Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

غیر سیاسی اسلامی تحریکیں: تنظیم اسلامی، تحریک ختم نبوت، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی |
Asian Research Index
غیر سیاسی اسلامی تحریکیں: تنظیم اسلامی، تحریک ختم نبوت، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی

پہلا باب: تنظیم اسلامی
ARI Id

1681275197971_56115061

Access

Open/Free Access

بانی تنظیم ڈاکٹر اسرار احمد کا تعارف

ڈاکٹر اسرار احمد، ۲۶ اپریل ۱۹۳۲ ء کو ضلع حصار، ہریانہ، بھارت میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۵ء۔ ۱۹۴۶ ء میں حصار ڈسٹرکٹ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے فعال کا رکن اور جنرل سیکرٹری رہے۔

۱۹۴۷ ء میں میٹرک کے امتحان میں ضلع حصار میں اوّل اور پنجاب یونیورسٹی میں مسلم طلباء میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ ہائی سکول کی تعلیم کے دوران ہی علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء۔ ۱۹۳۸ء) کی ولولہ انگیز ملی شاعری سے ذہنی و قلبی رشتہ استوار ہوا اور احیائے اسلام کے لیے عملی جدوجہد کی امنگ سینے میں پرورش پانے لگی۔

اکتوبر، نومبر ۱۹۴۷ ء میں براستہ سلیمانکی قافلے کے ساتھ بیس دن پیدل سفر کر کے پاکستان آئے۔ ۱۹۴۹ ء میں گورنمنٹ کالج لاہورسے ایف۔ ایس۔ سی

( میڈیکل) میں پنجاب یونیورسٹی میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ ۱۹۵۴ ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کیا۔ ۱۹۶۰ء۔ ۱۹۶۱ء میں منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حلقہ مطالعہ قرآن و اسلامک ہاسٹل قائم کیا۔ ۱۹۶۲ ء میں والدین کے ہمراہ پہلی بار حج کی سعادت حاصل کی۔

 ۱۹۶۵ ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں پاس کیا اور اواخر سال لاہور منتقل ہوکر کرشن نگر ( حال اسلام پورہ) میں ذاتی مطب قائم کرنے کے ساتھ ساتھ مطالعہ قرآنِ حکیم کے متعدد حلقے قائم کیے۔ فروری ۱۹۷۱ ء میں دوبارہ حج بیت اﷲ سے مشرف ہوئے۔ اس موقع پر زندگی کا اہم ترین فیصلہ یعنی آئندہ میڈیکل پریکٹس چھوڑ کر بقیہ زندگی ہمہ وقت دین کی خدمت میں وقف کرنے کا عزم کیا۔

۱۹۷۲ ء میں تعلیمات وافکارِ قرآنی کے فروغ کے لیے مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور کے علاقہ کرشن نگر میں قائم کی۔ بعد ازاں ۱۹۷۵ء میں تنظیمِ اسلامی کے نام سے غلبہ و اقامت دین کے لیے ایک قافلہ تشکیل دیا۔

۱۹۸۱ء میں جنرل ضیاء الحق (م: ۱۷ اگست ۱۹۸۸ ء) کی مجلس شوریٰ کے رکن نامزد ہوئے مگر دو اجلاسوں میں شرکت کے بعد یہ محسوس کرتے ہوئے کہ یہ ایک لاحاصل کام ہے، استعفیٰ دے کر علیحدگی اختیار کر لی۔ اپنی ایک تقریر میں ڈاکٹر اسرار احمد کہتے ہیں کہ:

’’لاہور کے گورنر ہاؤس میں میں نے ضیاء الحق سے یہ کہا کہ ایوب خان کے بنائے ہوئے عائلی قوانین غیر اسلامی ہیں لہٰذا انہیں تبدیل کردیں۔ جنرل صاحب کا جواب یہ تھا کہ اگر میں نے عائلی قوانین کو تبدیل کر دیا تو پھر خواتین کا کیا بنے گا ( یعنی خواتین پر جب قدغنیں لگیں گی تو ان کی طرف سے احتجاج ہو گا)۔ ڈاکٹر اسرار احمد کہتے ہیں کہ یہ جواب سن کر میں نے انہیں استعفیٰ پیش کردیا‘‘[1]

ڈاکٹر اسرار احمد نے۱۹۹۱ ء میں ’’تحریک خلافت پاکستان‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔ ڈاکٹر صاحب کی دینی مساعی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے سب بھائی، بیٹے، بہوئیں، بیٹیاں، داماد اور متعدد دیگر قریبی عزیز و اقارب بھی تنظیم اسلامی میں شامل اور حسب توفیق سرگرم عمل ہیں[2]۔

جماعت اسلامی سے تعلق اور علیحدگی

ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی کتاب’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ میں جماعت اسلامی سے اپنے تعلق کی ابتدا اور علیحدگی کی وجوہات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ جماعت اسلامی سے تعارف کے ضمن میں لکھتے ہیں:

’’پیدائش ( اپریل ۱۹۳۲ء) سے میٹرک پاس کرنے تک (۱۹۴۷ ء ) کا زمانہ میں نے ضلع حصار مشرقی پنجاب میں گزارا۔ ظاہر بات ہے کہ جماعت اسلامی کا قیام اور اس کی زندگی کے اوّلین سال تو میری بالکل بے شعوری اور ناسمجھی کا زمانہ تھا۔ ۱۹۴۶ء۔ ۱۹۴۷ ء میں جب کہ میں میٹرک میں پڑھ رہا تھا، مسلمانان ہند کے اعصاب پر مسلم لیگ کی تحریک پورے طور پر مسلط تھی اور یہی اس کا تسلط کچھ سمجھ اور کچھ بے سمجھی کے ساتھ میرے دل و دماغ پر بھی تھا۔ تاہم اس زمانے میں ہی میرے کان میں جماعت اسلامی کی دعوت بھی پڑ چکی تھی۔

میرے بڑے بھائی اظہار احمد صاحب اس زمانے میں جماعت کے لٹریچر کا بالاستیعاب مطالعہ کر رہے تھے۔ حصار سے لاہور آتے ہی یعنی قیام پاکستان کے فوراً بعد میں نے بھی جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ شروع کر دیا اور جماعت لاہور کے حلقہ کرشن نگر کے ساتھ عملاً وابستہ ہو گیا۔ ۔ ۔ لیکن میں جماعت کے ساتھ اپنے اس دور کے تعلق اور وابستگی کو بے شعوری کا تعلق اور وابستگی قرار دیتا ہوں۔ ایک عام کارکن کی طرح اگر چہ میں بھی بھاگ دوڑ میں پوری طرح حصہ لیا کرتا تھا لیکن تحریک کے ساتھ میرا یہ تعلق سطحی تھا اور میں ابھی پوری طرح اسے سمجھ بھی نہ پایا تھا۔ تاہم اس بات کا احساس بھی مجھے جلد ہی ہو گیا تھا۔ ۱۹۴۹ ء کے اواخر میں، میں میڈیکل کالج میں داخل ہوا اور اس وقت سے میں نے جماعت اور تحریک کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا تو اپنے تعلق کا سطحی ہونا واضح ہوا اور جماعت کی دعوت اپنی پوری گہرائی کے ساتھ دل و دماغ پر منکشف ہوئی‘‘[3]۔

ابتداء میں ڈاکٹر اسرار احمد کرشن نگر میں قائم جماعت اسلامی کے حلقہ کے ساتھ منسلک ہوئے اور دینی معاملات میں سرگرمی دکھائی تاہم میڈیکل کالج میں داخلے کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ ٭کے ساتھ منسلک ہو گئے جو جماعت کا طلبہ ونگ ہے۔ اپنی کتاب ’’مولانا مودودی مرحوم اور میں‘‘ میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’جیسے ہی میں نے ایف ایس سی پاس کر کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں ایم بی بی ایس کلاس میں داخلہ لیا میں نے اپنی رہائش بھی کالج کے ہاسٹل میں منتقل کر لی اور اس طرح اب میرا رابطہ جماعت اسلامی کی بجائے اسلامی جمعیت طلبہ سے قائم ہو گیا اور چونکہ مجھے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کا خاصا عملی تجربہ حاصل تھا، لہٰذا میں جمعیت

٭جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ( ۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء۔ ۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) نے ۲۵ دسمبر ۱۹۴۷ ء کو تعلیمی اداروں میں طلبہ کے اندر اسلامی روح پھونکنے کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کی بنیادی رکھی۔ ظفراﷲ خان ( مقیم لاہور ) اسلامی جمعیت طلبہ کے پہلے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم پر تربیت حاصل کرنے والوں میں ڈاکٹر اسرار احمد، لیاقت بلوچ، سراج الحق جیسے افراد شامل ہیں۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی لاہور اسلامی جمعیت طلبہ کا گڑھ سمجھی جاتی ہے۔

میں ایک دم فعال اور سرگرم ہوگیا اور سال اول کے دوران ہی مجھے جمعیت لاہور کے حلقہ میڈیکل کالج کا ناظم بھی مقرر کر دیا گیا اور اکثر و بیشترجمعیت کے اجتماعات میں درس قرآن کی ذمہ داری بھی میرے ہی سپرد ہونے لگی‘‘[4]۔

میڈیکل کالج کی نظامت سے لے کر پاکستان کی نظامت تک کا سفر ڈاکٹر اسرار احمد نے MBBS کی تعلیم کے لیے دوران طے کر لیا اور جیسے ہی میڈیکل کالج سے فارغ ہوئے جماعت اسلامی میں شمولیت کے لیے کمرکس لی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:

’’۱۹۵۴ ء کے اکتوبر میں میں ایم بی بی ایس کا آخری امتحان پاس کر کے تعلیم سے فارغ ہوا۔ نتیجہ برآمد ہوتے ہی پہلا کام جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی رکنیت سے استعفاء دے دیا اور زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کے بعد یعنی ۱۵ نومبر ۱۹۵۴ ء کو میں نے جماعت اسلامی کی رکنیت٭ کی درخواست دے دی۔ ۔ ۔ درخواستِ رکنیت پیش کر دینے کے بعد ہی میں نے فوراً جماعت کے ارکان کی طرح اپنے آپ کو نظم کا پابند بنا کر کام شروع کر دیا۔ ۔ ۔ بہر حال فروری۱۹۵۵ ء میں میری درخواست رکنیت منظور ہو گئی‘‘[5]۔

جماعت اسلامی ٭کے بانی سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ( ۱۹۰۳ء۔ ۱۹۷۹ء) کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد اپنی کتاب ’’مولانا مودودی مرحوم اور میں‘‘ میں تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔ قرآن حکیم کے ساتھ اپنے ربط و تعلق کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’میرا قرآن حکیم کے مطالب و معانی سے پہلا تعارف سورۃ یوسف کی ’’تفہیم‘‘ کے ذریعے ہوا اور یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہو گا کہ اصلاً سورۃ یوسف کی اپنی چاشنی اور مٹھاس اور

٭جماعت اسلامی میں رُکن کا منصب انتہائی اہم ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جماعت میں شامل ہونے والا ہرفرد رُ کن بھی بن سکے۔ جماعت اسلامی کی قیادت جب یہ اطمینان حاصل کر لیتی ہے کہ ایک فرد جماعت کے ڈسپلن کی مکمل طور پر پابندی کر رہا ہے اور اس نے نظریاتی اور عملی طور پر اپنے آپ کو اسلامی سانچے میں ڈھال لیا ہے تب اسے رُ کن بنایا جاتا ہے۔ رُکن بننے کے بعد جماعت کے نظم سے انحراف کی صورت میں رُکنیت منسوخ بھی ہو سکتی ہے۔

 پھر ؂ ’’ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان اپنا‘‘ کے مصداق مولانا مودودی کے انداز تعبیر و تفہیم کو میرے قرآنِ حکیم کے ساتھ آئندہ ربط و تعلق کی استواری میں اہم دخل حاصل ہے جس کے لیے میں مولانا مودودی کا تازیست ممنونِ احسان رہوں گا‘‘[6]۔

مولانا مودودی کے ساتھ ڈاکٹر اسرار احمد کی قربت کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے کیا جا سکتا ہے۔

’’اواخر ۱۹۵۱ء سے اواخر۱۹۵۳ ء تک، دو سال کا عرصہ میرے مولانا مودودی سے انتہائی قرب کا زمانہ ہے۔ جس کے دوران مجھ پر مولانا کی بزرگانہ شفقتیں اورمربیانہ عنایتیں اس حد کو پہنچ گئیں کہ عمراور مقام و مرتبے کے ’’بعد المشرقین‘‘ کے علی الرغم بے تکلفی کا عالم یہ ہو گیا کہ ’’باہمی‘‘ گفتگو میں طنز و مزاح کا استعمال بھی ’’دوطرفہ‘‘ ہونے لگا‘‘[7]

اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر انتظام۱۹۵۱ ء میں لاہور میں ایک تربیتی کورس کا اہتمام کیا گیا۔ اس تربیت گاہ کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

’’تربیت گاہ کے آخری دن ہم نے جملہ اساتذہ اور مربی حضرات کے لیے دعوت طعام کا اہتمام کیا۔ تو جب میں نے مولانا مودودی سے اس کا ذکر کیا اور انہیں شرکت کی دعوت دی تو انہوں نے فرمایا: ’’اچھا۔ لیکن پھر میں بھی کوئی چیز لے کر آؤں گا‘‘ اس پر میں نے بلا جھجھک کہا کہ ’’اگر یہ بات ہے تو پھر ہم لوگ مرغی پکا رہے ہیں، آپ بھی کوئی مقابلے کی چیز لے کر آئیے گا!‘‘ اگر چہ مولانا نے مجھے اس کا یہ ’’بھر پور‘‘ جواب دے کر محفل کو زعفران زار بنا دیا کہ’’مرغی کے مقابلے کی چیز تو بلی ہے!‘‘[8] ۔

گذشتہ سطور اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ڈاکٹر اسرار احمد جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت کا تعلق رکھتے تھے۔ پھر یہ کیا وجہ ہے کہ انہوں نے اپریل ۱۹۵۷ ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت سے استعفاء دے دیا ؟ ڈاکٹر اسرار احمد اپنی دو کتابوں’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ اور ’’تاریخ جماعت اسلامی کا ایک گمشدہ باب‘‘ جو کہ پہلی کتاب کا تتمہ ہے، میں اس سوال کا مفصل جواب دیتے ہیں۔

۱۵ نومبر ۱۹۵۴ ء کو جماعت اسلامی کی رکنیت کے لیے درخواست دیتے وقت ڈاکٹر اسرار احمد نے جماعت کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھا:

 ’’ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا میں خالص تحریک اسلامی تو محض جماعت اسلامی ہے( پاکستان کی بھی اور ہندوستان کی بھی) البتہ دینی مقاصد کے لیے اور اچھے کام کرنے والے اور ادارے بھی ہیں اور جماعتیں بھی ہیں۔ پاکستان میں بھی اورباقی دنیا میں بھی۔ ان اداروں یا جماعتوں نے مجھے اس حد تک تو متاثر کیا ہے لیکن جماعت اسلامی کے سوا کسی اور ادارے یا جماعت کے مقصد اور طریق کار کو میں خالصتہً اسلامی اور ٹھیٹھ دینی نہیں سمجھتا‘‘[9]۔

جماعت اسلامی کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد کا مندرجہ بالا نقطہ نظر زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور فروری ۱۹۵۵ء میں درخواست رکنیت کی منظوری کے چند ماہ بعد ہی وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اگر جماعت اسلامی اپنی موجودہ پالیسی پر گامزن رہتی ہے تو ان کے لیے جماعت کے ساتھ چلنا مشکل ہو گا۔

 نومبر ۱۹۵۵ ء کے کل پاکستان اجتماع منعقدہ کراچی کے موقع پر ایک جائزہ کمیٹی بنائی گئی تاکہ جماعت کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والوں سے ملاقاتیں کی جائیں۔

یہ مجلس ابتداً آٹھ ارکان پر مشتمل تھی لیکن چند ماہ بعد اس کو مختصر کر دیاگیا اور حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب(م: ۲۸جون۱۹۹۶ء) کی سرکردگی میں ان کے علاوہ مرکزی مجلس شوریٰ کے تین اور بزرگ اراکین یعنی مولانا عبدالجبار غازی، مولانا عبدالغفار حسن(م: ۲۲مارچ ۲۰۰۷ء) اور جناب شیخ سلطان احمد صاحب پر مشتمل اس جائزہ کمیٹی نے تقریباً آٹھ ماہ کے عرصہ میں پورے پاکستان کا دورہ کر کے اپنے فرائض مفوضہ کو ادا کیا۔

