Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا حامد علی خاں
Authors

ARI Id

1676046603252_54338834

Access

Open/Free Access

Pages

210

مولانا حامد علی خاں مرحوم
رام پور کسی زمانہ میں دارالعلوم اوردارالعلماء تھا۔یہاں کی گلی گلی کے اندر اونچے سے اونچے علماء موجود تھے۔طلباء کی بھی انتہائی کثرت تھی۔ہزاروں کی تعداد میں یہاں طلباء موجود رہتے تھے جس میں افغانی،پنجابی،بنگالی،آسامی،برما اوررنگون تک کے رہنے والے یہاں آتے تھے۔خود مقامی آدمیوں کوبھی انتہائی ذوق تھا کہ وہ عربی اورفارسی پڑھیں اوراس میں کمال حاصل کریں۔
یہاں پرفارسی کے باکمال حضرات میں سے مولوی عبدالرزاق خاں طالبؔ(متوفی۱۹۱۶ء)مولوی حسین شاہ خاں نامیؔ(م۱۸۹۴ء)بڑے بڑے قابل فارسی داں ہوئے۔عربی داں حضرات میں یہاں پرکچھ تومقامی علماء ہوئے اور کچھ بیرونی علماء نے یہاں آکر سکونت اختیار کرلی۔بیرونی علماء میں سے مولانا عبدالعلی بحرالعلوم(م۱۱۲۵ھ)تین سال تک رام پور میں رہے۔ملا محمد حسن لکھنوی عرصۂ دراز تک یہاں پررہے، یہیں شادی کی اور یہیں۱۷۸۴ء/۱۱۹۹ھ میں انتقال فرمایا۔ مولوی فضل حق صاحب خیرآبادی (م۱۸۶۱ء)مولوی عبدالحق خیر آبادی (م۱۸۹۹ء) بھی یہاں مقیم رہے۔عبدالحق خیرآبادی کے صاحبزادے مولوی اسد الحق صاحب نے بھی یہیں پر۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء میں انتقال فرمایا۔
مقامی علماء میں سے مولانا فضل حق رامپوری بڑے جلیل القدر علامہ ہوئے۔ برما سے لے کر بخارا تک ان کا چرچا تھا۔انھوں نے بڑی گراں قدر تصانیف چھوڑی ہیں کہ جن کے پڑھنے والے اور پڑھانے والے بھی اب دنیا میں موجود نہیں رہے۔مولانا موصوف میرے استاذ تھے اور عرصۂ دراز تک مدرسہ عالیہ کے پرنسپل رہے۔ ۱۹۴۰ء میں وصال ہوگیا۔ مولانا منور علی صاحب (م۱۹۳۳ء) یہاں کے مشہور محدث تھے۔ان کے استاذ الاستاذ میاں محمد شاہ صاحب (۱۹۲۰ء)اوران کے استاذ میاں حسن شاہ صاحب(م۱۳۱۲ھ)محدثین کرام میں سے تھے۔مولوی اکبر علی خاں صاحب(م۱۳۰۲ھ)بھی یہاں کے مشہورومعروف محدث تھے، مولانا عبدالعلی خاں ریاضی داں (م۱۳۰۳ھ) اور مولوی عبدالعلی صاحب منطقی(م۱۲۷۸ھ)بھی یہاں کے مشہور عالم ہوئے۔ الغرض یہ حضرات وہ تھے کہ جن میں سے بعض کو میں نے خود بھی دیکھا تھا۔ میرے طالب علمی کے زمانہ میں مولوی احمدامین خاں صاحب (م۱۹۳۸ء) مولوی معزاﷲ خاں صاحب(م۱۹۴۳ء) مولوی نظیر الدین صاحب، مولوی افضال الحق صاحب(م۱۹۵۵ء)اورخود میرے پیرومرشد اور استاذ حضرت مولانا وزیر محمدخاں صاحب(م۱۹۲۵ء) مدرسہ عالیہ میں درس دیتے تھے اوران تمام ہی حضرات کااپنے دور کے باکمال علماء میں شمار تھا۔میں جب علی گڑھ کی ریاست دادوں کے مدرسہ حافظیہ سعیدیہ کی ملازمت سے فارغ ہوکر رامپور میں ا ٓیا تواس وقت بھی علماء کااورعلم کا چرچا یہاں پر بہت تھا۔میں نے ملّا حسن(منطق کی مشہور کتاب)اورشرح ہدایتہ الحکمتہ(فلسفہ کی بہترین کتاب)اپنے محلہ(انگوری باغ) کی مسجد میں شروع کرائی، اس میں تقریباً بیس پچیس طالب علم شریک ہواکرتے تھے۔ان میں پندرہ سولہ طالب علم بہت سمجھدار تھے۔انہی میں مولوی حامد علی خاں صاحب بھی تھے۔
