Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا ابو محفوظ الکریم معصومی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا ابو محفوظ الکریم معصومی
ARI Id

1676046599977_54338520

Access

Open/Free Access

Pages

757

آہ! مولانا ابومحفوظ الکریم معصومی مرحوم
علامہ ابومحفوظ الکریم معصومی نے ۱۷؍ جون ۲۰۰۹؁ء کو اس عالم فانی کو الوداع کہا اور کلکتہ کی زمین نے علم و تحقیق کے آسمان کو اپنی آغوش میں لے لیا، یقینا ان کی وفات سے مطالعہ و تحقیق کی دنیا میں عرصے تک خلا محسوس کیاجائے گا، فنانی العلم ہستیاں اب نایاب ہیں اور ان کے اٹھ جانے سے واقعی علم کے اٹھ جانے کا احساس ہوتا ہے۔
دارالمصنفین سے ان کا تعلق نصف صدی سے زیادہ کی مدت پر محیط ہے، وہ جب ڈھاکہ یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر تھے تو اس وقت یعنی ۱۹۴۸؁ء میں ان کا مضمون ’’تفسیر طبری کی اہمیت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا، یہ تعلق اس طرح قوی سے قوی تر ہوتا گیا کہ وہ آخری وقت تک رسالہ ’’معارف‘‘ کی مجلس ادارت اور دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے رکن رہے، اس لیے دارالمصنفین میں ان کے رحلت کی خبر اور بھی زیادہ غم واندوہ کے ساتھ سنی گئی۔
مولانا کی زندگی کا بیشتر حصہ بنگال میں گزرا لیکن اصلاً مولدووطن صوبہ بہار کا نہایت مردم خیز قصبہ بہار شریف ہے، ان کے والد مولانا محمد امیر حسن نے کلکتہ اور ڈھاکہ میں مدۃالعمر تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیئے لیکن وطن کی خاک ان کو بہار شریف کھینچ لائی، مولانا محمد امیر حسن کے دو صاحب زادے ہوئے اور دونوں علم و تحقیق کے آفتاب و ماہتاب نکلے، ایک تو ڈاکٹر محمد صغیر حسن معصومی، جنہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ابن باجہ اندلسی کی کتاب النفس کو مرتب کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، ان کے بعض مقالے معارف میں شائع ہوئے، پاکستان بننے کے بعد وہ وہاں کے تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوئے اور اسلام آباد میں ۱۹۹۶؁ء میں وفات پائی، ہمارے مولانا ابومحفوظ الکریم معصومی ان سے چھوٹے تھے، ان کی تعلیم میں والد صاحب کے علاوہ صغیر حسین معصومی کی توجہ بھی شامل رہی، ان کے علاوہ ان کے اساتذہ میں مفتی عمیم الاحسان مجددی، سید ولایت حسین بیربھومی، مفتی محمد شفیع حجۃ اﷲ فرنگی محلی انصاری، علامہ عبدالرحمان کاشغری جیسے نامور علماء بھی ہیں، تعلیم کی تکمیل کے ساتھ ہی مولانا معصومی نے مدرسہ عالیہ کلکتہ سے درس و تدریس کا آغاز کیا اور مسلسل اس محنت و دیانت سے معلمی کے فرائض انجام دیئے کہ حکومت ہند نے ان کو عربی زبان کے بہترین استاذ کی سند سے نوازا، سبکدوش ہوئے تو مغربی بنگال کے وقف بورڈ اور اردو اکیڈمی کے چیرمین بنائے گئے اور ۱۹۹۱؁ء میں ان کو صدر جمہوریہ نے عربی زبان و ادب کی مجموعی خدمات کے اعتراف میں سند توصیف سے بھی سرفراز کیا، دنیاوی اعزاز و عہدے اور بھی ملے لیکن یہ اعزاز ہوں یا سرکاری ملازمت یا کلکتہ کے امام عیدین کا منصب کوئی بھی طلب علم اور تحقیق کی رہ نوردی میں حائل نہ ہوسکا، ان کی تحریروں کا بڑا حصہ عربی زبان میں ہے، اردو میں بھی ان کی نگارشات کا زیادہ تر موضوع عربی ادب ہی رہا، مخطوطات کی تحقیق، ترتیب اور تعلیق سے ہمیشہ دلچسپی رہی، شرح الالفات لابن انباری، مسئلہ صفات الذاکرین والمتفکرین، القول المسموع فی الفرق بین الکوع و الکرسوع، ارجوزتاں مطبوعہ کتابیں ان کی مخطوطات شناسی کی شاہد ہیں، ان کے علاوہ معلوم ہوا کہ نسب قریش اور کتاب التعلیقات والنوادر اور دو مرتبہ مخطوطے، ابھی غیر مطبوعہ ہیں، ان کے عربی مقالات و مضامین کا ایک مجموعہ بحوث وتنبیہات کے نام سے دو جلدوں میں بیروت سے شائع ہوا ہے، ان کے تین عقیدت مند نوجوان فضلا ڈاکٹر محمد اجمل ایوب اصلاحی، محمد عزیز شمس اور مولانا ابوسبحان روح القدس ندوی کو اس کی ترتیب اور طباعت و اشاعت کی سعادت ملی، اس میں ابوجعفر المصادی، ابوعلی الہجری، قدامہ بن جعفر، شرف الدین البوصیری، صدر الدین الشیرازی وغیرہ کے علاوہ خسروو غالب کی شاعری کا عربی زبان میں تعارف کرایا ہے۔
