Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

غیر سیاسی اسلامی تحریکیں: تنظیم اسلامی، تحریک ختم نبوت، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی |
Asian Research Index
غیر سیاسی اسلامی تحریکیں: تنظیم اسلامی، تحریک ختم نبوت، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی

مقدمہ
ARI Id

1681275197971_56115059

Access

Open/Free Access

Pages

ج‌

ایک انسان جب اس کائنات پر غور وفکر کرتا ہے تو اسے کوئی بھی چیز بے مقصد نظر نہیں آتی۔ ہر چیز کی تخلیق کا ایک مقصد ہوتاہے پھر آخر انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے ؟ انسان کیوں پیدا کیا گیا ؟ کیا اس لیے کہ دنیا میں خوب عیاشی کی زندگی گزارے، دوسروں پر ظلم کرے اور پھر مٹی میں مل کر مٹی ہوجائے ؟ یا اس لیے کہ لوگوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتا رہے اور اپنے حق کے لیے کچھ بھی نہ کرسکے ؟

جب ہم اس کرۂ ارض پر موجود انسانوں کے حالات کا بنظر غائر جائزہ لیتے ہیں تو دونوں طبقات موجود پاتے ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کے جانور بھی ائرکنڈیشنڈ کمروں میں زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسری طرف وہ انسان بھی اسی زمین پر بستے ہیں جن کی بودوباش چوپائیوں جیسی ہے۔

پچپن سے ہی جب میں اس معاشرتی تفاوت پر نظر دوڑاتا تو میرا دل خون کے آنسو روتا اور میرا ضمیر مجھے کچوکے دے کر پوچھتا کہ کیا غریب پیدا ہی اس لیے ہوا ہے کہ وہ وہیں سے پانی پیئے جہاں سے چولستان کی گائے پانی پیتی ہے اور کیا امیر پیدا ہی اس لیے ہوا ہے کہ وہ اپنا پینے کا پانی بھی فرانس سے منگوائے اور دنیا کی رنگینیوں سے خوب لطف اندوز ہو ؟ معاشرے میں موجود غیر عادلانہ نظام نے مجھے پاکستان کی سیاسی اور غیر سیاسی، دینی و غیر دینی جماعتوں کا جائزہ لینے پر مجبور کیا اور میں نے بہت قریب سے مختلف قائدین کو دیکھا اور جانچا۔

میں ایک مضطرب انسان ہوں۔ پاکستان کی سیاسی دینی تحریکوں پر پہلے ہی بہت کام ہوچکا ہے اور پھر میں نظریاتی طور پر سیاسی دینی تحریکوں سے کافی بعد رکھتا ہوں، اس لیے غیر سیاسی دینی تحریکوں کا انتخاب کیا گیا۔ قرآن حکیم میں انسان کی تخلیق کا مقصد اﷲ کی عبادت قراردیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۃ الذاریات میں الفاظ وارد ہوئے ہیں۔

وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔ (الذاریات: ۵۶)

’’میں نے جنو ں اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں ‘‘۔

گویا انسان کا مقصد ِ حیات ہی بندگی ہے، غایت تخلیق ہی بندگی ہے۔ بندہ کے معنی ہیں غلام اور غلام ہمہ وقت اور ہمہ تن غلام ہوتاہے۔ غلامی اور ملازمت میں یہی تو فرق ہے کہ ملازمت کسی معین کام کے لیے ہوتی ہے۔ جو شخص دفتر میں چپڑاسی ہے وہ چپڑاسی کا کام ہی کرے گا، کوئی اور کام تو نہیں کرے گا۔ پھر ملازمت معین وقت کے لیے ہوتی ہے۔ ملازم سے یہ طے کیا جاتا ہے کہ اسے چارگھنٹے کام کرنا ہے یا آٹھ گھنٹے۔ اس کے بعد وہ آپ کا ملازم نہیں۔ لیکن غلامی یا بندگی ہمہ وقت اور ہمہ تن ہے۔ ایک بات اور بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ محض بندگی یا غلامی ’’عبادت ‘‘ نہیں ہے جب تک کہ اس میں پرستش شامل نہ ہو۔

