Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > نواب رحمت اﷲ خاں شروانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

نواب رحمت اﷲ خاں شروانی
ARI Id

1676046599977_54338540

Access

Open/Free Access

Pages

772

نواب رحمت اﷲ خاں شروانی مرحوم
۱۰؍ جنوری کی صبح علی گڑھ سے برادرم ڈاکٹر جمشید ندوی نے خبردی کہ نواب رحمت اﷲ خاں شروانی نے آخر شب قریب ساڑھے چار بجے داعی اجل کو لبیک کہا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
خودنمائیوں کی جستجو میں مصروف اس دنیا کو کیسے بتایا جائے کہ جانے والا کون تھا؟ کبھی ہمارے صاحب دل شاعر نے بزم دہلی کا نوحہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
؂ یادگار بزم دہلی ایک حالی رہ گیا
افسوس اب علی گڑھ کی بزم دوشیں کی یہ یادگار بھی اٹھ گئی جس نے علم نوازی اور علم پروری کی ان روایات کو مدۃالعمر زندہ و تابندہ رکھا جن کا ذکر اب شاید ماضی کی داستانوں میں ملتا ہے۔
نواب صاحب نے قریب بیاسی سال کی عمر پائی، ۱۶؍ فروری ۲۹ء میں پیدا ہوئے، بھیکم پور کی ریاست گومملکت نہ تھی تاہم ۳۶۵ قریوں اور قصبات کی ملکیت، نوابی کے تمام معروف مظاہر کے لیے کم بھی نہیں، لیکن شروانی خاندان نے حکومت و سطوت کی ظاہر علامتوں سے بیزاری پر اپنی قدروں کی استواری کو ترجیح دی، عمل داری رہی تو علم و حلم اور جود و سخاوت کی، رحمت اﷲ شروانی مرحوم کی تربیت اسی ماحول میں ہوئی، تعلیم کے لیے وہ مشہور دون اسکول ضرور گئے لیکن صحت کی ناسازی کی وجہ سے یہ تعلیم تکمیل کے مراحل تک نہ پہنچ سکی، البتہ علم پرور ماحول نے ان کو علم شناسی کی ایسی دولت دی جس سے وہ ہمیشہ پرثروت رہے اور دوسروں کو بھی تونگر بناتے رہے، مال و زر کی جگہ بہترین کتابوں سے ان کا خزانہ بیش قیمت ہوتا رہا اور یہ دوسروں پر بھی نچھاور ہوتا گیا۔ ان کے والد کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ سرسید کی گود میں کھیل کر جواں ہوئے تھے، قدرتاً رحمت اﷲ صاحب کا شمار ان میں تھا جن کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ علی گڑھ کے زمین و آسمان ان کے تھے۔ اس آسمان پر خدا معلوم کتنے ستارے چمکتے اور ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے رہے، نام و نمود کی خواہش و نمائش، ایسے منظر دکھاتی ہی رہتی ہے لیکن علم، جب عشق ہوجائے تو ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ ع اے درد عشق اب نہیں لذت نمود میں نواب صاحب مرحوم کی زندگی اسی دردعشق کی تفسیر بن گئی، بھیکم پور کا مدرسہ، ذاکر حسین اسکول، جامعہ اردو اور مسلم یونیورسٹی تو اس سرچشمۂ فیض سے قریب تر تھے۔ کتنے ادارے ایسے ہیں جو ان کے جودوکرم کی رداؤں میں مستور ہوکر مشکور ہیں۔ جنہوں نے ان کو قریب سے دیکھا وہ شاہد ہیں کہ غریبوں کی دستگیری، نادار طلبہ کی ہر ممکن مدد کو طبیعت ثانیہ بنانے والے ان جیسے نہیں دیکھے، غم گساری و غم خواری کے الفاظ کی معنویت کو نواب صاحب مرحوم نے جس طرح وقعت بخشی، آج کے دور میں اس کی اہمیت کا اندازہ کاش کیا جاسکے۔
اصل یہ ہے کہ یہ ساری صفتیں بلکہ نعمتیں غالباً اس دعائے پدری کی قبولیت کی علامت ہیں جس کی تلقین قرآن حکیم نے قرۃاعین عطا کیے جانے کی درخواست میں کی ہے، وہ ایسے والد کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے جو ہر نیک تحریک کے مددگار، ہر اچھے کام کے معاون اور ہر شخص کی ہر ضرورت پر کام آنے والے تھے، آج سے ساٹھ سال پہلے شروانی مرحوم کے والد بزرگوار نواب سرمزمل اﷲ خاں کا انتقال ہوا تھا تو معارت میں مولانا سید سلیمان ندویؒ نے ان کو صوبہ کا حاتم کہتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’کوئی علمی و تعلیمی ادارہ ایسا نہیں جو ان کے سرچشمہ فیض سے سیراب نہیں، بلکہ جمعیۃ العلماء اور کانگریس تک ان کے خوان نعمت سے مستفید تھے․․․․․․ جو آیا وہ اپنے نصیب کا حصہ پاگیا‘‘، نواب مزمل اﷲ خاں اکثر یہ شعر پڑھتے تھے کہ
