Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر عبدالقوی دسنوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر عبدالقوی دسنوی
ARI Id

1676046599977_54338535

Access

Open/Free Access

Pages

767

پروفیسر عبدالقوی دسنوی مرحوم
افسوس، پروفیسر عبدالقوی دسنوی اس دنیا سے رخصت ہوئے، اِناﷲ وَاِنا اِلَیہ رَاجِعُون۔ ۷؍ جولائی کو وہ بھوپال کی خاک میں آسودہ خواب ہوئے تو اردو کی دنیا صرف ایک شریف، متین اور نشیط صاحب قلم سے ہی محروم نہیں ہوئی، ایسے مخلص، فعال بلک مجاہد انسان کو کھوبیٹھی جس کا تعلق اس جنس سے تھا جس کو اب نایاب ہی کہا جاسکتا ہے۔
دیسنہ ان کا وطن تھا، سادات کا یہ گاؤں بہار کیا پورے ہندوستان میں ممتاز اور منفرد تھا کہ اکثر باشندوں نے تعلیم قدیم و جدید دونوں کو یکساں اہمیت دی۔ کم ایسی بستیاں ہیں جن کی خاک سے مولانا سید سلیمان ندوی، سید ابوظفر ندوی، سید نجیب اشرف ندوی اور سید صباح الدین عبدالرحمن جیسی شخصیتیں اٹھیں اور علم و قلم کے بادل بن کر ملک کے مختلف خطوں کو سیراب کرگئیں۔
پروفیسر عبدالقوی بھی اسی سلسلہ ابروسحاب کا ایک حصہ تھے۔ بچپن، وطن میں ضرور گزرا جہاں مدرسۃ الاصلاح سے تعلیم کا آغاز ہوا، ۴۲ء میں وہ آرہ کے ہائی اسکول کی آٹھویں جماعت میں تھے لیکن پھر وہ بمبئی آگئے جہاں ان کے والد پروفیسر سید سعید رضا ندوی درس و تدریس کی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے، قوی صاحب نے بمبئی کے مشہور سینٹ زیویر اسکول میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، بمبئی گویا وطن ثانی تھا لیکن قدرت نے ان کے لیے بھوپال دارالاقبال کی سرزمین اس طرح مقدر کی کہ ۶۱ء میں سیفیہ کالج کے شعبہ اردو کی خالی جگہ کے لیے ایک درخواست اور اس کی قبولیت نے ان کو ’’بھوپال والے عبدالقوی دسنوی‘‘ بنادیا، بمبئی کے ہنگامہ خیز اور پرشور ماحول سے نکلے تو کوہساروں، بیابانوں کے نشیب و فراز اور ان کے دامن میں بکھرے زندگی کے تازہ و شاداب جلوؤں اور پرسکون ماحول کو پاکر محسوس کیا کہ ’’دیرینہ آرزو‘‘ پوری ہوئی، ان کے الفاظ میں اس دیرینہ آرزو کی شرح تو نہیں ہوئی لیکن عملی طور پر یہ ضرور ظاہر ہوئی کہ انہوں نے اردو اور اس کے ذریعہ علم و ادب کی خدمت کے لیے یقینا کسی نقشے، راستے اور منزل کا تعین کیا تھا، سیفیہ کالج اس کا ذریعہ بنا، سیفیہ کالج اور اس کا شعبہ اردو ظاہر ہے کوئی انوکھا اور جدا نہیں تھا، بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور ان کے شعبہ ہائے اردو کی چمک دمک کے سامنے مقامی کالجوں کے دیوں کی بساط ہی کیا لیکن قوی صاحب کے عزم اور حوصلے نے وہ کر دکھایا جس کی توقع بھی عموماً نہیں کی جاتی، دیکھتے دیکھتے سیفیہ کالج کی شہرت اس کے شعبۂ اردو کی بلند پروازوں سے پورے ملک میں اس طرح پھیلی کہ اس کے خاص نمبروں، اس کی ادبی تقریبات اور اس کے ہونہار طالب