۳۰ ستمبر ۱۹۵۶ ء کو بمقام اوکاڑہ ڈاکٹر اسرار احمد نے جائزہ کمیٹی سے ملاقات کی اور اواخر اکتوبر میں اپنے خیالات کو ایک مفصل بیان کی شکل میں قلم بند کر کے مولانا عبدالرحیم اشرف کنوینر جائزہ کمیٹی کی خدمت میں پیش کردیا۔ اپنے بیان میں ڈاکٹر اسرار احمد نے اس بات پر زور دیا کہ:

’’پالیسی اور طریقہ کار کے اعتبار سے تقسیم برصغیر سے ماقبل اور اس کے مابعد کی جماعت میں واضح تفاوت و اختلاف بلکہ تضاد پایا جاتا ہے اور جب کہ قبل از تقسیم کی جماعت ایک خالص اور ٹھیٹھ اسلامی تحریک کانقشہ پیش کرتی ہے۔ وہاں بعد از تقسیم کی جماعت ایک ایسی قومی، سیاسی جماعت بن گئی ہے جس میں دین کا داعیہ چاہے کم یا زیادہ موجود ہو، خالص اسلامی تحریک کی خصوصیات موجود نہیں ہیں‘‘[10]۔

ڈاکٹر اسرار احمد نے جائزہ کمیٹی کے سامنے جو بیان دیا وہ انہوں نے اپنی کتاب ’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ میں من و عن درج کر دیا ہے۔ اس بیان میں انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے کی جماعت اسلامی اور قیام پاکستان کے بعد کی جماعت میں تقابل کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی راہ صواب سے ہٹ گئی ہے۔ ذیل میں ڈاکٹر صاحب کے بیان کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے۔

تحریک جماعت اسلامی کا دور اول

۱۔ قیام پاکستان سے قبل کی جماعت اسلامی کی سب سے پہلی اور سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس نے ’’ظاہری اسلام‘‘ اور ’’حقیقی اسلام‘‘ اور ’’نسلی مسلمان‘‘ اور ’’اصلی مسلمان‘‘ میں فرق اور امتیاز قائم کیا۔ اور مسلمانوں کو حقیقی اسلام کو شعوری طور پر اختیار کرنے اور اصلی مسلمان بننے کی دعوت دی۔

۲۔ دوسری بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ تحریک اسلامی نے اپنی دعوت اور اپیل کو مسلمانوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے غیر مسلموں تک عام کر دیا۔

۳۔ متذکرہ صدر دو خصوصیات کی بنا پر جماعت اسلامی ’’مسلمانوں کی ایک قومی جماعت‘‘ بننے کے بجائے ایک ’’اصولی اسلامی جماعت ‘‘ بنی۔ جس کا مقصد وحید اسلام کی سر بلندی اور اس کا بول بالا کرنا تھا اور وہ بھی اس وجہ سے نہیں کہ اسلام اس’’ قوم‘‘ کا مذہب تھا کہ جس کاوہ بھی ایک جزو تھی، بلکہ اس لیے کہ اس کی نگاہ میں وہی’’حق‘‘ تھا اور اسی میں پوری نوع انسانی کی دنیوی اور اخروی فلاح تھی۔

۴۔ قوم پرستانہ نصب العین کو چھوڑ کر جماعت اسلامی نے جو نصب العین اختیار کیااورجسے قبول اور اختیار کر نے کی دعوت اس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو دی وہ ’’حکومت الہٰیہ‘‘ کا قیام ہے۔

۵۔ جماعت اسلامی میں شامل ہونے والے اپنے آپ کو نو مسلم سمجھتے اور اپنے آپ کو اﷲ کے رنگ میں رنگ لیتے۔

۶۔ اس دور میں جماعت اسلامی کو ’’رائے عامہ‘‘ کی بالکل پرواہ نہیں تھی۔ اس کے پاس ترک و اختیار اور ردوقبول کا صرف ایک معیار تھا اور وہ یہ کہ ’’حق‘‘ کیا ہے اور’’ ناحق‘‘ کیا۔

۷۔ جماعت کے کام میں تقدیم و تاخیر کی ترتیب یہ تھی۔

(i) سب سے مقدم اور سب سے اہم: ذہنی فکری اور علمی انقلاب

(ii) اس کے بعد: عملی و اخلاقی تبدیلی

(iii)اور موخرترین: رفاہ عامہ اور خدمت کے کام

دورثانی:

(i)اس دور کے طریق کار کا سنگ بنیاد یہ ہے کہ اس میں ’’نسلی‘‘ اور ’’اصلی‘‘ اور ’’ظاہری‘‘ اور ’’حقیقی‘‘ اسلام کی تمیز ترک کر کے لوگوں کے ظاہری اسلام کو بطور اصل موضوعہ تسلیم کر کے استدلال شروع کیا گیا۔

(ii)ساتھ ہی اس تحریک کی اپیل اور دعوت غیر مسلموں کے لیے ختم ہو گئی۔

(iii)مندرجہ بالا دو خصوصیات کی بنا پر جماعت اسلامی ایک قومی جماعت بن گئی۔

ڈاکٹراسرار احمد کے نزدیک دورثانی میں جماعت کی پالیسی میں یہ تبدیلی اس وجہ سے ہوئی کہ جماعت عجلت پسندی کا شکار ہو گئی۔ ان کے اپنے الفاظ ملاحظہ ہوں:

’’میں سمجھتا ہوں کہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان میں کچھ اس طرح کے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ تحریک اسلامی کے لیے ایک بظاہر آسان اور مختصر راستہ دفعتاًنگاہوں کے سامنے آگیا۔ اس آسان اور مختصر راستے کے سامنے آنے کے لیے دو پہلو درج ذیل ہیں۔

(i)ایک یہ کہ قیادت کے میدان میں ایک خلا نظر آرہا تھا۔

(ii)دوسرے یہ کہ ایک نئی مملکت بنی تھی، جس کا دستور ابھی بننا تھااور اس کو ابتدا ہی میں صحیح بنیادوں پر بنوالینا بعد میں اس کو بدلوا کر صحیح کرنے سے زیادہ آسان نظر آتا تھا۔

اس پر اضافہ کچھ اور امور سے ہو گیا، جن میں سب سے اہم یہ کہ مغربی پاکستان سے ایک بہت بڑے پیمانے پر غیر مسلموں کا انخلا ہوا اور اس وسیع خطہ ارضی میں مسلمان ہی مسلمان رہ گئے۔ اس سے یہ راہ اور بھی آسان نظر آنے لگی اور محسوس ہوا کہ اسلام کی راہ کی ایک بہت بڑی رکاوٹ اﷲ تعالیٰ نے راستے سے ہٹا دی ہے۔ ۔ ۔ لہٰذا بڑھو اور اس Short Cut سے اقتدار ہاتھ میں لے کر نیچے سے اوپر کی طرف ایک فطری طریقہ پر انقلاب لانے کا کھکھیڑ مول لینے کی بجائے اوپر سے نیچے کی طرف انقلاب لانے کا ایک موقع جو مل رہا ہے، اس سے فائدہ اٹھالو‘‘ [11]۔

ڈاکٹر اسرار احمد مزید کہتے ہیں:

’’اسے غلطی میں ضرور سمجھتا ہوں لیکن اس غلطی کو میں جذبہ عجلت پسندی پر محمول کرتا ہوں، کسی بری نیت یا ارادے پر مبنی نہیں سمجھتا ‘‘[12]۔

جائزہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ تقریباً ایک سال کی محنت و مشقت کے بعد وسط نومبر ۱۹۵۶ ء میں پیش کی اور اس پر غور رکرنے کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ۲۵ نومبر کو شروع ہوا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر اسرار احمد کی آراء کو اہمیت نہ دی گئی اور ایک قرار داد پاس کی گئی جس میں یہ الفاظ درج تھے:

’’جماعت نے تقسیم ملک سے پہلے اور بعد اب تک جو کام کیا ہے اس کے متعلق مجلس شوریٰ اس بات پر مطمئن ہے کہ جماعت اپنے اصول، مسلک اور بنیادی پالیسی سے منحرف نہیں ہوئی ہے‘‘[13]۔

نومبر ۱۹۵۶ ء سے لے کر فروری۱۹۵۷ ء میں ماچھی گوٹھ کے اجتماع ارکان کے اختتام تک جماعت ایک شدید بحران سے گزری اور اجتماع ماچھی گوٹھ کے دو ماہ بعد ڈاکٹر اسرار احمد نے جماعت اسلامی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ واضح رہے کہ اس بحران میں جماعت اسلامی کے اور بھی کئی سرکردہ رہنما جماعت سے علیحدہ ہو گئے۔

مولانا مودودی ؒ کا نقطہ نظر

یہاں پر یہ بات ضروری معلوم ہوتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی کی پالیسی میں جو تبدیلی آئی اس کے بارے میں جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا موقف معلوم کیا جائے۔ ’’جماعت اسلامی، اس کی تاریخ، مقصد اور لائحہ عمل‘‘ میں مولانا مودودیؒ نے ان دلائل کو جمع کر دیا ہے کہ جن کی بنا پر ان کی رائے میں قیام پاکستان کے وقت جماعت کے طریقہ کار میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی تھی۔ اس پوری بحث اور اس میں اختیار کردہ استدلال کا خلاصہ حسب ذیل تین نکات ہیں۔

۱۔ مسلمانوں کا انفرادی اور اجتماعی اخلاق انتہائی دگرگوں حالت میں تھا۔ ان میں ’’صبر، ضبط، نظم، باقاعدگی، محنت، تعاون اور وحدت و اخوت‘‘ کے وہ اوصاف موجود نہ تھے’’جو ایک کامیاب اجتماعی زندگی کے لیے ضروری ہیں‘‘۔ لہٰذا ناگزیر تھا کہ اس مسلمان قوم کو سنبھالنے کی فوراً کوشش کی جاتی۔

۲۔ ’’۱۹۴۷ء کا سیاسی انقلاب ہماری نگاہ میں ایک مصنوعی انقلاب تھا‘‘۔ ۔ ۔ اور ’’پھر اختیارات ہاتھ میں لیتے ہی ہماری قوم کے قائدوں نے جو اب قائدہی نہیں حاکم بھی تھے، ملک کے آئندہ نظام کے متعلق جیسی الجھی الجھی متضاد باتیں کرنی شروع کیں اور قوم جس طرح ابتدائی چند مہینوں میں ٹھنڈے دل سے ان کو سنتی رہی، اسے دیکھ کر صاف معلوم ہو گیا کہ اس وقت ایک بے شعور قوم کی باگیں ایک بے فکر گروہ کے ہاتھ میں ہیں‘‘۔ ۔ ۔ اور ’’یہ وقت خاموش بیٹھ کر تعمیری کام میں لگے رہنے کا نہیں ہے۔ اب ا گر ایک لمحہ بھی ضائع کیا گیا تو بعید نہیں کہ جو لوگ منزل کا تعین کیے بغیر بے سوچے سمجھے چل پڑے تھے وہ یکا یک کسی غلط نظریے کو اس مملکت کی بنیاد قرار دے بیٹھیں اور پھر اس فیصلے کو بدلوانا موجودہ حالت کی بہ نسبت ہزار گناہ زیادہ قربانیوں کے بغیر ممکن نہ رہے!‘‘

۳۔ ’’خوش قسمتی سے اس زمانے میں متعدد آزمائشیں ایسی پیش آگئیں جن سے یہ اندازہ کرنے کا موقع مل گیا کہ ہماری جماعت اپنی اخلاقی تربیت اور اپنے نظم کے اعتبار سے اس وقت فی الواقع کتنی طاقت رکھتی ہے اور آگے کے مراحل میں اس پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے‘‘۔

جہاں تک مولانا مودودیؒ کے پہلے استدلال کا تعلق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں میں وہ ساری خرابیاں موجود تھیں جن کا مولانا کو احساس ہوا لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر جماعت قومی رنگ اختیار نہ کرتی تو کیا مسلمانوں کی اصلاح کا کام نہیں ہو سکتا تھا؟ یقینا ہو سکتا تھا اور ہماری رائے میں یہ کام زیادہ بہتر طریقے سے ہونا تھا۔ کیونکہ ابھی تک لوگوں کے ذہنوں سے جماعت اسلامی کا قومی سیاست سے نفرت کا طریقہ محو نہیں ہوا تھا۔ جونہی جماعت نے اپنے اصول کو بدلا، قوم متنفر ہو گئی۔

دوسری دلیل جماعت کے حلقوں میں بے حد عام ہے۔ اس دلیل کے اصل میں دو جزو ہیں یعنی یہ کہ اگر اس وقت یہاں ایک غیر اسلامی دستور کو نافذ ہونے دیا گیا تو پھر اس دستور کو بدل کر اسلامی دستور کا نافذ کرانا بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ جب ایک غیر اسلامی دستور کو ہم تسلیم نہ کریں گے تو ہماری پوزیشن مملکت کے باغیوں کی سی ہو جائے گی اور ہمارا اصل مقام پھانسی کے تختے اور جیلوں کی کال کو ٹھڑیاں ہوں گی۔

جہاں تک پہلے جذو کا تعلق ہے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ایک غیر اسلامی دستور کو بدلوانا خاصا مشکل ہے لیکن دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی انقلابی تحریکیں برسرکار آئی ہیں اور انہوں نے اپنا خون اور پسینہ بہا کر وقت کے نظام کو بدلنے کی سعی کی ہے تو آج تک کبھی دستور کے عارضی پرزے تو دور رہے بڑے بڑے جابر اور قاہر شہنشاہوں کا جبرو قہر بھی ان کا راستہ نہیں روک سکا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انقلابی طاقتوں کے خلوص کو مصائب و مشکلات اور ابتلاو آزمائش کی کسوٹی پرپرکھا ضرور جاتا ہے۔ جہاں تک دلیل کے دوسرے پہلو کا تعلق ہے تو وہ ایک بزدلانہ موقف ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی(۱۹۰۴ء۔ ۱۹۹۷ء) نے راہ حق کی مشکلات کو ایک جگہ’ اعوان و انصار‘ کا درجہ دیا ہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ کسی راہ کے اعوان انصار سے خوف کھا کر راہ ہی بدل دی جائے۔

 تیسری بات اپنی جگہ خوشنما تو بہت معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً اس سے ثابت کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہ مان لیاکہ آپ کے ارکان کی اخلاقی اور دینی حالت کی آزمائش ہو گئی تھی لیکن نتیجتاً صرف یہی تو ظاہر ہوا کہ اب تک جو کچھ کام آپ نے کیا وہ صحیح نہج پر تھا اور بارآور ہوا ہے۔ آگے اطمینان سے پیش قدمی جاری رکھیے۔ ا س سے یہ کہاں معلوم ہوا کہ آپ اپنے کام کی نوعیت ہی بدل ڈالیں۔ اس کی مثال تو ایسے ہے کہ ایک بچے کا پرائمری کا امتحان لیا جائے اور وہ اس میں کامیاب ہو جائے تو پھر اسے فوراً کالج میں لابٹھایا جائے اور استدلال یہ کیا جائے کہ جناب یہ امتحان میں کامیاب ہو گیا تھا۔

تنظیم اسلامی کا تاریخی پسِ منظر

تنظیم اسلامی کا نام سب سے پہلے اس اجتماع میں سامنے آیا جو ۸۔ ۹ستمبر۱۹۴۷ ء کو رحیم یار خاں میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجتماع کا انعقاد ڈاکٹر اسراراحمد کی مساعی کا نتیجہ تھا۔

جو لوگ جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوئے ان میں مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا عبدالغفار حسن اور حکیم عبدالرحیم اشرف[مقیم لائلپور حال فیصل آباد] نے بھر پور کوشش کی کہ کوئی نئی ہیت تنظیمی فوری طور پر وجود میں آجائے۔ ان کی اس کوشش میں جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والے ان عام ارکان کی اکثریت بھی شریک تھی جو معتدبہ تعداد میں لاہور، فیصل آباد اور ساہیوال سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن یہ مساعی ناکام رہیں اور جماعت کے سابق ارکان پر مشتمل کوئی نئی اجتماعیت وجود میں نہ آسکی جس کے نتیجے میں بقول ڈاکٹر اسرار احمد ’’ایک عمومی مایوسی اور بددلی اس پورے حلقے میں پھیل گئی‘‘[14]

ڈاکٹر اسرار احمد نے لوگوں کو مایوسی نکالنے کے لیے اپنی مساعی جاری رکھیں اور حکیم عبدالرحیم اشرف کے تعاون سے سابقین جماعت اسلامی کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جب محسوس ہوا کہ حکیم صاحب کچھ زیادہ ہی مایوس اور بددل ہو گئے ہیں تو ڈاکٹر اسرار احمد نے ذاتی تحریک اور منٹگمری ( حال ساہیوال) کے احباب کے تعاون سے ایک بھر پور مشاورتی اجتماع کا اہتمام کیا جو عزیز ٹینریز، ہڑپہ میں منعقد ہوا اور کئی روز تک جاری رہا لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ نتیجتاً مایوسی کے سائے مزید گہرے ہو گئے اور ۱۹۶۰ء۔ ۱۹۶۱ ء کے لگ بھگ جماعت اسلامی سے علیحدہ ہونے والے اکابر اور عام ارکان کے حلقے میں کسی نئی تعمیر و تشکیل کے ضمن میں کسی عملی سعی و جہد تو کجا، مستقبل قریب میں اس کی کسی امید کے آثار بھی باقی نہ رہے۔ لیکن ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور۱۹۶۶ ء میں مولانا عبدالغفار حسن کے ساتھ مل کر نہ صرف کراچی اور لاہور بلکہ بعض دوسرے مقامات پر بھی سابق ارکان جماعت کو ایک نئی تنظیم کے قیام پر آمادہ کرنے کی بھر پور کوشش کی ان مساعی کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کے دلوں میں قیام اجتماعیت کی وہ چنگاری جو خاکستر کی موٹی تہہ میں دب چکی تھی دوبارہ پورے آب و تاب کے ساتھ بھڑک اٹھی۔

مولانا عبدالغفار حسن نے چونکہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ملازمت اختیار کی ہوئی تھی اس لیے وہ واپس مدینہ منورہ چلے گئے اور ان کی عدم موجودگی میں شیخ سلطان احمد نے ان کی نیابت کا حق بخوبی ادا کیا اور اپنی شدید خانگی اور کاروباری مصروفیات کے علی الرغم ایک رفیق ( ڈاکٹر اسراراحمد ) کی معیت میں پاکستان کے متعدد اہم مقامات کے سفر کی صعوبت جھیل کر اس تحریک کے پودے کو پروان چڑھایا۔ نتیجتاً جون ۱۹۶۷ ء میں ضلع رحیم یار خان میں سردار محمد اجمل خان لغاری(م: مارچ ۱۹۸۸ء) کی رہائش گاہ پر شیخ سلطان احمد، سردار محمد اجمل خان لغاری اور ڈاکٹر اسرار احمد نے طویل گفت وشنید اور بحث و تمحیص کے بعد ایک قرارداد پر دستخط ثبت کیے جو جولائی ۱۹۶۷ ء کے ماہنامہ میثاق میں ’’قراددادِ رحیم آباد‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔

قراردادِ رحیم آباد

اس قرارداد کا متن ڈاکٹر اسرار احمد نے تیار کیا۔ اس قرارداد کے ذریعے ایک نئی جماعت کے قیام کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا۔ چنانچہ ایک جگہ یہ لکھا گیا کہ:

’’ہم یہ طے کرتے ہیں کہ ایک ایسی اجتماعیت کا قیام عمل میں لایا جائے جو دین کی جانب سے عائد کردہ جملہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے میں ہماری ممدومعاون ہو‘‘[15]۔

درحقیقت ڈاکٹر اسرار احمد، سردار اجمل خان لغاری اور دیگر افراد جن میں مولانا امین احسن اصلاحی اور شیخ سلطان احمد بھی شامل تھے، کا ارادہ یہ تھا کہ جماعت اسلامی سے جو لوگ علیحدہ ہوئے ہیں، انہیں نئے نظم میں شامل کیا جائے۔ اجتماعیت کی نوعیت کیسی ہونی چاہیے؟ نیز افراد کی تربیت کے حوالے سے نئی جماعت کیا راہیں متعین کرے گی؟ اس قرارداد میں اس کا تفصیلی ذکر کیا گیا۔ چنانچہ یہ لکھا گیا کہ:

’’پیش نظر اجتماعیت کی نوعیت ایسی ہونی چاہیے کہ اس میں فرد کی دینی اور اخلاقی تربیت کا کما حقہ لحاظ رکھا جائے اور اس امر کا خصوصی اہتمام کیا جائے کہ اس کے تمام شرکاء کے دینی جذبات کو جلا حاصل ہو، ان کے علم میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عملی زندگی میں حلال وحرام کے بارے میں ان کی حس تیز تر اور ان کا عمل زیادہ سے زیادہ مبنی برتقویٰ ہوتا چلا جائے‘‘ [16]۔

دعوت کے طریقہ کار کے ضمن میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تدریج کے اصول کو پیش نظر رکھا جائے اور جاہلیت قدیمہ کے باطل عقائد و رسوم اور دورِ جدید کے گمراہ کن افکار و نظریات کا مدلّل ابطال کیا جائے۔

لوگوں سے رابطہ کرنے اور نئی جماعت کی تشکیل کرنے کے لیے شیخ سلطان احمد کو ذمہ دار بنایا گیا۔ اس قرار داد میں جس قدر جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا گیا، بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ صرف زبانی جمع خرچ تھا۔ عملی طور پر کوئی بڑا قدم نہ اٹھایا گیا۔

قرارداد رحیم آباد کی چند ترامیم کے ساتھ توثیق:

رحیم یار خان میں 7-6 ستمبر کو مجلس مشاورت کا اجتماع ہوا اور بعد ازاں ۸۔ ۹ ستمبر ۱۹۶۷ ء کو کھلے اجلاس ہوئے جن میں اوّلاً ڈاکٹر اسرار احمد نے مجوزہ قرارداد اور اس کی توضیحات پڑھ کر سنائیں۔ پھرمولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا عبدالغفار حسن نے مزید تائیدی اور توضیحی تقریریں کی۔

تقریر مولانا امین احسن اصلاحی

مولانا نے اپنی تقریر کے دوران بیشتر وقت قرارداد کی وضاحت پر صرف کیا اور سامعین کے سامنے یہ بات واضح کی کہ تنظیم کو بجائے خود غایت و مقصد نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کو صرف دین کی عائد کردہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں ممدومعاون سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دین کو اپنی انفرادی و اجتماعی دونوں زندگیوں پر ہمیں حاوی کر لینا چاہیے۔ دین کی دعوت دینے پر انہوں نے بطور خاص گفتگو کی اور کہا:

 ’’یہ دوسروں کو دعوت دینا بھی ہماری فطرت بشری کا اقتضااور ہماری اپنی اصلاح اور ترقی کا لازمہ ہے۔ آپ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو سکتے کہ انسان تنہا نہیں پایا جاتا وہ ایک مدنی الطبع ہستی ہے، وہ کسی خاندان کے فرد، کسی قبیلہ کے رکن، کسی شہر کے شہری اور کسی ملک کے باشندے کی حیثیت سے پایا جاتا ہے اور اپنی فطری صلاحیتوں کے پروان چڑھنے کے لیے وہ ان سب باتوں کا محتاج ہے۔ اسی بناء پر انسان کو Social Animal کہا گیا ہے‘‘[17]۔

مولانا امین احسن اصلاحی نے مختلف مثالوں کے ذریعے یہ وضاحت کی کہ انسان اپنے ماحول سے بے حد متاثر ہوتا ہے اس لیے دعوت کا عمل انتہائی ضروری ہے۔

 

تقریر مولانا عبدالغفار حسن

مولانا نے اپنی تقریر کے دوران نئی دینی تنظیم کے خصائص پیش کیے اور کہا کہ:

’’ پہلی خصوصیت ہماری پیش نظر تنظیم کی یہ ہے کہ اس میں نصب العین کے مقام پر صرف نجات اور رضائے الہٰی کے حصول کو رکھا گیا ہے۔ دوسری خصوصیت ہماری تنظیم کی یہ ہو گی کہ ہماری دعوت صرف اﷲ اور اس کے دین کی طرف ہو گی نہ کسی خاص شخصیت یا جماعت کی طرف ہو گی، نہ کسی خاص مسلک یا فقہی مذہب کی طرف‘‘[18]۔

مولانا عبدالغفار حسن نے اپنی تقریر کے دوران یہ بھی واضح کیا کہ اس تنظیم کا دائرہ کارصرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ غیر مسلموں تک بھی دین کا پیغام پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ نئی قائم ہونے والی تنظیم میں اس اصول کو متعین کر لیں کہ صرف انہیں اوراد و وظائف اور اذکار و ادعیہ کو اختیار کریں جو خدا کی کتاب اور رسول اﷲ ﷺ کی سنت سے ماخوذ ہوں کیونکہ اس سے ایک تو افتراق وانتشار میں کمی ہو گی اور دوسرا اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ تعلق مضبوط ہو گا۔

مولانا اصلاحی اور مولانا عبدالغفار حسن کے خطابات نہ صرف فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہیں بلکہ تنظیمی زندگی کے لیے معلومات و ہدایت کا بھی گنجینہ ہیں۔ لیکن عملاً کیا ہوا؟ کیا ان حضرات نے خود بھی تنظیمی زندگی اختیار کی؟ یہ ایک تکلیف دہ سوال ہے۔ ہماری معاشرتی زندگی کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ تقاریر کے بعد شرکاء اجتماع کی جانب سے بعض لفظی ترامیم بھی پیش ہوئیں اور بالآخر قرار داد کو مع توضیحات منظور کر لیا گیا۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ قرارداد رحیم آباد کے ابتدائی تین پیروں کی بجائے یہ پیرا شامل کیا گیا:

’’آج ہم اﷲ کا نام لے کر ایک ایسی اسلامی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کرتے ہیں جو دین کی جانب سے عائد کردہ جملہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے میں ہماری ممدومعاون ہو‘‘[19]۔

ترمیم شدہ قرارداد میں یہ بھی طے کیا گیا کہ سات افراد پر مشتمل مجلس مشاورت عملی جدوجہد کے آغاز کے لیے پروگرام ترتیب دے۔ ان سات افراد میں مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا عبدالغفار حسن، مولانا عبدالحق جامعی(م: ۱۹۸۵ء)، شیخ سلطان احمد، سردار محمد اجمل خان لغاری، ڈاکٹر محمد نزیر مسلم(م: ۱۹۹۰ء) اور ڈاکٹر اسراراحمد شامل تھے۔ ماہنامہ میثاق کی ستمبر اکتوبر۱۹۶۷ء کی مشترکہ اشاعت میں ترمیم شدہ قرارداد اور توضیحات بھی شائع کر دی گئیں اور مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا عبدالغفار حسن کی تقاریر بھی، مزید برآں صرف قرارداد اور اس کی توضیحات کو’’ایک نئی اسلامی تنظیم کے قیام کا فیصلہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچے کی صورت میں بھی شائع کر دیا گیا تاکہ اسے زیادہ وسیع حلقے تک پہنچایا جا سکے۔

سابقین ِجماعت اسلامی کی کنارہ کشی

رحیم یار خان میں قائم کردہ مجلس مشاورت کے ارکان نے اگر چہ کچھ عرصہ تک تو جوش و خروش کا مظاہرہ کیا لیکن آہستہ آہستہ اہم رفقا کے مزاج میں تکدر پیدا ہو گیا اور بعض حوادث رونما ہوئے جن کے نتیجے میں مولانا امین احسن اصلاحی کی طبیعت بجھ کر رہ گئی۔ ایک حادثہ جس کا ذکر ڈاکٹر اسرار احمد کرتے ہیں کچھ یوں ہے:

’’ رحیم آباد میں یہ طے ہوا تھا کہ جماعت اسلامی پر تنقید نہیں کی جائے گی۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد حیدرآباد سندھ میں مولانا وصی مظہر ندوی (م: ۲۰۰۶ء) کی دعوت پر ایک جلسے میں مولانا امین احسن اصلاحی نے جماعت اسلامی پر شدید تنقید کی جس کی وجہ سے ان کے ( یعنی ڈاکٹر اسرار احمد کے) اور مولانا امین احسن اصلاحی کے درمیان فاصلے بڑھ گئے‘‘[20]۔

چنانچہ جماعت اسلامی کے ساتھ سابق تعلق کی قدر مشترک کی اساس پر نئی تنظیم کے قیام کی کوششیں ختم ہو گئیں۔ سوائے ڈاکٹر اسرار احمد کے کسی نے بھی کمر ہمت نہ کسی۔ اگر ڈاکٹر اسرار احمد بھی نئی جماعت کے قیام کے لیے سنجیدگی کے ساتھ قدم نہ اٹھاتے تو نقاد یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ ڈاکٹر اسرار احمد دین کے ساتھ مخلص نہیں۔ لیکن مستقبل کے حالات نے یہ بات ثابت کر دی کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے جس بات کو حق سمجھا اس پر عمل بھی کیا اور اگر سابقین جماعت اسلامی نے ان کا ساتھ نہیں دیا تو وہ پھر بھی مایوس نہیں ہوئے اور انہیں افکار کی بنیاد پر ایک جماعت بنانے میں کامیاب ہوئے جن افکار کا تذکرہ مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا عبدالغفار حسن نے اپنی تقاریر رحیم آباد میں کیا تھا۔

تنظیم اسلامی کی تشکیل

جب ڈاکٹر اسرار احمد کو مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا عبدالغفار حسن کی جانب سے حوصلہ افزا جواب نہ ملا تو انہوں نے ایک اصولی اسلامی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

لاہور میں حلقہ ہائے مطالعہ قرآن اور ’’دارالاشاعت اسلامیہ‘‘ کا قیام اور ماہنامہ’میثاق‘ کا دوبارہ اجراء پہلے ہی عمل میں آچکا تھا۔ چنانچہ قرآنِ حکیم کے انقلابی فکر اور ولولہ انگیز دعوت کی اساس پر ہم خیال لوگوں کا ایک بالکل نیا حلقہ وجود میں آچکا تھا جو فطری تدریج کے ساتھ مسلسل ترقی کر رہا تھا جس کے نتیجے میں اولاً ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا قیام عمل میں آیا اور ۲۱ جولائی ۱۹۷۴ ء کی شام کو اکیس روزہ قرآنی تربیت گاہ کے اختتام پر ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے اس فیصلے کا اعلان کیا کہ آئندہ معاملہ صرف قرآن کے درس و تدریس اور تعلیم و تعلم تک محدود نہیں رہے گا اور صرف ’’انجمن ‘‘ پر اکتفا نہیں ہو گی بلکہ اقامت دین کی اجتماعی جدوجہد کے لیے ایک باضابطہ ’’جماعت‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے گا [21]۔

گویا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے ساتھیوں کو تیار کر رہے تھے کہ وہ ایک جماعت کے قیام کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔ اپنی دعوت کے کام کو پھیلانے کے لیے انبیاء بھی لوگوں کے اذہان تیار کرتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے شراب کی حرمت کے لیے قرآن مجید میں تدریج کا یہی طریقہ اختیار کیا [22]۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے دروس قرآن کا سلسلہ شروع ہی اس لیے کیا تھا کہ ایسی افرادی قوت میسر آجائے جو دین اسلام کے غلبے کے لیے ان کا ساتھ دے سکے۔

قرارداد رحیم آباد کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد کا نقطہ نظر:

قرارداد رحیم آباد میں ڈاکٹر اسرار احمد اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’انہیں اس وقت بھی یہ احساس تھا کہ اس میں اقامت دین کا تصور کچھ دب گیا ہے اور اس کی اہمیت کما حقہ واضح نہیں ہو رہی اور اگر چہ دین کی اقامت کی اصطلاح اس میں موجود ہے تاہم بحیثیت مجموعی اس سے اصلاً ایک تبلیغی اور اصلاحی تحریک کا نقشہ سامنے آتا ہے‘‘[23]۔

ڈاکٹر صاحب اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی تحریک کی قلب ماہیت اور ایک اسلامی انقلابی جماعت کی بجائے اسلام پسند قومی سیاسی جماعت کا انداز اختیار کر لینے اور اس کے نتیجے میں اس کے کارکنوں کے مزاج میں سیاسی رنگ کے غلبے نے سابقین جماعت کے حلقے میں ردِ عمل کے طور پر ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘!اور ’’سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے‘‘! کے مطابق ’’انقلاب‘‘ کے لفظ سے وحشت پیدا کر دی تھی[24]۔

قرار داد رحیم آباد کے بارے میں اپنے تحفظات کے باوجود یہ بات قابل حیرت ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے نئی جماعت کی تشکیل کے لیے قرارداد تاسیس کے طور پر اسی کو اختیار کیا۔ شاید ان کی یہ خواہش تھی کہ ۱۹۶۷ ء میں رحیم آباد میں اکٹھے ہونے والے تمام احباب نئی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ لیکن ان کا یہ عمل حقیقت پسندانہ محسوس نہیں ہوتا کیونکہ ایک ایسی قراداد جس سے بقول ڈاکٹر اسرار احمد ایک اصلاحی اور تبلیغی تحریک کا نقشہ سامنے آتاہے، کی بنیاد پر ایک اسلامی انقلابی جماعت قائم کرنا نہ صرف موجب حیرت ہے بلکہ باعث تعجب بھی ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے محولہ بالا اقتباس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ۵۸۔ ۱۹۵۷ ء میں جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے والے افراد نے یہ محسوس کر لیا تھاکہ جماعت اسلامی نے ایک اسلامی انقلابی جماعت کی بجائے ایک قومی سیاسی جماعت کا اندازاختیار کر لیا تھا۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے بہت سے افراد بشمول ڈاکٹر اسرار احمد۵۸۔ ۱۹۵۷ ء میں جماعت اسلامی سے علیحدہ ہو گئے کیونکہ ان لوگوں کے نزدیک جماعت کا انتخابات میں حصہ لینا بہت بڑی غلطی تھی۔

