Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر عمر خالدی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر عمر خالدی
ARI Id

1676046599977_54338529

Access

Open/Free Access

Pages

764

ڈاکٹر عمر خالدی
(اشتیاق احمد ظلی)
ڈاکٹر عمر خالدی ۲۹؍ نومبر کو بوسٹن میں ایک حادثہ میں جاں بحق ہوگئے۔ اِناﷲ وَ اِنا اِلَیہ رَاجِعُون۔ ان کے انتقال سے ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل پر سنجیدہ علمی تحقیق کے میدان میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا مشکل ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی صورت حال اور ان کو درپیش مسائل پر جس انداز اور معیار کا تحقیقی کام انہوں نے انجام دیا وہ غیر معمولی ہے۔ وہ ایک مدت سے ان مسائل سے بہت دور امریکہ میں مقیم تھے اور وہاں ایک باوقار ادارہ سے وابستہ تھے۔ مادی نقطہ نظر سے ایک پرمسرت اور مطمئن زندگی گزارنے کے لیے ان کو وہ سب کچھ حاصل تھا جس کی عام طور پر تمنا کی جاتی ہے لیکن اس آسودگی اور فارغ البالی کو انہوں نے زندگی کا مقصد اور مطمح نظر نہیں بنایا بلکہ دستیاب وسائل کو ایک بڑے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جو ان کو بہت عزیز تھا اور دراصل جس سے ان کی زندگی عبارت تھی۔ وطن عزیز میں مسلمانوں کی صورت حال پر ان کا دردمند اور حساس دل بے قرار رہتا تھا اور ان پر گزرنے والے نامہربان موسموں کی تپش وہ وہاں محسوس کرتے تھے۔ اس صورت حال پر کڑھنے اور زمانے کا شکوہ کرنے کے بجائے انہوں نے یہ طے کیا کہ دنیا کے سامنے ایک ایسا آئینہ رکھ دیا جائے جس میں ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل اور ان پر گزرنے والے آلام و مصائب کی صحیح تصویر نظر آجائے۔ چنانچہ انہوں نے اس مسئلہ کو اپنی تحقیق و جستجو کا موضوع بنایا اور یہ کام اس دیدہ ریزی اور ژرف نگاہی سے انجام دیا کہ اس سے زیادہ کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ان کی تحقیقات پختہ اور ناقابل تردید دلائل و شواہد پر استوار ہوتی تھیں۔ یہ بڑا مشکل کام تھا لیکن وہ اس کے صبر آزما تقاضوں سے بڑی کامیابی سے عہدہ برا ہوئے۔ یہ ان کی دردمندی اور لیاقت دونوں کا ثبوت ہے۔ اس طرح ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق ایک نیا لٹریچر سامنے آیا۔ اس کا پورا کریڈٹ عمر خالدی کو جاتا ہے۔
ڈاکٹر عمر خالدی ۱۹۵۳؁ء میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت سے پانچ سال سے پہلے ریاست حیدرآباد کا انڈین یونین میں انضمام ہوچکا تھا۔ پولیس ایکشن کے نتیجہ میں وہاں کی مسلم آبادی ابتلا و آزمائش کے جس دور سے گزری تھی اس کے اثرات ابھی وہاں کی فضا میں باقی رہے ہوں گے۔ اسی فضا میں انہوں نے احساس و شعور کی آنکھیں کھولیں اور ممکن نہ تھا کہ ان کا تاثر پذیر دل و دماغ اس سے متاثر نہ ہوتا۔ اپنی آئندہ زندگی میں انہوں نے جو کام کیے اور جن مقاصد کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیں ان کو شاید کسی نہ کسی درجہ میں ان کے عہد طفولیت میں حیدرآباد میں پائی جانے والی فضا اور اس کے نتیجہ میں ان کے دل و دماغ پر مرتسم ہونے والے اثرات میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں ہوئی اور اعلیٰ تعلیم امریکہ اور انگلینڈ میں۔ تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ دنوں کنگ سعود یونیورسٹی ریاض میں کام کیا پھر مستقل طور پر امریکہ منتقل ہوگئے اور میساچوسٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT) سے وابستہ ہوگئے اور آخر تک وہیں رہے۔ علم و تحقیق کا ذوق والد ماجد سے ورثہ میں ملا۔ ان کے والد پروفیسر ابونصر محمد خالدی اسلامیات کے اچھے عالم اور عثمانیہ یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔ ڈاکٹر عمر خالدی نے دو درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں۔ خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق ان کی کتابوں نے بڑا قبول عام حاصل کیا اور ان کے اثرات وسیع پیمانہ پر محسوس کیے گئے۔ ان کی ابتدائی کتابیں حیدرآباد سے متعلق تھیں۔ ان میں اسٹیٹ آف حیدرآباد آفٹر دی فال (State of Hyderabad After the Fall) نے خاص طور سے بڑی شہرت حاصل کی۔ پولس ایکشن اور ریاست حیدرآباد کے انڈین یونین میں انضمام کے نتیجہ میں وہاں کی مسلم آبادی پر جو کچھ گزری اس کی داستان وقت کی گرد میں دب کر رہ گئی تھی اور منضبط انداز میں اس کی مکمل تصویر سامنے نہیں آسکی تھی۔ ڈاکٹر خالدی نے پنڈت سندرلال کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں پہلی بار اس کی تفصیلات سے دنیا کو آگاہ کیا۔ یہ کتاب ۱۹۷۸؁ء میں شائع ہوئی تھی۔ گو حیدرآباد سے ان کی دلچسپی آخر تک قائم رہی اور انہوں نے اس تعلق سے کئی کتابیں تصنیف کیں اور اسی وجہ سے انہیں حیدرآباد کے سوانح نگار (Chronicler of Hyderabad) کے نام سے موسوم کیا گیا، لیکن پھر ان کی دلچسپی کا دائرہ ہندوستانی مسلمانوں اور ان کے مسائل تک وسیع ہوگیا۔ اس سلسلہ میں ان کی پہلی کتاب فسادات میں آرمی، پولیس اور دوسرے پاراملٹری دستوں کے کردار کے بارے میں تھی۔ Khaki and Ethnic violence in India: Army, Police and Paramilitary Forces During Communal Riots. ۲۰۰۳؁ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل سے متعلق مطالعات اور تحقیقات کے میدان میں ایک بڑی پیش رفت تھی اور مدتوں بحث و مباحثہ کا موضوع اور ہندو انتہاپسند تنظیموں کی شدید تنقید کی ہدف بنی رہی۔ اس سلسلہ کی ان کی دوسری بہت اہم کتاب Muslims in Indian Economy جو ۲۰۰۶؁ء میں شائع ہوئی اپنے موضوع پر ایک دستاویز کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ ان کتابوں میں جو بات بھی کہی گئی ہے پختہ شواہد اور دلائل کی بنیاد پر کہی گئی ہے۔ مختلف حکومتی اداروں کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف جس طرح امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے ان کتابوں کے ذریعہ اس کی ایک نہایت واضح اور موثر تصویر سامنے آجاتی ہے۔ ان کتابوں کے اثرات وسیع پیمانے پر محسوس کیے گئے۔ اگرچہ اس کا کھلے طور پر کبھی اعتراف نہیں کیا گیا لیکن یہ بات عام طور پر معلوم ہے کہ سچرکمیٹی کی طرف سے ملٹری میں ملازمت کرنے والے مختلف مذاہب کے پیروؤں کے عددی تناسب کے بارے میں جو معلومات دریافت کی گئی تھیں اس کی محرک دراصل ڈاکٹر عمر خالدی کی ثانی الذکر کتاب تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ فرقہ پرستوں کی زد پر رہے۔ انتقال سے کچھ دنوں پہلے آزادی کے بعد ملک میں اردو کے بارے میں پائی جانے والی صورت حال کے بارے میں برسوں کی محنت کے بعد ایک رپورٹ Urdu Report کے نام سے مرتب کی تھی۔ یہ رپورٹ انٹرنیٹ پر تو دستیاب کرادی گئی تھی لیکن ابھی شائع نہیں ہوسکی تھی۔ اس کتاب میں آزادی کے بعد سے اب تک اردو پر جو کچھ گزاری اس کی تفصیل کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں اردو کی تعلیم و تدریس کی صورت حال کا اعداد و شمار اور معتبر دستاویزی شواہد کی روشنی میں بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے۔
ان مسائل پر وہ جرائد اور اخبارات میں بھی برابر مضامین لکھتے رہتے تھے۔ ان خالص علمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہ امریکہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی مختلف انجمنوں کے کاموں میں بھی پوری دلچسپی سے شریک ہوتے تھے۔ ابھی گزشتہ دنوں ۹، ۱۰؍ اپریل ۲۰۱۰؁ء کو انہوں نے MIT میں Group Violence, Terrorism and Impunity - Challenges to Secularism and Rule of Law in India کے موضوع پر ایک کامیاب سمینار کا انعقاد کیا تھا۔ راقم حروف کا ان سے ۲۰۰۲؁ء سے ای۔میل اور فون کے ذریعہ رابطہ تھا۔ دارالمصنفین سے ان کو بڑا تعلق خاطر تھا۔ گزشتہ دنوں انہوں نے معارف کی پوری فائل منگوائی تھی۔ اس سلسلہ میں ان کے ذہن میں کوئی خاص منصوبہ تھا۔ ابھی جلد ہی کیمبرج یونیورسٹی کے اسلامی مخطوطات پروگرام (MITA) کے بورڈ آف ڈائریکٹرس پر ان کا تقرر ہوا تھا۔ اس منصوبہ کے تحت وہ دارالمصنفین میں محفوظ مخطوطات کی حفاظت اور دیکھ ریکھ کے لیے اس فنڈ سے گرانٹ منظور کرانے کے لیے کوشاں تھے۔ اگلے سال انہوں نے ملاقات کی ایک سبیل پیدا کی تھی لیکن اس سے پہلے ہی ان کی وقت موعود آگیا اور اب ان سے ملنے کی خواہش زندگی کی حسرتوں میں شامل ہوچکی ہے۔ الھم ارحمہ وادخلہ فسیح جناتک۔
( دسمبر ۲۰۱۰ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...