Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

غیر سیاسی اسلامی تحریکیں: تنظیم اسلامی، تحریک ختم نبوت، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی |
Asian Research Index
غیر سیاسی اسلامی تحریکیں: تنظیم اسلامی، تحریک ختم نبوت، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی

حرف آغاز
ARI Id

1681275197971_56115060

Access

Open/Free Access

Pages

ز‌

غیر سیاسی اسلامی تحریکیں (تعارف اور تجزیہ) ڈاکٹر غلام حید ر مگھرانہ کی تحقیقی کتاب ہے جسے ڈاکٹر مگھرا نہ نے نہایت محنت، ذہانت اور جذبے سے مرتب کیا ہے۔ یوں تو ملت ِ اسلامیہ کی تاریخ کے تمام ادوار کا مطالعہ مسلمانوں کے لیے عام طور پر اور اسلامی علوم کے طلبہ کے لیے خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ مگراہل علم کے لیے امت کا دور اول اور دور حاضر خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ دورِ اول اس لیے کہ یہ امت کی تشکیل، تعمیر، عروج اورسطوت کا دور ہے۔ اس دور میں تشکیل و تعمیرامت کی رہنمائی کا سامان ہے۔

یہ عہد جناب رسالت مآب ﷺ اور آپ کے جانشین خلفاء راشدین کا عہد ہے۔ یہ عہد زمانے کے لحاظ سے ماضی کا حصہ ہے۔ مگر ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ایسا ماضی جو حال سے جڑا ہوا اور مستقبل کی صورت گری کا ذریعہ۔ دور ِ حاضر میں ہم پھر تشکیل امت ا ور تعمیر ملت کے مرحلے سے دوچا ر ہیں۔ پھر سے تشکیل و تعمیر کا مرحلہ اس بات کو عیاں کر رہا ہے کہ امت پر تفرقہ اور تخریب کا دور بھی گزرا ہے اور اس کے اثرات اب بھی موجود ہیں، جن سے امت کو پاک کر کے تشکیل و تعمیر کے ر استے پر ڈالنا مقصود ہے۔ اس نیک مقصد کے لیے کوششیں ہر دور میں جاری رہیں۔ شاہ والی اﷲؒ کی شخصیت کو دور زوال اور دور عروج کے لیے آغاز کی شخصیت قرار دیا جا سکتاہے۔ سترویں صدی عیسوی کے اختتام تک ہمارا عروج رہا۔ اٹھارھویں صدی عیسوی کے آغاز میں زوال شروع ہوا۔ اس عہد میں شاہ ولی اﷲؒ نے علمی تحریک کے اسباب مہیا کیے۔

 اسلام دین ہے۔ امت کے دور زوال میں دین اسلام کے ا حیا ء کے لیے سیاسی اور غیر سیاسی دونوں طریقوں سے کام ہوا ہے۔ احیاء کے لیے کام کرنے والے ان دنوں گروہوں کے ہاں اسلامی لٹریچر ہی ماخذ کی حیثیت سے پیش نظر رہا۔ دراصل خلافت کے بعد ملوکیت کے رائج ہونے کی بنا پر اسلام کی بحیثیت مذہب حیثیت زیادہ نمایاں رہی۔ پھر راہبانہ تصورات درآنے کی وجہ سے ترک دنیا کو ترجیح حاصل ہو گئی اور مذہب روایات کا مجموعہ بن کررہ گیا جیسا کہ اقبال ؒ نے فرمایا:

حقیقت خرافات میں کھو گئی

یہ امت روایات میں کھو گئی

احیاء دین کا تقاضا یہ ہے کہ خرافات کو دین اسلام کی حقیقت سے جدا کیا جائے اور روایات کی بجائے اسلامی تعلیمات پر فوکس کیا جائے تاکہ زندگی گزارنے کا صیح طریقہ اور راستہ امت پر واضح ہو اور ہماری پستی بلندی میں اور زوال عروج میں تبدیل ہو جائے۔ اگرچہ احیائی عمل میں سبھی تحریکیں اور جماعتیں اس مقصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں مگر سیاسی اور غیر سیاسی کے صیح اور غلط ہونے کی بحث کے ساتھ ڈاکٹر مگھرانہ کی یہ کوشش بھی اس پس منظر میں حق کی تلاش کی ایک کوشش ہے۔ جس کے لیے میر ی دلی دعا ہے کہ وہ بارآور ثابت ہو۔

 عصر حاضر کی زبان نے ترقی کی منازل طے کرکے زندگی کو مختلف شعبوں میں تقسیم کرکے ان کے لیے الگ الگ اصطلاحات تخلیق کر دی ہیں۔ اگرچہ یہ تمام تصورات ہمارے ابتدائی لٹریچر میں بھی موجود ہیں مگر ملوکیت کے دبیز پردوں میں چھپ جانے کی وجہ سے صاف صاف نظر نہیں آتے۔ دور ِ حاضر میں جہاں ملوکیت کی چولیس ڈھیلی پڑیں وہاں اہل علم نے دین اسلام کے تمام اجزاء کو کھول کر بیان کیا اور ان سب کو ایک نظام زندگی کے اجزاء کے طور پر واضح کیا اور ان اجزاء سے پھر نظام کی شکل نکھا ر کر پیش کی۔

شاہ ولی اﷲؒ کے بعد ان اہل علم میں سرسید احمد خان، علامہ اقبال اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودی بلند مقام کے حامل ہیں۔ ان حضرات کے ہاں اسلام سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی کے لیے محض اخلاقی ضوابط تک محدود نہ رہا بلکہ سیاسی نظام، معاشی نظام اور معاشرتی نظام کی واضح تعلیمات پر مشتمل دین یعنی نظام زندگی تک وسعت اختیار کر گیا۔ یہ نظام بھی اﷲ نے زندگی میں قائم کرنے کے لیے نازل فرمایا۔

چنانچہ نبیﷺ نے دین قائم فرمایا اور امت میں دین قائم رہا مگر دور زوال میں امت اس دین کو قائم نہ رکھ سکی۔ جس مسلم ملک کو جس مغربی ملک نے فتح کرکے اس پر اپنی حکومت قائم کی وہاں اس ملک نے اپنا ملکی نظام قائم کر دیا اور اسلام کو مذہب بنا کر انفرادی زندگی کے شعبوں تک محدود کر دیا۔ مسلمانوں نے ملوکیت کے زیر اثر ہونے کی بنا پر اس کی زیادہ مزاحمت نہ کی بلکہ اس تصور مذہب کے بڑے حصے کے ساتھ ساز گار رہے۔ بالا خر مغرب کے بستر بوریا لپیٹنے کا وقت آن پہنچا۔ محکوم مسلم ممالک میں آزاد کی تحریکوں نے بیداری پیدا کی۔

سیاسی آزادی کے ساتھ زندگی کے نظام کو اسلام کے تابع کرنے اور آزادی کے بعد ملک کا نظام اسلامی تعلیمات کے مطابق قائم کرنے کی زور دارآواز ہندوستان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بلند کی اور اس کے لیے ایک جماعت قائم کی جس نے شہادت حق، اقامت دین کی اصطلاحات کے ذریعے اسلامی نظام زندگی قائم کرنے کا باقاعہ مطالبہ لے کر میدان عمل میں قدم رکھا۔

1857کی جنگ آزادی کی ناکامی نے برصغیر پاک وہند میں ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔ اس سانحہ نے مسلم علماء و امراء کے ذ ہنوں کو بہت بری طرح متاثر کیا۔ اس شکست میں سے ہی بہتر مسقتبل کے اسباب پیدا ہوئے۔ ہر گروہ کو ملت اسلامیہ کی بھلائی اور اسلام کے دفاع کا جو طریقہ سمجھ میں آیا اس نے اختیار کر لیا۔ علمی سطح پر پرانے نظام تعلیم میں سے اسلامی مضامین پر مشتمل کتب پڑھانے کے لیے مدسہ جات تعمیر کیے گئے۔ اس کی نمائندگی دارالعلوم دیوبند نے کی۔ انگریز حکمرانوں نے جدید علوم کے ذریعے ترقی کرکے ہزاروں میل دور آکر ہندوستان کی حکومت ختم کر کے اس کی جگہ اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ کچھ خیرخواہان ملت نے سمجھا کہ انگریز حکمرانوں نے قلم میں مہارت کی بنا پر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو بھی یہ علوم حاصل کرنے چاہییں۔ اُن کو جدید علوم کی طرف راغب کرنے کے لیے انہوں نے انگریز ی تعلیم کے ادارے قائم کرنے پر زور دیا۔ اس کی نمائندگی علی گڑھ نے کی۔ علم کے بعد عمل کے میدان میں مسلمان پھر دو حصوں میں تقسیم ہوئے۔ ایک گروہ نے سیاست میں قدم رکھا اور کار حکمرانی کے ذریعے مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت کا کام سنبھالا۔ دوسرے گروہ نے اسلام کی عبادات پر عمل اور اخلاق کو ترجیح بنایا اور وعظ و تقریر کے ذریعے عام مسلمانوں میں عبادات و اخلاق کو رائج کرنے پر اپنا زور صرف کر ناشروع کیا۔ ہر گروہ ملت اسلامیہ ہندوستان کا خیر خواہ اور اپنے خیال کے مطابق خدمت دین پر گامزن رہا۔