علموں کا نام اور کام اہل نظر کی نظر میں آگیا اور ان ساری فتوحات کے پس منظر میں قوی صاحب کے خون جگر کی سرخی دمکتی رہی، ایسا نہیں کہ حالات ہر طرح مساعد و معاون تھے، خود قوی صاحب نے لکھا کہ برسوں وہ خود کو اس طرح اجنبی محسوس کرتے رہے کہ نہ تو جذبات کے اظہار کا یارا تھا اور نہ اپنے محسوسات و نظریات کو کھل کر بیان کرنے کا حوصلہ تھا، لیکن فرض کو فرض سمجھ کر اس کو ادا کرنے کی ہمت تھی کہ آہستہ آہستہ راہیں ہموار ہوتی گئیں اور ایسے لوگ جو اپنے مفادات سے مجبور ہوکر راستے کی رکاوٹ بنتے ہیں، الجھنے اور الجھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ آتے رہے اور ناکام و نامراد بھی ہوتے رہے۔ قوی صاحب کی فطری شرافت اس کریمانہ روش پر قائم رہی، جس کی سب سے بڑی خوبی لغو سے اعراض ہے، وہ اپنے ذمہ داروں کے لیے مخلص اور اپنے طلبہ کے لئے مشفق رہے، نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا شعبہ اردو ہر پہلو سے کامیابی کی ان منزلوں سے ہم کنار ہوا کہ گویا شعبہ اردو ہی سیفیہ کالج ہوگیا، حقیقت یہی ہے کہ اس شعبے نے سائنس، آرٹس اور کامرس کے دوسرے شعبوں کو مہمیز کیا جس کی وجہ سے ایک وقت اس کو ہندوستان کا سب سے اچھا اقلیتی کالج قرار دیا گیا۔ اس کامیابی میں قوی صاحب کا بڑا حصہ رہا اور اس کا اعتراف بھی کیا گیا، یہاں تک پروفیسر شبیہ الحسن نے جو لکھنو یونیورسٹی کے صدر شعبہ تھے ایک موقع پر کہا کہ ’’سیفیہ کالج کے شعبہ اردو کو دیکھ کر میں نے سبق حاصل کیا کہ شعبہ کو کس طرح ترقی کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچایا جاتا ہے، عبدالقوی دسنوی صاحب اپنی تحریروں میں صاحب اسلوب ہیں مگر وہ حسن انتظام اور ذوق اہتمام میں بھی قابل تقلید اسلوب کے مالک ہیں‘‘۔
قوی صاحب اور سیفیہ کالج ایسا موضوع ہے جو بڑا تفصیل طلب ہے، جہاں چمن میں ہر طرف کسی ایک کی داستاں اور طرز فغاں بکھری ہواس کے سیمٹنے کے لیے وقت چاہئے۔ حیرت ہوتی ہے کہ تعلیم اور تنظیم کی ہمہ وقت مصروف زندگی سے قوی صاحب کس طرح تحریر و تحقیق کے لیے وقت نکال لیتے تھے، لکھنے کا شوق تو تھا ہی، بھوپال آنے سے پہلے ان کا پہلا مضمون علی گڑھ کے سہ ماہی اردو ادب میں چھپا جو مولانا ابوالکلام آزاد کے ماہنامہ لسان الصدق کے متعلق تھا، خدا جانے یہ ابتدا کس مبارک ساعت میں ہوئی کہ ان کی تصنیفی و تالیفی زندگی پر مولانا آزاد ہی سایہ فگن رہے، مضامین لسان الصدق، مطالعہ غبار خاطر، ماہنامہ لسان الصدق، یادگار آزاد، تلاش آزاد، ابوالکلام آزاد، ابوالکلام محی الدین آزاد، ہفتہ وار پیغام، معاصرین و متعلقات آزاد، جواہر آزاد جیسی کتابیں ساہتیہ اکادمی، مکتبہ جامعہ، خدابخش لائبریری، نسیم بک ڈپو اور یوپی، بہار، مہاراشٹر کی اردو اکادیمیوں کی جانب سے شائع ہوتی رہیں، مولانا آزاد سے ان کے تعلق و تاثر کی وجہ تھی کہ ان کی نظر میں مولانا بے