مولوی حامد علی خاں صاحب نہایت گہری استعداد درکھتے تھے۔ انھوں نے بہت کچھ فوائد ملاحسن اور شرح ہدایتہ الحکمتہ کے ذریعہ حاصل کیے۔مولانا بڑے متوکل،قانع،مہذب،مدبر اور سمجھدار انسان تھے۔کم عمری ہی میں اُن کے والد شیدا علی خاں صاحب کا انتقال ہوگیا تھا اس لیے مجبوراً معاش کے لیے رامپور کے دفاتر میں ملازمتیں کیں۔وہ ملازمت بھی کرتے تھے اور تحصیل علم بھی ۔تحصیل علم میں انھوں نے یہاں کے بڑے بڑے علماء کی طرف توجہ کی اورفارغ التحصیل ہوکردرس وتدریس کی دنیا میں ایک اونچا مقام حاصل کیا۔
روہتک(ہریانہ)والے ان کے معتقد تھے اوراُن کی خواہش تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح روہتک آجائیں۔چنانچہ ان کو یہاں کے دفتر کی ملازمت چھڑانے کے بعد وہ لوگ ان کوروہتک لے گئے۔وہاں پر تھوڑے زمانہ تک مدرسہ خیرالمعاد میں رہے۔۱۹۴۷ء میں جب روہتک کے حالات کچھ نازک ہوئے توہم نے مولوی حامد علی خاں صاحب کومجبور کیا کہ وہ رامپور آجائیں چنانچہ وہ رامپور تشریف لے آئے اوریہاں مدرسہ عالیہ میں ۷ دسمبر ۱۹۴۷ء سے درجہ تفسیر کے مفسر ہوئے۔اس کے ساتھ ساتھ اُن کوافتاء سے بھی ایک خاص مناسبت تھی۔ مشورے اوررائے وہ مجھ سے بھی لیتے تھے مگرتحریری فتویٰ نویسی وہی انجام دیتے تھے۔اُن کے ہاتھ کے فتاویٰ کی نقول ایک مجلد رجسٹر میں لائبریری مدرسہ جامع العلوم فرقانیہ،مسٹن گنج رامپور میں محفوظ ہیں، اس کے علاوہ تقریر بھی بہت عمدہ کیا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں وہ میرے انتہائی دست وبازو تھے۔
جب میری عمر۵۵برس کی ہوئی اورریٹائری کا زمانہ قریب آگیا تووہ بھی مدرسہ عالیہ میں تنہائی محسوس کرنے لگے اورملازمت سے برداشتہ خاطر ہوگئے، چنانچہ وہ کہتے تھے کہ میں جو مدرسہ عالیہ سے مانوس تھا وہ صرف آپ کی وجہ سے تھا مجھے کچھ دوسرے حضرات سے الفت وانسیت پیدانہیں ہوئی۔اس کانتیجہ یہ ہوا کہ روہتک والوں نے انتہائی زور دے کر انھیں دوبارہ بلالیا۔لہٰذا وہ ۱۶/ جنوری ۱۹۵۹ء کومدرسہ عالیہ سے استعفی دے کر روہتک چلے گئے اورمدرسہ خیرالمعادکوپھر آبادکیا۔وہاں پرانھوں نے علمی اور عملی خدمات کی وجہ سے بڑی عزت وشہرت پائی۔تقسیم ملک کے بعد جب نقل آبادی کامسئلہ درپیش ہواتوروہتک کی آبادی ملتان کی طرف منتقل ہوگئی اُسی منتقلی کی صورت میں وہ بھی انتہائی تکلیف کے ساتھ ملتان چلے گئے۔وہاں پراُن کی شہرت ومقبولیت میں روہتک سے بھی زیادہ اضافہ ہوا۔ملتان میں ان کے مخلصین کے تعاون سے ایک شاندار مدرسہ خیرالمعاد اور ایک عالی شان مسجد تعمیر ہوئی اورایک وسیع وعریض مکان بھی بنوایا کہ جس کا نام حامد منزل ہے۔
