Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا مطلوب الرحمن عثمانی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا مطلوب الرحمن عثمانی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338644

Access

Open/Free Access

Pages

89

مولانا مطلوب الرحمن عثمانی
افسوس ہے گذشتہ ماہ جولائی کی۱۷/تاریخ کوبیاسی سال کی عمر میں جناب مولانا مطلوب الرحمن صاحب عثمانی نے کراچی میں داعی اجل کولبیک کہا اوراپنے ہزاروں مریدوں اورعقیدت مندوں سے دائمی مفارقت اختیار کی۔مولانا دیوبند کے مشہور عثمانی خاندان کے گوہر شب چراغ تھے۔حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ کے برادر خورد اورحضرت الاستاذ مولانا شبیر احمد عثمانی سے عمر میں بڑے تھے۔صورت شکل، قدوقامت اور رنگ میں اپنے چھوٹے بھائی سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔عربی اوردینیات کی تعلیم مشکوٰۃ تک پائی تھی۔انگریزی میں میٹرک تھے۔ ذہانت اور طباعی اس خاندان کا ورثہ ہے اس لیے مطالعہ اور ذاتی غور و فکر کانتیجہ یہ تھا کہ دینی اوردنیوی ہرقسم کے موضوع پر بڑی سنجیدہ، موثر اور دلنشین تقریر کرتے تھے۔
محکمۂ نہر میں عرصہ تک اورسیر کے عہدہ پرکام کرتے رہے، لیکن طبیعت شروع سے سلوک وطریقت کی جانب مائل تھی۔چنانچہ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ سے بیعت تھے۔حجاز میں حضرت شیخ الہند کی گرفتاری کے بعد جب ہندوستان میں حضرت سے چند خصوصی تعلق رکھنے والے حضرات پکڑے گئے تواُن میں مولانا مرحوم بھی تھے، پولیس نے بڑی سختیاں کیں اور سخت اذیتیں دیں لیکن حضرت شیخ الہند کی تحریک کے جو رازہائے سربستہ آپ کے سینے میں محفوظ تھے اُن کو شناسائے حرف وصوت نہ ہونے دیا۔حضرت شیخ الہند کی وفات کے بعد مرحوم نے بڑے بھائی حضرت مفتی صاحب سے رجوع کیا اورروحانی تربیت حاصل کی۔تحریک خلافت کے آخری دنوں میں ملازمت سے استعفی دے دیااور اب ہمہ تن تبلیغ اسلام اورروحانی ارشاد وہدایت کے کاموں میں لگ گئے۔ مشرکانہ رسم ورواج اوربدعات سے سخت نفور تھے۔اس سلسلہ میں برسوں بریلی میں مقیم رہے اورعام ابلاغ حق اورارشاد وہدایت کے علاوہ اہل بدعات سے مناظرے بھی کرتے رہے۔پھر انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوئے تو خاص اس غرض سے علی گڑھ آکرپڑ گئے۔یہاں اساتذہ وطلباء سے گفتگوئیں کیں اور انھیں دین قیم کی دعوت پہنچائی۔مولانا کی ان مساعی کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے مریدان باصفا میں خود مسلم یونیورسٹی میں اوراس کے علاوہ پورے ہندوپاک میں ایک بہت بڑی تعداد جدید تعلیم یافتہ حضرات کی ہے جواسلامی زندگی کے اوصاف و کمالات سے مزین ہیں۔
انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ سے اُن کی توقعات کیا تھیں؟اورانھیں وہ کس راہ پر لگانا چاہتے تھے؟اس کا اندازہ اس بات سے ہوگا کہ اپنے ایک مرید خاص کوجو مسلم یونیورسٹی کے ایک نہایت لائق اورنامور فرزند ہیں اپنے خط مورخہ ۲۲/ مارچ ۱۹۵۲ء میں تحریر فرماتے ہیں:
’’خوب یادرکھو جب تک تینوں پہلو درست نہ ہوں(تزکیہ،مغربی اور اسلامی حکمت) تم لوگ میرے معیارپر(جوحقیقتاً معیارقرآنی ہے)کوئی مفید اور بڑا کام نہیں کرسکتے،یہی وہ معیارہے جواس وقت گم ہے اوراسی وجہ سے مسلمانوں کا جو کام بھی جو جماعت کرتی ہے وہ مطلوبہ نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتی۔‘‘
تحریک پاکستان کے عہد شباب میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے سیاسی اختلاف رائے پیدا ہوگیا تھا مگر اس کے باوجود کسی کی مجال نہ تھی کہ آپ کی مجلس میں مولانا کے خلاف کوئی لفظ کہہ سکے۔ایک مرتبہ کسی نے بھولے سے اس قسم کی کوئی بات کہی توسخت طیش میں آکر فرمایا:’’تم یاکوئی اور کیاجان سکتاہے کہ مولانا حسین احمد کیا ہیں؟اوراُن کا کیامقام ہے؟میراخودیہ حال ہے کہ میں محض مولانا کی تکلیف کے خیال سے کھدر پہنتا ہوں ورنہ میں اس کوضروری نہیں سمجھتا۔‘‘ ایک اورمجلس میں فرمایا:’’مولانا حسین احمد کادل جتناروشن ہے آج کسی کا نہیں ہے۔‘‘ اس سے لوگوں کوعبرت ہونی چاہیے جوذراسے اختلاف رائے کی بنا پر اپنے مخالف کے تمام اوصاف وکمالات پرخاک ڈالتے ہیں اوراس کومردود و جہنمی ہی بناکر چھوڑتے ہیں۔
۱۹۲۸ء کاذکرہے۔اس زمانہ میں مولانا مرحوم کے متعلق ایک عام چرچاتھا کہ جوشخص آپ سے بیعت ہوجاتا ہے اُسے دوسرے تیسرے ہی دن خواب میں آنحضرت ﷺ کی زیارت ہوجاتی ہے۔راقم الحروف بھی اس سے اس درجہ متاثر ہوا کہ مرحوم سے بیعت ہونے کاارادہ کرلیا۔ لیکن حضرت مولانامفتی عزیز الرحمن صاحبؒ جوسلوک وطریقت میں وقت کے امام تھے اوراس نالائق سے اولاد کی طرح محبت کرتے تھے۔آپ کوخبرہوئی توبلا کرڈانٹا اورفرمایا کہ:’’خواب میں حضور اکرمﷺ کی زیارت نہ شریعت میں کوئی اہمیت رکھتی ہے اورنہ طریقت میں یہ مطلوب ہے۔کسی مرشد کامل سے بیعت ہونے کامقصد تزکیۂ نفس اوراتباع شریعت کو اپنی طبیعت بنالینا چاہیے،محض اس غرض سے بیعت کرنا وسوسۂ شیطانی ہے۔ بعد میں معلوم ہواکہ خود مولانا مطلوب الرحمن صاحب کے ہاں بھی اس کی کوئی اہمیت نہ تھی اور نہ کسی مرید سے وہ اس طرح کاوعدہ کرتے یا اس کی امید دلاتے تھے۔
ملازمت سے مستعفی ہونے کے بعد زندگی محض توکل پربسر کرتے تھے۔ خود اگرچہ درویشانہ طور پر سادہ اور بے تکلف رہتے تھے مگر بڑے سیرچشم اورفیاض طبع تھے۔غریبوں اور ضرورت مندوں کی دل کھول کر مددکرتے تھے۔باتوں میں بڑا رس تھاآنکھوں میں جذب کی کیفیت جھلکتی رہتی تھی۔ہربات میں اتباع شریعت کا خیال مقدم رہتا تھا۔سرورکائناتﷺ کے ساتھ والہانہ عشق رکھتے تھے۔ حضوراکرمﷺ کانام نامی زبان پرآیا نہیں کہ ہرموئے بدن بارگاہ عقیدت و محبت میں سجدہ ریز نظرآتا تھا۔زبان لڑکھڑانے لگتی اور آنکھیں پُرنم ہوجاتیں۔ نور اﷲ مرقدہ [اگست۱۹۶۰ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Loading...
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...