Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

غیر سیاسی اسلامی تحریکیں: تنظیم اسلامی، تحریک ختم نبوت، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی |
Asian Research Index
غیر سیاسی اسلامی تحریکیں: تنظیم اسلامی، تحریک ختم نبوت، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی

دوسرا باب: تحریک ختم نبوت
ARI Id

1681275197971_56115098

Access

Open/Free Access

Pages

46

مرزا غلام احمدکے حالات زندگی

پیدائش

مرزا غلام احمد(۱۸۳۷ء۔ ۱۹۰۸ء)  کی پیدائش سکھ حکومت کے آخری عہد میں پنجاب ضلع گورداسپور کے ایک قصبے قادیان میں ہوئی۔ یہ قصبہ امرتسر کے شمال مشرق میں ریلوے لائن پر ایک پرانے شہربٹالہ سے صرف گیارہ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ مرزا کی تاریخ پیدائش اگرچہ صاف اور واضح نہیں تاہم اُن کی اپنی کتابوں میں پیدائش کے بارے میں تذکرہ موجود ہے۔ جس کے بارے میں وہ خود یوں بیان کرتا ہے۔

 ’’اب میرے ذاتی سوانح یہ ہیں کہ میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی اور میں ۱۸۵۷ء میں سولہ سترھویں برس میں تھا۔ ابھی ریش و بروت کا آغاز نہیں ہوا تھا‘‘[1]۔

سن پیدائش کے بارے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ مرزا بشیر الدین محمود

نے جو سپاسنامہ۱۹۲۲ء میں حکومت برطانیہ کو پیش کیا تھا اس میں اس نے مرزا غلام احمد کا سن ولادت۱۸۳۶ء تحریر کیا ہے جس حساب سے۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے وقت مرزا کی عمر ۲۱برس بنتی ہے۔ شیخ محمد اکرام نے مرزا کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۷ء تحریر کی ہے[2]۔

تعلیم

مرزا نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی۔ بچپن کے زمانے میں اس کی تعلیم کچھ اس طرح سے ہوئی کہ جب وہ چھ سال کا ہوا تو ایک فارسی معلم رکھا گیا جس نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مرزا کو پڑھائیں۔ اس کے بعد ایک عربی خواں مولوی اس کی تربیت کے لئے مقرر کئے گئے۔ ایک شیعہ عالم مولوی گل علی شاہ سے فلسفہ، منطق اور حکمت کی کتابوں کا درس لیا اور بعض طبابت کی کتابیں مرزا نے اپنے والد سے پڑھیں۔ لیکن یہ سلسلہ تدریس ادھورا رہا جس کی وجہ مرزا کچھ یوں تحریر کرتے ہیں:

 ’’ان دنوں مجھے کتابوں کو دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔ میرے والد مجھے باربار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔ نیز اُن کا مطلب یہ بھی تھا کہ میں اس شغل سے الگ ہو کر ان کے غموم و ہموم میں شریک ہو جاؤں۔ آخر ایسا ہی ہوا۔ میرے والد اپنے آباؤ اجداد کے دیہات دوبارہ لینے کے لئے انگریز عدالتوں میں مقدمات کررہے تھے۔ انہوں نے ان ہی مقدمات میں مجھے بھی لگا دیا۔ ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بے ہودہ جھگڑوں میں ضائع ہو گیا۔ اس کے ساتھ والد موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگادیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا‘‘[3]۔ مرزاصاحب اپنی ایک اور کتاب میں یوں لکھتے ہیں:

 ’’حالت فاسدہ زمانہ کی یہی چاہتی ہے کہ ایسے گندے زمانے میں جو امام الزمان آوے وہ خدا کے حکم سے مہدی ہو اور دینی امور میں کسی کا شاگرد نہ ہو اور نہ کسی کا مرید ہو اور عام علوم و معارف خدا سے پانے والا ہو، نہ علم دین میں کسی کا شاگرد ہو اور نہ کسی کا مرید ہو اور عام علوم و معارف خدا سے پانے والا ہو، نہ علم دین میں کسی کا شاگرد ہو اور نہ امور فقر میں کسی کا مرید ‘‘ [4]۔

ملازمت

مرزا غلام احمد نے اپنے دوست لالہ بھیم سین کی مدد سے ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے دفتر میں پندرہ روپے ماہوار پر ملازمت شروع کی۔ ایک دفعہ مرزا غلام احمد کو معلوم ہوا کہ لالہ بھیم سین مختاری کا امتحان دے رہا ہے تو مرزا نے بھی امتحان کی تیاری شروع کردی۔ دونوں نے اکٹھا امتحان دیا مگر کامیاب صرف لالہ بھیم سین ہوا۔ جس کے بعد جلد ہی مرزا نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ ملازمت کی عمر چارسال تھی۔ دوران ملازمت مرزا کو انگریزوں نے استعمال کیا اور قادیانی مذہب کا پرچار شروع کروایا [5]۔

مرزا غلام احمد کی وفات

مرزا نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو علماء اسلام مرزا غلام احمد کی جھوٹی نبوت کے سامنے آ ہنی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ مرزا غلام احمد نے علماء کے مقابلے میں ایک چال چلی۔ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے۱۵اپریل ۱۹۰۷کو ایک اشتہار جاری کیا جس میں فیصلہ خدا کے ہاتھ چھوڑ ا کہ وہی اسی دنیا میں جھوٹے اور سچے کو ثابت کرے گا اور چھوٹا سچے کی زندگی میں طاعون، ہیضہ جیسے مرض میں مبتلا ہوکر مرے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے سچ کوثابت کیا اور اشتہار کے ایک سال بعد ۲۶مئی۱۹۰۸کو مرزا غلام احمد اسہال کی بیماری میں مبتلا ہوکر بمقام لاہور وفات پاگیا۔ مرزا بشیر احمد اپنے والد کی وفات سے متعلق لکھتا ہے:

 ’’حضرت مسیح موعود ۲۵مئی۱۹۰۸ء یعنی پیر کی شام کو بالکل اچھے تھے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد خاکسار باہر سے مکان میں آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ والدہ صاحبہ کے ساتھ پلنگ پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے۔ میں اپنے بستر پر جاکر لیٹ گیااور پھرمجھے نیند ہوگئی۔ رات کے پچھلے پہر صبح کے قریب مجھے جگایا گیا یا شاید لوگوں کے چلنے پھرنے اوربولنے کی آواز کی سے میں خود بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسہال کی بیماری سے سخت بیمار ہیں اور حالت نازک ہے اور اِدھراُدھر معالج اور دوسرے لوگ کام میں لگے ہوئے ہیں۔ جب میں نے پہلی نظر حضرت مسیح موعود پر ڈالی تو میرا دل بیٹھ گیا کیونکہ میں نے ایسی حالت آپ کی اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی اور میرے دل پر یہی اثر پڑا کہ یہ مرض الموت ہے۔‘‘[6]

مرزا غلام احمد کی وفات نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں ہی گزر گیا۔ مرزا اشتہار کے ایک سال بعد ہی مرگیا۔ جبکہ مولانا ثناء اﷲ امرتسری جنہوں نے مرزا غلام احمد کا ناطقہ بند کر رکھا تھا اور جن کو خاموش کرنے کے لئے مرزا نے اشتہار دیا تھا، مرزا کی وفات کے بعد تقریباً ۴۰سال تک زندہ رہے (آپ نے۱۹۴۸ء میں وفات پائی)۔

دعوت غلام احمد کا تدریجی ارتقاء

اُنیسویں صدی کی تاریخ اس لحاظ سے خاص امتیاز رکھتی تھی کہ اسلامی ممالک میں سیاسی انتشار، دماغی بے چینی اور اندرونی کشمکش اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔ ہندوستان اس بے چینی و کشمکش کا خاص میدان تھا۔ یہاں بیک وقت مغربی و مشرقی تہذیبوں، جدید، قدیم نظام تعلیم، نظام فکر اور اسلام و مسیحیت میں معرکہ کا رزار گرم تھا۔ دونوں طاقتیں زندگی کے لئے ایک دوسرے سے نبرد آزما تھیں۔ ۱۸۵۷ء کی آزادی کی کوششیں ناکام ہوچکی تھیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے دل شکست کے صدمہ سے زخمی اور اُن کے دماغ ناکامی کی چوٹ سے مفلوج ہورہے تھے۔ دوسری طرف ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں پھیلے ہوئے عیسائی پادری مسیحیت کی دعوت و تبلیغ میں خاص سرگرمی دکھا رہے تھے۔ مسلمانوں کی نئی نسل جس پر اسلامی تعلیمات نے پورے طور پر اثر نہیں کیا تھا، اس دعوت و تلقین کا خاص طور پر ہدف تھے۔ دوسری طرف فرق اسلامیہ کا آپس کا اختلاف تشویشناک صورت اختیار کرگیا تھا۔ سارے ہندوستان میں مذہبی خانہ جنگی سی برپا تھی۔ اس سے علماء کے وقار اور دین کے احترام کو بڑا صدمہ پہنچا تھا۔ ان حالات میں انگریز ایک منصوبے کے تحت ہندوستان کے مسلمانوں کو مایوسی و ناکامی، اختلاف اور نفاق کے جس مقام تک لے جانا چاہتے تھے، لے گئے۔ جس کے بعد انگریز نے مسلمانوں کے اس عقیدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کہ قرب قیامت میں مسیح موعود نے آنا ہے۔ پنجاب کے ایک دوست خاندان کے ایک فرد غلام احمد کو چن کر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرایا۔ پنجاب کو خاص طور پر اس لئے چنا گیا کیونکہ انگریز اس حقیقت سے واقف تھا کہ پنجاب پر ۸۰سالہ سکھ دور اقتدار نے مسلمانوں میں مایوسی، ذہنی انتشار اور ضعیف الاعتقادی پیدا کردی تھی۔ اسلامی تعلیم اور اسلامی معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو چکی تھیں یہی وجہ تھی کہ مرزا غلام احمد کو اپنی تاویلی نبوت چمکانے لے لئے یہاں سے آب و دانہ میسر آگیا۔

مرزا غلام احمد نے انگریزوں کے ایماء پر دعویٰ نبوت کرکے مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھونپنے کی جسارت کی اور روح محمد ﷺ چھیننے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ نبوت کی دعویٰ دار نے ایک دم دعویٰ نہ کیا بلکہ اس نے تدریجی ارتقاء کے ذریعے اپنی تعلیمات پھیلاکر اپنے آپ کو نبوت کے درجے پر پہنچایا۔ ذیل میں مرزا غلام احمد جو اپنے آپ کو مصنف، مبلغ، مجدد، محدث، میسح موعود، ظلی بروذی نبی اور آخر کار نبوت کے اعلیٰ شان و مرتبے پر پیش کرتا ہے، کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔

مرزا غلام احمد قادیانی بطور مصنف

مرزا غلام احمد ۱۸۶۸ ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر قادیان آگیا لیکن قادیان میں بھی ان کے کرنے کو کچھ نہ تھا جس سے ان کا دل اپنے ماحول سے اچاٹ ہو گیا۔ قادیان سے مرزا اپنے دوست مولانا محمد حسین بٹالوی کے پاس بٹالا آئے اور ایک ایسی کتاب لکھنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا جس میں اسلام کے علاوہ دوسرے باطل ادیان کا مدلل طریقے سے ردمنظور تھا۔ ’’مولانا محمد حسین بٹالوی نے مرزا کے اس کام کے لیے لاہور کو تجویز کیا اور ساتھ ہی ممکن امداد کا یقین بھی دلایا ‘‘[7]۔

چنانچہ مرزا قادیانی نے علمی شہرت کے لیے لاہور کو منتخب کیا اور قادیان سے لاہور منتقل ہو کر مولانا محمد حسین بٹالوی کے پاس رہائش پذیر ہو گیا۔ پس مرزا قادیانی کتابوں کے مطالعہ میں منہمک ہو گیا۔ ان کی جو تصنیفات ۱۸۸۰ ء کے بعد شائع ہوئیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مطالعے کا موضوع زیادہ تر مذاہب اور خاص طور پر مسیحیت، سناتن دھرم اور آریہ سماج کی کتابیں تھیں۔ یہ دور مذہبی مناظروں کا تھا۔ ایسے ماحول میں جوشخص اسلام کی مدافعت اور مذہب غیر کی تردید کا علم بلند کرتا وہ مسلمانوں کا مرکز توجہ و عقیدت بن جاتا۔ چنانچہ مرزا غلام احمد نے براہین احمدیہ علی حقیقہ لکتاب اﷲ القرآن و النبوۃ المعدیہ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب نے مرزا کو بے حد شہرت دی۔ مرزا بشیر الدین محمود لکھتے ہیں کہ ’’براہین احمدی کی تصنیف سے پہلے حضرت مسیح موعود ایک گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے اور گوشہ نشینی میں درویشانہ حالت تھی‘‘[8]۔

مرزا غلام احمد خود بھی براہین احمدیہ کی تصنیف سے اپنی حالت کو کچھ یوں بیان کرتا ہے:

’’یہ وہ زمانہ تھا کہ جس میں مجھے کوئی نہیں پہچانتا تھا نہ کوئی موافق تھا اور نہ مخالف۔ کیونکہ اس زمانے میں میں کچھ بھی چیز نہ تھا اور ایک احد من الناس اور زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا‘‘[9]۔

براہین احمدیہ میں مرزا غلام احمد نے انگریزکی مکمل اطاعت اورا ن سے وفاداری پر زور دیا اور وہ لوگ جو ان کے خلاف باغیانہ خیالات رکھتے تھے اور ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر جہاد کی فرضیت کے قائل تھے، انہیں نہایت سخت الفاظ میں خطاب کیا اور ساتھ یہ اعلان کیا کہ جہاد کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ بہر حال کتاب براہین احمدیہ ہزار ہا خامیوں کے باوجود اس لحاظ سے تاریخ قادیانیت میں اہم مقام رکھتی ہے کہ اس سے مرزا غلام احمد قادیانی اپنی زندگی کے دور ثانی میں داخل ہوئے۔ جہاں انہوں نے یکے بعد دیگرے مجدد، مثیل مسیح، مسیح موعود، نبی اور رسول کا دعویٰ کر کے ملتِ اسلامیہ کو خلفشار، نفاق اور اختلافات کی دلدل میں دھکیل دیا اور اس طرح قیامت تک مسلمانوں کی نگاہوں میں ایک ایسے فرد کی شکل اختیار کر لی جس کے لیے معمولی ایمان کا آدمی بھی اپنے دل میں اچھا خیال نہیں لا سکتا۔

مامور من اﷲ ۱۸۸۰

مرزا قادیانی نے اپنی کتاب براہین احمدیہ کے ساتھ ایک اشتہار میں بتایا کہ وہ خدا کی طرف سے مامور ہوا ہے اور اس کے لیے تمام مذاہب کو مطمئن کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس اشتہار میں صاف صاف کہا گیا کہ ’’یہ عاجز ( مؤلف براہین احمدیہ) حضرت قادر ِ مطلق جل شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی ( مسیح) کے طرز پر کمال مسکینی و فروتنی و غربت و تذلّل و تواضع سے اصلاح خلق کے لیے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بے خبر ہیں صراط مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اس عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں) دکھا دے‘‘ [10]۔

 اس اعلان سے مرزا نے دعویٰ نبوت کی جانب ایک قدم اور آگے بڑھایا اور پہلے مناظر، مصنف اور اب مامور من اﷲ بن بیٹھا۔ اس ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا کا ذہن اس میدان میں خوب کام کر رہا تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ لوگوں کو اپنے ساتھ مانوس کر کے بالآخر انہیں گمراہی کے گڑھے میں دھکیلنا شروع کیا۔ براہین احمدیہ کا مرکزی مفہوم چونکہ یہ تھا کہ الہامات مرزا کو ہوتے رہتے ہیں اورا نہی الہامات کی بنیاد پر انہوں نے مامور من اﷲ ہونے کا دعویٰ کیا۔ مرزا غلام احمد نے کہا کہ ’’براہین کے وقت مؤلف اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ملہم اور مامور تھا‘‘[11]۔

دعویٰ مجددیت ۱۸۸۹ء

۱۸۸۹ء میں جب مرزا قادیانی لدھیانہ گیا تو قیام کے دوران ہی اپنے مجدد ہونے کا اعلان کر دیا اور یہ اعلان بھی انتہائی منظم طور پر کیا۔ بیرونی دنیا سے مختلف غیر مسلم معروف شخصیتوں کے پتے منگوائے، یورپ، امریکہ، افریقہ کے تمام وزراء اور عمال حکومت، دنیا کے مدبروں، مصنفوں، ہندوستان کے سبھی راجے اور نوابوں کے نام اس فہرست میں شامل تھے۔ جنہیں مرزا نے اردو میں شائع شدہ دعوت ناموں کے ذریعے اپنے مجدد ہونے کی اطلاع دے کر انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ بیس ہزار دعوت ناموں کی ترسیل کا اہتمام کیا گیا۔

مرزا غلام احمد کا صاحبزادہ بشیر احمد لکھتا ہے کہ ’’دنیا کا کوئی ایسا مشہور و معروف آدمی نہ تھا جو کسی قسم کی کوئی دینی دنیاوی اہمیت رکھتا ہواور اسے اشتہار نہ بھجوایاگیا ہو‘‘[12]۔ اس کے ساتھ ہی مرزا نے بیعت لینے کا سلسلہ شروع کر دیا اور سادہ لوح انسان مرزا قادیانی سے بیعت ہوئے۔ تاہم علمائے لدھیانہ نے مرزا قادیانی کی شدید مخالفت کا آغاز کر دیا۔

مرزا غلام احمد نے جب بیعت لینی شروع کی تو انگریز حکومت کی اطاعت و فرمانبرداری کو بیعت کی بنیادی شرط قرار دیا۔ میاں محمود احمد قادیانی ( قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ) نے تحریر کیا کہ’’آپ ( یعنی مرزا غلام احمد) نے اپنی تقریباً کل کتب میں اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ وہ جس گورنمنٹ کے ماتحت رہیں اس کی پوری طور پر فرمانبرداری کریں‘‘[13]۔