مطالعہ کی وسعت اور مضامین کے استحضار اور نظر کی گہرائی کی وجہ سے علمی تسامحات پر ان کا نقد و تبصرہ بھی ان کی بڑی خصوصیت ہے، اردو میں بھی ان کے اس قسم کے مقالات و مضامین اگر شمار کیے جائیں تو شاید یہ سینکڑوں میں ہوں، ابن جریر طبری سے غالب تک ان مضامین سے ان کے علم کے بے کرانی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، یہاں ابن جریر طبری والے مضمون کے متعلق یہ کہنا بے محل نہیں کہ معارف میں ان کا یہ مضمون اس وقت چھپا جب وہ ۱۷-۱۶ سال کے تھے، اس نوعمری کے باوجود یہ مضمون اتنا مکمل تھا کہ مولانا عبدالماجد دریابادی اور دیگر اکابر نے ان کو خط لکھ کر مبارکباد دی، ۱۹۴۸؁ء میں تفسیر طبری کی اہمیت اور اپریل ۱۹۴۹؁ء میں معانی القرآن للطبری جیسے مقالات کے لکھنے والے کے متعلق یہ تصور بھی آج محال ہے کہ یہ کسی ۱۸-۱۷ سالہ طالب علم کے قلم سے ہیں، ان کو ترجمہ نگاری پر بھی پوری قوت تھی، معارف میں ان کے مضمون ’’کنثالث بلنثیا‘‘ کو مثال میں پیش کیا جاسکتا ہے، گذشتہ صدی میں اسپین کے اس نامور عرب شناس کو سب سے پہلے معصومی صاحب نے معارف کے ذریعے اردو دنیا سے روشناس کرایا۔
عربی اور اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے رہے، درس و تدریس اور دوسرے قومی امور کی انجام دہی کے ساتھ ان کے وقت اور کام میں یہ برکت واقعی غیر معمولی ہے، علمی و تعلیمی اداروں سے تعلق کو بھی وہ نباہتے رہے، دارالمصنفین کے ساتھ وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء، مدرسۃ الاصلاح، ایشیاٹک سوسائٹی کے رکن تھے، ندوہ میں انہوں نے کئی لکچر دیئے، ان کی عبقریت تھی کہ وہ شعروسخن کا نہایت اعلا ذوق رکھتے تھے، سخن گو تھے اور نثر کی طرح شعر بھی تینوں زبانوں یعنی عربی، فارسی اور اردو میں کہتے تھے، مولانا سید سلیمان ندویؒ کی مشہور نعت و مناجات کی انہوں نے جس طرح تخمیس کی وہ ان کی قدرت کلام کا بہترین نمونہ ہے۔
رسوخ فی العلم اور شرق و غرب میں مقبولیت، دنیوی اعزازوں کی کثرت کے ساتھ تواضع، کسرنفسی اور خاکساری کی دولت بھی خوب ملی تھی، اپنے چھوٹوں سے بھی وہ شاخ ثمربار کی طرح جھک کر ملتے اور اپنی خوش مزاجی و خوش گفتاری سے پندار علم کے تمام حجابوں کو اٹھادیتے، اس خاکسار نے آخری بار کلکتہ میں ان کے دولت کدہ پر حاضری دی تھی، اس دولت کدے کا کیا حال بیان کیا جائے، ہمارے متقدمین و علماء صوفیہ کے تذکروں میں، زہد، سادگی، استغنا اور دنیوی زیب و زینت سے نفور کی ساری داستانیں ہم نے ان کے اس چھوٹے سے کمرے میں دیکھ اور پڑھ لیں، جہاں ایک معمولی چارپائی کے چاروں طرف صرف کتابیں تھیں، یہی دیوان خانہ اور یہی خواب خانہ بھی تھا۔
مولانا کی زندگی بیرون کی طرح اندرون میں بھی یکساں تھی، یہ جملہ بظاہر عام سا ہے لیکن جو مولانا مرحوم کو ذرا بھی قریب سے جانتے ہیں، ان کی نظر میں وہ سارے مصائب اور آزمائشیں بھی ہیں جن پر مولانا کے صبر کو شاید صبرایوبی کہنا زیادہ مبالغہ نہیں، وہ مسلسل درد پر درد سہتے رہے لیکن ان کے چہرے اور گفتگو سے کرب کا اندازہ کم لوگوں کو ہوسکا، وہ یقینا قیامت کے دن ان خوش بختوں میں ہوں گے جن کے صبر کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں اور نوازشوں اور حقیقی راہ یابی کا وعدہ ہے، اولئک علیھم صلوات من ربھم ورحمۃ واولئک ھم المھتدون۔ [البقرۃ:۱۵۷]
( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، جولائی ۲۰۰۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...