1676046599977_54338542
Open/Free Access
773
مظہر امام /پروفیسر شہریار/پروفیسر مغنی تبسم
افسوس اس ماہ فروری میں اردو کے آسماں پر درخشاں، چند ستاروں کے چھپ جانے سے اردو دنیا کی رونق میں کمی آگئی، جناب مظہر امام ، پروفیسر شہریار ، پروفیسر مغنی تبسم یکے بعد دیگرے رخصت ہوئے، مظہر امام کی شناخت آزاد غزل کے حوالے سے ہے، کئی شعری اور تنقیدی کتابوں کے مصنف تھے، پروفیسر شہریار اور پروفیسر مغنی تبسم، ہندوستان کی دو ممتاز جامعات یعنی مسلم یونیورسٹی اور جامعہ عثمانیہ میں اردو کے کامیاب اور نامور استاد ہی نہیں، شعرو ادب کی دنیا میں صاحب مرتبہ و مقام بھی تھے، شہریار کی شہرت گو ان کی زندگی کے دور آخر میں خوشبو کی طرح عام ہوئی لیکن نشاط غم اور رنج شادمانی کے مختصر اور فانی لمحات کا ساتھ عمر بھر رہا، ان کی شہرت کے شہپر جب سمٹے ہوئے تھے اس وقت بھی انہوں نے اس خاموشی کو بلیغ معانی دیے تھے، خواب، رات، دیار، پرچھائیں، سفر، تشنہ لبی کے پردے میں وہ دیار دل اور بزم دوستاں تلاش کرتے رہے، مغنی تبسم شہریار کے پیشہ تدریس میں ہی شریک نہیں رسالہ شعرو حکمت میں بھی برابر کے سہیم تھے، وہ حیدرآباد کے دائرہ ادبیات اردو اور رسالہ سب رس سے مدتوں وابستہ رہے، فانی بدایونی پر تحقیق کی تھی، درجنوں کتابیں لکھیں، عجیب بات ہے کہ ادبی سفر میں مغنی تبسم اور شہریار ساتھ ساتھ رہے، ابدی سفر میں بھی یہ رفاقت قائم رہی، شہریار کے نام ایک خط میں مغنی تبسم نے لکھا تھا کہ ’’شاعری تو ایسی چیز ہے جو خدا، انسان اور کائنات کے درمیان پچھلی راتوں کا دعائیہ بن جاتی ہے، کتنے لوگ ہیں جوان ساعتوں میں دست دعا دراز کرتے ہیں‘‘، مغفرت کے لیے کوئی عمل یا کوئی قول کام آسکتا ہے، ہمارا دست دعا بھی اسی لیے دراز ہے۔ (عبد السلام قدوائی، فروری ۲۰۱۲ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |