Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر مختار الدین آرزو

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر مختار الدین آرزو
ARI Id

1676046599977_54338527

Access

Open/Free Access

Pages

762

آہ! پروفیسر مختار الدین احمد آرزو مرحوم
دارالمصنفین اور دنیائے علم و تحقیق کے لیے یہ خبر بڑی اندوہ ناک رہی کہ ۳۰؍ جون ۲۰۱۰؁ء کو مشہور محقق، مدون اور عالم پروفیسر مختارالدین احمد آرزو نے اس جہاں فانی کو الوداع کہا، اِناﷲ وَاِنا اِلَیہ رَاجِعُون۔
وہ اس بزم دوشیں کے گویا آخری رکن تھے جس میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، امتیاز علی عرشی اور مالک رام جیسے اہم نام شامل ہیں، ۱۴؍ نومبر ۱۹۲۴؁ء میں ان کی زندگی کا سفر پٹنہ سے شروع ہوا جس کی آخری منزل علی گڑھ کی سرزمین قرار پائی، عمر بھر کی بے قراری کے لیے قرار یہیں مقدر تھا۔ ان کے والد مولانا ظفر الدین قادری خود جید عالم اور صاحب تصانیف کثیرہ اور مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے شاگرد رشید تھے، سلسلہ نسب شیخ عبدالقادرر جیلانی تک پہنچتا ہے، اجداد میں سید ابراہیم نامی بزرگ، سلطان فیروز شاہ تغلق کے عہد میں ہندوستان آئے اور سپہ گری میں نمایاں حیثیت حاصل کی، بزرگوں کی اعلیٰ روایات کی پاسبانی نسل در نسل ہوتی رہی، نانہال بہار کی مشہور اور نیک نام بستی استھانواں میں تھا، پہلا نام غلام معین الدین رکھا گیا لیکن بعد میں وہ مختارالدین احمد ہوئے، والدہ کی آرزو تھی کہ بیٹا جامعہ ازہر تک جائے، یہ آرزو عالمی جنگ کی وجہ سے پوری نہ ہوئی لیکن علم و تحقیق کی طلب میں وہ خود مکمل آرزو بن گئے۔
والد بزرگوار سے تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا جو شمس الہدیٰ سے ہوتا ہوا مدرسہ بورڈ کے فاضل حدیث کی سند تک دراز ہوا، لیکن طلب علم کی آرزو کے لیے یہ کافی نہیں تھا، انھوں نے جدید تعلیم کے لیے مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا، ڈاکٹریٹ کی سند لی، پی ایچ ڈی کے مقالے کی رہنمائی کے لئے عبدالعزیز میمن جیسی باکمال ہستی نصیب ہوئی، نتیجہ یہ ہوا کہ عربی زبان کی معلمی وہیں ملی جہاں اب تک طالب علمی کی زندگی تھی لیکن یہ زندگی رکتی کہاں ہے، اسی سال وہ آکسفورڈ گئے، جہاں مشہور مستشرق پروفیسر گب سے تلمذ کا موقع ملا، واپس آئے تو مزید ترقیاں منتظر تھیں، شعبہ اسلامیات میں ریڈر ہوئے بعد میں شعبہ عربی میں پروفیسر ہوئے۔ صدر شعبہ بنے، ڈین بنے، وظیفہ یاب ہوئے لیکن ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوئے۔ بہار میں مولانا مظہرالحق یونیورسٹی قائم ہوئی تو اس کے بجاطور پر پہلے چانسلر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔تعلیم و تدریس کی مسلسل مصروفیت کے باوجود تحقیق و تدوین کے لیے خدا جانے کہاں سے ان کے وقت میں برکت آئی کہ بقول مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم ’’پوری علمی و تعلیمی زندگی میں اصل سروکار عربی زبان سے رہا اور مدت العمراسی میں تصنیف و تالیف اور تحقیق و جستجو کرتے رہے‘‘، یہ بات اس لحاظ سے بالکل درست ہے کہ المجع العلمی الھندی کا قیام ہو یا اس کے مجلہ کا اجرا ہو، المختار من شعر ابن الدمینہ، قصیدۃ الاعشی الکبیر فی مدح النبیﷺ جیسے نوادر مخطوطات کی تدوین ہو یا الحماسۃ البصریہ الصدر الدین علی بن ابی الفرج البصری، رسالۃ المبرد النحوی، کتاب مجالس المیمنی اور دیوان شعر الامیر موید الدولہ اسامہ بن منقذ الکنای الشیرازی کی ترتیب و تعلیق ہو، ان کا زیادہ سروکار عربی زبان و ادب سے رہا، لیکن اردو میں بھی ان کا تحقیقی سرمایہ کم نہیں، خصوصاً نایاب مخطوطات کی تلاش اور پھر ان کی تدوین میں کربل کتھا، تذکرہ آزردہ، تذکرہ شعرائے فرخ آباد، دیوان حضور عظیم آبادی اور تذکرۂ حیدری ان کے کارناموں میں شامل ہیں، تذکرہ حیدری کا مخطوطہ ان کو کیسے حاصل ہوا، اس کی تفصیل دراصل ان کے ذوق جستجو کی صحیح تصویر ہے، پروفیسر گب نے ایک دن باڈلین لائبریری میں جب یہ نادر نسخہ ان کو پیش کیا تو یہ کہہ کر کہ ’’تم اس کتاب کو دیکھنے کی ایسی سخت جدوجہد نہ کرتے تو غالباً یہ کتاب کسی گوشے میں اب بھی پڑی رہتی‘‘، آرزو صاحب نے لندن جاکر برٹش میوزیم کے ایک نسخے سے اس کا مقابلہ کیا اور جب یہ ۱۹۶۶؁ء میں چھپی تو پہلی بار اردو دنیا کو معلوم ہوا کہ سید حیدر بخش دہلوی کا یہ کارنامہ کس شان کا ہے اور اس سے زیادہ آرزو صاحب کے حواشی کس قدر قیمتی ہیں۔