 ہندوستان میں ملت اسلامیہ کے مفاد کی حفاظت اور دین اسلام کے دفاع کی ان مساعی نے طویل سفر طے کیا۔ بالاخر تقسیم ہند برنبائے مسلم وغیر مسلم کی قرار داد پاس ہوئی جسے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مسلم لیگ نے اپنے سالانہ اجلاس میں منٹو پارک لاہور میں پاس کیا۔ اس قرار داد میں ہندوستان کے مسلم اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کی آزاد حکومت قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ پاس ہوتے وقت یہ قرارد داد لاہور تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قرار داد پاکستان بن گئی اور الگ وطن کا نام پاکستان بن گیا۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ ا لا اﷲ کا نعرہ عوام کی زبانوں پر رائج ہو کر عوام نے پاکستان کے لیے آئندہ کے نظام کی صورت گری خود کر دی۔ جبکہ مسلم لیگ کی قیادت نے علامہ اقبال کے افکار کو اپنی تحریک کے لیے راہنما بنایا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی پاکستان میں اسلامی فلاحی جہوری نظام قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس صورت حال میں ایک اور آواز نے قوم کے پڑھے لکھے طبقے کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے اسلامی سیرت و کردار کے لوگ ہونے چاہیں۔ جو مسلمان علی گڑھ سے انگریزی اسلوب و زبان کے ذریعے تیار ہوئے ہیں وہ اسلامی تعلیمات کے علم سے بے خبر اور عمل سے بیگانہ ہیں۔

 مسلمان سے اسلام کا مطالبہ تو نظام کو اس کے مطابق قائم کرنے کا ہی ہے۔ مگر اسلامی نظام قائم کرنے کا اہل وہی ہو سکتا ہے جو اسلام کے علم سے واقف اور سیرت و کردار میں اسلام کا عملی نمونہ ہو۔ مولانا مودودی نے اسلام کوبحیثیت نظام زندگی متعارف کرانے اور مسلمانوں میں اسلامی سیرت وکردار پیدا کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ سیاست کے میدان میں کارکنان اور قائدین سے جن خصوصیات کا مطالبہ کیا جاتاہے ان کا تعلق سیاست کے تقاضوں سے ہوتا ہے۔ جبکہ مذہب کے میدان میں جب خوبیوں کومعیاربنایا جاتا ہے وہ عبادات، اخلاق، ﷲیت، فکر آخرت اور دنیا سے بے رغبتی وغیرہ کے اعلیٰ اوصاف ہیں۔ دنیا میں یہ دودھارے الگ الگ رہتے ہیں اور لوگ دونوں سے حسب اسطاعت استفادہ کرتے ہیں۔ جبکہ مولانا مودودی نے اسلام کی جو تشریح کی وہ علامہ اقبال کے افکار کی ترجمانی تھی۔ مثلاََ اقبال نے کہا:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری

 مولانا مودودی نے فرمایا مسلمان اپنی زندگی سے دو رنگی کو ترک کر دیں، وہ اپنے اندر خالص مومنانہ صفات بھی پید ا کریں اور سچے مومن بن کر قیادت پر خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو فائزنہ رہنے دیں بلکہ اقتدار صالحین کے ہاتھ میں دیں تاکہ وہ اسلام کے مطابق نظام کو قائم کریں اور قائم رکھیں۔