تأسیسی اجلاس

تنظیم اسلامی کا تاسیسی اجلاس ۲۷ اور ۲۸ مارچ ۱۹۷۵ ء کو مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے دفترواقع۱۲۔ اے، افغانی روڈ، سمن آباد، لاہور میں منعقد ہوا۔ جس میں لاہور کے علاوہ کراچی، سکھر، بہاول پور، ساہیوال، فیصل آباد، شیخو پورہ، گوجرانوالہ اور بعض دوسرے مقامات سے کل ایک سو تین افراد شریک ہوئے۔ ان میں جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے والے افراد میں سے کوئی معروف آدمی نہیں تھا۔ سوائے شیخ جمیل الرحمن کے، کہ وہ کراچی کی جماعت کے معروف اور نمایاں لوگوں میں شامل رہے تھے۔ گویا یہ پورا قافلہ ڈاکٹر اسرار احمد کی دعوت قرآنی کے نتیجے میں عالم وجود میں آیا تھا اور اس کے جملہ اساسی تصورات مطالعہ قرآنِ حکیم کے اس منتخب نصاب پر مبنی تھے جسے ڈاکٹر صاحب نے اپنی دعوت قرآن کامرکز و محور بنایا تھا۔

یہاں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید کے اس منتخب نصاب کی وضاحت کر دی جائے جسے ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی دعوت کا ذریعہ بنایا۔

قرآنِ مجید کا منتخب نصاب

ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی فکر کوعام کرنے کے لیے درس قرآن کے حلقے قائم کیے اور ان حلقوں میں قرآنِ مجید کی مخصوص آیات اور سورتوں کے درس دیئے۔ ان مخصوص آیات اور سورتوں کے مجموعے کو انہوں نے ’’قرآنِ مجید کا منتخب نصاب‘‘ کا نام دیا۔

منتخب نصاب کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا۔

منتخب نصاب حصہ اول

اس حصہ میں سورۃ العصر، آیۃ البر ( البقرۃ ۱۷۷)، سورۃ لقمان( رکوع ۲) اور سورۃ حمٰ السجدۃ( آیۃ ۳۰ تا ۳۶) کے جامع اسباق ہیں۔ مباحث ایمان کے ضمن میں سورۃ الفاتحہ، سورۃ آل عمران(۱۹۰ تا ۱۹۵)، سورۃ النور رکوع ۵، سورۃ التغابن (مکمل)، اور سورۃ القیامہ ( مکمل) کو شامل کیا گیا ہے۔ مباحث صالح کے ذیل میں سورۃ المومنون( آیۃ ۱ تا ۱۱)، سورۃ المعارج ( آیۃ ۱۹ تا ۳۵)، سورۃ الفرقان( آخری رکوع)، سورۃ التحریم ( مکمل)، سورۃ بنی اسرائیل رکوع ۳، ۴ اور سورۃ الحجرات (مکمل ) شامل کی گئی ہے۔ جہاد و قتال کا تصور واضح کرنے کے لیے سورۃ الحج کا آخری رکوع، سورۃ التوبہ ( آیۃ ۲۴)، سورۃ الصف( مکمل)، سورۃ الجمعۃ( مکمل) اور سورۃ المنافقون ( مکمل) شامل کی گئی ہے۔ صبر و مصابرت کی حقیقت واضح کرنے کے لیے سورۃ العنکبوت رکوع نمبر ۱، سورۃ البقرۃ ( آیۃ ۲۱۴)، سورۃ ا ٰل عمران (آیۃ ۱۴۲)، سورۃ التوبہ( آیۃ ۱۶)، سورۃ العنکبوت آخری تین رکوع، سورۃ الکہف ۶۷ تا ۶۹، سورۃ البقرۃ، ۱۵۳ تا ۱۵۷، سورۃ الانفال، ۱ تا ۱۰، ۲۷ تا ۷۵، سورۃ ا ٰل عمران ۱۲۱ تا ۱۲۹، ۱۳۹ تا ۱۴۸، سورۃ الاحزاب رکوع ۲، ۳ سورۃ الفتح آخری رکوع اور سورۃ التوبہ ۳۸ تا۵۷۔

منتخب نصاب حصہ دوم

فرائض دینی کا جامع تصور اور جہاد فی سبیل اﷲ کے مقاصد و مراحل بیان کرنے کے لیے سورۃ الحج کی آخری دو آیات اور سورۃ صف کی آیات ۹ تا ۱۱ کو شامل نصاب کیا گیا ہے۔ اقامت دین کی فرضیت اور اس کے لیے زور دار دعوت کے ضمن میں سورۃ شوریٰ ( آیات ۱۳ تا ۱۵) اور ( آیات ۴۷، ۴۸) کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ بگڑے ہوئے مسلمان معاشرے میں اسلامی انقلاب کے لیے سورۃ ا ٰل عمران، آیات ۱۰۲ تا ۱۰۴ اور سورۃ توبہ آیات ۱۱۱، ۱۱۲ کو آخری اقدام کا عنوان دیا گیا ہے۔ سورۃ شوریٰ: آیات ۳۶ تا ۴۳، سورۃ فتح آخری آیت اور سورۃ مائدہ: آیت ۵۴ کے تحت اقامتِ دین کے لیے کام کرنے والوں کے مطلوبہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ سورۃ مائدہ: آیات ۵۵، ۵۶ اور سورۃ مجادلہ: آیات ۱۴ تا ۲۲ کو حزب اﷲ کی تشکیل میں فیصلہ کن عامل بمقابلہ حزب الشیطان، کے عنوان کے تحت منتخب نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اقامت دین کی جدوجہد کرنے والی جماعت کی ہییتِ ترکیبی اور تنظیمی اساس بیان کرنے کے لیے سورۃ صف کی آخری آیت، سورۃ توبہ: آیت ۱۱۱، سورۃ فتح: آیت۱۰، اور سورۃ فتح کی آیت۱۸ کو شامل نصاب کیا گیا ہے۔ نظم جماعت کی پابندی اور اس سے رخصت اور معذرت کا معاملہ واضح کرنے کے لیے سورۃ نور: آیات ۶۲ تا ۶۴ اور سورۃ توبہ: آیات ۴۳ تا ۴۹ کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ سورۃ نور: آیات ۵۴ تا ۵۶، سورۃ نساء آیت ۵۹، سورۃ انفال آیت ۴۶، سورۃ آل عمران: آیت ۱۵۲، ۱۵۴، اور سورۃ مجادلہ: آیات ۹ تا ۱۱ کے ذریعے اطاعت امر بمقابلہ ’’تنازع فی الامر‘‘ و ’’نجویٰ‘‘کو واضح کیا گیا ہے اور امراء کا اپنے رفقاء کے ساتھ طرز عمل اور اسوہ ٔرسول ﷺ واضح کرنے کے لیے سورۃ شعراء: آیات ۲۱۴ تا ۲۱۷، سورۃ حجر: آیت ۸۸ سورۃ کہف: آیت۲۸، سورۃ انعام: آیات ۵۲ تا ۵۴، سورۃ توبہ آیت ۱۲۸، اور سورۃ آل عمران: آیت ۱۵۹ کو منتخب نصاب کے حصہ دوم میں شامل کیا گیا ہے۔

قرآن مجید کا منتخب نصاب مرتب کرنا بلا شبہ ڈاکٹر اسرار احمد کی بہت بڑی کاوش ہے اور اس نصاب کے ذریعے انہوں نے امت مسلمہ کے وسیع حلقے کو قرآن سے قریب کیا ہے۔ لیکن اس منتخب نصاب کا ایک منفی اثر ان کی اپنی تنظیم میں یہ ہوا ہے کہ ان کے رفقاء نے اپنے آپ کو اسی منتخب نصاب تک محدود کر لیا ہے اور بقیہ قرآن کی طرف ان کی توجہ نہیں رہی۔ دروس قرآن کے حلقوں میں بالعموم اسی نصاب پر تقاریر و مباحثے ہوتے ہیں حتیٰ کہ نمازوں میں بھی یہ لوگ قرآن مجید کے صرف انہیں حصّوں کی تلاوت پر اکتفا کرتے ہیں جو منتخب نصاب میں شامل ہیں۔ یہ ایک غیر متوازن رویّہ ہے جو تنظیم اسلامی کے رفقاء میں پایا جاتا ہے۔ اگر ڈاکٹر اسرار احمد مخصوص آیات اور سؤر کے بجائے پورے قرآن کو ہی اپنی تقاریر اور دروس کا محور بناتے تو یقینا یہ افسوس ناک صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ کوئی بھی آیت یا سورت غیر ضروری یا اضافی نہیں ہے بلکہ قرآن کا ہر ہر لفظ ہماری فطرت کی پکار اور ہماری ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ پورے قرآن کو اپنی توجہ کا مرکز و محور بنائیں نہ کہ مخصوص آیات و سور کو۔

ڈاکٹر اسرار احمد نے تنظیم اسلامی کے تاسیسی اجلاس کی افتتاحی نشست میں بھی ایک بار پھر اپنے مطالعہ قرآن کا نچوڑ پیش کیا اور سورۃ صف کے دوسرے رکوع اور سورۃ حجرات کی آیات ۱۴، ۱۵کے حوالے سے فرائض دینی کا جامع تصور واضح کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ۶۷ء والی قرارداد تأسیس مع توضیحات پڑھ کر سنائی اور اس کی پرزور وکالت کی[25]۔

یہ بات قابل تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے قریبی رفقا جنہیں یہ معلوم تھا کہ ڈاکٹر اسرار احمد کے نزدیک قرارداد رحیم آباد میں تبلیغی رنگ زیادہ ہے، نے یہ اعتراض کیوں نہ کیا کہ اس قرارداد میں ترمیم کی جائے؟ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ ڈاکٹر صاحب جماعت اسلامی کے سابقین کو تنظیم اسلامی میں شامل کرنے کے لیے قرارداد میں تبدیلی نہیں کر رہے تھے تو یہ بھی حیرانی کی بات ہے کیونکہ تاسیسی اجلاس میں تو سابقین جماعت اسلامی میں سے کوئی اہم شخصیت سوائے شیخ جمیل الرحمن کے شامل نہیں ہوئی تھی۔

افتتاحی نشست میں قرارداد تاسیس بغیر کسی اختلاف کے منظور کر لی گئی۔ اگلہ مرحلہ، نام، شرائط شمولیت، ہیت تنظیمی اور قواعد و ضوابط کی منظوری کا تھا۔ جن میں سے نہ نام کے سلسلے میں کوئی ردّ و قدح ہوئی، نہ ہیتِ تنظیمی اور قواعد وضوابط کے ضمن میں کوئی مشکل پیش آئی، البتہ بقول ڈاکٹر اسرار احمد، ’’شرائط شمولیت‘‘ میں شامل بعض کڑوی گولیوں کا نگلنا موجود الوقت حالات میں بہت سے احباب کو دشوار ہی نہیں محال نظر آیا[26]۔

اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے یہ واضح کر دیا تھا کہ حرام زرائع آمدنی خاص طور پر سود سے اپنے آپ کو بچاناہوگا۔ یہ وہ کڑوی گولی تھی جس کا نگلنا بہت سے احباب کے لیے مشکل تھا۔ نام کے ضمن میں اتفاق رائے کے ساتھ’’تنظیم اسلامی‘‘ ہی کے حق میں فیصلہ ہو گیا اور اس وقت کے دستور تنظیم اسلامی کی دفعہ۔ ۱یہ قرارپائی:

’’اس تنظیم کا نام تنظیم اسلامی ہو گا‘‘

اسی طرح ہیت تنظیمی کے ضمن میں یہ طے ہوا کہ تنظیمی اعتبار سے پہلے تین سال ایک عبوری دور شمار ہوں گے جن کے دوران میں مقدور بھر سعی کی جائے گی کہ تجدید ایمان، توبہ اور تجدیدعہد کی وہ دعوت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا دی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شامل ہو سکیں۔

تنظیم اسلامی کے قیام کے موقع پر اختیار کردہ محولہ بالا طریقہ منفرد ہے۔ عام طور پر جب جماعتیں قائم ہوتی ہیں تو نظریے کی دعوت کو عام کرنے کی بجائے افرادی قوت کو بڑھانے پر توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر اسرار احمد نے پہلے فکر کو پر زور طریقے سے پھیلانے پر توجہ دی۔ اگر دعوت اسلامی یا جماعت الدعوۃ کے ماضی پر نظر ڈالی جائے تو ان جماعتوں کو ابتدا سے ہی ایسا طبقہ میسر آگیا جو ان جماعتوں سے نظریاتی تعلق رکھتا تھا۔ جب کہ تنظیم اسلامی کا معاملہ ایسا نہیں تھا۔ اس جماعت نے اپنی فکر کے ذریعے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو متاثر کیا اور اپنے اندر سمولیا جب کہ جماعت الدعوۃ اور دعوت اسلامی کو ایسے لوگ میسر آئے جو خاندانی طور پر ان جماعتوں سے نظریاتی وابستگی رکھتے تھے۔

تاسیسی اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ تین سال کے عرصے کی تکمیل پر ایک عام اجتماع طلب کیا جائے گا جو ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے لیے مستقل دستور طے کرے گا۔ اس اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ ڈاکٹر اسرار احمد کو تنظیم اسلامی کے ’’داعی عمومی‘‘ کی حیثیت حاصل ہو گی اور وہ اس عبوری دور میں ’’امرھم شوریٰ بینھم‘‘ کے وسیع تراصول کے تحت تنظیم کے معاملات کو بھی چلائیں گے اور اس کی دعوت کو بھی زیادہ سے زیادہ وسیع تر حلقے تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ وہ ایک معین مجلس شوریٰ کو بھی نامزد کرنے کے مجاز ہوں گے۔ لیکن ان کو حق استقرار حاصل ہوگا نیز یہ بھی طے کیا گیا کہ تمام رفقائے تنظیم داعی عمومی کی’’اطاعت فی المعروف‘‘ کے پابند ہوں گے[27] ۔

تاسیسی اجلاس میں مشاورت کی اہمیت کو محسوس کیا گیا نیز اطاعت فی المعروف پر بھی زور دیا گیا۔ اگر ان دونوں چیزوں میں توازن ہو تو تمام معاملات احسن طریقے سے نمٹ سکتے ہیں۔ بعد کے حالات نے یہ ثابت کیا کہ تنظیم اسلامی میں مشاورت کے عمل کو کافی حد تک نظر انداز کر دیا گیا اور اطاعت امیر کو ہی اہمیت دی جانے لگی۔ جس کی واضح مثال ڈاکٹر اسرار احمد کا اپنے بیٹے حافظ عاکف سعید کو امیر نامزد کرنا اور حافظ عاکف سعید کا اظہر بختیار خلجی کو ناظم اعلیٰ مقرر کرنا ہے۔

تنظیم اسلامی کا سالانہ اجلاس

تنظیم اسلامی کا پہلا سالانہ اجتماع۲۵تا ۲۷ مارچ ۱۹۷۶ ء اپنے مقامِ تاسیس ہی پر منعقد ہوا تھا۔ دوسرے سالانہ اجتماع کے انعقاد کے لیے بھی اواخر مارچ ۱۹۷۷ء کی تاریخوں کا تعین ہو چکا تھا کہ بقول ڈاکٹر اسرار احمد:

’’اچانک ملکی انتخابات میں حکومت وقت کی جانب سے کی گئی دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں نے ملک گیر تحریک کی صورت اختیار کر لی اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔ لہٰذا تنظیم کے اجتماع کو ملتوی کرنا پڑا‘‘[28]۔

۴ اور ۵ جولائی ۱۹۷۷ء کی درمیانی شب کو ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا تو امن و امان کی صورتحال بحال ہوئی اور چونکہ کچھ اندازہ نہ تھا کہ تین ماہ بعد مارشل لاء کے اختتام پر ملک میں دوبارہ کیسے حالات پیدا ہو جائیں۔ لہٰذا بعض اہم رفقاء کے مشورے سے یہ طے کر لیا گیا کہ پہلی فرصت میں تنظیم کا ایک اجتماع منعقد کر لیا جائے جو دوسرے اور تیسرے سالانہ اجتماعات کا قائم مقام ہو اور اس میں تنظیم کے مستقل نظام کے بارے میں حتمی فیصلہ کر لیا جائے۔ چنانچہ ۵ تا ۱۱ اگست۱۹۷۷ ء، قرآن اکیڈمی، ماڈل ٹاؤن لاہور میں اجتماع ہوا اور یہ طے ہوا کہ تنظیم اسلامی میں بیعت کے اصول کو اختیار کیا جائے گا اور تنظیم اسلامی کے داعی عمومی ڈاکٹر اسرار احمد اب’’ امیر تنظیم اسلامی‘‘ ہوں گے[29]۔