پرستش میں محبت کا جذبہ ہوتا ہے زرپرست وہ ہے جس کو مال سے انتہائی محبت ہو۔ وطن پر ست، قوم پر ست اور شہر ت پر ست جیسے الفا ظ ہمارے ہا ں کثر ت سے مستعمل ہیں۔ چنانچہ عبا دت کا مفہوم ہو گا اﷲ کی بندگی اور اس کی پر ستش۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشر ے میں عبادت کا صحیح تصور موجود نہیں۔ ایک مسلما ن کے لئے یہ لاز م ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے کے لئے اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کے حوالے کر دے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پا نچ وقت کی نما ز پڑھ کر اور ما ہ رمضان میں روزے رکھ کر گو یا کہ اﷲ تعالیٰ پر احسان عظیم کر دیا گیا۔ باقی کے معاملا ت میں بالعموم غفلت کا مظاہر ہ کیا جا تا ہے۔ ایک انسا ن کی زند گی کے دوگو شے ہو تے ہیں۔ (۱)انفرادی گوشہ (۲)اجتما عی گوشہ۔

انفرادی گوشے میں ہر انسا ن کے کچھ نظر یا ت ہو تے ہیں۔ سوائے ایک دہریے کے ہر شخص اﷲ تعالیٰ، آخر ت وغیرہ کے بارے میں کچھ نہ کچھ نظریا ت رکھتاہے جنھیں عقائد کہا جا تا ہے۔ پھر یہ کہ عبا دت کا کو ئی نہ کوئی تصورہر طبقے میں پایا جا تا ہے۔ ایک انسا ن خواہ وہ پارسی ہو یا یہو دی، ہندو ہو یا سکھ، عبادت کے بارے میں نظریہ رکھتا ہے، تیسری چیز جو انفرادی گوشے میں پا ئی جا تی ہے، وہ رسوما ت ہیں۔ ہر انسا ن کے ذہن میں ایک خاکہ مو جو د ہے کہ پیدا ئش کے وقت کیا رسوما ت اختیار کی جائیں، شادی کے مو قع پر کیا کیا جا ئے، فوتیدگی کے موقع پر مردے کے سا تھ کیا سلو ک کیا جا ئے وغیرہ وغیرہ۔

انسان کی زند گی کا یہ گوشہ جسے انفرادی گوشہ کہتے ہیں، مذہب کہلا تا ہے۔ اسلام مذہب کے معاملے میں مکمل رہنما ئی فراہم کر تا ہے۔ ایک مسلما ن کے عقائد کیا ہو نے چا ہییں۔ عبا دات کیا ہیں، پیدائش، شادی، فوتیدگی پر کیا کرنا ہے؟اسلام کی رہنمائی مکمل ہے۔

یہاں ایک با ت کی وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ مذہب پر عمل کے راستے میں حکومتیں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ کیونکہ یہ ایک شخص کا نجی معاملہ ہو تا ہے۔ اور نجی معاملات میں یہ آزادی ہے کہ میں جو چا ہے عقائد رکھوں، جیسے چاہوں عبا د ت کر وں اور اپنی مر ضی کی رسومات اختیارکروں۔