اردو کے اعلیٰ محققین کے لیے غالب ناگزیر ہیں، آرزو صاحب نے غالبیات میں دلچسپی لی تو ذکر غالب، نقدغالب اور احوال غالب جیسی کتابوں نے ان کو ماہرین غالب کی صف میں سرفراز کردیا، احوال غالب دراصل اس علی گڑھ میگزین کے غالب نمبر کے مضامین کی کتابی شکل ہے جس کو آرزو صاحب نے زمانہ طالب علمی میں مرتب کرکے اپنی شہرت کی بنیاد رکھی تھی، اس کے علاوہ نوادر غالب کے نام سے انہوں نے مرزا غالب کے وہ سارے رقعات و مکاتیب اپنے مفید حواشی سے جمع کیے جو کہیں اور مجموعی طور پر شائع نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے اخباروں، بیاضوں یا پھر قدیم مجموعوں میں شامل تھے، اکبر الٰہ آبادی کے مکاتیب کو بھی انھوں نے جمع کیا اور نورالحسن نقوی کی اطلاع کے مطابق عبدالحق (بابائے اردو؟) پر ان کی کتاب کا کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا، ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں ذرا تھکتے نہیں تھے، اہل علم سے جتنی اور جیسی خط و کتاب ان کی رہی، اس کی مثال شاید ہی ملے، غالب نمبر کے لیے انہوں نے دتاتریہ کیفی، مالک رام، منشی مہیش پرشاد، قاضی عبدالغفار اور قاضی اختر جونا گڑھی جیسے مشاہیر سے زمانہ طالب علمی میں جس طرح مراسلت کی وہ ہمارے آج کے اسکالروں کے لیے قابل تقلید مثال ہے، پروفیسر محفوظ الحق کے نام ان کے خطوط ۱۹۳۹؁ء کے ہیں یعنی صرف پندرہ سال کی عمر میں انہوں نے دیوان صائب کے متعلق پروفیسر حق کو اس قدر متاثر کیا کہ انہوں نے خدابخش لائبریری میں کچھ کام کے لیے ان سے امداد کی درخواست کی، سترہ سال کی عمر میں انہوں نے مخطوطات کی نمائش اور وہ بھی بہار میں، یہ ۱۹۴۲؁ء کا ایک عجیب واقعہ ہے‘‘، ان کے نام سے منسوب علامہ سید سلیمان ندویؒ کا ایک خط نقوش کے مکاتیب نمبر میں شامل ہے جس کا سن کتابت ۱۹۲۵؁ء ہے لیکن ۱۹۲۴؁ء میں پیدا ہونے والے کے نام یہ خط ممکن ہی نہیں، ۱۹۳۵؁ء مان لیا جائے تو محض گیارہ سال کی عمر میں سید صاحبؒ کا ان کو یہ کہہ کر خطاب کرنا کہ ’’صدیقی الفاضل الاعزاالکریم‘‘ حیرت انگیز ہے، لیکن یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق سید صاحبؒ سے بھی تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ دارالمصنفین اور معارف سے ان کا ربط و تعلق برابر قائم رہا، قصیدۃ الاعشی پر ان کا ایک مقالہ معارف میں ملتا ہے لیکن انہوں نے معارف کو کثرت سے خطوط لکھے، ایک بار مولانا گیلانی کا ایک نادر خط حاصل کرکے معارف کے قارئین کی نذر کیا، سید صاحبؒ سے اس خاکسار تک دارالمصنفین کی چار نسلوں سے ان کا یہ تحریری تعلق بجائے خود نہایت قدر کے لائق ہے اور ہوا بھی یہی کہ ان کو معارف کی مجلس ادارت میں شریک کیا گیا، مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم نے ان کی عربی و علمی تحقیقات کو شایان شان خراج عقیدت پیش کیا، یہ مقالہ مولانا کی وفات کے بعد ان کی آخری مطبوعہ تحریر کی شکل میں معارف کی دو قسطوں میں شائع ہوا جس سے آرزو صاحب کے علمی مرتبہ و مقام کا اصل تعین آسان ہوجاتا ہے، اور ایک فنافی العلم ایسی شخصیت کا ادراک ہوتا ہے جو ہندوستان ہی نہیں، دوسرے متعدد ملکوں کی خاک چھان کر علم و حکمت کے بکھرے ہیرے جمع کرتی رہی، مدت العمر کی اس جاں فشانی کی قدر ان کی زندگی میں اہم اعزازات سے کی گئی اور یقین ہے کہ قرآن مجید کی زبان کی خدمت کا بہترین صلہ اور رحمت حق کے جوار کا اعزاز بھی ان کو حاصل ہوگا، اﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، جولائی ۲۰۱۰ء)
ستمبر ۲۰۱۰ء

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...