غرضی کی تصویر، بے باکی کے پیکر، جری، بے باک، محب وطن اور قومی اتحاد کے شیدائی تھے، ان کی علمی و ادبی عقبریت ان سب پر مستزاد، اسی عقیدت نے ان کو جب سینئر فیلوشپ دلائی تو انہوں نے اس احساس کے ساتھ کہ اب تک جامع ترین سوانح آزاد مرتب نہیں ہوئے انہوں نے حیات ابوالکلام آزاد کو بڑے اہتمام سے مرتب کرکے شائع کیا، ۹۱۲ صفحات پر مشتمل یہ کتاب واقعی ذخیرہ ابوالکلامیات میں موقر اضافہ ہے جس کے پانچ ابواب میں مولانا آزاد کی زندگی کا گویا ہر رخ سامنے آگیا، مولانا آزاد کے سوانح میں علامہ شبلی کا ذکر تو آتا ہے لیکن دارالمصنفین سے مولانا آزاد کے دیرینہ اور مسلسل تعلق کی داستانیں کم سنائی جاتی ہیں، اس کتاب سے یہ تشنگی بھی دور ہوئی، ۲۰۰۰؁ء میں چھپی یہ کتاب دسنوی صاحب کے تصنیفی سفر کی معراج ہے، اتنی ضخیم کتاب کی اشاعت کے مصارف ان کے صاحب زادے علی نواز دسنوی نے برداشت کیے تو شفیق باپ نے ان کو یہی دعا دی کہ وہ اچھے انسان اچھے ہندوستانی اور اچھے مسلمان بننے میں کامیاب ہوں، یہ دعا ان کی اولاد حقیقی کے ساتھ اولاد معنوی کے لیے بھی رہی، ان کے شاگرد بے شمار ہوئے اور قابل فخر شاگردوں کی تعداد بھی کم نہیں، مظفر حنفی، ڈاکٹر محمد نعمان خاں، پروفیسر خالد محمود، اقبال مسعود ندوی، جاوید اختر، یعقوب یاور، غفران اعظم، اسلم شیر وغیرہ کی کامیابیوں میں قوی صاحب کی تربیت اور دعاؤں کی برکت کا بڑا اثر ہے۔
قوی صاحب کی کامیابی میں سب سے بڑا جذبہ اردو سے ان کی محبت کا ہے، بھوپال کے ریاست سے پردیش ہونے کا عمل، تہذیبوں اور زبانوں کے تصادم جیسا تھا، کل تک جو شہر اردو تہذیب و تمدن کا مرکز اور شعر و ادب کا گہوارہ تھا اور جہاں بقول راجیندر سنگھ بیدی ’’آئے بغیر اردو کا ادیب صیقل نہیں ہوسکتا‘‘ ملک کے دوسرے اردو مراکز کی طرح یہاں بھی اردو کشی کا خطرہ اور خدشہ تھا، قوی صاحب کے سامنے یہ حقیقت تھی اسی لیے وہ اس شہر اقبال کی عظمت کو اردو کے حوالے سے حتی المقدور قائم رکھنا چاہتے تھے، ان کی ایک کتاب ’’میں اردو ہوں‘‘ اردو سے ان کی محبت کا بڑا موثر نقش ہے، انہوں نے ہماری زبان دہلی اور دوسرے رسائل میں مسلسل اردو کے مسائل پر اظہار خیال کیا کہ اردو والے اپنی زبان کی اہمیت اور اس کی خدمت اور موجودہ حالت سے باخبر رہ کر لسانی طور پر باعزت رہیں۔
دارالمصنفین سے ان کا تعلق ہمیشہ اخلاص کا رہا، حضرت سید صاحبؒ اور سید صباح الدین عبدالرحمن اور شہاب الدین دسنوی کے رشتوں نے اس کو مزید تقویت دی، حضرت سید صاحب کی صدسالہ تقریبات پیدائش کے موقع پر بہار اردو اکادمی نے سید صاحب کی حیات و خدمات پر ایک مفصل اشاریہ کی ضرورت محسوس کی تو اس اہم ذمہ داری کے لیے قوی صاحب سے درخواست کی گئی، اشاریہ سازی میں غیر معمولی مطالعہ کے ساتھ تحقیقی صلاحیت بھی مطلوب ہے، قوی صاحب کی یہ خوبی بھی ودیعت ہوئی تھی، انہوں نے غالب صدی میں ’’غالبیات‘‘ اور جشن انیس کے موقع پر ’’انیس نما‘‘، پریم چند صدی میں دھنپت رائے نواب رائے پریم چند اور اقبال صدی کے مناسبت سے ’’ہندوستان میں اقبالیات‘‘ جیسے کارآمد اور پراز معلومات اشاریئے تیار کیے تھے، سید صاحب پر اشاریئے کی درخواست تو ان کے دل کی آواز اور اس کی تیاری ان کے لیے بمنزلہ سعادت تھی، یہ اشاریہ انہوں نے بڑی محنت سے تیار کیا اور یہ یادگار سلیمان کے نام سے شائع ہوا۔ حضرت سید صاحب پر مولانا محمد عمران خاں ندویؒ نے تاج المساجد بھوپال میں ۸۵؁ء میں ایک باوقار اور یادگار سمینار کیا، اس موقع پر قوی صاحب ہر لمحہ مولانا ندوی کے ساتھ تعاون میں پیش پیش رہے، سید صاحب اور بھوپال کے تعلق سے مقالہ بھی پیش کیا، اسی سال نواب سلطان جہاں بیگم کا قصر سلطانی جہاں ریاست کے آخری حکمراں نواب حمید اﷲ خاں کی ساری زندگی گزری، جہاں علامہ شبلی نے دارالمصنفین اور سیرۃالنبی کے منصوبوں سے سلطان جہاں بیگم کو واقف کرایا، جہاں علامہ اقبال اور سرراس مسعود نے اپنے قیمتی شب و روز گزارے وہی قصر سلطانی، سیفیہ کالج کا باقاعدہ حصہ بنا، سمینار کے مندوبین کے اعزاز میں وہاں عشائیہ کا اہتمام تھا، مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اور پروفیسر نثار احمد فاروقی کی تقریر و تاثرات نے اس عشائیہ کو ناقابل فراموش بنادیا اور اس کا سہرا صرف قوی صاحب کے سر رہا۔
گزشتہ سال بھوپال کا سفر ہوا تو برادر محترم پروفیسر حسان خاں کی معیت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، ایک طویل بیماری کے بعد وہ کمزور نظر آئے لیکن گفتگو میں دل نشینی اور محبت کی چاشنی پہلے جیسی تھی اس سال ۹؍ جولائی کو مولانا محمد عمران خاں ندویؒ صدسالہ تقریبات کی مناسبت سے بھوپال میں ایک نشست تھی، دارالمصنفین کے مشاہیر کے خطوط بنام مولانا محمد عمران خاں کی رسم اجراء بھی تھی، خیال تھا کہ عبدالقوی صاحب سے ملاقات ہوگی اگر ان کو نشیط دیکھوں گا تو عرض کروں گا کہ حضرت سید صباح الدین صاحب کی صدسالہ یاددہانی کا بھی سال ہے، ان کی نہایت قابل قدر علمی، تاریخی، ادبی خدمات کا بھی کچھ حساب ہوجائے، لیکن کیا خبر تھی کہ وہ صرف دو روز پہلے اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے، سینٹ زیویر سے سیفیہ اور سیفیہ سے قصر سلطانی تک عروج کی داستان، ملاء اعلیٰ سے لقاء پر مکمل ہوئی۔ ایک نہایت شائستہ اطوار ، نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو ہستی کا نیستی ہونا واقعی بڑا نقصان ہے، نقصان کا یہ احساس اور سوا ہوجاتا ہے جب دل یہ کہتا ہے کہ،
اب یہ شکلیں نہ دکھائے گا زمانہ ہرگز
اﷲ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور ان کا بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے۔
( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، اگست ۲۰۱۱ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...