بیعت کے وقت یہ شرط عائد کرنا کہ حکومت سے وفادار رہنا ہو گا، یہ ظاہر کر رہا تھا کہ مرزا غلام احمد انگریزوں کے مقاصد کی تکمیل میں سرگرم عمل ہے۔ بہر حال مرزا نے مجدد ہونے کا دعویٰ کر کے اپنے سوچے سمجھے منصوبے کی جانب ایک اور قدم آگے بڑھایا تاکہ جلدی جلدی مثیل مسیح اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر سکیں۔

مرزا قادیانی بطور محدث

مرزا قادیانی نے پہلے مامور من اﷲ ہونے کا دعویٰ کیا۔ جب یہ دعویٰ کر لیا تو کچھ مدت گزرنے کے بعد پھر اس نے مجدد و محدث ہونے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ ’’ہمارے سیّدو رسول ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت ﷺ کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس لیے شریعت میں نبی قائم مقام محدث رکھے گئے ہیں‘‘[14]۔

مرزا غلام احمد نے ایک اور جگہ یوں لکھا کہ:

’’یہ عاجز خدا کی طرف سے امن کے لیے محدث ہو کر آیا ہے اور محدث بھی ایک معنی سے نبی ہی ہوتا ہے گو اس کے لیے نبوت تمام نہیں مگر تاہم جزوی طور پر ایک نبی ہی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہونے کا ایک شرف رکھتا ہے اور امورغیبیہ اس سے ظاہر کیے جاتے ہیں‘‘[15]۔

مندرجہ بالا تحریر کو آپ محدث ہونے کے دعویٰ پر منطبق کر لیں یا اسے دعویٰ نبوت سمجھ لیں یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ مرزا نے کمال ہمت سے اس میں اتنی گنجائش چھوڑی ہے کہ یہ تحریر دعویٰ بیک وقت محدث و نبوت کے وعدے کی تجویز ہے۔ مرزا غلام احمد کی تحریروں کی یہ صفت ہے کہ انہیں موقع و محل کے مطابق استعمال میں لا کر سیدھے سادے مسلمانوں کو نہایت کامیابی کے ساتھ گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

مرزا قادیانی بطور مثیل مسیح

نزول مسیح کا عقیدہ ایک اسلامی عقیدہ ہے۔ مسلمان اس عقیدے سے واقف ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ احادیث میں بھی اس کی اطلاع دی گئی ہے۔ دوسری طرف مسلمان جو کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد اپنی سیاسی بالادستی کھو دینے کی وجہ سے سخت مایوسی کا شکار ہو چکے تھے، ان کی منتظر آنکھیں کسی ایسے مرد خدا کی طرف لگی تھیں جو انہیں اس ابتلا سے نجات دلائے۔

 ایک اور اہم بات کہ تیرھویں صدی کے خاتمے پر ظہور مسیح کا چرچا بھی تھا۔ اسی بنا پر ہو سکتا ہے کہ مرزا کا یہ خیال ہو کہ اب تک دینی خدمات سے جو مقام انہوں نے حاصل کر لیا تھا اس کی بنا پر مسلمان ان کے دعویٰ مسیحیت کو تسلیم کر لیں گے۔ اس ضمن میں حکیم نور الدین ( جو کہ مرزا کا دیرینہ دوست تھا اور اکثر مرزا اپنے خانگی و ازدواجی امور تک میں ان سے مشورہ لیتا تھا) کے مشورے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ جب حکیم نور الدین نے مرزا کو مسیح بننے کا مشورہ دیا تو مرزا نے جواباً لکھا’’ درحقیقت اس عاجز کو مثیل مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں۔ یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عاجز اور مطیع بندوں میں داخل کر لیوے۔ لیکن ہم ابتلا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے‘‘[16]۔

 اس خط میں مرزا نے حکیم جی کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کر لی لیکن بعد میں اس تجویز کو قبول بھی کر لیا اور کہا: ’’مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ نہیں اور نہ میں تناسخ کا قائل ہوں بلکہ مجھے تو فقط مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے۔ جس طرح محدثیت نبوت سے مشابہ ہے ایسے ہی میری روحانی حالت مسیح ابن مریم کی روحانی حالت سے مشابہت رکھتی ہے‘‘[17]۔ مرزا نے اپنے آپ کو مثیل مسیح کہہ کر اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ مسیح موعود نہیں۔ اُن کی رائے انہیں کے الفاظ میں ملاحظہ ہو:

 ’’اس عاجز نے جو مثیل موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں یہ کوئی نیا دعویٰ نہیں جو آج ہی میرے منہ سے سنا گیا ہو بلکہ یہ وہی پرانا الہام ہے جو میں نے خدا تعالیٰ سے یاکہ براہین احمد یہ کے کئی مقامات پر بہ تصریح درج کردیا تھا۔ جس کے شائع کرنے پر سات سال سے بھی زیادہ عرصہ گزرگیا ہوگا۔ میں نے دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں۔ جو شخص یہ الزام میرے پہ لگا دے، وہ سراسر مفتری اور کذاب ہے‘‘[18]۔

مرزاغلام احمد کی مندرجہ بالا تحریر کے بعد حیرانی ہے کہ انہوں نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کردیا۔

مرزا غلام احمد کہتے ہیں:

 ’’میرے دعویٰ مسیح موعود کی بنیاد انہی الہامات (براہین احمدیہ) سے پڑی۔ انہیں میں میرا نام خدا تعالیٰ نے عیسیٰ رکھا اور جو آیتیں ’مسیح موعود‘ کے حق میں تھیں وہ میرے حق میں بیان کردیں۔ اگر علماء کو خبر ہوتی کہ ان الہامات سے تو اس شخص کا مسیح ہونا ثابت ہوتا ہے تو وہ کبھی اُن کو قبول نہ کرتے۔ یہ خدائی قدرت ہے کہ انہوں نے قبول کرلیا اور اس پیچ میں پھنس گئے‘‘[19]۔

مندرجہ بالا اقتباس یہ واضح کر رہا ہے کہ مرزا اب اپنے آپ کو مسیح موعود کہہ رہے ہیں۔

مرزا بطور ظلی بروزی نبوت

مرزا نے مامور من اﷲ، دعویٰ مجددئیت و محدث، مثیل مسیح اور پھر مسیح موعود اور آخر کار نبوت کا دعویٰ کردیا۔ یہاں بھی وہ کمال ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے پہلے ظلی و بروزی نبوت کا دعویدار بنا۔ اس سلسلے میں وہ کہتا ہے:

 ’’میں بموجب آیت وآخرین منھم لمایلحقوابھم بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے آنحضرت کا ہی وجود قرار دیا۔ پس اس طرح آنحضرت کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آتا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ہوں پس اس طور پر خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد کی مہر محمدیت ہی میں محدود رہی یعنی بہر حال محمد ہی نبی رہے نہ اور کوئی یعنی جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلمت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا‘‘[20]۔

چنانچہ اس دعویٰ کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کچھ عرصہ تک خود کو ظلی و بروزی ظاہر کرتا رہا۔ مرزا قادیانی نے ۱۹۰۲ء میں ایک رسالہ تحفت الندوہ لکھا جس میں لکھا کہ ’’پس جیسا کہ میں نے بار بار بیان کردیا ہے کہ یہ کلام جو میں سنتا ہوں یہ قطعی اور یقینی طور پر خدا کا کلام ہے جیسا کہ قرآن اور توریت خدا کا کلام ہے۔ ․․․․ ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے اور ہر ایک جس کو میری تبلیغ پہنچ گئی ہے گو وہ مسلمان ہے مگر مجھے اپنا حکم نہیں ٹھہراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتا ہے اور نہ میری وحی خدا کی طرف سے جانتا ہے، وہ آسمان پر قابل مواخذہ ہے[21]۔

محولہ بالا اقتباس اس حقیقت کی غمازی کررہا ہے کہ بالآخر مرزا نے مسلمانوں کو اخروی نجات سے محروم رہنے کا پیغام سنادیا۔ ہاں اگر وہ مرزا کی نبوت کو تسلیم کرلیں تو نجات ممکن ہے۔

مستقل نبوت کا دعویدار

عقیدہ ختم نبوت پر مسلمان دل سے ایمان رکھتے ہیں۔ اس عقیدے پر ایمان نہ رکھنے والا مسلمانوں میں سے نہیں۔ سید ابوالحسن علی ندوی (۱۹۱۴ء۔ ۱۹۹۹ء) نے عقیدہ ختم نبوت کو زندگی اور تمدن پر احسان کا نام دیا۔ اس حوالے سے آپ کا یہ اقتباس آب زر سے لکھنے کے لائق ہے:

’’عقیدہ ختم نبوت درحقیقت نوع انسانی کے لئے ایک شرف امتیاز ہے۔ وہ اس بات کا اعلان ہے کہ نوع انسانی سن بلوغ کو پہنچ گئی ہے اور اس میں یہ لیاقت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ خدا کے آخری پیغام کو قبول کرے۔ اب انسانی معاشرے کو کسی نئے آسمانی پیغام کی ضرورت نہیں۔ اس عقیدے سے انسان کے اندر خود اعتمادی کی روح پیدا ہوتی ہے، اس کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین اپنے نقطہ عروج کو پہنچ چکا ہے‘‘[22]۔

