Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر شانتی سروپ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر شانتی سروپ
ARI Id

1676046599977_54338538

Access

Open/Free Access

Pages

770

ڈاکٹر شانتی سروپ
ڈاکٹر شانتی سروپ بڑی خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے، شخصیت پر نام اگر اثر انداز ہوتا ہے تو ڈاکٹر صاحب اس کا ایک سچا نمونہ تھے، سکوت و سکون کا پیکر، ہمیشہ ریشم و شبنم کی طرح بزم اور صہبا و نسیم کی مانند خراماں۔
جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم کے زمانہ میں وہ اکثر دارالمصنفین آتے، مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم سے بھی یہی تعلق رہا، کبھی کبھی وہ اس خاکسار کے کمرے میں بھی تشریف لاتے اور یہ صرف اس وضع داری کے پاس میں جس پروہ برسوں سے عمل پیرا تھے، ہمارے یہ دونوں بزرگ ان کا جس عزت و محبت سے استقبال کرتے اس سے اندازہ ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب فضل و کمال کی نعمت سے مالا مال ہیں اور جب برسوں پہلے ان کو دارالمصنفین کا رفیق اعزازی بنایا گیا تو یہ احساس اور قوی ہوگیا کیوں کہ دارالمصنفین کی تاریخ میں وہ پہلے غیرمسلم تھے جن کو اس علمی اعزاز سے نوازا گیا۔
مدت سے ان کی آمد کا یہ سلسلہ موقوف رہا اور جب ان کی خبر ملی تو اس طرح کہ وہ اس دنیا میں چلے گئے جہاں سے اب کبھی واپس نہ آئیں گے۔
ان کا ذکر چلا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے بڑی خاموشی سے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ علمی انہماک میں گزارا، خاص موضوع ہندوستان کی ثقافتی تاریخ تھا، جس میں انہوں نے کئی ایسی کتابیں مرتب کیں جو اپنے موضوع پر گہرے مطالعہ اور سچے تجزیے کی وجہ سے ہندوستان اور باہر کے ملکوں میں قدر و منزلت کے ساتھ قبول کی گئیں، جیسے آرٹس اینڈ کرافٹس آف انڈیا اینڈ پاکستان، ۵۰۰۰ یرس آف انڈیا آرٹس اینڈ کرافٹس آف انڈیا اینڈ پاکستان، فلورا اینڈ فونا ان مغل آرٹ، مغل آرٹ اے اسٹڈی ان ہینڈی کرافٹس، اس کے علاوہ سری لنکا کی سنہالی انسائیکلوپیڈیا میں اسی موضوع پر ان کا مفصل مقالہ شائع ہوا، وکٹوریہ اینڈ رابرٹ میوزیم نے بھی ان کے ایک تحقیقی مقالہ کو بڑے اہتمام سے شائع کیا۔
ہندوستان کی قدیم ثقافت خصوصاً مسلم دور حکومت میں فنون کی ترقی اور تہذیب و ثقافت کے غیر معمولی ارتقاء کے متعلق یہ بات مخفی نہیں کہ مغربی خصوصاً انگریز اہل قلم نے اس پوری سیاسی اور ثقافتی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا، برطانوی دور حکومت میں یہ احقاق حق آسان بھی نہیں تھا، لیکن آزادی ہند کے بعد غیر جانب داری اور انصاف کی نظر سے تاریخ ہند کا مطالعہ کا جو ماحول تیار ہوا، ڈاکٹر شانتی سروپ اس کی بہترین مثال بنے، تاریخ کی صداقتوں کے وہ متلاشی رہے، ۵۰۰۰ یرس آف آرٹس اینڈ کرافٹس میں انہوں نے مبسوط و مفصل تحریر میں جہاں مجسمہ سازی، تعمیر، مصوری، رقص، موسیقی، دستکاری وغیرہ موضوعات پر سیر حاصل بحث کی اور ہندوستان کے عہد قدیم سے مغل دور تک کی خصوصیات پر روشنی ڈالی، وہیں انہوں نے مسلمانوں کے دور حکومت کو ہندوستانی ثقافت کے ارتقاء میں اپنے عدیم المثال اثرات کی وجہ سے عظیم ترین سرمایہ قرار دیا، انہوں نے ثابت کیا کہ ہندوستانی فنون جمیلہ محض انفرادی ذوق کا آئینہ نہیں بلکہ ہر صاحب فن نے اپنے معاشرے کے نظریات و تخیلات اور اخلاقی اقدار و روایات کا احترام بھی ہمیشہ مدنظر رکھا، سلامت ذوق اصابت نظر کی یکسانی نے ہی غالباً ان کو دارالمصنفین سے قریب کیا، بزم تیموریہ، بزم مملوکیہ اور تمدنی جلوؤں نے ان کو تہذیبی تاریخ کی تالیف میں فراخ دلی اور وسعت نظر کی وہ سوغات دی جس نے دارالمصنفین سے ان کی قربت کو ہمیشہ استوار رکھا اور خود ان کی شخصیت میں وہ جاذبیت اور کشش پیدا کی جس سے مشترکہ تہذیبی رویوں کی شناخت قائم و ظاہر ہوکر رہتی ہے۔ ویسے بھی وہ اعظم گڑھ کے اس معاشرے سے تعلق رکھتے تھے جس کو مشترکہ تہذیبی روایت نے انفرادیت بخشی تھی، ۱۹۱۶؁ء میں پیدا ہوئے، ان کے والد وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے اور اس وقت وکالت کے پیشے سے اعظم گڑھ کے معروف مسلم خاندانوں کے زیادہ تر افراد بھی وابستہ تھے، خود علامہ شبلی کے اہل خاندان کے لیے یہی پیشہ ذریعہ معاش تھا اور وسیلۂ شرف بھی۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک چچا بھی نامور وکیل، دوسرے چچا ماہر تعلیم اور تیسرے زرعی سائنس داں تھے، ان کا دولت خانہ چندربھون واقعی خانہ قمر تھا جہاں جواہر لال نہرو اور شیاما پرشاد مکرجی کا نزول ہوتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے اعلیٰ تعلیم، وکالت ہی کی حاصل کی، الٰہ آباد یونیورسٹی سے انہوں نے گرچہ تاریخ میں ایم اے کیا لیکن بالآخر انہوں نے ایل ایل بی کا کورس کیا، ۴۳؁ء میں انہوں نے وکالت شروع کی لیکن وہ خود کہتے تھے کہ وہ وکالت سے کبھی ہم آہنگ نہ ہوسکے، تاریخی مطالعات کے جس شوق کی آبیاری، رابندرناتھ ٹیگور، سبھاش چندربوس، راجندرپرشاد، امرتا شیرگل اور مولانا آزاد کے افکار و توجیہات سے ہوئی تھی، وہ پروان چڑھتا ہی رہا، ان کے مضامین مسلسل موقر انگریزی رسائل میں شائع ہوتے رہے اور ۵۷؁ء میں جب ان کی پہلی کتاب آرٹش اینڈ کرافٹس شائع ہوئی تو بین الاقوامی سطح پر اس کی ستائش ہوئی، ڈی اے وی کالج میں انہوں نے شعبہ تاریخ قائم کیا، ۶۲؁ء میں وہ صدر شعبہ ہوئے، اس کے باوجود علم بلکہ کمال کی طلب کا یہ عالم تھا کہ اکسٹھ سال کی عمر میں انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی، یہ مقالہ ۸۴؁ء میں فلورا اینڈ فونا ان مغل آرٹس کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا، مغلوں کے فنون لطیفہ میں مناظر فطرت سے شیفتگی کی بے شمار دلکش ترین مثالیں تعمیرات، مصوری، خطاطی میں موجود ہیں جن کا حسن واقعی مسحور کن ہے مگر شانتی سروپ صاحب نے محسوس کیا کہ ہندوستان کے مورخین فنون نے اس کے اظہار و اعتراف میں بخل سے کام لیا اسی احساس نے ان کو اس مقالہ اور کتاب کی ترغیب دی۔ یہ ان کی پاک نیت کا اثر اور ثمر تھا کہ ان کی کاوشوں کو قدر و قبول سے نوازا گیا، ان کو انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ کی باوقار فیلوشپ ملی، برٹش کونسل نے ان کو وزیٹنگ اسکالر کی حیثیت سے برطانیہ مدعو کیا، جہاں انہوں نے مغل آرٹ دے اسٹڈی ان ہینڈی کرافٹس جیسی بلندپایہ دستاویزی کتاب مرتب کی جو ۱۹۹۶؁ء میں شائع ہوئی، پیرانہ سالی میں مسلسل مطالعہ و تحقیق سے ان کی بینائی گویا جاتی رہی، ۹۹؁ء میں ان کی اہلیہ جو وائلن نواز ہونے کے ساتھ بڑی علم نواز اور شوہر کے علمی کاموں میں سچی شریک حیات تھیں اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو شانتی سروپ صاحب بھی ٹوٹ کررہ گئے، اعظم گڑھ میں قیام اہلیہ کی وجہ سے تھا، ایک بیٹا ارون سروپ دہلی میں ایک بیٹی شاچی رنجن ممبئی میں بس چکے تھے، شانتی سروپ کی زندگی ان دونوں دور یوں میں بٹ کر رہ گئی، اعظم گڑھ چھوٹ گیا لیکن اس کی یادیں زندہ رہیں، چند برس پہلے یاد وطن کی کشش ان کو ایک بار پھر اعظم گڑھ کھینچ لائی، آئے تو چندربھون کے ساتھ شبلی منزل پر بھی الوداعی نظر ڈالی، رخصت ہوئے اور ۹۴ سال کی عمر میں یکم نومبر ۲۰۱۰؁ء میں اس دنیا کو بھی خیرباد کہہ دیا، زندگی خاموشی اور شانتی سے گزاری، موت بھی اسی شان سے آئی، بہتوں کو خبر بھی نہ ہوئی، جس ادارے کے وہ اعزازی رفیق ہوئے خود اسی کو علم و تحقیق کے اس نقصان کا احساس دیر سے ہوا، خودنمائی سے ان کے پرہیز کا یہ عالم تھا کہ ان کی کسی کتاب میں مختصراً بھی ان کی اپنی ذاتی زندگی کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی، برادر محترم پروفیسر جاوید علی خاں صدر شعبہ تاریخ شبلی کالج اور رفیق اعزازی دارالمصنفین کی توجہ سے ان کے حالات دستیاب ہوئے، یہ تحریر اس کے لیے ان کی مرہون منت ہے۔
( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، اکتوبر ۲۰۱۱ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...