امیر کا انتخاب دراصل ایک نامزدگی تھی۔ چونکہ ڈاکٹر اسرار احمد ہی کی تحریک پر ایک نئی جماعت وجود میں آئی تھی اور وہی اس تحریک کو آگے بڑھا رہے تھے اس لیے تمام رفقاء نے بغیر کسی اختلاف کے یہ مناسب سمجھا کہ میر کارواں کے طور پر ڈاکٹر اسرار احمد سب سے زیادہ موزوں ہیں اور یہ ڈاکٹر صاحب کا حق بھی تھا۔

تنظیم اسلامی کا تنظیمی ڈھانچہ

تنظیم اسلامی کا انتظامی ڈھانچہ مرکزی نظام، حلقہ جاتی نظام، مقامی تنظیموں، اُسرہ جات اور منفرد رفقاء پر مشتمل ہے۔ خواتین کا علیحدہ نظم قائم ہے۔ اس میں بھی یہ تمام درجات موجود ہیں۔

سب سے بنیادی یونٹ اُسرہ ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں خاندان۔ اس میں بالعموم ۳تا ۱۰ رفقاء ہوتے ہیں۔ اُسرے کا سربراہ نقیب کہلاتا ہے۔ کسی مقام پر دو یا زائد اُسرہ جات کی موجودگی میں بالعموم مقامی تنظیم قائم کر دی جاتی ہے۔ مقامی تنظیم کا سربراہ امیر مقامی تنظیم کہلاتا ہے۔

دعوت کی توسیع اور تنظیمی رابطوں کو آسان اور مستحکم بنانے کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں حلقہ جات قائم ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں دعوتی اور تنظیمی سرگرمیوں نیز مالی معاملات کے حوالے سے خود مکتفی اور ذمہ دار ہیں۔

مرکزی نظم میں امیر تنظیم کے بعد اہم ترین عہدہ ناظم اعلیٰ کا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف شعبہ جات مثلاً مالیات، دعوت، ترتیب اور نشرو اشاعت قائم ہیں۔

نظم

کسی بھی جماعت یا تنظیم میں نظم ( یعنی اختیاراتی ترتیب) کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ خصوصاً وہ جماعت یا تنظیم جو کسی نئے نظام کو قائم و نافذ کرنے کی دعویدار ہو۔ تنظیم اسلامی میں اُسرہ جاتی نظام بیسویں صدی عیسوی کی معروف انقلابی تحریک اخوان المسلمون سے مشابہہ ہے۔ لیکن حسن النبا(۴۹۔ ۱۹۰۶ء) نے جس طرح اُسرہ کے بنیادی یونٹ کو منظم کیا، تنظیم اسلامی اس طرح کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اخوان المسلمون کے نظام اُسرہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’میرے نزدیک ’نظام اُسرہ‘ میں سب سے اہم چیز یہ تھی کہ اس کے ممبران ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں پورے شعور اور وابستگی سے شرکت کریں۔ ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ کسی ایک ساتھی پر کوئی مصیبت آئے تو ’اُسرہ‘ کے تمام ساتھی اس کی مددکو پہنچیں‘‘ [30]۔

صدر ناصر (۱۵جنوری ۱۹۱۸ ء تا۲۸ ستمبر۱۹۷۰ء) کے زمانے میں جب اخوان المسلمون کے ۳۰سے ۴۰ ہزارافراد صرف مصر کی جیلوں میں تھے تو بقول پروفیسر خورشید احمد:

 ’’اسی نظام اُسرہ نے قیدی ساتھیوں کے خاندانوں کی دست گیری، عملی مدد اور ہمت بندھانے میں معاونت کی ہے‘‘ [31]۔

 تنظیم اسلامی کے نظام اُسرہ میں اگر چہ طریقہ کار اخوان والا ہی ہے لیکن وہ گہرا تعلق نہیں ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تنظیم اسلامی کے قائدین نقباء کے تقرر میں میرٹ پر عمل نہیں کر سکے۔ کیونکہ تنظیم اسلامی میں افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے تربیت یافتہ نقبا کی بھی کمی ہے۔

 تنظیم میں نظم نیچے سے اوپر کو اس طرح سے ہے۔

نقیبِ اسرہ․․․․․․․ امیر مقامی تنظیم ․․․․․․․․․․․امیر حلقہ․․․․․․․․ناظم اعلیٰ ․․․․․․․․․․ امیر تنظیم اسلامی۔

شرکاء تنظیم کو سمع و اطاعت کا خوگر بنانے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور تمام رفقاء کو یہ بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ اپنے سینئر کا حکم بغیر لیت و لعل کے تسلیم کیاجائے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر ایک انقلابی جماعت میں آرمی والا ڈسپلن نہ ہو تو ایسی جماعت انقلاب برپا نہیں کر سکتی۔ رسول اکرم ﷺ کے لائے ہوئے انقلاب کی کامیابی کی وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کے ساتھی آپ ﷺ کے ہر حکم پر بلا تاخیر عمل کرتے تھے۔

مالیات

تنظیم اسلامی کے نظام العمل میں نظام مالیات کے حوالے سے درج ذیل ہدایات درج ہیں۔

الف۔ منفرد رفقاء اپنی ماہانہ اعانتیں حلقہ کے بیت المال میں جمع کرائیں گے۔

ب۔ تنظیم میں مستقل بیت المال صرف مرکز، حلقہ اور مقامی تنظیم کی سطح پر ہو گا۔

ج۔ مرکزی بیت المال امیر تنظیم، نائب امیر/ناظم اعلیٰ اور ناظم بیت المال کی مشترکہ تحویل ہو گا [32]۔

تنظیم اسلامی اپنے (تنظیمی و دعوتی) اخراجات کے لیے اپنے رفقاء و رفیقات ہی کے جذبہ انفاق پر انحصار کرتی ہے اورعام چندے کی اپیل نہیں کرتی۔ تنظیم کے شرکاء بالعموم ہر ماہ تنظیم کے لیے انفاق کرتے ہیں جس کی وصولی، خرچ اور آڈٹ کا باقاعدہ نظام تنظیم میں ہر سطح پر موجود ہے۔

دعوت

تنظیم اسلامی میں دعوت کا سب سے بڑا ذریعہ درس قرآن ہے۔ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ہر اُسرہ کی سطح پر درس قرآن کا انعقاد کیا جائے۔ ا س کے علاوہ فہم دین پروگراموں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔

دعوت کے ضمن میں کتب، رسائل وجرائد اور آج کے دور میں بالخصوص آڈیو، ویڈیو کیسٹس اور CDs اہم کردار اداکرتی ہیں۔ تنظیم اسلامی ان ذرائع کا بھر پور استعمال کر رہی ہے۔ پاکستان میں کچھ اور جماعتیں بھی CDs وغیرہ کا استعمال کرتی ہیں جن میں تحریک منہاج القرآن اہم ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے سینکڑوں خطابات کی CDs تیار کی گئی ہیں۔ لیکن ان کی کیسٹس ایک مخصوص طبقے میں سنی جاتی ہیں کیونکہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری سنی بریلوی مسلک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جب کہ ڈاکٹر اسرار احمد کے خطابات ہر شعبہ زندگی اور مکتب فکر کے لوگ سنتے ہیں۔ اگر دونوں تحریکوں کے قائدین کے خطابات کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بے شمار موضوعات پر تقاریر کی ہیں جب کہ ڈاکٹر اسرار احمد کے موضوعات محدود ہیں اور ان کی تقاریر کا مرکز و محور قرآن مجید ہے۔

 اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے علوم اسلامیہ و عربیہ کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے اور جھنگ میں کچھ عرصہ وکالت بھی کی ہے جس کی وجہ سے ان کی سوچ میں کافی وسعت ہے جب کہ ڈاکٹر اسرار احمد بنیادی طور پر میڈیکل ڈاکٹر ہیں انہوں نے اگر چہ M.A. Islamiat بھی کیا لیکن اپنے آپ کو صرف دروس قرآن تک محدود رکھا۔ جس کی وجہ سے ان کے تقریری موضوعات میں تنوع پیدا نہ ہوسکا۔ تنظیم اسلامی میں ماہنامہ ’’میثاق‘‘، ماہنامہ’’حکمت قرآن‘‘ اور ہفت روزہ ’’ندائے خلافت‘‘ کو تنظیم کے ترجمان جرائد کی حیثیت حاصل ہے۔ تنظیم کی اپنی ویب سائٹwww.tanzeem.org کے نام سے موجود ہے جس پر امیر تنظیم کا تازہ خطاب جمعہ، بانی تنظیم کے متعدد خطابات ودروس اور ہفت روزہ ندائے خلافت upload کیے جاتے ہیں۔

تربیت

تنظیم اسلامی مرکزی سطح پر قریباً ہر ماہ ایک ہفتہ روزہ تربیتی کورس کا اہتمام کرتی ہے جو مرکزی دفتر تنظیم اسلامی کے علاوہ ضرورت کے مطابق حلقہ جات کے دفاتر میں بھی ( جہاں ممکن ہو) منعقد کی جاتی ہیں۔ مرکزی سطح پر خط وکتابت کے ذریعے بھی یہ کام سرانجام دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی تنظیم اور اُسرہ جات کی سطح پر بھی تربیتی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں اور مقامی ذمہ دارحضرات انفرادی سطح پر بھی یہ کام سرانجام دیتے ہیں [33]

تنظیم اسلامی کی اساسی دعوت

تنظیم اسلامی کی اساسی دعوت تین بنیادی دینی اصطلاحات پر مبنی ہے۔ یعنی

۱۔ تجدید ایمان۲۔ توبہ۳۔ تجدید عہد[34]۔

یہی وجہ ہے کہ تنظیم میں شمولیت جس عہد نامے کے ذریعے ہوتی ہے اس میں بھی ان ہی امور سہہ گانہ کا ذکر ہے یعنی پہلا کلمہ شہادت کی ادائیگی جو گویا تجدید ایمان کے مترادف ہے۔ دوسرا توبہ اور استغفار اور تیسرا اﷲ تعالیٰ سے عہد کہ ہراس چیز کو ترک کر دوں گا جو اسے ناپسند ہے۔

تنظیم میں شمولیت

روئے ارضی کے کسی بھی مقام پر قیام پذیرہر بالغ مسلمان( خواہ مرد ہو یا عورت) تنظیم میں شامل ہو سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ

۱۔ تنظیم کے اساسی نظریات اور تصورات سے فی الجملہ متفق ہو اور

۲۔ امیر تنظیم سے بیعت مسنونہ کے رشتے میں منسلک ہو جائے[35]۔

تنظیم اسلامی میں مقدار کی بجائے معیار پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور جو شخص دین پر نہ چلے، تنظیم اسے خارج بھی کر دیتی ہے۔ یہ ایک امتیازی خصوصیت ہے جو بہت کم جماعتوں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ ایسی دینی جماعتیں بھی ہمارے ملک میں ہیں جن کے ذمہ دار بھی نمازوں سے غافل ہوتے ہیں۔

تنظیم کے اساسی نظریات

ذیل میں تنظیم کے اساسی نظریات کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے۔

اسلام دین ہے، محض مذہب نہیں۔ اس میں نہ صرف انفرادی زندگی بلکہ اجتماعی زندگی کے بارے میں بھی تفصیلی احکامات دیئے گئے ہیں۔ انفرادی زندگی کے تین نمایاں گوشے درج ذیل ہیں۔

۱۔ عقائد ۲۔ عبادت کے طور طریقے

 ۳۔ پیدائش، شادی بیاہ اور وفات سے متعلق معاشرتی رسومات۔

جب کہ اجتماعی زندگی کے نمایاں گوشوں میں سماجی نظام، معاشی نظام اور سیاسی نظام شامل ہیں۔

عقائد اور بنیادی تصورات

تنظیم اسلامی کے عقائد اور بنیادی دینی تصورات چھ شقوں پر مشتمل ہیں، جن کا خلاصہ ذیل میں بیان کیا جاتاہے۔

پہلی شق: ایمان مجمل اور ایمان مفصل کے بیان پر مشتمل ہے جن کی تشریح میں اہل سنت کے عقائد اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ آگئے ہیں۔

دوسری شق: کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت کی تشریح پر مشتمل ہے۔ اس میں اﷲ کی توحید اور محمد مصطفی ﷺ کے اقرار کے فکری وعملی تقاضوں کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس امر کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ ہمارے نزدیک خلافت راشدہ چونکہ اصلاً خلافت علی منہاج النبوۃ کی حیثیت رکھتی ہے، لہٰذا اس کے دوران جن امور پر امت کا اجماع ہو گیا انہیں دین کے دستوری اور قانونی نظام میں حجت کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی طرح یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ ہمارے نزدیک عظمت صحابہؓ اور حجیتِ خلافت راشدہ کو نبی اکرم ﷺ کی رسالت مبارکہ کے ساتھ تتمے اور ضمیمے کی حیثیت حاصل ہے۔

تیسری اور چوتھی شقیں: شرک، کفر اور زمائم اخلاق سے برأت، تمام معاصی اور گناہوں سے توبہ و استغفار پر مشتمل ہیں جن کے ضمن میں جہاں کفرو شرک کی حقیقت اور ان کی اقسام کی مختصر مگر جامع وضاحت آگئی ہے وہاں فرائض و واجبات دینی اور محرمات و منہیات شرعی کا اجمالی تذکرہ بھی ہو گیا ہے اور ان ہی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسب معاش کے سلسلے میں محرمات و منکرات سے اجتناب کیا جائے۔

پانچویں اور چھٹی شقیں: دو معاہدوں پر مشتمل ہیں: پہلا عہد اﷲ سے کہ میں نے اپنا رُخ ہر جانب سے یکسو ہو کر صرف’تیری جانب ‘ کر لیا ہے اور اب میری نماز اور قربانی کی طرح میرا جینا اور مرنا بھی صرف تیرے لیے ہو گا اور دوسرا عہد امیر تنظیم اسلامی سے کہ میں آپ کے ایسے تمام احکام کی اطاعت جو شریعت کی کسی واضح نص کے خلاف نہ ہوں، ’’سمع و اطاعت‘‘ کی ٹھیٹھ اسلامی روح کے مطابق کروں گا۔

مندرجہ بالا تصریحات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تنظیم اسلامی میں تجدید ایمان، توبہ اور تجدید عہد کے اصولوں کو اختیار کیاگیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے جس کی تصدیق کرنا بے حد مشکل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام دینی جماعتوں کے مقابلے میں تنظیم اسلامی میں رفقا کے کردار پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے لیکن پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رفقاء مندرجہ بالا ہدایات پر یکسوئی کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔ اگر ہم تبلیغی جماعت کے ساتھ موازنہ کریں تو حالت مایوس کن لگتی ہیں۔ کیونکہ تبلیغی جماعت کے نظریات سے قطع نظر اگر لوگوں کی قربانیوں کو دیکھا جائے تو انسان حیران ہو جاتا ہے کہ کس طرح وہ لوگ دس دن، چار ماہ، ایک سال وغیرہ کے لیے اپنے گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ تنظیم اسلامی میں شامل لوگوں کی درس قرآن، اسرہ کی میٹنگ اور ماہانہ اجتماع میں شرکت مایوس کن ہوتی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا تجدید ایمان، توبہ اور تجدید عہد کا دعویٰ محض دعویٰ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے تنظیم اسلامی کے قائدین اپنے رفقاء میں وہ جذبہ پیدا کرنے کی فکر کریں جو جذبہ صحابہ کرامؓ میں موجود تھا۔ اس مقصد کے لیے رفقاء کو زیادہ سے زیادہ تربیتی کورسز کرانے کی اشد ضرورت ہے جس کی تنظیم میں ابھی کمی ہے۔

نظام بیعت

تنظیم اسلامی میں شمولیت کے لیے بیعت کا نظام اختیار کیا گیا ہے۔ جو بھی شخص تنظیم میں شامل ہونا چاہے اسے امیر تنظیم کے ہاتھ پر بیعت کرنا پڑتی ہے۔ بیعت فارم کی سہولت بھی موجود ہے، اگر فارم پر کر دیا جائے تو اسے بھی قبول کر لیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے نزدیک:

 ’’ایک منظم جماعت کی تنظیم کے لیے جو مسنون، ماثور اور منصوص بنیاد ملتی ہے وہ بیعت سمع وطاعت ہے۔ سیرت النبی ﷺ میں ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی نظیر نہیں ہے‘‘ [36]

تنظیم اسلامی میں نظام بیعت کی وجہ سے امیر تنظیم کے فیصلے کو حرف آخر سمجھتا جاتا ہے اور یہی آمریت نچلی سطح پر بھی منتقل ہوئی ہے۔ اگر چہ مشاورت کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے لیکن آمریت ہی کا راج ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے بیٹے حافظ عاکف سعید کو امیر تنظیم نامزد کر دیا۔

نظام بیعت کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اگر اس کے ساتھ مشاورت کا بھر پور انتظام نہ ہو تو یہ نظام آمریت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انقلاب کے آخری مرحلے میں امیر کے ہر حکم کے آگے سر جھکانے سے ہی کامیابی مل سکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ عمومی حالات میں بھی آمرانہ رویہ اختیار کیا جائے۔

معاشرے میں انقلاب کا طریقہ کار

جب ہم تنظیم اسلامی کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہر کتابچے کی پشت پر یہ تحریر پڑھنے کو ملتی ہے: ’’تنظیم اسلامی نہ کوئی مذہبی فرقہ ہے نہ معروف معنی میں کوئی سیاسی جماعت بلکہ ایک اسلامی انقلابی جماعت ہے۔ جو سب سے پہلے پاکستان او ربالآخر ساری دنیا میں اسلام کے عادلانہ نظام یعنی نظام خلافت کو قائم اور غالب کرنا چاہتی ہے‘‘[37]۔

مندرجہ بالا تحریر اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ تنظیم اسلامی معاشرے میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی خواہاں ہے۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد اپنے خطبات میں اسلامی انقلاب کے لیے چھ مراحل کا ذکر کرتے ہیں۔

۱۔ دعوت۲۔ تنظیم۳۔ تربیت۴۔ صبر محض اور عدم تشدد ۵۔ اقدام اور چیلنج ۶۔ مسلح کشمکش یعنی قتال فی سبیل اﷲ[38]۔

پہلا مرحلہ دعوت

ڈاکٹر اسرار احمد کے نزدیک انقلاب کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ کوئی انقلابی نظریہ، کوئی انقلابی فکر، کوئی انقلابی فلسفہ ہو اور اس کی نشر و اشاعت ہو، اسے پھیلا یا جائے، اسے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور لوگوں کو اس نظریہ کی افادیت کا دلائل سے قائل بنایا جائے[39]۔

اس وقت معاشرے میں جتنی دینی تحریکیں کام کر رہیں ہیں، ان کے نزدیک بھی ابتدائی مرحلہ دعوت ہی ہے۔ خود رسول ﷺ نے جب کام کا آغاز کیا تو سب سے پہلے آپ نے لوگوں کو دین کی طرف دعوت دی اور ایک نظریہ ان کے سامنے پیش کیا۔

مولانا صفی الرحمن مبارکبوری (م: ۲۰۰۷ء) نے اپنی کتاب الرحیق المختوم میں نبی ﷺ کی پیغمبرانہ زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

۱۔ مکی زندگی۲۔ مدنی زندگی

انہوں نے مکی زندگی کو مزید تین مرحلوں میں تقسیم کیا ہے۔

۱۔ پس پردہ دعوت کامرحلہ ۲۔ اہل مکہ میں کھلم کھلا دعوت و تبلیغ کا مرحلہ

۳۔ مکہ کے باہر اسلام کی دعوت کی مقبولیت اور پھیلاؤ کا مرحلہ[40]۔

گویا کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے مشن کا آغاز دعوت سے کیا اور بانی تنظیم اسلامی نے بھی اسلامی انقلاب کا پہلا مرحلہ دعوت ہی کو قراردیا ہے۔

دوسرا مرحلہ: تنظیم

بانی تنظیم اسلامی نے دعوت کے بعد کا مرحلہ تنظیم کو قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک جو لوگ اس انقلابی نظریہ کو ذہناً قبول کر لیں کہ ہاں یہ صحیح ہے، حق ہے، تو اب ان کو منظم کیا جائے۔ ایک انقلابی جماعت وجود میں آئے اور اس جماعت کے لیے دو چیزیں لازمی ہوں گی۔ ایک تویہ کہ اس کی درجہ بندی بالکل نئی ہونی چاہیے۔ جس نے جتنی پیش قدمی کی ہے اتنا ہی وہ آگے چلا جائے گا۔ چاہے سابقہ نظام میں وہ شودروں اور اچھوتوں میں شمار ہوتا ہو اور دوسری چیزیہ کہ اس پارٹی کا اگر نظم (Discipline)فوج والا نہ ہو تو یہ پارٹی انقلاب نہیں لا سکتی[41]۔

کسی بھی دینی تحریک کے لیے محولہ بالا دونوں باتیں بے حد ضروری ہیں۔ لیکن عملاً تنظیم اسلامی میں بھی صورت حال حوصلہ افزا نظر نہیں آتی۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو واقعی تنظیم اسلامی حضور اکرم ﷺ کے اسوۃ پر عمل پیرا ہے اور اُسرہ جات کے نقبا انہیں کو بنایا جاتا ہے جن میں خلوص زیادہ ہو۔ ا س اعتبار سے اس تنظیم کو یہ امتیاز حاصل ہے۔ کیونکہ اکثر جماعتوں میں عہدوں کی تقسیم کے وقت میرٹ کی بجائے تعلقات اور خاندانی پس منظر کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ جہاں تک ڈسپلن کا معاملہ ہے تو تنظیم اسلامی میں اس کی بہت کمی ہے۔ ماہانہ تنظیمی اجتماعات میں رفقاء کی حاضری تسلی بخش نہیں ہوتی۔ سہہ ماہی مظاہروں میں بھی رفقاء اور نقباء اس نظم و ضبط کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کا تقاضا بانی تنظیم اسلامی کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرٹ اور ڈسپلن کی حامل جماعت ہی معاشرے میں اسلامی انقلاب برپا کر سکتی ہے۔

تیسرا مرحلہ: تربیت

تربیت ہر انقلابی عمل کی ناگزیر ضرورت ہے۔ بانی تنظیم اسلامی کے نزدیک اسلامی انقلاب کے لیے تیسرا مرحلہ تربیت ہے۔ جب ایک شخص تنظیم اسلامی کی فکر سے متاثر ہو کر رفاقت فارم پر کر دیتا ہے تو اسے نقیب اُسرہ کی جانب سے یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ پہلی فرصت میں مبتدی تربیتی کورس کرے۔

یہ کورس سات روزہ ہوتا ہے۔ جس میں دین کے بنیادی تصورات مثلاً ارکان اسلام، عقائد، معاملات وغیرہ پر لیکچرز دیے جاتے ہیں۔ مبتدی کورس کرنے والے رفیق کو چند کتب بطور نصاب پڑھنے کے لیے دی جاتی ہیں جن کا مطالعہ کرنے والے رفیق کو ملتزم رفیق قرار دیا جاتا ہے اور اس سے یہ تقاضاہوتا ہے کہ وہ ملتزم تربیتی کورس کرے جس میں حدیث، فقہ اور قرآن مجید کے بارے میں مفید معلوما ت دی جاتی ہیں۔ ان تربیت گاہوں میں جو ملک کے مختلف شہروں میں موجود قرآن اکیڈمیوں میں ہوتی ہیں، شرکاء کی اخلاقی و روحانی اصلاح کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ ان تربیتی کورسز کے علاوہ اُسرہ جاتی میٹنگ اور ماہانہ تنظیمی اجتماع بھی رفقاء کی تربیت کے ذرائع ہیں۔ ہر رفیق کو ذاتی احتسابی یادداشت بک دی جاتی ہے جس میں روزانہ رات کو اس بات کا اندراج کیا جاتا ہے کہ دن میں کتنی نمازیں جماعت سے پڑھی ہیں؟ کیا قرآن کی تلاوت کی ہے یا نہیں؟ وغیرہ۔ رفقاء کی تربیت کے حوالے سے تنظیم اسلامی میں ایک کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے اور وہ رفقاء کی تجوید ہے۔ تربیتی کورسز میں رفقاء کی تجوید بہتر کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے بیشتر رفقا قرآن مجید کو صحیح انداز سے نہیں پڑھ پاتے۔

چوتھا مرحلہ: صبر محض

یہ مرحلہ ہے صبر محض کا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انقلابی جماعت ایک نظام کو فاسد قرار دیتی ہے تو لوگ اس جماعت کو معاف نہیں کریں گے۔ پہلے وہ انقلابی فکر و نظریہ کو چٹکیوں میں اڑائیں گے۔ استہزاء اور تمسخر کریں گے، لیکن اگر اس انقلابی جماعت کا قائد اور اس کے معدودے چند ساتھی اس وار کو جھیل گئے اور نظریہ کی نشرو اشاعت کا عمل جاری ہے، آگے بڑھ رہا ہے اور لوگ ا س کو قبول کر کے جماعت میں شامل ہو رہے ہیں تو مخالفین کو محسوس ہو گا کہ یہ ہوا کا کوئی معمولی جھونکا نہیں ہے۔ اس میں تو ایک زبردست آندھی اور طوفان کے آثار پوشیدہ ہیں جو ہمارے تمام مفادات کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر لے جائیں گے۔ لہٰذا اب تشدد (Persecution) شروع ہو گا۔ اس مرحلہ پر تنظیم اسلامی کا موقف ڈاکٹر اسرار احمد یوں بیان کرتے ہیں کہ’’ اس دور کے لیے انقلابی جماعت کی حکمت عملی یہ ہوگی کہ ماریں کھاؤ لیکن نہ اپنے موقف سے ہٹو اور نہ اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ اس عدم تشدد کی پالیسی پر کاربند رہنے سے وہ لوگ ( یعنی نظام باطل کے سرپرست)ایذ ار سانی سے باز نہیں آئیں گے لیکن اس کا نتیجہ یہ ضرور نکلے گا کہ خامو ش اکثریت اس جماعت کے حق میں ہموار ہو تی چلی جا ئے گی اور یہ چیز بھی درحقیقت اس انقلا بی نظریہ اور فکر کے پھیلنے میں ایک اہم ترین کردار ادا کر تی ہے۔ ‘‘ [42]

حضور اکر م صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی مکی زند گی میں یہی طر یقہ اختیار کیا تھا۔ صحابہ کر ام ؓ کو ظلم کے مقابلے میں ہا تھ اُٹھا نے کی اجا زت نہیں تھی جس کے نتیجے میں خا مو ش اکثریت کی ہمدردیاں مسلما نو ں کے سا تھ ہو گئیں۔ دور حا ضر میں ایرانی انقلاب کے موقع پر امام خمینی کی پالیسی بھی یہی تھی جس کے نتیجے میں شاہ ایران کو ملک چھوڑنا پڑا۔ تنظیم اسلامی کا عدم تشدد کا نظریہ زمینی حقائق کے مطا بق اور سنت نبوی ﷺ سے ما خوذ ہے۔ اگرچہ تنظیم ابھی تک ایسے رفقاء تیارکرنے میں نا کا م رہی ہے جو ظلم جھیل سکیں۔ اس نا کا می کی سب سے بڑی وجہ لو گو ں کا قرآن سے لا تعلق ہو نا ہے۔ تنظیم اسلامی نے اپنی دعوت کا ذریعہ قرآن کو بنایا ہے جبکہ دورِ حاضر کا مسلما ن قصے کہا نیا ں سننے میں لطف محسو س کر تا ہے اور قرآن سے دور بھاگتا ہے جس کی وجہ سے تنظیم اپنے مقاصد میں تا حال نا کا م نظرآتی ہے۔

پانچواں مر حلہ: اقدام اور چیلنج

ڈاکٹر اسرار احمد کی رائے یہ ہے کہ جب طاقت اتنی فراہم ہو جا ئے کہ وہ انقلابی جماعت یہ محسوس کر لے کہ اب ہم کھلم کھلا اور بر ملا اس غلط نظام کو چیلنج کر سکتے ہیں اور اس نظام کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو اس مرحلہ پر صبر محض اپنے اگلے مر حلے یعنی اقدام میں داخل ہو جا تا ہے۔ اب حکمت عملی یہ ہو گی کہ اینٹ کا جو اب پتھر سے دو [43]

کسی انقلا ب کے لئے راست اقدام (Active Resistance)کا فیصلہ بہت نا زک (crucial + critical)ہو تا ہے۔ نظری طور پر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ راست اقدام کا فیصلہ قبل از وقت ہو جا ئے گا تو دنیوی اعتبا رسے انقلا ب نا کام ہو جا ئے گا۔ اگر تعدادمعتدبہ نہیں ہے، اگر تربیت خام رہ گئی ہے تو دنیاوی نا کا می کا سامنا ہو گا۔ جس طر ح مصر میں اخوان المسلمو ن کو ناکامی کا سامنا کر نا پڑا۔ لہٰذایہ بڑا نازک لمحہ ہو تا ہے۔ اور انقلابی جماعت کی قیادت کا کڑا امتحان ہو تا ہے۔ جماعت کے امیرکے صحیح یا غلط فیصلے پر ہی انقلاب کے کا میاب یا نا کا م ہو نے کا دارومدار ہو تا ہے۔

چھٹامرحلہ: مسلح تصادم

اقدام اور چیلنج کے نتیجہ میں چھٹا اور آخری مر حلہ شر وع ہو گا اور وہ ہے مسلح تصادم۔ جب تک وہ انقلابی جماعت اقدام نہیں کر رہی تھی یعنی ماریں کھا رہی تھی اور ہاتھ نہیں اُٹھا رہی تھی، تب تک اور با ت تھی۔ اگر اس جماعت نے بھی ہا تھ اُٹھا لیا تو وہ نظام اس پر پوری طاقت اور قوت کے سا تھ حملہ آور ہو گا اور یہ ہے وہ آخری مرحلہ (Final Phase)جس کے اندر جسمانی ٹکراؤ (Physical collision)ہو کر رہتا ہے۔ اس کے لئے مسلح تصاد م (Armed conflict) کی اصطلا ح استعمال ہو تی ہے۔ ظاہر با ت ہے کہ جب یہ چھٹا مر حلہ شروع ہو جا ئے تو فریقین کے ہا تھ میں کچھ نہیں رہا۔ اب تو تاریخ بتا ئے گی، حالا ت فیصلہ کر یں گے اور نتیجہ تخت یا تختہ کی صورت میں برآمد ہو گا۔ اگرپہلے پا نچ مراحل صحیح طور پر طے ہو ئے ہیں۔ مستحکم ہو تے ہو ئے اور consolidateکر تے ہو ئے وہ انقلابی عمل آگے بڑھا ہے۔ صحیح تربیت ہو ئی ہے، صحیح تنظیم ہو ئی ہے اور خا ص طور پر یہ با ت کہ پہلے پانچوں مراحل کو طے کر نے کا صحیح حق ادا کیا گیا ہے تو انقلابی جماعت کا میاب ہو جائے گی، انقلا ب وقوع پذیر ہو جا ئے گا اور اس انقلابی نظریہ کے مطا بق نظام یکسر تبدیل ہو جا ئے گا۔ ورنہ اسے کچل کر رکھ دیا جا ئے گا۔

انقلا ب کی توسیع وتصدیر

ڈاکٹر اسراراحمد کے مطا بق اگر انقلا ب کا میاب ہو جا ئے تو ایک ساتو اں مرحلہ (Seventh Phase)اور شروع ہو گا۔ چھ مراحل سے تو کسی ایک ملک میں انقلا ب کی تکمیل ہو تی ہے۔ ساتواں مرحلہ اس انقلا ب کی توسیع کا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ایک نظریا تی انقلا ب کا یہ خاصہ ہے کہ وہ جغرافیا ئی اور قومی حدود کا پابند نہیں ہوتا۔ وہ ایک فکر، ایک فلسفہ، ایک نظریہ کی بنیا د پر آتا ہے اور نظریہ وہ شے ہے کہ اس کے لئے نہ پاسپورٹ کی ضرورت ہے نہ ویزا کی حاجت ہے۔ نظریہ کے لئے سر حدیں رکا وٹ نہیں بنتیں۔ اگر نظریہ میں جان ہے تو وہ دوسرے ممالک میں اپنی جڑیں قائم کرے گا۔ جس کے نتیجہ میں انقلا ب کی توسیع ہو گی اور وہ پھیلے گا۔ جیسے انقلا ب فرانس، فرانس تک محدود نہیں رہا۔ بالشویک ریوولیوشن(Revolution) یعنی اشترا کی انقلا ب صر ف روس تک محدود نہیں رہا۔ انقلا ب کا یہ خاصہ ہے کہ پہلے کسی ایک ملک اور کسی ایک علا قے میں آتا ہے۔ وہاں اس کے ثمر ات کا ظہور ہو تا ہے پھر اس کی بین الاقوامی سطح پر توسیع کا عمل شروع ہو تا ہے[44]۔

