Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا حبیب ریحان خان ازہری ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا حبیب ریحان خان ازہری ندوی
ARI Id

1676046599977_54338521

Access

Open/Free Access

Pages

759

مولانا حبیب ریحان خاں ازہری ندوی
(اشتیاق احمد ظلی)
معارف کے لیے مولانا ابومحفوظ الکریم معصومی کے سانحہ ارتحال کا غم ابھی کم نہ ہوا تھا کہ مولانا حبیب ریحان خاں ازہری ندوی بھی اپنے مالک حقیقی سے جاملے، اناﷲ۔ وہ علماء کے اس زمرے میں تھے جن کے رسوخ فی العلم میں کوئی شبہ نہیں، مطالعہ اور اس سے زیادہ فکر کی وسعت ان کی علمی شخصیت کی پہچان تھی۔ والد ماجد مولانا محمد عمران خاں بھوپالی ندوی کی تربیت اور ندوے اور جامعۃ الازہر کی تعلیم اور لیبیا میں تدریس نے فکر و نظر کے افق ان پر اور بھی روشن کردیئے تھے، ان کی کتابوں کے موضوعات بھی ان کی مشکل پسند طبیعت کے غماز ہیں۔ مولانا محمد عمران خاں ندوی مرحوم کے وہ فرزند ہی نہیں تھے ان کی علمی و مذہبی وراثت کے امین بھی تھے۔ علامہ شبلی کے عاشق تھے اور اسی نسبت سے معارف اور دارالمصنفین سے بھی محبت کا تعلق تھا۔ ان کی وفات کی خبر اس وقت ملی جب میں اپنی والدہ کی وفات کی خبر سن کر گاؤں آیا تھا۔ غم دو چند ہونا تھا، تعزیت کے لیے پروفیسر مسعود الرحمان خاں ندوی کو فون کیا جو مرحوم کے برادر غم زاد سے زیادہ دوست اور رفیق کار رہے ہیں۔ تسلی کے کلمات کے بعد دعا یہی ہوتی ہے کہ آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔ (۱گست ۲۰۰۹ء)
آہ! مولانا حبیب ریحان خاں ندوی مرحوم
مولانا حبیب ریحان خاں ازہری ندوی ۸؍ اگست کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوکر اپنے مالک حقیقی سے جاملے، اناﷲ وانا الیہ راجعون، علم و تحقیق اور فکر و نظر کے لیے ان کا اٹھ جانا بڑا اور سخت سانحہ ہے، علم و فکر کی نسبت جن شخصیتوں سے معتبر قرار پاتی ہے، مولانا ازہری ندوی کی شخصیت ان میں سے ایک اور نمایاں تھی۔
وہ بھوپال دارالاقبال کے اس خانوادے کے چشم و چراغ تھے جس نے ریاست بھوپال میں شروع سے دینی و اصلاحی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا، مولانا محمد عمران خاں ازہری ندوی اس خاندان کے گل سرسبد تھے اور مولانا حبیب ریحان خاں ان کے فرزند ارجمند ہی نہیں بجاطور پر سرلابیہ تھے، ۱۳؍ اگست ۳۶؁ء کو وہ بھوپال میں پیدا ہوئے، خاندانی روایات کے مطابق تعلیم کی تکمیل دارالعلوم ندوۃ العلما سے کی، فراغت کے بعد کچھ عرصے کے لیے ندوہ اور تاج المساجد میں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر مزید تعلیم کے لیے مصر کا رخ کیا، قاہرہ یونی ورسٹی اور عرب لیگ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد جامعہ ازہر سے عربی زبان و ادب اور پھر اس کے شعبہ دینیات سے تخصص بھی کیا، عربی زبان و ادب پر قدرت اس درجہ حاصل ہوئی کہ لیبیا میں عربی زبان کے استاد ہوئے اور قریب