Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > الحاج منظور علی لکھنوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

الحاج منظور علی لکھنوی
ARI Id

1676046599977_54338514

Access

Open/Free Access

Pages

752

الحاج منظور علی لکھنوی مرحوم
دارالمصنفین میں الحاج منظور علی لکھنوی کی رحلت کی خبر بڑے افسوس کے ساتھ سنی گئی، ۲۸؍ رمضان المبارک کو وہ اپنے خالق حقیقی کے جوار رحمت میں پہنچ گئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ زندگی میں پاکیزہ اطوار رہے، آخری وقت بھی اس پاکیزگی کی شہادت کے لیے قدرت نے مقرر کردیا، وہ سیاسی رہنما تھے اور نہ عالم و فاضل لیکن ان کی زندگی قطرے سے گہر ہونے کی کہانی ہے، کلکتہ کے ہوٹل بزنس سے تعلق تھا، ان کا رائل انڈین ہوٹل کلکتہ کے مشہور ترین ہوٹلوں میں ہے، تمول کی آغوش میں آنکھیں کھولیں، عام امیر زادوں کا رنگ ڈھنگ ہونا قدرتی تھا، ایک وقت تھا کہ قیمتی پتھروں اور بیش قیمت خوشبوؤں کو جمع کرنے کا شوق تھا لیکن فطرت کی سلامتی اور سرشت کی پاک طینتی نے ایک دن ان کی زندگی کا رخ بدل دیا، ثروت کو اﷲ کی دی ہوئی نعمت سمجھنے اور برتنے کی توفیق، باندازۂ ہمت ملی اور زندگی قابل رشک ہوگئی، دارالعلوم ندوۃالعلما کی مجلس انتظامیہ، مسلم پرسنل لابورڈ، ملی کونسل، امارت شرعیہ جیسے باوقار اداروں کی رکنیت اور سب سے بڑھ کر حجاج کرام کی پیہم خدمت نے ان کو اپنے طبقہ میں امتیاز کا شرف بخشا اور اس سے زیادہ کلکتہ میں ان کی وہ رفاہی خدمات ہیں جن کا علم بہ جزاﷲ اور ان کے انتہائی قریبی لوگوں کے اور کسی کو نہیں معلوم، کمال کے شخص تھے مولانا عبدالماجد دریا بادی کو کبھی نہیں دیکھا لیکن ان کی تحریروں کے ایسے شیدائی ہوئے کہ ان کی کتابوں کی خوبصورت ترین اور نہایت دیدہ زیب طباعت و اشاعت کے لیے بغیر کسی تاجرانہ فائدے کے، اپنے مال کا بے دریغ استعمال کیا، ادارہ انشائے ماجداسی نیت سے قائم کیا جس نے خطبات ماجد سے مکتوبات ماجدی تک مولانا کی دسیوں کتابیں بڑے اہتمام سے شائع کیں، مولانا دریابادی کی آرزو خود ان کی زبانی سننے میں آتی تھی کہ کاش ان کی کتابیں بھی مولانا علی میاں اور مولانا مودودی کی کتابوں کی طرح خوبصورت طباعت سے آراستہ ہوں، ان کی یہ تمنا ان کے نادیدہ مخلص نے جس طرح پوری کی وہ ادب ماجدی کے پرستاروں کے لیے مخفی نہیں، دارالمصنفین کے وہ خود لائف ممبر تھے اور ان کی مساعی سے کلکتہ کے متعدد قدردان علم بھی لائف ممبر ہوئے، وہ کلکتہ میں ایک عرصے سے دارالمصنفین والوں کے میزبان تھے، سید صباح الدین عبدالرحمان مرحوم نے کئی بار شذرات میں ان کی غیر معمولی ضیافت کے ساتھ ان کی بھلمنساہت، تواضع، شیریں کلامی اور مہمان نوازی کی خوبیوں کا ذکر کیا، مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم نے بھی ہمیشہ ان کی ان صفات کا اظہار اپنے شذرات میں کیا، کلکتہ میں ان کے شاندار مکان کی سب سے شاندار خوبی ان کا کتب خانہ تھا، ادب عالیہ پر مشتمل ان کا یہ ذخیرۂ کتب صرف حسن انتخاب ہی نہیں بہترین نگہداشت کا نمونہ ہے، بہ قول سید صباح الدین عبدالرحمان جیسے کتابوں کا لالہ زار اور مینا بازار سجا ہو، وہ میرے والد ماجد مرحوم کے محبوں اور مخلصوں میں تھے، والد مرحوم کے انتقال کے بعد انہوں نے ہم کو باپ جیسی شفقت دی، اس کی داستان بڑی دراز ہے، عبادت و ﷲیت میں وہ جس مقام پر فائز تھے، اس کی تربیت میں کلکتہ کے مشہور عالم، مفسر اور حکیم جناب مولانا محمد زماں حسینی کی نگاہ کا فیض بھی شامل تھا، علم اور دین کی طلب اور تڑپ کا اندازہ اس وقت ہوتا جب وہ قاسمی دواخانے میں حکیم صاحب کی مجلس میں نیاز مندانہ حاضر ہوتے، یہی تعلق بعد میں حکیم صاحب کے لائق و نامور فرزند حکیم عرفان الحسینی سے بھی قائم رہا، ایسے علم نواز، وضع دار اور امت کے درد کو اپنے سینے میں سموئے انسان کا رخصت ہونا واقعی اسلامی معاشرے کا بڑا خلا اور خسارہ ہے، ان کے پس ماندگان میں ان کے صاحبزادوں کے علاوہ ان کے بھائی جناب مقصود علی لکھنوی ہیں اور وہ بھی سخت علیل ہیں، ان کی صحت اور تمام پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا ہے اور مرحوم کے لیے بھی کہ اﷲ تعالیٰ ان کے حسنات کو قبول فرما کر فردوس بریں میں ان کو اپنا قرب عطا کرے، آمین۔
( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، اکتوبر ۲۰۰۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...