انسا ن کی زند گی کا دوسرا گو شہ اجتما عی ہے۔ جب ایک شخص کا دوسرے لو گو ں کے سا تھ رابطہ پیدا ہو تا ہے تو اس کے نتیجے میں خاندان کا ادارہ وجو د میں آتا ہے۔ اب خاندانی زند گی کے لئے اسے کچھ قواعدوضوابط کی ضرورت ہے۔ میاں بیوی کے حقوق وفرائض، والد ین اور اولا د کے مابین تعلقا ت کی نوعیت، وراثت کے معاملا ت وغیرہ کے بارے میں اُسے رہنما ئی کی ضرورت ہے۔ اسلام اس معاملے میں عائلی قوانین فراہم کر تا ہے اور قرآن وسنت کے ذریعے خاندانی مسائل کا حل پیش کر تا ہے۔ اجتما عی گو شے میں جب ایک انسا ن معاش کی خا طر دوڑوھوپ کر ے گا تو حرام اور حلا ل، صحیح اور غلط کا سوال پید ا ہوگا۔ کیاکمایا جا ئے اورکہاں خرچ کیا جا ئے کا جو اب اسلام دیتا ہے اور ایک معاشی نظام پیش کر تا ہے۔ نیز یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ جب اجتماعی طور پر زند گی گزاری جا ئے گی تو لا محالہ کسی کو اپنا سر براہ بنا یا جا ئے گا، امن واما ن کے لئے کسی طاقت کی ضرورت ہوگی، جزاوسزاکا کوئی ضابطہ متعین کر نا ہوگا۔ چنا نچہ اس مقصد کے لئے اسلام ایک سیا سی نظام وضع کرتا ہے۔

محولہ بالا گفتگو سے نہ صر ف یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ اسلام انفرادی اور اجتما عی گوشوں میں رہنمائی فراہم کر تا ہے بلکہ یہ با ت بھی سا منے آتی ہے کہ دراصل دین صر ف اور صر ف اسلام ہے۔ عیسائیت ہو یا یہودیت، ہندومت ہو یا جین مت، صر ف انفرادی گوشے تک محدود ہیں۔ گویا کہ یہ مذاہب ہیں۔ جبکہ اسلام ہمیں یہ بتا تا ہے کہ انفرادی گوشے میں تمہارے عقائد کیا ہوں، عبادات اور رسوما ت کیا ہوں۔ نیز اجتماعی گو شے میں اسلام یہ بتا تا ہے کہ تمہاری معیشت میں سود نہیں ہو نا چاہیے، معاشر ت میں اسلام یہ بتا تا ہے کہ بحیثیت انسا ن سب برابر ہیں اور سب کو زندگی کی دوڑ میں برابر کے مواقع ملنے چاہیے۔ سیا ست میں اسلام ہمارے سامنے یہ تصور رکھتا ہے کہ:

 ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ھم الکفرون، ھم الظلمون، ھم الفاسقون۔ (المائد ہ: ۴۴، ۴۵، ۴۷)

’’اورجو لو گ اﷲ کے نا زل کر دہ قانو ن کے مطا بق فیصلہ نہیں کر تے وہ کا فر ہیں، ظالم ہیں، فاسق ہیں، ‘‘

آج کے مسلما ن کا المیہ یہ ہے کہ اسلا م بحیثیت دین اس کی نظروں کے سامنے نہیں ہے، اس نے اسلام کو مذہب بنا لیا ہے، جس کے نتیجے میں انسا نی زند گی کا اجتماعی گو شہ ہدایت ربا نی سے یکسر خالی ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پا نچ وقت کی نما ز پڑھنے والے مسلمان بھی سودی کا روبا ر میں ملو ث ہو جا تے ہیں۔ تہجد گزار لو گ بھی غیر اﷲ کی حاکمیت پر نہ صر ف قانع بلکہ مددگار نظر آتے ہیں اور مسجد و محراب کے وارث بھی اپنی بیٹیوں کو وارثت سے محروم کر دیتے ہیں (الا ما شا ء اللّٰہ)۔

دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ جماعتی زند گی کی اہمیت مسلما نو ں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ حالا نکہ قرآن وحدیث مسلما ن کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں کہ وہ جماعتی زند گی اختیار کر ے۔ دین اسلام میں اہم امور زندگی اور شعائر دینی کی ادائیگی کے لئے اجتما عیت اختیارکر نے کی انتہائی تاکید کی گئی ہے۔ مثلاً:

  1. سفر کے حوالے سے ہدایت ہے کہ ’’

اذا خرج ثلا ثۃ فی سفر فلیومروا احدھم‘‘ (ابوداؤد)

’’جب تم میں سے تین افراد سفر پر نکلیں تو چاہیے کہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لیں۔ ‘‘

  1. ارکا ن اسلام یعنی نماز، روزہ، اموال ظاہر ہ پر زکوۃ اور حج کی ادائیگی اجتماعی نظم کے تحت ہو تی ہے۔
  2. نما ز جمعہ اور عید ین کی ادائیگی بغیر اجتما عیت کے ممکن نہیں۔ قرآن حکیم انفرادی واجتماعی، ہر سطح پر عمل کے لئے اجتما عیت اختیار کر نے کا حکم دیتا ہے۔

۱۔ انفرادی زند گی میں اﷲ کا تقوی ٰ اختیار کر نے یعنی اﷲ تعالیٰ کی نا فر مانی سے بچنے کے لئے صادقین کی صحبت سے استفادہ ضروری ہے (التوبہ: ۱۱۹)۔

۲۔ سورۃ العصر میں حق کی تلقین و تاکید کر نے کے لئے تواصی کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں مل جل کر اوراہتمام کے سا تھ حق کی تبلیغ کر نا۔

۳۔ اقامت دین کی جدوجہد کے حوالے سے ارشا د باری تعالیٰ ہے:

’’اﷲ ایسے بند وں سے محبت فرما تا ہے جو اس کے دین کے غلبے کے لئے جنگ کریں مگر اس طر ح منظم ہو کر گویا کہ وہ ہوں سیسہ پلا ئی ہو ئی دیوار۔ ‘‘(الصف: ۴)

  1. دوسروں کو اﷲ کی بندگی کی دعوت دینے کے حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’چاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو جو خیر کی طر ف بلا ئے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور یہی لو گ کا میاب ہو نے والے ہیں۔ ‘‘(آل عمران: ۱۰۴)

اجتما عیت کی اہمیت احادیث کی روشنی میں:

۱۔ عن عمر ؓ عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال علیکم بالجماعہ وایا کم والفر قۃ فان الشیطن مع الواحدوھومن الا ثنین ابعد من اراد بحبوحۃ الجنۃ فلیلز م الجماعۃ (تر مذی)

’’حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم پر جماعت کا التزام کر نا لا ز م ہے اور یہ کہ جدا ہونے سے بچو۔ پس شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور دو سے نسبتاً زیادہ دور ہو تا ہے‘‘۔

جو کوئی جنت کی خوشبو کا طلبگار ہو پس وہ جماعت کے سا تھ جڑا رہے۔

۲۔ عن ابن عمرؓ ان رسول اﷲ ﷺ قال ید اﷲ علی الجماعۃ ومن شذشذا لی النار (الجامع الصغیر)

’’حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ بے شک اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جماعت پر اﷲ کا ہا تھ ہو تا ہے جو کو ئی جماعت سے علیحدہ ہو ا، وہ علیحدہ کر دیا گیا جہنم کی طرف‘‘۔

۳۔ عن زید بن ثابت ؓ قال سمعت رسول اﷲ ﷺ ثلا ت لا یغل علیھن قلب مسلم اخلا ص العمل ﷲ ومناصحۃ ولاۃ الامر ولز و م الجماعۃ فان دعوتھم تحیط من ورآئھم۔ (تر مذی، ابوداؤد)

’’حضرت زیدبن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا کہ تین با تیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ایک مسلما ن کا دل نفاق میں مبتلا نہیں ہوتا، عمل کا خالصتاً اﷲ کیلئے ہو نا، ذمہ دار حضرات کے ساتھ خیر خواہی ووفاداری کر نا اور جماعت کے ساتھ چمٹے رہنا کہ بے شک جماعت والو ں کی دعائیں اسے محفوظ رکھتی ہیں۔ ‘‘

