1676046603252_54338653
Open/Free Access
95
مولانا احمد علی
افسوس ہے پچھلے دنوں مولانا احمد علی اورمسٹر شعیب قریشی نے داعی اجل کولبیک کہا اوررہ گزائے عالم جاودانی ہوگئے۔مولانا احمدعلی حلقۂ دیوبند کے اکابر و مشائخ میں سے تھے۔بلند پایہ عالم، وسیع النظر مفکر اوردرویش صفت بزرگ ہونے کے علاوہ اونچے درجہ کے صاحب معرفت وباطن بھی تھے۔قرآن مجید کی تفسیر اوراُس کی تعلیم وتدریس سے خاص شغف تھااوراُس کا بڑااہتمام کرتے تھے، دارالعلوم دیوبند اوردوسرے مدارس عربیہ کے فارغ التحصیل طلبا اسی غرض سے لاہورجاتے اورچند ماہ قیام کرکے مولانا کے مخصوص درس قرآن سے مستفید ہوتے تھے۔پنجاب کے انگریزی تعلیم یافتہ حضرات بھی موصوف کے زیر اثر تھے اوراُن کی اچھی خاصی تعداد اس درس میں پابندی سے شریک ہوتی تھی۔ پنجاب میں مولانا کی ذات جواحیاء دینی،روحانی واخلاقی تعلیم وتربیت اورنشروتبلیغ علوم ومعارف قرآنیہ کے لیے وقف تھی۔ مرجع عوام وخواص تھی۔تقریر موثر اور دلپذیر ہوتی تھی مگر مجلس میں کم سخنی وکم گوئی اُن کی خو تھی۔زندگی بڑی سادہ تھی، تکلف، تصنع اورمادی آرائش وزیبائش سے نفرت تھی۔ان خوبیوں کے علاوہ مجاہد فی سبیل اﷲ بھی تھے۔تحریک خلافت اوراُس کے بعد جدوجہد آزادی میں ہمیشہ جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ رہے۔مولانا عبیداﷲ سندھیؒ کے داماد تھے۔اس تعلق سے اُن کومولانا سے استفادہ کا زیادہ موقع ملا تھااوراُس کااثر اُن کے درس قرآن میں اورعام تقریروں اورگفتگوؤں میں بھی ظاہرہوتاتھا۔قیام پاکستان کے بعد سے بڑے بڑے اہم مسائل رونما ہوئے اوربعض اوقات علماء کے لیے سخت ابتلا و آزمائش کے مواقع پیداہوگئے، مگرمولانا نے اعلان حق اوراعلائے کلمۃ اﷲ میں کبھی بھی کوتاہی یاپہلوتہی سے کام نہیں لیا۔اُن کواس کی سزابھگتنی پڑی۔مگر انھیں اس کی کبھی پروا نہیں ہوئی۔اب ایسے علمائے حق کہاں ملیں گے؟جوجاتاہے اپنا صحیح جانشین وقائم مقام چھوڑ کرنہیں جاتا۔ اللھم بردمضجعہ وارحمہ رحمۃً واسعۃً۔ [اپریل۱۹۶۲ء]
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
Loading... | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |