے کیا گزری کہ اس نے اپنے چارہ گر سے پوچھ لیا کہ اس کی زنبیل میں نسخہ کیمیائے محبت اور علاج و مداوائے الفت بھی ہے، چارہ گر نے مخدوم کے سوال کا جواب سلطان کی شکل میں پیش کردیا، اویسی مرحوم متعدد بار اور شاید مسلسل پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوتے رہے، یہ ان کی انتظامی صلاحیت سے زیادہ ان کے کاموں کی مقبولیت اور ان پر جمہور کے اعتماد کا مظہر ہے، حیدرآباد میں فکری و مسلکی اختلافات کے باوجود، یہ ان کی حکمت و بصیرت تھی جس نے اختلاف کو افتراق میں نہیں بدلنے دیا، وہ جسمانی لحاظ سے قدآور تھے اور سیاسی فہم و بصیرت میں بھی وہ بلند قامت رہے، حیدرآباد کا دارالسلام ہو یا دلی کا دارالعلوم، کلمہ حق کے بے باکانہ اور مدلل اور منطقیانہ اظہار کے لیے ان کی تقریر یں اور باتیں اپنوں کے علاوہ غیروں نے بھی قدر و احترام سے سنیں، حیدرآباد کے لیے وہ خاص تھے لیکن ملت کے ملکی مسائل میں وہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور دوسری کل ہند تنظیموں کے ساتھ بھی تھے اور درحقیقت ان کی ضرورت ملکی پیمانے ہی کی تھی لیکن حیدرآباد کی تعلیمی و معاشی منصوبہ سازیوں کے ذریعہ شاید وہ دوسرے علاقوں کی مسلم قیادت کو میدان عمل میں آنے کی تلقین پر زیادہ یقین رکھے تھے، موجودہ انتہائی جاں گسل حالات میں ان کے نہ ہونے سے محرومی کا احساس اور سوا ہوگیا ہے لیکن انہوں نے مجلس کی قیادت کے لیے لائق جماعت تیار کردی جس سے توقع ہے کہ وہ اتحاد کی اسی روش پر قائم رہے گی، جس کے لیے بہادر یار جنگ سے اویسی مرحوم کو شاں رہے نصف صدی کی محنت اور اس کے اثر و ثمر کو باقی رکھنا بجائے خود بڑا دشوار مرحلہ ہے، ہماری زمین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ قیامت کی نفاق و افتراق انگیز ہے، قیادت کی ذراسی غفلت سے یہ نفاق برگ وبار لاسکتا ہے اور اب امت شاید اس کی متحمل نہ ہوسکے، اویسی مرحوم کا جنازہ جس شان سے اٹھا وہ عندالناس ان کی مقبولیت کی علامت ہے، اصل قبول تو اﷲ کے نزدیک ہے جس کا ایک اشارہ رمضان کے مبارک مہینے کی مبارک ترین ساعتوں میں ان کا اپنے رب سے جاملنا ہے:
فبشرہ بمغقرۃ واجر کریم۔[ ےٰسین:۱۱]
( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، اکتوبر ۲۰۰۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...