Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالسلام رامپوری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالسلام رامپوری
ARI Id

1676046599977_54338518

Access

Open/Free Access

Pages

756

مولانا عبدالسلام خاں رام پوری
اخباروں سے یہ افسوس ناک خبر ملی کہ ۱۳؍ اپریل کو مولانا عبدالسلام خاں رام پوری نے اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا، اِناﷲ وَاِنا اِلَیہ رَاجِعُون۔
ان کے ساتھ ہی دارالسرور رام پور کی وہ امتیازی شناخت بھی رخصت ہوگئی جس کی وجہ سے رام پور کو بخارائے ہندی کہا جاتا تھا، رام پور کی ریاست کی علم پروری اور سخن نوازی کی داستانیں ہماری علمی و ادبی تاریخ کا بڑا دل کش حصہ ہیں لیکن فلسفہ و کلام و منطق جیسے علوم معقولات میں اس ریاست کی روایت کی بات ہی کچھ اور ہے، اٹھارہویں صدی کے اواخر میں نواب فیض اﷲ خاں کے فیض سے جب وہاں مدرسہ عالیہ قائم ہوا اور اس کے پہلے صدر مدرس کی حیثیت سے مولانا عبدالعلی بحرالعلوم فرنگی محلی کا تقرر ہوا تو جیسے معقولات کی بہار آگئی، مولانا فضل حق خیرآبادی اور مولانا عبدالحق خیرآبادی جیسے ائمہ فلسفہ اسی فصل گل کی یادگار ہوئے، مولانا عبدالسلام خاں نے جب رام پور کی اس فضا میں ۱۹۱۷؁ء میں پہلی سانس لی تو گو پہلا سا رنگ نہیں تھا لیکن رونق اب بھی باقی تھی، ان کے ہم عصر ساتھیوں میں مولانا وجیہ الدین خاں، مولانا ابوالوفاء شاہ جہاں پوری، مولوی عبدالوہاب خاں، مولانا امتیاز علی عرشی جیسے اصحاب فضل و کمال کے نام ملتے ہیں، ان کے اساتذہ میں ایک نام جیراج پور اعظم گڑھ کے مولوی عبدالودود ندوی کا بھی ہے، مولانا عبدالسلام خاں کی غیر معمولی لیاقت ہی تھی کہ ان کو کم عمری میں اس مدرسہ عالیہ کا متولی یعنی پرنسپل بنایا گیا اور یہ ان کی صلاحیت تھی کہ وہ ۱۹۷۵؁ء تک یعنی قریب تیس سال تک اس عہدے پر فائز رہے لیکن ان کی اصل شہرت ان کے قلم کی رہین منت ہے جس نے فلسفہ و ادب کو اس خوبی اور گہرائی سے ہم آمیز کیا کہ ارباب نظر کی نظر میں وہ ایک خاص قدر و اعتبار کے لائق بن گئے، ’’معارف‘‘ میں ان کا پہلا مضمون ۱۹۳۷؁ء میں شائع ہوا، اگست کے اس شمارے میں سید مبارزالدین رفعت، مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی اور مولوی محمد غوث (عثمانیہ) کے مقالات کے ساتھ ان کے مقالہ کا عنوان تھا ’’مصحفی اور اس کے دیوان کا رام پوری نسخہ‘‘، اس وقت ان کی عمر بیس سال کی تھی لیکن مولانا سید سلیمان ندویؒ نے خاص ان کے مضمون پر یہ نوٹ چڑھایا کہ ’’اہل ادب کو ہمارے مضمون نگار کا ممنون ہونا چاہئے کہ انہوں نے پوری تحقیق اور کاوش سے اس شبہ کو یقین کے درجہ تک پہنچادیا ہے اور معاملہ، آئینہ ناظرین کردیا ہے‘‘، شبہ یہ تھا کہ مصحفی کا جو انتخاب کلام، آئینہ ناظرین کے نام سے شائع ہوا تھا اس میں منشی مظفر علی خاں اسیر نے اپنے زمانہ کی زبان اور طرز ادا کا لحاظ کرکے اصلاحیں دی ہیں، بیس سالہ عبدالسلام نے ژرف نگاہی سے ثابت کیا کہ مصحفی کے کلام کی اس قسم کی تصحیح نہیں کی گئی جیسی بالعموم قدیم کتابوں کے مصححین میں مروج ہے بلکہ کلام کی استاذانہ اصلاح کرکے مصحفی کے طرز بیان اور اس کی زبان پر ایک زمانے تک کامیاب پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ مضمون آج بھی مصحفی کے باب میں وقیع ترین تحریروں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