ڈاکٹر اسرار احمد نے اسلامی انقلا ب کے جو مراحل بیان کئے ہیں وہ اُن کے نز دیک سیر ت نبوی ﷺ سے ماخو ز ہیں۔ دور حا ضر میں انقلاب کیسے لا یا جا سکتا ہے؟اس ضمن میں مسلح تصادم کے اعتبار سے دو رنبویؐ اور مو جو دہ دور میں حالا ت کے اعتبار سے ڈاکٹر صاحب فرق کر تے ہیں۔ اُن کے نز دیک پہلا واضح ترین اورنمایا ں ترین فر ق تو یہ واقع ہو ا ہے کہ نبی کر یم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ ایک خالص کافرانہ اور مشرکانہ معاشر ے میں ہو ئی تھی جبکہ ہمارامعاملہ یہ ہے کہ ہمارا تعلق ایک مسلما ن معاشرہ سے ہے اور ہمیں اس میں کا م کر نا ہے۔ ہمارے ملک ہی کی طر ح دوسرے بہت سے مسلم ممالک ہیں جن میں بسنے والے مسلما نو ں کی تعداد اسی فیصد سے زائد ہے اور ان تمام ممالک کے سر براہ اور حکمران بھی مسلما ن ہی ہیں۔ رعایا اور حکمرانو ں کے کردار، اُن کے اخلا ق، اُ ن کی سیرت اور دین سے اُن کے عملی تعلق کے معاملا ت کو ایک طر ف رکھتے ہو ئے یہ با ت تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ یہ سب کے سب قانو ناً مسلما ن ہیں۔ صورت واقعہ یہ ہے کہ اگر چہ کہیں بھی مکمل اسلامی نظام اپنی آئیڈیل صورت میں عملاًقائم ونا فذ نہ ہوبلکہ پورا کا پورا لا دینی (Secular)نظام رائج ہو تب بھی وہ مسلما ن معاشرہ کہلا ئے گا اور اس کے حکمران مسلما ن ہی تسلیم کئے جائیں گے۔ پھر حال یہ ہے کہ مسلما نو ں کے ان معاشر وں میں کر دار کے اعتبا ر سے ہر طر ح کے طبقا ت موجو دہیں۔ شرابی، زانی، قمارباز اور کئی اعتبارات سے صر ف اسلامی اخلا ق وکردار ہی سے نہیں، عام انسانی سیرت وکردار سے تہی دست افراد بھی موجو دہیں اور اسلامی نظام کے عملاً نا فذ نہ ہونے کے با وجو د انہی معاشروں میں کچھ نہ کچھ ایسے مسلما ن بھی لا زماً موجو د ہو ں گے جو غازی، روزے دار، اسلامی شعائر کی پاسداری کر نے والے اور انفرادی سطح پر صالح اور متقی مسلما ن ہو ں۔ جبکہ حضور اکر م صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں حالا ت یکسر مختلف تھے۔ چنانچہ ہمارے دور اور دورنبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں یہ پہلا اور بنیا دی فر ق ہے۔

دوسرافرق: ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ نو ع انسا نی کا جو تمدنی ارتقا ہو ا ہے، اس کے اعتبار سے اب کسی بھی ملک میں جو حکومت ہو تی ہے اس کے پا س تما م وسائل ہو تے ہیں۔ اور تمام قوت ہو تی ہے پھران دونوں کا نہایت منظم ارتکاز ہو تا ہے۔ جبکہ عوام بالکل نہتے ہو گئے ہیں۔ حکومت اور عوام کے مابین فرق وتفاوت اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ مسلح تصادم (Armed conflict)والا مرحلہ قریباً ناممکن کے درجہ تک پہنچ چکا ہے[45]۔

مندرجہ بالا دوتبدیلیوں کی وجہ سے ڈاکٹر اسرار احمد کے نز دیک انقلا ب کے مراحل میں اجتھادی بصیرت کے ذریعے لا ئحہ عمل میں کچھ تبدیلیاں کر نا ہو ں گی۔ اب اسلامی انقلاب کے لئے اقدام کا واحد راستہ صر ف یہ ہے کہ اگر ایک ایسی تنظیم وجو د میں آجا ئے جو پہلے چار مراحل یعنی دعوت، تنظیم، ترتیب اورصبر محض سے گزر چکی ہو تو وہ رائج الوقت نظام اور اس کو چلانے والے انتظامی ادارے (یعنی حکومت کے مقابلہ میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کے لئے کمر کس لے اور جا ن ہتھیلی پر رکھ کر کھڑی ہو جا ئے اور صر ف زبانی وکلامی با ت کر نے کے بجا ئے علی الاعلان یہ کہے کہ اب فلاں فلا ں منکر کا م ہم ہرگزنہیں ہونے دیں گے۔ یہ کا م اب ہماری لا شوں پر ہو گا۔ پھر اس پر ڈٹ جا ئے اور ہر نو ع کی مالی وجا نی قربا نی پیش کر نے سے دریغ نہ کر ے۔ البتہ اس اقدام میں اس با ت کا التزام ولحاظ ضروری ہو گا کہ انہی منکر ات کو چیلنج کیا جا ئے جو تمام مسالک کے ماننے والو ں کے نز دیک مسلّم ہوں۔ کسی مسئلہ میں اگر کسی کی شاذرائے ہو کہ وہ منکر ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس پر تو تمام مسالک کے لو گو ں کو جمع نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس پر کو ئی تحریک ہی بر پا کی جاسکتی ہے۔ ہدف اس کا م کو بنا نا ہو گا جو سب مسلما نو ں کے نز دیک منکر ہو، جو سب کے نزدیک حرام ہو۔ مثال کے طور پر بے حیا ئی، عریانی، تبرّج جاہلیہ، مردوعورت کے مخلو ط اجتما عات کے سارے طور طریقے، عورت کی بطور اشتہار تشہیر اور یوم پاکستان اور یوم استقلا ل کے مواقع پر فوج کے سا تھ اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی معنوی نوجوان بیٹیوں کی سڑکوں پر مردوں کے سامنے سینہ تان کر پر یڈ وغیرہ۔

مو جو دہ دور میں اسلامی انقلابی جماعت منکر ات یعنی خلاف شریعت کا مو ں کے خلا ف مظاہر وں کے ذریعے اقدام کا آغاز کر ے گی۔ تمدنی ارتقاء نے ان مظاہروں کی بہت سی صورتوں سے دنیا کو روشنا س کرایا ہے جن میں پکٹنگ یعنی دھرنا مارکر بیٹھنا، احتجاجی طور پر حکومت کو یا عوام کوکسی کا م سے روکنے کے لئے گھیراؤ وغیرہ کرنا بھی شامل ہے۔

اقدام کے لئے لا زمی شر ائط

دورحا ضر میں جب ایک جماعت دعوت، تنظیم، تربیت اور صبر محض کے بعد اقدام کے مر حلے پر پہنچے گی تو اُسے اپنی طر ف سے ہا تھ بالکل نہیں اُٹھا نا ہے۔ کسی قسم کی توڑپھوڑ نہیں کر نی ہے۔ مکی زندگی میں صحابہ کرام ؓ نے ہر قسم کے جو روستم کو پامردی سے برداشت کیا، اپنی طر ف سے جو ابی کا روائی تو درکنار مدافعت تک نہیں کی۔ وہی طر ز عمل اس اقدام یعنی مظاہر وں، گھیراؤوغیرہ کے معاملہ میں اس انقلابی جماعت کو اختیار کر نا ہو گا۔ یہ نہیں کہ احتجا جی جلو س تو تنظیم اسلامی نکالے لیکن توڑپھوڑ کو ئی اورکر جائے۔ اگر انقلابی جماعت کے اثرات اتنے نہیں ہیں کہ وہ عوام کو پر امن رکھ سکے اور نہ اس کے پا س ایسے کا رکن ہیں جو عوام کو کنڑول کر سکیں اور ہر نو ع کی بدامنی کو قابو میں رکھ سکیں تو ایسی صورت میں مظاہر وں کا اس تنظیم کو حق نہیں ہے۔ اس اقدام کا مر حلہ اس وقت آئے گا کہ جب اس انقلابی جماعت کو اپنی امکانی حد تک یہ اندازہ اورمعلومات حاصل ہوں کہ ہمارے اپنے زیر اثر اور ہمارے تربیت یافتہ لوگ اتنے ہیں کہ وہ پر امن طر یق پر سڑکوں پر آسکتے ہیں اور مظاہرے کر سکتے ہیں اور اُ ن کی اخلاقی ساکھ اتنی مضبوط ہے کہ اُن کے مظاہروں کے دوران بدامنی کا کو ئی حادثہ نہیں ہو گا۔ اوراگر چند شرپسند لو گ بدامنی پر اُتر ہی آئیں تو ان کی تنظیمی طاقت اتنی مضبوط ہو کہ تنظیم کے کا رکن اُ ن اشرار کی گردنیں دبو چیں۔ اس کے بجا ئے کہ حکومت کی انتظامیہ کو ان کی گردنیں دبو چنے کی ضرورت پیش آئے وہ خو د ان پر قابو پاکر انہیں حکومت کے حوالے کر یں کہ یہ ہم میں سے نہیں ہیں۔ یہ تخریب کا ر عناصر ہیں جو اس پر امن ا ورعدم تشدد کی اسلامی تحریک کو سبوثاژ اور درہم بر ہم کر نے کے لئے آگئے ہیں۔ اس انقلابی تنظیم کے تربیت یا فتہ جلو س نہ بسوں کو جلا ئیں گے نہ نیون سا ئنو ں اور ٹریفک سگنلو ں کو توڑیں گے نہ ہی وہ کسی نجی یا سر کا ری املا ک کو نقصان پہنچا ئیں گے۔ ان جلو سوں اور مظاہر وں کا مطالبہ یہ ہو گا کہ فلا ں فلا ں کا م شر یعت کی رو سے منکر ہیں، حرام ہیں۔ ہم ان کو کسی حال میں نہیں ہو نے دیں گے۔ حکومت گرفتار کر ے تو مظاہرین کو ئی مذاحمت نہیں کر یں گے۔ لا ٹھی چارج کر ے تو اُسے جھیلیں گے۔ آنسوگیس کے شیل بر سائے تو برداشت کریں گے حتی کہ گولیا ں بر سائے تو خو شی خو شی اپنی جا نو ں کا نذرانہ پیش کر یں گے لیکن نہ پیچھے ہیٹں گے اور نہ اپنے مؤقف کو چھوڑیں گے[46]۔

تین ممکنہ نتایج

ڈاکٹر اسراراحمد کے نز دیک اسلامی انقلا ب کے محولہ بالا طر یقہ کا ر کے تین ممکنہ نتا یج نکل سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت اگران مظاہر وں کے نتیجہ میں پسپائی اختیار کر ے، یعنی منکر ات کو ختم کر نا شر وع کر دے تو ہمیں اور کیا چاہیے، ایک منکر کے بعد دوسرا منکر، دوسرے کے بعد تیسرا منکر۔ اگر ہم ایک ایک کر کے منکر ات کو ختم کراتے چلے جا ئیں تو اسلامی انقلاب آجا ئے گا، تبدیلی بر پا ہو جا ئے گی۔ لیکن جب تک نظام مکمل طور پر اسلامی نہیں ہو گا یہ جدوجہد جاری رہے گی۔

دوسرا ممکنہ نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت وقت اسے اپنی بقاء، اپنی انا اور اپنے مفادات کے تحفظ کا مسئلہ بنالے اور طاقت سے اس اسلامی تحریک کو کچلنے کی کو شش کرے۔ اس موقع پر ذراٹھہر کر حکومت وقت کی ماہیت وہیت کو سمجھ لیجئے کہ وہ کیا ہو تی ہے۔ ہر حکومت کسی نہ کسی طبقہ کی نما ئندگی کر رہی ہو تی ہے۔ وہ معاشرہ کے کسی طاقتور طبقہ کے مفادات کی محافظ بن کر بیٹھی ہو تی ہے، اسلام کا نظام عدل وقسط ان طبقا ت کے لئے پیغام موت لے کر آتا ہے۔ لہٰذا حکومت وقت کسی ایسی تحریک کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر تی جس کے کا میاب ہو نے کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ استحصالی نظام ختم ہو جا ئے اور اسلام کا عادلا نہ و منصفا نہ نظام قائم و نا فذ ہو جا ئے۔ لہٰذا وہ ریا ست کی پو لیس اور فوج کو اس تحریک کو کچلنے کے لئے بے دریغ استعمال کر ے گی۔ لاٹھا ں بر سیں گی، آنسو گیس کے شیل پھینکے جا ئیں گے۔ لیکن اگر لو گ اﷲ کی راہ میں قربانیاں حتیٰ کہ جا ن تک دینے پر تیار ہو ں اور ثابت قدمی سے میدان میں ڈٹے رہیں تو پولیس کتنو ں کو گرفتار کر ے گی!جیلو ں میں کتنی گنجا ئش ہو گی !کتنو ں کو پھانسیا ں دے گی۔ اگر تحریک کے کارکنو ں نے صبر و ثا بت قدمی کا ثبو ت دیاتو میں (ڈاکٹر اسراراحمد) پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہو ں کہ بالآخر پو لیس اور فو ج جو اب دے دے گی کہ یہ مظاہرین ہمارے ہی ہم مذ ہب اور ہم وطن ہیں۔ ہمارے ہی اعزاواقربا ہیں۔ یہ لو گ اپنی کسی ذاتی غر ض کے لئے میدان میں نہیں آئے ہیں بلکہ اﷲ کے دین کی سر بلند ی اور اس کے نفاذ کے لئے اپنی جا نو ں کا نذرانہ پیش کر نے کے لئے نکلے ہیں تو آخر کب تک ان کو اپنی گولیوں سے بھونتے چلے جا ئیں !!نتیجہ یہ نکلے گا کہ حکومت کا تختہ الٹ جا ئے گا اور تحریک کا میابی سے ہمکنار ہو گی۔ تو یہ دوممکنہ صورتیں تو تحریک کی کا میابی کی ہیں۔

ایک تیسرا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ حکومت وقت اس تحریک کو کچلنے میں کا میاب ہو جا ئے، تو جن لو گو ں نے اس راہ میں جانیں دی ہوں گی، ان کی قربانیاں ہرگز ضائع نہیں ہوں گی، وہ اﷲ تعالیٰ کے یہاں اجر عظیم اور فوز کبیر سے نوازے جا ئیں گے۔ انشا اﷲ العزیز۔ ڈاکٹر صاحب کے نز دیک ہم نظام کو بالفعل بدلنے کے مکلف یعنی ذمہ دار نہیں ہیں البتہ اس کو بدلنے کی جدوجہد ہم پر فرض ہے۔ مزید برآں انہی جان نثا روں اور سرفروشوں کے خو ن اور ہڈیوں کی کھا د سے انشا ء اﷲ جلد یا بدیر کوئی نئی انقلابی اسلامی تحریک ابھرے گی جو طاغوتی استحصالی اور جا برانہ نظام کو للکا رے گی اور اس طر ح وہ وقت آکر رہے گا جس کی خبر الصا دق المصد وق صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہے کہ پورے کر ہ ارض پر اﷲ کا دین اسی طرح غالب ہو کر رہے گا جس طر ح آپ صلی علیہ وسلم کی حیا ت طیبہ میں جز یرہ نمائے عر ب پر غالب ہو ا تھا  [47]۔

ڈاکٹر اسرار احمد کے بیان کر دہ منہج انقلا ب بنویؐ سے اختلا ف کر نا مشکل ہے۔ لیکن اس انداز سے اگر دین کا کا م کیا جا ئے تو طویل مدت کے بعد انقلا ب کی امید کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک صبر آزما عمل ہے جس میں صد یا ں بھی بیت سکتی ہیں۔ ایک انسا ن کا کا م کو شش کر نا ہے۔ نتائج اﷲ رب العزت کے ہا تھ میں ہیں۔ دینی تحریکوں سے یہ بہت بڑی غلطی ہو تی رہی ہے کہ وہ فوری نتائج کے حصول کے لئے غیر اسلامی اقدامات بھی اُٹھا لیتی ہیں جس کے نتیجے میں انقلاب کی منزل قریب کی بجا ئے مزید دور ہو جا تی ہے۔ دورحاضر میں لال مسجد اسلام آبا د کی انتظامیہ نے شریعت کے نفاذ کی تحریک چلا ئی اور جب قانو ن ہا تھ میں لینے کی کو شش کی تو اس کا نتیجہ انتہائی بھیانک نکلا اور اس تحریک کے قائد مو لا نا عبد العزیز برقعہ پہن کر مسجد سے فرار ہو تے ہو ئے گرفتار ہو ئے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے انقلاب کا جو طر یقہ بتا یا ہے، وہی معقول طریقہ ہے۔

قیام پاکستان کی غر ض وغایت اوربانی تنظیم کا نظریہ

ڈاکٹراسرا ر حمد اپنی تقار یر میں اس با ت کا ذکر شدومد کے سا تھ کر تے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نا م پر بنا یا گیا اس کے علا وہ پاکستان کا کو ئی مقصد نہیں تھا۔ اُن کے نز دیک برصغیر کے عوام النا س یہ چاہتے تھے کہ ہم ایک خطہ زمین حاصل کر یں تاکہ وہاں اسلامی نظام نا فذ کر سکیں۔

