Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی
ARI Id

1676046599977_54338536

Access

Open/Free Access

Pages

769

ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی مرحوم
پروفیسر امیر حسن عابدی اور پروفیسر عبدالقوی دسنوی کا غم کم نہ تھا کہ جناب شرف الدین اصلاحی کے سانحہ ارتحال کی خبر دارالمصنفین اور پوری علمی دنیا کو سوگوار کرگئی۔ اِناﷲ وَ اِنا اِلَیہ رَاجِعُون۔
ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی اعظم گڑھ کی مردم خیز سرزمین سے اٹھے، ان کا مولد موضع سنجرپور ہے، مدرسۃ الاصلاح میں تعلیم حاصل کی، مدرسۃ الاصلاح کو اپنے جن فرزندوں پر ناز ہے اور یہ تعداد میں کم نہیں، ان میں ایک یقینا شرف الدین اصلاحی مرحوم بھی تھے، الاصلاح کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والوں نے اس کے مختلف ادوار تقسیم کیے ہیں، اس میں عہد زریں کی نمائندگی کرنے والوں میں بھی اصلاحی مرحوم کا نام شامل ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اصلاحیوں میں ان کی ذہانت سب سے نمایاں تھی۔
سنجرپور اور اعظم گڑھ کے اس لائق فرزند کو گروش روزگار نے پاکستان پہنچا دیا، کراچی میں رہ کر اصلاحی مرحوم کی ذہانت کے ساتھ ان کی مشکل پسند طبیعت کا بھی ظہور اس طرح ہوا کہ انہوں نے لسانیات کے موضوع پر تحقیق کے لیے سندھی زبان کا انتخاب کیا، سندھی زبان سیکھی اور ذراسی مدت میں اردو سندھی کے روابط کے رموز و اسرار فاش کرنے کے لائق ہوگئے، پی ایچ ڈی کے لیے ڈاکٹر رضی الدین صدیقی اور ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کی خواہش و فرمائش، اصلاحی صاحب کے لیے سخت آزمائش تھی، بقول ان کے ’’لسانیات میرا خاص مضمون نہ تھا اور سندھی سے میں ناآشنائے محض تھا، اس حالت میں اردو سندھی کے لسانی روابط پر تحقیقی کام کا بیڑا اٹھانا بڑی جسارت کی بات تھی‘‘ اصل بات یہ ہے کہ وہ چیلنجوں پر یقین کرنے والے تھے اور اپنی ہمت و محنت سے وہ بار عظیم کو اٹھانے میں کامیاب بھی ہوتے تھے، ہم ان کی زندگی سے زیادہ واقف نہیں لیکن ان کی ہمت و حوصلہ کی داستانیں کچھ سنی ہیں اور بعض چیزوں کا مشاہدہ بھی کیا ہے، مشاہدہ کی توفیق اس وقت ہوئی جب اصلاحی صاحب ذکر فراہیؒ کی تالیف کے سلسلے میں دارالمصنفین تشریف لائے اور کئی سال تک برابر ان کی آمد کا سلسلہ جاری رہا، اس وقت ان کی کتاب اردو سندھی کے لسانی روابط پاکستان کی مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے شائع ہوچکی تھی اور وہ غالباً اس وقت اسلام آباد کے موقر مجلہ فکر و نظر کی ادارت کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے مولانا حمیدالدین فراہیؒ کے حالات کی تلاش و تحقیق میں وہ جس طرح روز و شب ایک کرتے اور راستوں اور مسافتوں کو قطع کرتے رہے، وہ جذبہ ہمارے لیے حیرت انگیز تھا، ادارہ تحقیقات اسلامی پاکستان کی جانب سے ان کو یہ فراہی پروجیکٹ ملا اور اس شرط پر کہ یہ مدت صرف ایک سال کی ہوگی، اتنے بڑے پروجیکٹ کے لیے محض ایک سال کی یہ مدت یا تو اس کام کی اہمیت سے اغماض تھا یاپھر واقعی کوہ کن کی آزمائش تھی، کوئی اور ہوتا تو انکار کرتا یا پھر ایک سال میں خانہ پری کرکے مطمئن ہوجاتا لیکن شرف الدین مرحوم کی عزت نفس نے یہ گوارا نہ کیا وہ مسلسل کئی سال اپنے خرچ پر ہندوستان آئے اور دہلی سے کلکتہ تک جہاں جہاں کوئی نقش فراہی نظر آیا، تحقیق کی پیشانی خم کردی، دارالمصنفین بہرحال ان کی اس تحقیقی سرگرمی کا مرکز تھا، ۸۲؁ء کے بین الاقوامی اسلام اور مستشرقین سمینار میں بھی انہوں نے اپنا پر مغز مقالہ بعنوان ’’مستشرقین، استشراق اور اسلام‘‘ پیش کیا، ان کے قافلے میں ان کے ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتا اور مولانا عبدالقدوس ہاشمی کے علاوہ ڈاکٹر محمود احمد غازی، احمد خاں، حافظ محمد طفیل بھی موجود تھے، اس سمینار کی روداد بھی بڑے دلچسپ انداز میں لکھی، معارف میں ان کے چند مضامین بھی شائع ہوئے جیسے عہدنبوی میں اسلامی ریاست کا نظام تعلیم، اردو زبان و ادب میں قرآنی الفاظ کا استعمال وغیرہ، کچھ مضامین جو مولانا فراہیؒ کے تعلق سے ہیں وہ ذکر فراہی کی تحقیق و تدوین کے دور میں لکھے گئے، اصلاً ذکر فراہی وہ کتاب ہے جس کی وجہ سے شرف الدین مرحوم ہمیشہ زندہ رہیں گے، اس کتاب میں انہوں نے جس طرح گاؤں گاؤں جاکر روایتوں کی سماعت کی پھر ان کی صداقت و ثقاہت کے دلائل تلاش کیے، بقول شخصے اس سے علم رجال میں محدثین کی محنت کے واقعات پر یقین آگیا، لیکن اس سے زیادہ کرب و آزمائش سے وہ اس کتاب کی طباعت کے دوران گزرے، آزمائش ہی نہیں صدمے تھے، اتنے کہ ان ہی کے الفاظ میں ’’میرا کمال یہی ہے کہ اب تک زندہ ہوں‘‘ تفصیل ذکر فراہی کے دیباچے میں ہے، نسخہ ہائے وفا کی اس تالیف میں اپنوں کی بے وفائی اور سرد مہری سے ان کے دل پہ جو گزری اس کی کہانی وہ کچھ بیان کرگئے لیکن واقعتا ان کا دل و دماغ جن اذیتوں سے گزرا یقین ہے کہ اب اس کے بدلہ میں راحتیں ان کے ساتھ ہوں گی۔
شہرت اور عزت سے وہ ہم کنار ہوئے لیکن یہ ان کی طبعی شرافت تھی کہ وہ اپنے سے بہت چھوٹوں سے بھی اس محبت سے ملتے کہ خود بخود اپنے بڑے کا احساس ہونے لگتا، باتیں کرتے اور خوب کرتے اور ہم ان کی معصومیت، سادگی اور بھولے پن کو دیکھتے رہ جاتے، عرصے سے ان کی کوئی خبر نہیں تھی، اب جو خبر ملی تو اس طرح، کاش کوئی ان کے حالات تفصیل سے لکھ دے، معلوم تو ہوکہ،
دیوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
اﷲ تعالیٰ جوار رحمت میں جگہ دے، مغفرت کرے کہ بہرحال آزاد مرد تھے۔
( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، اگست ۲۰۱۱ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...