اگر ختم نبوت کا عقیدہ نہ ہو تو انسان ہمیشہ اپنے مستقبل سے غیر مطمئن رہے گا۔ مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد آخر کار مرزا غلام احمد قادیانی نے صاف طور پر اجزائے نبوت کو عقیدے کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے ختم نبوت کے بنیادی عقائد سے بغاوت کی اور اپنے سچے نبی ہونے کا اعلان کردیا کہ

 ’’میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اس نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے جو تین لاکھ کو پہنچتے ہیں‘‘ [23]

ایک اور جگہ مرزا کہتا ہے کہ ’’میرے آنے سے اسلامی عمارت کی تکمیل ہوئی‘‘[24]۔

 پس مرزا قادیانی نے مختلف ادوار میں دعوے کرکے مسلمانوں کے درمیان مستقل طور پر اختلاف کا دروازہ کھول دیا اور آخر میں نبوت کا دعویٰ کرکے ایک الگ ملت کی داغ بیل ڈالی۔ اس میں شک نہیں کہ قادیانی، مسلمانوں میں سے نہیں۔

تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء

۱۹۵۳ء کی تحریک راست اقدام مرزائیت کے خلا ف سب سے بڑی تحریک تھی۔ ۱۹۴۷ء کے بعد یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ پاکستان اسلامی ریاست ہوتے ہوئے غیر اسلامی مذہب کو اس قدراہمیت نہیں دے گا کہ وہ یعنی قادیانی براہ راست اس کے نظم ونسق پر حاوی ہوجائیں۔ مگر بدقسمتی سے کچھ عر صہ بعد ہی پاکستان مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی محلا تی سازشوں کاشکار ہونے لگا۔ خان لیاقت علی خان (م: ۱۹۴۹ء)کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین( ۱۸۴۹ء۔ ۱۹۶۴ء)وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہو ئے اور ملک غلام محمد (۱۸۹۵ء۔ ۱۹۵۶) جووزیر خزانہ تھے، انہیں پاکستان کا پہلا گورنر جنرل بنادیا گیا۔ خواجہ صاحب کے دور میں پنجاب میں قادیانیت اور اسلام کے مابین بڑے بڑے معر کے ہوئے۔

پنجاب میں میاں ممتاز دولتانہ(۱۹۱۶ء۔ ۱۹۹۶ء) اور سرحد میں خان عبدالقیوم خان (۱۹۰۱ء۔ ۱۹۸۱ء) نے سیاسی جوڑتوڑ کے لئے من مانی کاروائیاں شروع کر دیں۔ اس طر ح سندھ میں وزیر اعلیٰ محمد ایوب کھوڑو ( ۱۹۰۰ء۔ ۱۹۸۰ء) نے اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کے لئے کئی سیاسی چالیں چلی ہوئی تھیں جن کے نتیجے میں گورنر شیخ دین محمد (۱۸۸۶ء۔ ۱۹۶۵ء)نے پروڈا کے تحت ایوب کھوڑو کے خلا ف مقدمہ دائر کردیا۔ قیام پاکستان سے ہی مشرقی پاکستان میں اُردو بنگالی زبان کا تنازعہ تھا جو کہ۱۹۵۲ء۔ ۱۹۵۳ء تک عروج پر پہنچ چکا تھا۔ پوراملک ہی انتظامی بدعملی کا شکار تھا۔ چنانچہ ایسے سیاسی حالات میں مرزائیوں نے اپنی مذہبی سرگرمیاں تیز کردیں۔

خواجہ ناظم الدین کا دور اورقادیانیوں کے خلا ف عوامی جدوجہد

خواجہ ناظم الدین کے دور میں قادیانیوں نے کھلے عام اپنے مذہب کی تبلیغ کرنی شروع کی۔ اکثر جلسوں میں سرکاری ملازمین جو قادیانی تھے انہیں مہمان خصوصی بنایا جاتا جس میں وہ سرکاری پروٹوکول سے جاتے اور عام تاثر یہ آتا کہ جیسے حکومت اُن کی سر پرستی کر رہی ہے۔ اس ضمن میں لائل پور (فیصل آباد)میں قادیانیوں نے سیرت کے نام پر بڑاجلسہ کیا جس کی منادی شہر میں کرائی گئی۔ ایسے میں مجلس احرار والے سخت غم وغصہ کے عالم میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ بھی وہیں جلسہ کریں گے۔ احرار والوں نے بھی منادی کرادی۔ منادی کا ہونا تھا کہ سینکڑوں مسلمان جمع ہونا شروع ہوگئے اور بوہڑانوالہ گراونڈ کے کنارے پر ایک پنڈال بنایا گیا۔ اب ادھر قادیانیوں کا جلسہ شروع ہوا۔ قادیانی مقرر نے کوئی بات مسلمانوں کے جذبات کے خلا ف کی کہ مرزاغلام نبی جانباز نے احتجاج کیا۔ جس پر قادیانیوں نے سٹیج کے نیچے دو تین سولاٹھیاں چھپارکھی تھیں وہ نکال لیں اور مسلمانوں پر برسانا شروع کر دیں۔ مسلمانوں نے بھی اپنا بچاؤ کیا اور قادیانیوں کی پٹائی کی۔ اب تقریباً دس ہزار مسلمانوں کا جم غفیر قادیانیوں کی اس اشتعال انگیز ی کے خلاف احتجاج کررہا تھا کہ اس موقع پر پولیس پہنچ گئی جس نے چند افراد مسلمانوں اور قادیانیوں کے گرفتار کرلئے [25]۔