نہ کس می دہاند نہ کس می دہد خدا می دہاند خدا می دہد
دین و دنیا کی ان نعمتوں سے بہرہ اندوز ہونے والے سرمزمل اﷲ خاں کو قرۃاعین کی نعمت ملنی ہی تھی، حضرت سید ندویؒ کی تحریر کا عنوان اگر بدل کر حاتم یورپی نواب رحمت اﷲ خاں کردیا جائے تو بغیر کسی مبالغے کے کہا جاسکتا ہے کہ کم و بیش مضمون وہی کا وہی آج بھی ہے۔
سرمزمل اﷲ خاں دارالمصنّفین سے خاص محبت رکھتے تھے، خاص اس لیے کہ وہ علامہ شبلی کے دوستوں میں تھے، ندوۃ اور دارالمصنّفین سے یہ تعلق اسی نسبت سے تھے، حضرت سید ندویؒ نے لکھا کہ حیدرآباد اور بھوپال کی سرکاروں کے علاوہ اگر کسی محسن کے فیض سے مستفید ہوا تو وہ یہی بھیکم پور کے رئیس کی ذات تھی، رحمت اﷲ شروانی مرحوم نے بھی اسی رشتہ کو برقرار رکھا، مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم سے تو ان کو بڑی محبت تھی، مولانا کی اچانک وفات سے ان کا دل بیٹھ گیا، ان کا تعزیت نامہ سب سے پہلے آیا، لکھا کہ ’’یہ نقصان صرف میرا یا کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ پوری ملت کا ہے جو بہ مشکل پورا ہوپائے گا‘‘۔
وہ قریب چالیس پچاس رسائل کے خریدار تھے لیکن معارف کے لیے بے چین رہتے، ڈاکٹر جمشید ندوی کے الفاظ میں وہ معارف کا حرف حرف پڑھتے، معارف میں انہوں نے محترم عابد رضا بیدار کے اشتراک سے شعرالعجم کے متن کی تصحیح کی، یہ محنت انہوں نے اس جذبے سے کی کہ تنہا شعرالعجم وہ کتاب ہے جو بیسویں صدی اور اب اکیسویں صدی کے ہندوستان میں فارسی ادب کی زندگی بخشتی رہی ہے اور جس نے چار نسلوں کے ذہن و ذوق کی آب یاری کی ہے۔ اس مضمون پر حاشیہ دیتے ہوئے مولانا اصلاحی مرحوم نے لکھا کہ ’’محترم رحمت اﷲ شروانی صاحب پشتینی دارالمصنّفین کے محسن اور اپنی فارسی دانی اور شعر فہمی کے لیے ہندوستان میں اپنی آپ مثال ہیں‘‘، فارسی سخن دانی و سخن شناسی کی یہ بے مثال صلاحیت بھی پشتینی ہی تھی، نواب مزل اﷲ خان تو فارسی کے شاعر اور صاحب دیوان شاعر تھے، ان کی ایک دو غزلیں معارف میں چھپی بھی تھیں، رحمت اﷲ شروانی مرحوم واقعی سرلابیہ کے مصداق تھے، فارسی اشعار کے وہ گویا حافظ تھے، فارسی کے ایسے اشعار جو ضرب المثل کی شکل میں ہیں اور کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کا شاعر کون ہے، ایسے قریب ۱۷۱؍ اشعار کو حوالوں کے ساتھ انہوں نے جمع کیا اور آوارہ گرد اشعار کے نام سے شائع کردیا۔
مال و زر اور علم و ادب دونوں کی ریاست نے بہتوں کو انما اوتیتہ علی علم عندی[القصص:۷۸] کے بھرم میں ڈال دیا لیکن شروانی مرحوم ہمیشہ والآخرۃ خیر وابقی[الاعلٰی: ۱۷] کی حقیقت کے قائل و معترف رہے، ان کے والد بزرگوار، زندگی کے اختتام اور کسی نیک عمل کے قبول کی حسرت ظاہر کرتے تھے، حضرت سید ندوی نے ایسے ہی ایک موقع پر تسلی دی کہ حاتم کی بیٹی دربار رسالت میں اپنے باپ کی فیاضی کی بدولت عزت کی مستحق ٹھہریں، پھر کوئی سبب نہیں کہ آپ کی تمام عمر کی فیاضی کے کام دربار الٰہی میں قبولیت کے مستحق نہ ٹھہریں، ہم بھی ان الفاظ کو یقین سے دہرا سکتے ہیں۔
شروانی مرحوم کے لیے حضرت سید ندویؒ نے دعا کی تھی کہ اس خورد سال جانشین کو عمر و اقبال اور توفیق خیر سے بہرہ مند فرمائے، اس دعا کو شرف قبولیت حاصل ہوا، معارف شروانی صاحب مرحوم کے صاحبزادے جناب مدحت اﷲ خاں شروانی کے لیے اسی دعا کی تجدید کرتا ہے اور شروانی صاحب مرحوم کے لیے دعا ہائے مغفرت کا نذرانہ پیش کرتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ
؂ تھی تری موج نفس بادِ نشاط افزائے علم
( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ،جنوری ۲۰۱۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...