روا یتی مذہبی راہنماؤں کو اس فکر میں سیاست نظر آئی۔ چنانچہ ایک طبقے نے اسلام کو سیاست کی آلود گی سے بچانے کے کے روایتی مذہبی اقدار کی زور دار طریقے سے تبلیغ کا راستہ اپنایا۔ روایتی علماء کرام نے اس تصور کے رد میں لٹریچر شائع کیا۔ عام مسلمان تو اپنے طقے سے جڑے رہے۔ جس نے جس خاندان میں جنم لیا اسی کے تصور مذہب کو اپنا لیا۔ مسئلہ ان افراد کے لیے پیدا ہوا جو ایک رائے پر اکتفا نہیں کرتے۔ دوسری آراء کا بھی جائزہ لیتے اور خود کسی نتیجہ فکر پر پہنچنا چاہتے ہیں۔ ایسے متلاشیان حق ہی دراصل کس قوم کی حیات کی علامت ہوتے ہیں۔ کیونکہ افکار ہی سے تازہ جہاں نمودار ہوتے ہیں اور سوچنے سمجھنے والے ذہن قوم کی تعمیر کے ذریعے نئی دنیا تعمیر کرتے ہیں۔ غوروفکر کرنے والوں کے لے سوچنے او رسمجھنے کا نیا دروازہ کھلتا ہے۔

 ڈاکٹر غلام حیدرمگھرانہ بھی افکار تازہ سے نئی دنیاؤں کی تخلیق پر یقن رکھنے والی بے چین روح اور بے قرار جذبوں سے مالا مال ہیں۔ اس لیے کسی ایک مقام پر پڑاؤاور ہمیشہ کے لیے وہاں پڑے رہنا انہیں گوارانہ ہوا۔ لہذا تلاش حق کی جستجوا نہیں در در لیے پھری۔ اس راہ میں انہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا۔ جس جگہ قرار آیا تھوڑی دیر کے لیے قیام کیا مگر بے قرار دل انہیں نئے سفر پرلے کر چل کھڑا ہوا۔ لٹریچر کے ساتھ ساتھ اہم شخصیات سے بذریعہ ملاقات استفادہ بھی ان کے اس سفر کاتوشہ ہے۔

اب تک جو سمجھا اس کے ایک حصے کو کتابی شکل میں سوچنے سمجھنے والوں کے سامنے پیش کر دیا۔ تحقیق کا میدان بہت وسیع ہے۔ یہاں حق کی تلاش کا سفر جاری رہنا ہے۔ تحقیق اور تفرقہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ تحقیق میں افکار زیر بحث آتے ہیں اور ان کی چھان پٹھک کا کام ہوتا ہے۔ ا س طرح افکار میں نکھار پیدا کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ جبکہ تفرقہ میں اہمیت افراد کی ہوتی ہے۔ اس میں بحث ہمارے اور تمھارے حضرات کے حق اور ناحق ہونے میں ہوتی ہے۔ ہمارے حضرات کی جیت اور تمھارے حضرات کی ہار مطلوب ہوتی ہے۔ اس طریقہ بحث سے افکار میں انتشار اور افراد میں نفرت اور قوم میں عداوت پرورش پاتی ہے۔ ڈاکٹر غلام حیدرمگھرانہ نے تحقیق کا راستہ اختیار کرکے افکار میں نکھار پیدا کرنے کی کوشش کی جبکہ ا فراد ان کے نزدیک قابل احترام رہتے ہیں۔

" غیر سیاسی اسلامی تحریکیں" نام سے ڈاکٹر مگھرانہ نے چار اسلامی تحریکوں کا ذکر کیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے علاوہ باقی تینوں تحریکیں قیام پاکستان کے بعد وجود میں آئیں۔ تحریک ختم نبوت کو محترم ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۵۳ء سے شروع کیا۔ اگرچہ ان چاروں تحریکوں کا نقطہ آغاز قیام پاکستا ن سے پہلے ہے مگر ان کی آبیاری اور فروغ قیام پاکستان کے بعد ہوا۔

تنظیم اسلامی کو غیر سیاسی کہنا بھی محل نظر ہے۔ کیونکہ تنظیم اسلامی کے سامنے منزل اسلامی انقلاب ہے۔ وہ مولانا مودودی کی جماعت اسلامی کی اصطلاحات شہادت حق، اظہار دین اور اقامت دین کو اسی مفہوم میں سمجھتی اور سمجھاتی ہے۔ جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی میں فرق سیاسی اور غیر سیاسی ہونے کا نہیں بلکہ پاکستان میں قائم نظام کو بدل کر اسلامی تعلیمات کے مطابق کرنے (جسے دونوں جماعتیں اسلامی انقلاب کہتی ہیں) کے طریقہ کار میں ہے۔

جماعت اسلامی انتخاب میں حصہ لے کر حکومت بنانے اور حکومت کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ جبکہ تنظیم اسلامی عوام میں اسلامی شعور پیدا کرکے ایک بہت بڑی تعداد کو اپنا ہمنوا بنا کر پرامن مظاہر وں کے ذریعے حکومت کو اسلامی نظام قائم کرنے پر آمادہ یا مجبور کرکے اسلامی انقلاب برپا کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کو اپنے اپنے طریقہ کار کے ذریعے کامیابی نہیں مل سکی جبکہ دونوں جماعیتں بڑے خلوص کے ساتھ اپنے اپنے طریقے پر عمل پیرا ہیں اور یقین رکھتی ہیں کہ راستہ یہیں سے نکلے گا۔

بڑھے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی

بہر حال بڑا دلچسپ مطالعہ ہے۔

تحریک ختم نبوت تمام مسلمانوں کی مجموعی جہدوجہد کا نام جسے 1974 میں کامیابی نصیب ہوئی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ دعویٰ نبوت کے جواب میں ختم نبوت کے عقیدے کو واضح کرنے کا نام ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر کے اپنی ایک جماعت بنائی جسے پاکستان میں اچھا خاصا اثر و رسوخ حاصل ہوا۔ مسلمان اس تحریک سے متاثر ہوئے اور اس میں شامل ہونا شروع ہوئے۔ مرزا صاحب نے اپنی نبوت کے نہ ماننے والوں کو کافر قرار دیا تو مسلمانوں نے ان کو اپنے سے جدا مذہب قرار دینے کی جہدوجہد کی جو بالآخر کامیاب ہوئی۔ اب مجلس ختم نبوت علمی میدان میں سرگرم عمل ہے۔

تبلیغی جماعت نے مذہب اسلام کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا اور ان پڑھ میواتیوں میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ مولانا الیاسؒ اس کے بانی تھے۔ بغیر جدید ذرائع اختیار کیے اس جماعت نے دنیا بھر میں اپنے کام کو پھیلایا اور تعارف حاصل کیا۔ اس جماعت کے بارے میں لٹریچر بہت کم ملتا ہے کیونکہ یہ عملی میدان میں مسلمانوں کی اصلاح کا کام کرتی ہے اور خوب کرتی ہے۔ مگر اس کو اسلام کی خدمت کے لیے مزید کیا کرنا چاہیے، اس پر ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں بحث کی ہے۔ دعوت اسلامی بھی تبلیغی جماعت ہی کے طرز پر کام کرنے والی جماعت ہے۔ اس کے بانی مولانا الیاس قادری ہیں۔ یہ بریلوی مکتبہ فکر کی نمائندہ جماعت ہے۔ سنتوں پر عمل کرنے کی ترغیب کے ذریعے مسلمانوں کو اسلام کے رنگ میں رنگ جانے پر زور دیتی ہے۔ اس کی دلچسپ داستان آپ کو کتاب کے چوتھے باب میں ملے گی۔

ڈاکٹر مگھرانہ نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس اہم علمی کام کو انجام دیا ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ علمی کام بہتر ین علمی نتائج پیدا کرے۔ محققین کے لیے تحقیق کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو۔ اہل علم خالص علمی طریقہ سے اس کام کو آگے بڑھائیں اور نیک مقاصد کے حصول میں سبھی کام کرنے والے کامیاب ہوں۔

 

 پروفیسر علی اصغر سلیمی

 شعبہ علوم اسلامیہ

 بہاؤالدین  زکریا یونیورسٹی ملتان

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...