پچیس سال تک یہ خدمت پوری نیک نامی سے انجام دیتے رہے لیکن ان کی یہ بڑی خوبی ہے کہ دیار غیر میں اردو ماحول سے دور رہ کر بھی وہ اردو میں برابر لکھتے رہے، ان کی تحریر شروع سے بڑی سادہ اور بیساختہ رہی، مولانا عبدالماجد دریابادی نے ان کی تحریروں کی قدرافزائی کی، ان کے رسالہ صدق میں ان کے خطوط تک مولانا دریابادی اہتمام سے شائع کرتے، کسی نو عمر لکھنے والے کے لیے یہ اعزاز کی بات تھی، برہان اور دوسرے رسائل میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے رہے، معارف میں ان کا پہلا مقالہ ۶۵؁ء میں ’’یہود کی تصویر، قرآن اور بائبل میں‘‘ کے عنوان سے دو قسطوں میں چھپا اور اس کے بعد ان کے مقالات برابر معارف کے صفحات کی زینت بنتے رہے، مثلاً پوپ کا وثیقہ اور اس کا تحلیلی تجزیہ، سر کے بالوں کی شرعی حیثیت، مولانا محمد علی جوہر کا مرثیہ از احمد شوقی مصری، عقیدہ توحید، مغربی افکار کی یورش اور علامہ شبلی کا کارنامہ، زکوۃ کا انفرادی و اجتماعی نظام، اقبال کی علمی جستجو، تورات و انجیل کی دو بشارتیں جن کے مصداق حضورﷺ ہیں، محمدﷺ انسانیت کے معالج بائبل کی دو بشارتوں کی روشنی میں، حرم نبوی کے واردات و مشاہدات، عالم اسلام کی جامعہ ازہر کا حال ، معارف میں شائع شدہ ان مقالات کے عنوانات سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ علم کا دائرہ کتنا وسیع، کتنا متنوع اور کتنا سنجیدہ تھا، ان کے علم اور ان کے مطالعہ کی وسعت کا حقیقی اندازہ صرف ان ہی کو ہوسکتا ہے جو ان سے قریب رہے، علم کا ایسا استحضار، کلام وفقہ کے ساتھ زبان و ادب میں اب شاید اور خال خال ہی نظر آئے، استحضار کی برکت تھی کہ ان کا اشہب قلم نہایت سرعت سے قرطاس و قلم کی وادیوں کو طے کر لیتا، ان کی کتابوں کی فہرست خاصی طویل ہے، ان میں مطبوعہ تو کم ہیں غیر مطبوعہ بہت زیادہ ہیں، مطبوعات میں تخلیق انسانی کا مقصد، مغربی تہذیب کا انحطاط و علاج ، مسلم پرسنل لاء، اسلام عقائد اور خصوصیات، جذبات شوق، موزوں پر مسح، قرآنی دعائیں وغیرہ ہیں، کتابوں کی اشاعت کے لیے انہوں نے خود اپنا تصنیفی اداراہ قائم کیا، ۷۲؁ء میں اس کی بنیاد ان کی کتاب تخلیق انسانی کی اشاعت سے مولانا محمد عمران خاں ندوی نے رکھی، اس وقت اس کتاب کی رسم اجرا کا منظر بھی بھوپال کی علمی تاریخ میں یادگار بن گیا کہ اس میں شہر کی تمام دینی علمی اور ادبی ہستیاں جمع تھیں، میں اس وقت ابتدائی درجات کا طالب علم تھا لیکن مولانا محمد عمران خاں ندوی کی یہ بے پناہ محبت تھی کہ حلقہ طلبہ میں سے انہوں نے میرا انتخاب کیا، آج بھی وہ سارے منظر سامنے ہیں بعد میں یعنی ۹۱؁ء میں اس تصنیفی ادارے کی جدید عمارت کا افتتاح حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے دست مبارک سے ہوا، یہیں سے اسلام، خصوصیات اور عقائد شائع ہوئی جو مصر کے مشہور عالم ڈاکٹر شیخ محمد یوسف موسیٰ کی ایک کتاب کا جزوی ترجمہ ہے اور اس سے فاضل مترجم کی ترجمہ نگاری