Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا مفتی محمدظفیر الدین

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا مفتی محمدظفیر الدین
ARI Id

1676046599977_54338532

Access

Open/Free Access

Pages

765

مفتی ظفیرالدین مرحوم
افسوس کہ مولانا مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی اس دنیا سے ۳۱؍مارچ کو رخصت ہوگئے۔ ان کے انتقال سے ایک ایسی شخصیت سے محرومی کا احساس ہوا جس کی ساری زندگی علوم اسلامیہ کی تحصیل، ترویج اور تبلیغ کے لیے وقف رہی۔ مفتی کا لفظ گویا ان کے نام کا جزو ہوگیا، کیونکہ وہ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے برسوں وابستہ رہے لیکن اصلاً وہ صاحب قلم عالم تھے، تصنیف و تالیف کی خوبی کہنا چاہئے ان میں بدرجۂ اتم موجود تھی، دیوبند کے فتاوی کی ایک درجن جلدوں کو انہوں نے بڑے سلیقے سے مرتب کیا لیکن علمی دنیا میں ان کی شناخت بلکہ اعتبار و اعتماد، اسلام کا نظام عفت و عصمت، اسلام کا نظام مساجد، اسلام کا نظام امن، اسلامی نظام معیشت جیسی نہایت مفید اور معلومات سے لبریز کتابوں سے قائم ہوا۔ نظام مساجد کی تالیف میں ان کو مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مفتی عتیق الرحمن عثمانی اور مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہم اﷲ کی توجہ اور رہنمائی حاصل ہوئی، انہوں نے جس سلیقے اور محنت سے یہ کتاب سپرد قلم کی اور معلومات کا قیمتی ذخیرہ اس میں جمع کیا اس کی داد مولانا گیلانی نے یہ کہہ کردی کہ ’’عربی میں شام کے ایک عالم جمال الدین القاسمی کی کتاب اس باب میں مشہور تھی مگر خیال ہے کہ احتواء و احاطہ میں مولانا ظفیر الدین کی کتاب کو دیکھ کر کم ترک الاول للاخرہ، کا اعتراف کرنا پڑتا ہے، اسی طرح ان کی ایک کتاب حیات مولانا گیلانی پر مولانا سیدابوالحسن علی ندوی نے لکھا کہ فاضل مصنف کی اس کتاب پر پیش لفظ لکھنے میں سعادت و عزت کا جو احساس اور قلبی مسرت حاصل ہورہی ہے وہ کم مواقع پر حاصل ہوئی، مولف کی ایک کتاب امارت شرعیہ کے مقدمے میں حضرت مولانا علی میاں نے لکھا کہ امارت کی تاریخ نگاری مشکل اور نازک کام تھا اور اس کے لیے مفتی صاحب ہر طرح سے اہل ہیں۔ اسی میں یہ جملہ بھی ہے کہ ’’اگر مجھے ہندوستان کے کسی صوبے پر رشک آتا ہے تو بہار پر اور اگر بہار پر رشک آتا ہے تو امارت شرعیہ کی وجہ سے‘‘ مفتی صاحب کی کئی اور کتابیں ہیں، مستند و معتبر حوالوں سے معلومات کی فراہمی اور اسلوب کی سادگی ان سب میں نمایاں ہے اور اس لحاظ سے وہ گویا دبستان شبلی و ندوہ کے نمائندے تھے، عملاً وہ دیوبند و ندوہ کے بزرگوں سے قریب تر رہے، دارالمصنفین سے بھی مخلصانہ تعلق رہا، ان کے کئی خطوط معارف میں چھپے اور مطبوعات جدیدہ میں ان کی کتابوں کا ذکر خیر رہا۔ ۱۹۲۶؁ء میں دربھنگہ کے ایک گاؤں پورہ نوڈیہا میں پیدا ہوائے یعنی قریب ۸۵ سال کی عمر میں جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کا دل ضرور مطمئن ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی صلاحیتوں کو قبولیت و برکت عطا فرمائی۔ علم کے ساتھ وہ حسن عمل کا بھی نمونہ تھے، سادگی، تواضع اور انکسار نے ان کی شخصیت کو جاذبیت عطا کردی تھی۔ فقہ اکیڈمی کی صدارت، مسلم پرسنل لابورڈ کی تاسیسی اور امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کی رکنیت ان کی قابلیت اور اہلیت کا اعتراف ہے، یقین ہے کہ حسن قبول کی یہ دولت بارگاہ الٰہی سے بھی ان کو عطا ہوگی، رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، اپریل ۲۰۱۱ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...