Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر قمر رئیس

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر قمر رئیس
ARI Id

1676046599977_54338519

Access

Open/Free Access

Pages

757

پروفیسر قمر رئیس مرحوم
پروفیسر قمر رئیس بھی اپریل کی آخری تاریخوں میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ایک مہینہ پہلے ’’ایوان اردو‘‘ کے خصوصی اداریہ میں جب انہوں نے چند جانے والوں، خاص طور پر فضا ابن فیضی کا ماتم کرتے ہوئے تمنا ظاہر کی تھی کہ اگر موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے تو کاش یہ دینوی اور علامتی طور پر سچ ہوتی لیکن اردو کے درد و بام پر سوگ کا عالم طاری دیکھ کر بڑی حسرت سے کہا کہ یقین نہیں آتا کہ جانے والوں کی رحلت محض ایک ماندگی کا وقفہ ہے، افسوس یہ ماتم کرنے ولا چند دنوں بعد اسی کاروان رفتگان کا حصہ بن کر اردو دنیا کو ایک دیدہ ور صاحب دانش سے محرومی کا کرب دے گیا۔
ان کا وطن شاہ جہاں پور اور نام مصاحب علی خاں ہے لیکن قمر رئیس کی شہرت کی چمک میں اصل نام و وطن چھپ کر رہ گئے، علی گڑھ میں تعلیمی مراحل سے گزرکر تدریسی منزلیں طے کرتے رہے، اس راہ میں تاشقند و سمرقند سے بھی گزر ہوا لیکن شہرت کو بال و پروان کے قلم نے عطا کیے، ۱۹۳۲؁ء میں جب وہ پیدا ہوئے تو اردو کے ترقی پسندوں کی تحریک صرف ذہنوں میں تھی لیکن قمر رئیس کا عالم شباب آیا تو ترقی پسند تحریک کی مقبولیت بھی شباب پر آئی اور فطری طور پر عہد شباب کی بعض بے اعتدالیاں بھی ساتھ لائی، یہ کہنا بے احتیاطی نہیں کہ قمر رئیس کے ذہن کی سلامتی نے ان کو اس فکر سے محفوظ رکھا کہ ترقی پسند ادب کو قدیم ادب اور اس کی بہترین روایات کا منکر ہونا چاہئے، انہوں نے اردو تنقید کو اپنا موضوع بنایا تو اس اقرار کے ساتھ کہ تلاش و تفحص کا جذبہ ہی تنقید کا نقطہ آغاز ہے اور یہ کہ ادب کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں جستجو کا عمل جتنا گہرا، محیط اور متوازن ہوگا، اتنا ہی غوروفکر کے نتائج سچائی سے قریب ترہوں گے، ان کی تنقید کو سماجیاتی تنقید کا نام دیا گیا جس سے وہ زیادہ متفق نہیں تھے، بعد کی زندگی میں انہوں نے پریم چند کو اپنے مطالعہ کے لیے خاص کیا ان کی کئی کتابیں پریم چند کے تعلق سے ہیں لیکن ان کا قلم صرف اسی کا پابند نہیں رہا، شعر و افسانہ پر بھی ان کی نگارشات نے اردو تنقید کے معیار کو بلند تر ہی کیا، ایک کتاب اقبال کے شعور و فن پر بھی ہے اور یہ ان کی تنقیدی تلاش وتوازن کا ثبوت بھی ہے، مطالعہ کی گہرائی اور تجزیہ میں اعتدال و توازن اور اسلوب میں شائستگی نے ان کو ان کے قبیلے میں واقعی امتیاز بخشا، ادعائیت اور کسی خاص مسلک کی متعصبانہ ترسیل بلکہ تبلیغ کاداغ ان کے دامن تحریر پر شائد ہی نظر آئے، انہوں نے ترجمہ کا فن اور روایت کے نام سے ایک مجموعہ مضامین مرتب کیا، اس کتاب کا مقدمہ ان کی غیرمعمولی نظر کا گواہ ہے۔
کتابوں کے علاوہ انہوں نے ادبی صحافت سے مسلسل تعلق رکھا، عصری آگہی اور نیا سفر کے بعد وہ دہلی کی اردو اکیڈمی کے رسالہ ’’ایوان اردو‘‘ سے وابستہ ہوئے، ایوان اردو کی مقبولیت میں ان کی وجہ سے بڑا اضافہ ہوا، وہ اردو اکیڈمی کے وائس چیرمین ہوئے تو سمیناروں اور مذاکروں کے ذریعہ اردو کے ایوان میں کئی شمعیں روشن کیں، گذشتہ سال انہوں نے علامہ شبلی کے تعلق سے ایک وقیع سمینار کا اہتمام کیا، اس موقع پر ان کی شبلی شناسی کے جوہر بھی کھلے، دارالمصنفین کے لیے ان کی ایک تحریر بھی بڑی اثر انگیز شائع ہوئی، ایوان اردو میں ان کے اداریوں کا لہجہ ترقی پسندی سے زیادہ حقیقت پسندی کی جانب مائل نظر آنے لگا تھا، فضا ابن فیضی کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ ’’ایک دین دار خانوادے سے تعلق کے باوجود ایک واضح، سیکولر اور مفکرانہ ذہن کے مالک تھے‘‘ اگر وہ اور جیتے رہتے تو یہ اعتبار اور زیادہ ہوتا، طلبہ سے شفقت اور ان کی ہر ممکن اعانت ان کی خاص خوبی تھی، زندگی میں ان کو کئی اعزاز ملے، دعا ہے کہ ان کی نیکیاں آخرت میں ان کے کام آجائیں۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، مئی ۲۰۰۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...