مندرجہ بالا احادیث میں مسلمانو ں کو الجماعۃ کے ساتھ رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ الجماعہ سے مراد پوری کی پوری امت مسلمہ ہے جبکہ وہ ایک امیر کی قیا دت میں متحد ہو۔ البتہ بحالت موجو دہ، دنیا میں الجماعہ مو جو د ہی نہیں اور مسلما ن مختلف قومیتوں میں بٹے ہو ئے ہیں۔ لہذا اس صورت حال میں مندرجہ بالا احادیث پر عمل کا طریقہ یہ ہے کہ ایسی جماعت میں شامل ہو ناچاہیے جو پھر سے الجماعہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔

ایک عام آدمی یہ سوال کر تا ہے کہ معاشرے میں بے شمار جماعتیں مو جو د ہیں اور سب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ درست انداز میں کام کر رہی ہیں تو پھر آدمی کس جماعت میں شامل ہو؟ یٍہ ایک اہم سوال ہے جسے سرسری انداز سے نہیں لینا چاہیے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ جب ہمیں کپڑوں کی ضرورت ہو تی ہے تو ہم بازار کا رخ کر تے ہیں۔ کیا بازارمیں بہت سی دکانیں دیکھ کر ہم کپڑا خریدے بغیر واپس آجا تے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ ہم نے کپڑا خریدنا ہے کیونکہ کپڑا ہماری ضرورت ہے۔ ایک دکاندار نے ہمیں مطمئن کر دیا تو اسی سے خرید تے رہیں گے ورنہ دکا ندار بدل لیں گے۔ بعینہ معاملہ جماعتوں کا ہے۔

جماعتی زندگی ہماری ضرورت ہے، زیادہ جماعتوں کی مو جودگی سے ہم اپنی ضرورت کو چھوڑ نہیں سکتے بلکہ ہم حتی المقدورکوشش کریں گے کہ کسی ایسی جماعت میں شمولیت اختیار کی جا ئے جو قرآن وسنت کی تعلیما ت کی روشنی میں دین اسلام کے غلبے کا کام کر رہی ہو، جس کی قیادت پر خلو ص ہو، جو فرقہ واریت اور مسلک سے بالا تر ہو۔ اگر ایسی جماعت نہیں ملتی تو پھر ہمیں خو د اٹھ کر یہ جماعت بنا نا ہو گی کیونکہ آقائے نامدار ﷺ نے ہمیں جماعتی زندگی کا حکم دیا ہے۔ جامع ترمذی اور مسند احمد میں حضور اکر م ﷺ کی درج ذیل حدیث درج ہے۔

عن الحارث الا شعری ؓ قال قال رسول ﷺ امرکم بخمس بالجماعۃ والسمع والطاعۃ والھجرۃ والجھاد فی سبیل اﷲ۔ [1]

حضرت حار ث الا شعری ؓ سے روایت ہے کہ فرما یا اﷲ کے رسول ﷺ نے ’’میں تمھیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں، جماعت اختیار کر نے کا، سننے کا، اطاعت کر نے کا، ہجرت کر نے کا اور اﷲ کی راہ میں جہاد کر نے کا‘‘۔

زیر نظر کتاب میں پاکستان کی چار غیر سیاسی دینی تحریکوں کا غیر جابندارانہ تجزیہ کر نے کی کو شش کی گئی ہے۔ جوکچھ صحیح لکھا گیاوہ اﷲ تعالیٰ کی طر ف سے ہے اور جہاں خطا ہو ئی اس کا ذمہ دارمیں خودہوں۔ اﷲ تعالیٰ خطاؤں سے درگزر فرمانے والا ہے۔

 

غلام حیدر مگھرانہ

شعبہ علوم اسلامیہ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور، پاکستان



[1] مسند احمد ۱۳۰/۴۔ سنن التر مزی (ح ۲۸۶۷)۔ کتاب الامثال، با ب ماجاء فی مثل الصلا ۃ والصیام والصدقۃ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...