معارف سے ان کا رشتہ استوار رہا، سید صاحب، شاہ معین الدین احمد ندوی، سید صباح الدین عبدالرحمان اور مولانا ضیاء الدین اصلاحی تک ان کے بیش قیمت مضامین شائع ہوتے رہے، ۴۱۔ ۴۰؁ء میں ان کا مقالہ ’’اقبال اور برگساں‘‘ کے عنوان سے تین قسطوں میں چھپا، اس مقالے سے پہلی بار فلسفہ میں ان کے تبحر کا اندازہ ہوا، یہ بھی قابل ذکر ہے کہ صولت پبلک لائبریری رام پور میں انہوں نے جب یہ مقالہ پیش کیا تو اس نشست کے صدر، مولانا سید سلیمان ندوی ہی تھے، اس کے بعد اقبال کے اخلاقی تصورات، اقبال کی ریاست، اقبال کا فکری ارتقاء، اقبال کی ابن سینا کے مزعومہ فلسفہ عشق کی تشریح، اقبال تصوف اور عقلیت جیسے مقالات کئی کئی قسطوں میں شائع ہوئے، معارف میں ان کا آخری مضمون مارچ ۱۹۹۱؁ء میں ’’مولانائے روم اور ان کی مثنوی معنوی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا، اقبال اور فلسفہ اقبال ان کا خاص موضوع رہا، پہلے مضمون کا آغاز انہوں نے اس رائے کے اظہار سے کیا تھا کہ اقبال غالباً پہلا مسلمان فلسفی ہے جس نے مغربی فلسفہ کی بنیاد پر مشرقی خیالات کی عمارت کھڑی کی اور ایک مکمل نظام کی تشکیل کی، اس اقبالی نظام کی مکمل تشریح قریب نصف صدی گزرنے کے بعد ان کے مضمون اقبال تصوف اور عقلیت میں ہوئی، یہ مضمون دیکھا جائے تو خود مولانا عبدالسلام خاں کے فکری ارتقاء کی دلیل ہے، اقبال ان کے ممدوح تھے اور یہ مدح، حسن کلام سے زیادہ حسن پیام کا نتیجہ ہے، ان کا خیال تھا کہ اقبال کی مابعد الطبیعیاتی فکر بہت تجریدی، دقیق اور گہری ہے، اس کو مغربی آراء و افکار کو سامنے رکھے بغیر سمجھنا ممکن نہیں، بہ قول مولانا مرحوم ’’اقبال کے ذاتی مطالعہ اور تقابلی مطالعہ کا جدا جدا مطالعہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے ایماء سے ہوا اور ذاکر صاحب نے ان کو یہ مشورہ اسی وقت دیا تھا جب معارف میں ان کا مضمون ’’اقبال اور برگساں‘‘ پر چھپا تھا، بعد میں مولانا مرحوم کی ایک کتاب افکار اقبال کے نام سے شائع ہوئی جس میں انہوں نے اقبال کی ذاتی زندگی کے علاوہ مابعد الطبیعیات، اخلاقیات، سیاسیات اور اقتصادیات جیسے موضوعات پر اقبال کے تعلق سے تحریریں سپرد قلم کیں، اقبال کے دقیق و عمیق مطالعہ کے لیے یہ کتاب ذخیرہ اقبالیات میں چند بہترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے، فلسفہ سے دلچسپی کی وجہ سے انہوں نے نٹشے کی کتاب کا ترجمہ ملفوظات زرتشت کے نام سے کیا، کمال یہ ہے کہ یہ کارنامہ بھی انہوں نے نوعمری میں انجام دیا تھا، فلسفہ کی چنان و چنیں نے بہتوں کی طرح ان کو خدا کی بات سے بیگانہ نہیں کیا، قرآن مجید سے ان کو ہمیشہ شغف رہا، مولانا عبدالوہاب خاں کی تفسیر کے دو ڈھائی پاروں کو انہوں نے اپنے تشریحی حاشیوں کے ساتھ شائع کیا، اس کے علاوہ ان کے اور بھی مقالات اور کتابیں ہیں، فنافی العلم ہونے کے باوجود وہ شہرت سے دور رہے، ہمارے اسلاف کی تمام خوبیوں، تواضع، انکسار، خندہ جبینی اور نرم گفتاری کے بھی وہ مجموعہ اور نمائندہ تھے، گوشہ نشین تھے، اعزاز و مناصب کی خواہش سے دور گو کچھ سرکاری اعزازان کو ملے بھی لیکن ان کے علم و فضل کا اعتراف افسوس ہے شایان شان نہیں کیا گیا، ادہر عرصے سے ان کی کوئی خبر نہیں تھی، ان کو بھی جن پر خبر رکھنے کی ذمہ داری تھی، ان کے رخصت ہونے سے رام پور ہی کی نہیں ہندوستان کی ایک ایسی شخصیت سے محرومی کا احساس ہے، جس کا ثانی اس کے میدان میں مشکل سے نظر آتا ہے، سلام علی عبدالسلام۔ (’’ ع ۔ ص‘‘، مئی ۲۰۰۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...