ہفت روزہ ندائے خلا فت میں اپنے خصو صی مضمو ن ’’زمینی حقائق اور پاکستان کا مستقبل‘‘میں ڈاکٹر اسرار احمد یوں رقمطراز ہیں

’’راقم الحروف ایک عرصہ سے اس چیز کی منادی دے رہا ہے کہ پاکستان کی وجہ جو از اسلام کے سواکچھ نہیں اور ہم نے اسلام کی جانب پیش رفت نہ کر کے اپنی وجہ جو از کو کھو دیا ہے‘‘[48]۔

ڈاکٹر صاحب کا نظریہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد چونکہ مسلما نو ں نے اﷲ کے سا تھ کئے ہو ے اس عہد کی پاسداری نہیں کی جو قیام پاکستان سے قبل کیا گیا تھا، اسی لئے ۲۵سال بعد ہمیں سزا ملی اور پا کستان کا ایک حصہ ہم سے علیحدہ ہو

کربنگلہ دیش بن گیا۔ اس سے قبل کہ ڈاکٹر صاحب کے نظریے کا تنقید ی جا ئز ہ لیا جائے، یہ ضروری معلوم ہو تا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ایک اور مضمو ن سے ایک تفصیلی اقتباس نقل کر دیا جا ئے، تاکہ اُن کی رائے وضاحت کے سا تھ ہمارے سامنے آجائے۔ یہ مضمو ن ’’ملت اسلامیہ پاکستان کی خصو صی ذمہ داری ‘‘کے عنوان سے اُ ن کی کتاب ’’سابقہ اور مو جو دہ مسلما ن امتوں کا ما ضی، حال اور مستقبل اور مسلما نان پاکستان کی خصوصی ذمہ داری ‘‘میں شامل ہے۔ اس مضمو ن میں ڈاکٹر صاحب نے علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء تا۱۹۳۸ء)اور قائد اعظم محمد علی جناح (۱۸۷۶ء تا۱۹۴۸ء) کے حوالے سے بھی یہ کہا ہے کہ وہ ایک ایسا خطہ چا ہتے تھے جہاں اسلام نا فذ ہو۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں’’اوراب توجہ فرمائیے تاریخ کی اس کروٹ کی جا نب جس کے نتیجے میں اس عظیم ذمہ داری کا پورا بوجھ ملت اسلامیہ پاکستان کے کندھوں پر آگیا ہے۔ یہ کروٹ تحریک پاکستان اور اس کے نتیجے میں قیام پاکستان سے عبارت ہے جس کا اعلانیہ مقصدا سلام کے نظام عدل اجتماعی کا قیام اور پورے عالم انسا نیت کے سا منے اسلام کے اصول حر یت واخو ت ومسا وات کا ایک نمونہ پیش کر نا تھا۔ چنانچہ مفکر ومصور پاکستان علا مہ محمد اقبال نے بھی اپنے خطبہ الہٰ آبا د (۱۹۳۰ء) میں فرمایا تھا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقے میں ایک آزاد مسلما ن ریا ست کا قیام تقدیر مبرم ہے۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو ہمیں ایک موقع مل جا ئے گا کہ اسلام کی اصل تعلیمات پر جو پر دے عر ب ملو کیت (امپر یلز م) کے دور میں پڑگئے تھے انہیں ہٹاکر دوبارہ اصل اسلام کا ایک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں‘‘ اور بانی ومعمار پاکستان محمد علی جناح نے بھی بارہا ان ہی خیالا ت کا اظہار فرما یا تھا اور قیام پاکستان کی صورت میں غالب اور جا رح ہندو اکثر یت کے ملک بھارت میں شامل رہ جا نے والے علاقوں کے مسلما نو ں نے بھی، چنانچہ ان سطور کے راقم کو پوری شدت کے سا تھ یہ احساس لا حق ہے کہ ہم بحیثیت ملت اسلامیہ پاکستان اﷲ کے قانون عذاب کی گرفت میں آچکے ہیں اور اس عظیم قانو ن کی اس دفعہ کے مطا بق جو سورہ سجدہ کی آیت۲۱میں وارد ہو ئی ہے، یعنی ’’ہم انہیں بڑے عذاب سے قبل چھوٹے عذاب کا مزہ ضرور چکھائیں گے، شائد کہ یہ لوٹ آئیں!‘‘ ہماری پیٹھ پر عذاب الہٰی کا ایک شدید کوڑا ۱۹۷۱ء میں سقوط ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان (مو جو دہ بنگلہ دیش ) کی صورت میں قلب ماہیت اور سب سے بڑھ کر ایک ذلت آمیز اور عبرت نا ک شکست کی صور ت میں پڑچکا ہے‘‘[49]۔

محولہ بالا اقتبا س کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کا موقف وضاحت کے سا تھ سامنے آجا تاہے۔ اس نقطہ نظر میں ایک بہت بڑا جھول نظر آتا ہے۔ ایک طر ف تو تنظیم اسلامی میں منہج انقلاب نبوی ﷺ کا تذکرہ بڑی شدت کے سا تھ کیا جا تا ہے جبکہ دوسری طر ف ڈاکٹر اسراراحمد قیام پاکستان کی جدوجہد کو اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد سے تعبیر کر تے ہیں حالانکہ وہ لو گ جن کی کو ششو ں سے پاکستان بنا، انہوں نے اس جدوجہد میں نبوی طر یق اختیار نہیں کیا اور نہ ہی تحریک پاکستان کے کا رکنو ں میں وہ تقویٰ مو جو د تھا جو کہ ایک اسلامی تحریک کے کا رکنو ں کے لئے جذولا ینفک ہے۔ پھر کیوں ڈاکٹر اسرار احمد اور اُ ن کے رفقاء مصر ہیں کہ پاکستان اسلام کے نا م پربنا یا گیا ؟اس نقطہ نظر کے بغیر کیا پاکستان میں اسلامی انقلا ب کی جدوجہد نہیں ہو سکتی؟ محمد اسحا ق بھٹی نے اپنی کتاب بز م ارجمند اں میں ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ایک قلمی خاکہ لکھا ہے۔ اس مضمو ن میں انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے نقطہ نظرسے اختلا ف کر تے ہو ئے چند سوالا ت اُٹھا ئے ہیں جو یہاں بے کم وکاست درج کئے جاتے ہیں۔

محمد اسحا ق بھٹی لکھتے ہیں کہ میں ڈاکٹر صاحب سے عر ض کر نا چا ہتا ہو ں کہ اگر قیام پاکستان کا یہی مقصد تھا اور اس میں اسلام کا نفاذ ہی مطلوب تھا تو

(۱)کیا وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی یا اس کی جنرل کو نسل کے کسی ایسے فیصلے یا ریز ولیوشن کی نشاندہی کر سکتے ہیں جس میں یہ وضا حت کی گئی ہو کہ پاکستان اسلام کے لئے بنا یا جا رہا ہے۔ اور اس میں اسلامی نظام نا فذ ہو گا؟

(۲)کیا اس دور کے کسی سر کر دہ مسلم لیگی رہنما نے یہ بتا یا کہ اسلامی نظام کیا ہو تا ہے اور ہم اسے کس طرحملک میں نا فذ کر یں گے؟

(۳)ہندوستان اس وقت گیارہ صوبو ں پر مشتمل تھا۔ کیا کسی صوبائی مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا اس طر ح کا کوئی ریز ولیوشن یا فیصلہ ڈاکٹر صاحب یا کسی اور صاحب کے علم میں ہے جس میں اسلامی نظام کے نفاذ کے بار ے میں کو ئی با ت کی گئی ہو؟

(۴)کیا مسلم لیگ کے اکابر (یعنی قائد اعظم محمد علی جناح، لیا قت علی خاں، خواجہ نا ظم الدین، سید حسین شہیدسہروردی، سردار عبد الر ب نشتر، چوہدری خلیق الزمان اور اسماعیل ابراہیم چند دیگر وغیرہ)حضرات میں سے کسی لا ئق احترام شخصیت کی ایسی تقریر یا تحر یر مو جو د ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہو کہ اس ملک میں اسلام نا فذہوگا اور اسلام ہی کی حکمرانی ہو گی؟

(۵)کیا آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے کو ئی ایسے بزرگ بھی رکن تھے جنھیں با قا عد ہ عالم دین کہا جا تا ہو؟[50]۔

محمد اسحا ق بھٹی نے جو نکا ت اُٹھا ئے ہیں۔ وہ بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک اور با ت جو عوام الناس کے ذہنو ں میں پا ئی جا تی ہے وہ یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے زمانے میں یہ نعرہ زبان زد عام تھا’’پاکستان کا مطلب کیا؟لاالہ الا اﷲ ‘‘یہ الفا ظ اس با ت کی دلیل سمجھے جا تے ہیں کہ پاکستان اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے حاصل کیا گیا تھا۔ لیکن غور طلب با ت یہ ہے کہ کیا یہ الفاظ مسلم لیگ کے منشور میں داخل تھے؟یا مسلم لیگ کے کسی ریزولیوشن کا حصہ تھے؟یا قا ئداعظم محمد علی جنا ح یاکسی سرکردہ مسلم لیگی نے یہ نعرہ لگا یا تھا ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظم محمد علی جنا ح نے بے شمار مواقع پر اسلامی نظام کی با ت کی تھی۔ لیکن قیام پاکستان کے لئے وہ اسوہ اختیار نہیں کیا گیا جو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اور جس کی وکا لت ڈاکٹر اسرار احمد اپنی کتاب منہج انقلاب نبوی ﷺ میں بڑی وضا حت کے سا تھ کر تے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی اس با ت سے اتفا ق کر نا انتہا ئی مشکل ہے کہ پاکستان اسلام کے نا م پر بنایا گیا۔ اتنی با ت کہی جا سکتی ہے کہ سیا ستدانو ں نے اَن پڑ ھ اور بے عمل سادہ مسلما نو ں کو اپنے مقاصد کی خا طر استعمال کر نے کیلئے اسلام کا نا م استعمال کیا۔ ہماری یہی منافقت ہے جس کی سزا ۷۰سال سے ہمیں مل رہی ہے۔ محمد اسحا ق بھٹی کی یہ با ت درست معلوم ہوتی ہے کہ:

 ’’ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ قیام پاکستان کا مقصد اسلام تھا یا نہیں تھا۔ بات صر ف یہ کر نی چاہیے کہ یہ مسلما نو ں کا ملک ہے اور یہاں کے مسلما نوں کا مطمع نظر اس میں اسلام کا نفاذ ہے۔ لہٰذا اسے اسلام کے حوالے کر دینا چاہیے ‘‘[51]

اگر تنظیم اسلامی مندرجہ بالا موقف اختیار کر لے تو فکر ی تضا د سے چھٹکار ا حاصل کیا جا سکتا ہے۔



[1]  ڈاکٹر اسرار احمد، اسلام کا سماجی نظام، Peace TV، بمبئی انڈیا، ۲۰۰۴ء۔

[2]  تنظیم اسلامی ایک نظر میں، ۶۷۔ اے، علامہ اقبال روڈ، گڑھی شاہو، لاہور، سن اشاعت۲۰۰۶ء، ص۴۔ ۵۔

[3]  ڈاکٹر اسرار احمد، تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ، ناشر مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور، اشاعت ششم، نومبر ۲۰۰۵ء، ص ۳۷۔ ۳۸۔

[4]   ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا مودودی مرحوم اور میں، مکتبہ خدام القرآن، لاہور، اشاعت سوم، نومبر ۲۰۰۶ء، ص ۲۷۔ ۲۸۔

[5]  تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ، ص ۴۳۔ ۴۵۔

[6]  مولانا مودودی مرحوم اور میں، ص ۲۵

[7]  حوالہ سابق، ص ۲۹۔ ۳۰

[8]  حوالہ سابق، ص۳۱

[9]  ڈاکٹر اسرار احمد، تاریخ جماعت اسلامی کا ایک گمشدہ باب، مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، سن اشاعت بار سوم، نومبر۲۰۰۲ء، ص ۱۶۶۔ ۱۶۷۔

[10]  حوالہ سابق، ص ۱۶۷

[11]    تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ، ص ۲۱۹، ۲۲۰۔

 

[12] حوالہ سابق، ص ۲۲۰، ۲۲۱۔

[13]  حوالہ سابق، ص ۲۲۶۔

[14]  ڈاکٹر اسرار احمد، تعارف تنظیمِ اسلامی، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، اشاعت ہفتم، دسمبر ۲۰۰۴ء، ص ۵۔

[15]  حوالہ سابق، ص ۷۔

[16]  حوالہ سابق، ص ۲۶۔

[17]  حوالہ سابق، ص۴۰۔

[18]  حوالہ سابق، ص ۵۲، ۵۳۔

[19]  حوالہ سابق، ص ۸۔

[20]  رحمت اﷲ بٹر، انٹرویو ( غیر مطبوعہ)، ناظم دعوت تنظیم اسلامی، پاکستان، جون ۲۰۰۷ء۔

[21]  تعارف تنظیم اسلامی، ص ۱۰۔

[22]  البقرہ: ۲۱۹، النساء: ۴۳، المائدۃ: ۹۰۔

[23]  تعارف تنظیم اسلامی، ص ۱۰۔

 [24]   حوالہ سابق، ص ۱۱۔

[25]  حوالہ سابق، ص ۱۲۔ ۱۳۔

[26]  حوالہ سابق، ص ۱۲۔ ۱۳۔

[27]  حوالہ سابق، ص ۱۳۔ ۱۴۔

[28]  ڈاکٹر اسرار احمد، اداریہ ماہنامہ میثاق، مدیر ڈاکٹر اسرار احمد، لاہور، مارچ ۱۹۷۶ء، ص ۳۔

[29]  تعارف تنظیم اسلامی، ص ۱۸۔ ۱۹۔

[30]  پروفیسر خورشید احمد، یادوں کے جھروکے، ماہنامہ ترجمان القرآن، مدیر پروفیسر خورشید احمد، لاہور، حسن البنا شہید نمبر، مئی ۲۰۰۷ء، ص ۱۹۔ ۲۰۔

[31]   حوالہ سابق، ص ۲۰۔

[32]   نظام العمل تنظیم اسلامی، ترمیم شدہ مارچ ۲۰۰۰ء، شائع کردہ مرکز تنظیم اسلامی، گڑھی شاہو، لاہور، ص ۱۵۔

[33]  تنظیم اسلامی ایک نظر میں، ناشر تنظیم اسلامی پاکستان، ص ۱۱۔

[34]  حوالہ سابق، ص ۵۔

[35]  دستور تنظیم اسلامی، ترمیم شدہ جون ۲۰۰۲ء، شائع کردہ تنظیم اسلامی گڑھی شاہو، لاہور، ص ۶۔

[36]  ڈاکٹر اسرار احمد، جہاد فی سبیل اﷲ، ناشر شعبہ دعوت تنظیم اسلامی، اشاعت دوم، فروری ۲۰۰۷ء، ص۶۱۔

[37]  ڈاکٹر اسرار احمد، تنظیم اسلامی کا تاریخی پس منظر، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، باردوم اگست ۱۹۹۲ء، ص آخر۔

[38]  ڈاکٹر اسرار احمد، منہج انقلاب نبوی ﷺ، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، بار پنجم اپریل ۱۹۹۵ء، ص ۸۔ ۱۴۔

[39]  حوالہ سابق، ص ۸۔

[40]  مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، الرحیق المختوم، المکتبہ السلفیہ، لاہور، نومبر ۱۹۹۶ء، ص ۱۰۷۔

[41]  منہج انقلاب نبوی ﷺ، ص ۹۔ ۱۰۔

[42]  حوالہ سابق، ص ۱۳۔

[43]  حوالہ سابق، ص ۱۴۔

[44]  حوالہ سابق، ص ۸۔ ۱۵۔

[45]  حوالہ سابق، ص ۳۴۵۔ ۳۴۶۔

[46]  حوالہ سابق، ص ۳۶۴۔ ۳۶۶۔

[47]  حوالہ سابق، ص ۳۸۲۔ ۳۸۳۔

[48]  ڈاکٹر اسرار احمد، زمینی حقائق اور پاکستان کا مستقبل، ہفت روزہ ندائے خلافت، لاہور، اشاعت ۸ تا ۱۴مارچ ۲۰۰۷ء، ص ۸۔

[49]  ڈاکٹر اسرار احمد، سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی، حال اور مستقبل اور مسلمانانِ پاکستان کی خصوصی ذمہ داری، مکتبہ انجمن خدام القرآن، لاہور، سن اشاعت ۲۰۰۵ء، ص ۲۰۔

[50]  محمد اسحاق بھٹی، بزم ارجمنداں، مکتبہ قدوسیہ، لاہور، سن اشاعت ۱۹۹۹ء، ص ۵۸۷۔ ۵۸۸۔

[51]  حوالہ سابق، ص ۵۸۹۔ ۵۹۰۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...