مولانا نے علمی مشاغل کے ساتھ ساتھ عملی سیاست میں بھی حصّہ لیا۔اس سے ان کا منشایہ تھا کہ میں سیاست کے میدان میں آنے کے بعد دین اوراسلام کی ترقی کی کوشش کروں۔یہ چیز وہاں کے بہت سے ارباب علم کے پیشِ نظر تھی، چنانچہ ان کواس میدان میں جو کامیابی حاصل ہوئی وہ بہت کم لوگوں کوحاصل ہوتی ہے۔ عوام بھی ان کی بڑی قدرومنزلت کرتے تھے۔ایک بار سیاسی تنازعہ میں جب مولانا کوگرفتار کیا جانے لگا تواس وقت شہر ملتان کے ہزاروں آدمی سڑکوں پرپولیس کی راہ میں لیٹ گئے کہ پہلے ہمیں گرفتار کرو بعد میں انھیں پکڑنا۔ چنانچہ مجبوراً حکومت نے وارنٹ منسوخ کیے۔یہ اُن کی مقبولیت کاعالم تھا۔
میدان سیاست کے علاوہ مولانا تحریر کے میدان میں بھی صاحب کمال تھے ،ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہے لیکن شاید محفوظ بہت کم ہی رہا،پھربھی جس قدر محفوظ ہے اورطبع ہوکر آگیاہے وہ اُن کی ذہانت،لیاقت اورطرزِ تحریر کااندازہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ان کاپہلا کارنامہ مقامات ِارشادیہ فارسی مؤلفہ عنایت اﷲ خاں کااردوترجمہ ہے جو۱۶۰ صفحات پرمحیط ہے اورتصوف کے مقامات واسرار کا بہترین نچوڑ ہے۔ مقبولیت کایہ عالم ہے کہ اس کے تین ایڈیشن اب تک منظر عام پرآچکے ہیں۔دوسرا کارنامہ تذکرۃ المشائخ کی تصنیف ہے۔اس میں نبی اکرم ﷺ سے لے کر اپنے پیرومرشد مولوی حافظ عنایت اﷲ خاں صاحب مجددی (م۱۳۴۵ھ) تک کے حالات۱۸۴ صفحات پرلکھے ہیں۔تیسری تالیف انوار مجدد الف ثانی کی شکل میں منظر عام پرآچکی ہے، ا س میں مجدد صاحب (م۱۰۳۴ھ) کے حالات،اقوال ومناقب وغیرہ کو۳۲صفحات پرسمونے کی قابل قدر کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ مجموعۂ فتاویٰ کاتعارف ابتدا میں کرادیاگیاہے۔
مولانا ایک عرصہ سے کمزور اورضعیف تھے مگرسرہند شریف کے عرس میں برابر حاضری کی کوشش کرتے رہے اورآتے رہے مگرایک وقت ایساآیا کہ امراض نے ان کے اوپر احاطہ کرلیا ا وروہ اس دنیا سے ۷/جنوری۱۹۸۰ء کورخصت ہوگئے۔ اﷲ تعالیٰ اُ س عالم میں اُن کو مراتب عالیہ مرحمت فرمائے۔
الحمد ﷲ کہ اُن کے تمام صاحبزادے دینی ذوق رکھتے تھے۔بڑے صاحبزادے حافظ محمد علی خاں مدرسہ کے کاموں کوبحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں اوران کے دوسرے برادران ناصرعلی خاں واحمد علی خاں اوردیگر متوسلین، متعلقین ومریدین بھی مذہبی امور میں کافی دلچسپی لے رہے ہیں اور مدرسہ کی ترقی میں کوشاں ہیں۔
اﷲ جل شانہ وعَمَّ نوالۂ اپنے کرم سے اُس عالم میں اُن کے مراتب عالیہ کو بلند وبالافرمائے اوراس عالم کے اندراُن کے مخلصین ومعتقدین کو کامیابی وکامرانی عطافرمائے۔آمین [مولانا وجیہہ الدین احمد خاں قادری،ستمبر۱۹۸۴ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Loading...
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...