Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر اسرار احمد

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر اسرار احمد
ARI Id

1676046599977_54338526

Access

Open/Free Access

Pages

761

پروفیسر اسرار احمد
(اشتیاق احمد ظلی)
مشہور سائنس داں اور مسلم یونیورسٹی کے ہر دل عزیز استاذ پروفیسر اسرار احمد ۱۲؍ اپریل کو ایک طویل بیماری کے بعد انتقال کرگئے۔ تدفین اگلے دن یونیورسٹی قبرستان میں ہوئی۔ اس طرح حیات مستعار کا جو سفر ۱۹؍ دسمبر ۱۹۴۰؁ء کو اعظم گڑھ کے ایک گاؤں مہوارہ کلاں سے شروع ہوا تھا اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان کے انتقال سے ہندوستان کے مسلم معاشرہ میں سائنس کے میدان میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا مشکل ہے۔ اسرار صاحب نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں پائی، ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ پاس کی بستی بشپ نگر سے کیا۔ ۱۹۵۹؁ء میں شبلی نیشنل کالج سے بی۔ ایس۔ سی کیا اور گورکھپور یونیوسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس طرح ان کے مستقبل کی عظمت کی اساس یہیں پڑی۔ انہیں اس کالج سے بڑا تعلق خاطر تھا۔ ۱۹۶۱؁ء میں مسلم یونیورسٹی سے فزکس میں ایم۔ ایس۔ سی کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اسی سال بحیثیت لکچرر ان کا تقرر ہوگیا اور زندگی کا بڑا حصہ مادر علمی کی خدمت میں گزرا۔ ۱۹۸۴؁ء میں پروفیسر ہوئے اور ۱۹۸۸؁ء سے ۱۹۹۱؁ء تک صدر شعبہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ملک اور بیرون ملک کئی باوقار سائنسی تحقیقی اداروں کے ممبر رہے۔ اپنی تحقیقات کے سلسلے میں بارہا بیرون ملک کا سفر کیا اور سائنس کے اعلیٰ تحقیقاتی مراکز میں کام کیا۔ مرکز فروغ سائنس کے بانی ڈائریکٹر اور تہذیب الاخلاق کے مدیر رہے۔ ۱۹۹۸؁ء میں یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ لے کر کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی، جدہ منتقل ہوگئے تھے۔ جب تک صحت نے اجازت دی اپنی تحقیقی سرگرمیوں میں اور وہاں سائنس کی اساس پختہ کرنے میں مصروف رہے۔
اسرار صاحب کے مطالعہ و تحقیق کا موضوع Theoretical Nuclear Physics تھا۔ Quantum Scattering Theory کے میدان میں ان کی تحقیقات اساسی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں جن مسلم اسکالرز نے سائنس کے میدان میں امتیاز حاصل کیا ان میں اسرار صاحب کو نمایاں مقام حاصل تھا۔ عالمی سطح پر ان کی تحقیقات کا اعتراف کیا گیا۔ ان کے علمی اکتسابات نے مادرعلمی کے وقار کو بلند کیا۔ ریسرچ سے ان کی شیفتگی اس حد تک پہنچ چکی تھی جہاں ایک دانش جو کو نہ تو اپنی بیماری اور بے آرامی کا خیال رہتا ہے اور نہ دوسرے مسائل کا۔ دردکش دوا سے وقتی آرام مل جاتا اور وہ پھر ایک نشاط تازہ کے ساتھ کام میں لگ جاتے۔ اس کے دردناک اثرات و عواقب کا ادراک ہوا تو تلافی کا وقت گزر چکا تھا۔
ان کے مرتبہ کے ایک سائنس داں کی ترجیحات اس کے اپنے موضوع اختصاص اور اپنی تحقیقات تک محدود ہوتی ہیں۔ لیکن ہر اصول کے کچھ مستشنیات ہوتے ہیں اور اسرار صاحب ان ہی مستشنیات میں شامل تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی زندگی میں سائنس کی اہمیت اور اولیت کے ساتھ ساتھ ملت اور معاشرہ کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا شعور بھی تھا۔ مسلمانان ہند کی زبوں حالی کے گہرے تجزیہ سے ان کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ جب تک مسلمانوں کے درمیان سائنس کی تعلیم عام نہیں ہوگی اور مسلم معاشرہ میں سائنسی مزاج نہیں پیدا ہوگا اس وقت تک ان کے حالات میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہوسکتا۔ مسلمان بچوں کی بڑی اکثریت ابھی مدارس میں تعلیم پاتی ہے۔ اگر مدارس میں سائنسی مضامین نصاب تعلیم کا حصہ بن جائیں اور اس ذمہ داری سے بحسن و خوبی عہدہ برا ہونے کے لیے مدارس کے اساتذہ کی ضروری حد تک تربیت کی جاسکے تو ملت کے اندر سائنس کی تعلیم کی ضرورت کا احساس پیدا کیا جاسکتا ہے اس ضرورت کی تکمیل کے لیے ان کی کوششوں سے ۱۹۸۵؁ء میں یونیورسٹی میں مرکز فروغ سائنس (Centre for Promotion of Science) کی داغ بیل پڑی اور وہ اس کے پہلے ڈائرکٹر مقرر ہوئے۔ ۱۹۹۱؁ء تک انہوں نے یہ ذمہ داری جس طرح سنبھالی اور اس کے مقاصد کی تکمیل کے لیے جو غیر معمولی مساعی کیں اور مدارس پر اس کے جو اثرات مرتب ہوئے ان کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ البتہ مدارس کے نصاب تعلیم میں عصری علوم کو شامل کرنے کی تحریک جس کی صداء بازگشت اب ہر طرف سنائی دیتی ہے اور اب تک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے اس کا آوازہ پہلے پہل ان ہی نے بلند کیا۔ دور حاضر میں علی گڑھ تحریک کے مقاصد کی توسیع و اشاعت کی یہ ایک بڑی نمایاں اور اہم کوشش تھی۔
سرسیدؒ نے مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح کے لیے، جس کے بغیر ان کی ترقی کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا، ایک رسالہ کے اجراء کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس مقصد سے انہوں نے انگلینڈ سے واپسی کے فوراً بعد اور کالج کی تاسیس سے کئی سال پہلے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی اشاعت شروع کی۔ علی گڑھ تحریک کے مقاصد کی توسیع و اشاعت اور اس کے حق میں رائے عامہ کی تشکیل اور اصلاح معاشرہ کے میدان میں تہذیب الاخلاق نے جو کلیدی کردار ادا کیا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس رسالہ کے بند ہونے کے ایک صدی بعد جناب سید حامد کی مساعی سے سرسید کی اس تاریخی یادگار کی ۱۹۸۱؁ء میں پھر اشاعت شروع ہوئی۔ اسرار صاحب کی متنوع اور گوناگوں صلاحیتوں اور مسلم معاشرہ کی اصلاح کے تئیں ان کی گہری دلچسپی کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس رسالہ کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی اور کئی سال تک بحسن و خوبی اسے نبھایا۔ ان کے اداریے ملی مسائل کے سلسلہ میں ان کی گہری سوچ اور فکرمندی کے غماز ہوتے تھے۔ ان کی شستہ اردو تحریروں کو دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ تھیوریٹکل نیوکلیر سائنٹسٹ کے قلم سے نکلی ہیں۔ انتظامی سطح پر اس رسالہ کی مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے باب میں انہوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔
اسرار صاحب کی شخصیت کی کئی جہات تھیں اور ان کی علمی دلچسپیاں متنوع اور گوناگوں تھیں۔ چونکہ دیانت داری اور اخلاص ان کی شخصیت کے عناصر ترکیبی میں شامل تھے اس لیے انہوں نے جو کام بھی کیا پوری طرح اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے، البتہ اس ضمن میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ اگر ان کے موضوع اختصاص سے یکسر الگ ذمہ داریاں نہ سونپی گئی ہوتیں جن کی انجام دہی میں ان کو اپنی صلاحیت اور وقت کا معتدبہ حصہ صرف کرنا پڑا اور اس کے نتیجہ میں ان کو وہ یکسوئی اور دل جمعی بھی حاصل نہ رہی جو نظریاتی سائنس جیسے موضوع پر ریسرچ کے لیے ناگریز تھی، تو انہوں نے اپنے موضوع پر اور بھی بہت کچھ گراں قدر تحقیقات یادگار چھوڑی ہوتیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ کام کرنے والوں سے توقع کی جاتی ہے کہ ہر کام وہی کریں۔ اس کے نتیجہ میں وقت اور صلاحیت کا جو ضیاع ہوتا ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔
اپنے علمی اور تحقیقی کمالات اور اکتسابات سے قطع نظر اسرار صاحب ایک نہایت شریف النفس انسان تھے۔ شرافت، مروت اور وضع داری ان کی شخصیت کے امتیازی پہلو تھے۔ وہ دوستوں کے دوست تھے لیکن دشمن کسی کے بھی نہیں تھے۔ جن لوگوں سے ان کو تکلیف پہنچتی تھی ان کے ساتھ بھی وہ ہمیشہ اچھائی کا معاملہ کرتے ان سے فیض تو بہتوں کو پہنچا لیکن دانستہ انہوں نے نقصان شاید کسی کو بھی نہ پہنچایا ہو۔ اﷲتعالیٰ نے ان کو غیرمعمولی قوت برداشت عطا کی تھی۔ دوسروں کا نقطہ نظر بڑی فراخ دلی سے سنتے اور اس کو مناسب وزن دیتے۔ بڑے ہر دل عزیز استاد تھے۔ طلبہ سے بڑی شفقت کا برتاؤ کرتے اور ان کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے۔ طلبہ ان کی شاگردی کو قابل فخر تصور کرتے تھے۔ قحط الرجال کے اس دور میں ایک ایسی شخصیت کا اٹھ جانا ایک بڑا سانحہ ہے۔
ذاتی طور پر میرے لیے ان کی رحلت ایک بڑا سانحہ ہے۔ پانچ دہوں پر محیط عرصہ میں زندگی میں بہت سے نشیب و فراز ہوئے لیکن ان کی محبت اور شفقت ہمیشہ ویسے ہی حاصل رہی۔ شبلی کالج کے اس مایہ ناز فرزند کو شبلی کی علمی یادگار دارالمصنفین سے بڑا تعلق خاطر تھا۔ ان دونوں اداروں سے تعلق خاطر کے باعث وہ مشہور سائنس داں ڈاکٹر عبدالسلام کو، جن سے ان کے گہرے مراسم تھے، اعظم گڑھ لے گئے تاکہ مسلمانان ہند کے ان دو بڑے اداروں کو دیکھ سکیں۔ آخری دنوں میں بیماری کی شدید تکلیف کے باوجود انہوں نے دارالمصنفین کو یاد رکھا اور اس کی مدد کے لیے کچھ عملی اقدامات بھی کیے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی کمیوں سے درگزر فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ (مئی ۲۰۱۰ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...