کی خوبی بھی واضح ہوتی ہے، لیبیا سے آنے کے بعد بھوپال میں ان کی زندگی مسلسل عمل سے عبارت رہی تصنیف و تالیف کے علاوہ وہ دارالعلوم تاج المساجد کے معتمد تعلیم کی حیثیت سے سرگرم عمل رہے تو ساتھ ہی اخبار بھوپال ٹائمز کے پروپرائٹر وایڈیٹر بھی رہے، بھوپال کے علاوہ پورے ملک میں ان کی لیاقت کا اعتراف رہا، رابطہ ادب اسلامی، فیکلٹی آف تھیالوجی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی،مسلم مجلس مشاورت، ملی کاونسل کے وہ موقر رکن بنائے گئے، بیرون ملک وہ برطانیہ کے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور ملیشیا کے انٹرنیشنل اسلامک کیلنڈر پروگرام کے بھی رکن رہے، صدر جمہوریہ کی جانب سے ان کو عربی زبان کی خدمت کے لیے سند اعتراف کے اعزاز سے بھی نوازاگیا، دارالمصنفین سے ان کی عقیدت کے لیے یہی کافی ہے کہ انکی سب سے عمدہ تحریریں معارف کے لیے وقف ہوئیں، اصل یہ ہے کہ ان کو علامہ شبلی سے عجب والہانہ محبت تھی، اس کا اظہار ان کی نجی محفلوں میں تو ہوتا ہی تھا، انہوں نے اس محبت کو پائندہ اس طرح بنایا کہ ان کی ہر کتاب میں انتساب صرف علامہ شبلی کے نام ہوتا، یہ انتساب سرنامہ کی حیثیت سے ان کی کتابوں کی پہچان بن گیا جس میں انہوں نے اپنی عقیدت کے پھول اس طرح نچھاور کیے کہ ’’دارالتصنیف والترجمہ کا انتساب ندوہ تحریک کے روح رواں اور معمار حقیقی، دارالمصنفین کے موسس، اردو کے لافانی ادیب و شاعر، علوم اسلامیہ کے محقق اور سیرت نگار رسولؐ اعظم ’’شبلی‘‘ کے نام کرتے ہوئے مجھے فخر و مسرت ہے، شبلی کے نام اور کام کا سایہ علم و ادب کا ابرکرم بن کر میری اور بے شمار علما و ادبا کی تحریری خدمات سیرابی بخشتا رہا ہے‘‘ پورے ایک صفحے کے انتساب کا یہ صرف ایک حصہ ہے، افکار و خیالات کے اظہار اور احقاق حق میں انہوں نے کبھی مصلحت دیکھی نہ وقت کی نزاکت کی پرواہ کی، ان کے بعض خیالات سے ان کے مخلص ترین متعلقین کو اختلاف بھی رہا بعض مسائل میں ان کے تفردات کے جواز کے لیے کافی حیلوں اور دلیلوں کی ضرورت ہے لیکن ان کی سوچ کی پاکی اور ان کے لہجے کی بے ساختگی، کبھی تلخی نہیں پیدا ہونے دیتی تھی، ان کے اسی معروضی مزاج نے ان کو علمی سمیناروں میں بڑی مقبولیت بخشی سچ یہ ہے کہ علمی مجالس میں ان کی موجودگی سے رونق میں اضافہ ہوتا تھا، خاندانی و جاہت، مالی فراغت، علمی اعزازات کی نعمت سے اﷲ تعالیٰ نے ان کو اس دنیا میں نوازا اور حق یہ ہے کہ انہوں نے ان نعمتوں کی قدر اس طرح کی کہ کبھی ان کے چہرے یا عمل کی کسی ایک شکن سے بھی غرور اور پندارکی ایک جھلک بھی نہ ظاہر ہوئی ، بھوپال کی زندہ دلی کی وہ تصویر تھے، آہستہ آہستہ وہاں کے کوہ و کمراپنے کلیموں سے خالی ہوتے جاتے ہیں، شعلہ سینائی کی تجلیاں معدوم کیوں نہ ہوں؟ اﷲ تعالیٰ بال بال مغفرت فرمائے۔
( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، ستمبر ۲۰۰۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...