قادیانیوں کا تاریخی جلسہ

کراچی میں قادیانیوں کا تاریخی جلسہ جہانگیر پارک میں منعقد ہوا۔ بڑے پیمانے پر اس کی تیاریاں ہوئیں، جس میں چوہدری ظفر اﷲ(۱۸۹۳ء۔ ۱۹۸۵ء) نے تقریر کر نا تھی۔ حتی کہ اس جلسے کیلئے غیر ملکی سفارت خانوں میں دعوت نامے بھیجے گئے۔ حکومت کی ساری مشینری حرکت میں آگئی۔ پولیس سے رضا کاروں کا کام لیا گیا۔ جلسے میں تقریر کاعنوان تھا’’زندہ اسلام‘‘یعنی مرزائیت زندہ اسلام۔ کراچی کی دیواروں پر جب اس جلسے کے قدآدم پوسٹر چسپاں ہوئے تو کراچی کے اسلامی حلقوں میں ہل چل مچ گئی۔ چوہدری ظفر اﷲ پورے سرکاری اہتمام کے ساتھ جلسہ گاہ آیا۔ پولیس کی بھاری نفری جلسہ گاہ میں موجود تھی لیکن عوام کا رد عمل شدید ترین تھا۔ شاید اگر حکومتی سرپرستی نہ ہوتی تو عوام اتنے شدید ردعمل کامظاہر ہ نہ کرتی لیکن اب تو عوام کو یقین آگیا کہ حکومت ہی اسلام کو ملک سے ختم کرنا چاہتی ہے۔ ہوایوں کہ مسلمانوں نے خواجہ ناظم الدین کو پچاسیوں تاریں بھیجیں کہ مرزائیت کے جلسے کی بدعت ہمارے شہر میں نہ پھیلائی جائے۔ بالآخر خواجہ صاحب نے ظفر اﷲ خان کو بلایا اورسردار عبدالرب نشتر(۱۸۹۹ء۔ ۱۹۵۸ء) کی موجودگی میں ان سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ عوام کے اشتعال اور ناراضگی کے پیش نظر آپ جلسہ میں شرکت نہ کریں تاکہ حکومت کی پوزیشن خراب نہ ہو۔ لیکن چوہدری نے خواجہ صاحب کو جواب دیاکہ میں وزارت سے استعفٰی دے سکتا ہوں لیکن جماعت کے جلسہ میں جانا منسوخ نہیں کرسکتا [26]۔

خواجہ صاحب اپنی شرافت کی وجہ سے خاموش ہوگئے۔ اگر اسی دن ہی ظفر اﷲ خان سے استعفی طلب کرلیاجاتا تو قادیانیت کازوراسی روزہی ٹوٹ جاتا لیکن ایسانہ ہوا اور جلسہ میں چوہدری ظفر اﷲ نے بھر پور شرکت کی۔

مرزا محمود کا اعلان

دوسری طر ف۱۵جنوری ۱۹۵۲ء کو مرزا محمود نے اعلان کیا کہ درج ذیل علما ء سے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔

۱۔ عطا ء اﷲ شاہ بخاری۲۔ عبد الحامد بدایونی

۳۔ ملا مفتی محمد شفیع ۴۔ ملا مودودی[27]۔

ان علما ء کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے مرزائیت کا عمیق مطالعہ کیا اور ردقادیانیت سے متعلق مشترک عمل کرنے کیلئے ہم آواز ہوگئے۔

جلسہ میں عوامی ردعمل اور اس کے بعد نتائج

چوہدری ظفر اﷲ نے جلسہ میں کہا:

 ’’احمد یت ایک ایسا پودا ہے جو اﷲ تعالیٰ نے خود لگایا ہے۔ اب وہ جڑپکڑگیا ہے۔ اگریہ پودا اکھاڑ دیا گیا تو اسلام ایک زندہ مذہب کی حیثیت سے باقی نہ رہے گا۔ بلکہ ایک سوکھے ہوئے درخت کی مانند ہوجائے گا اور دوسرے مذہب پر اپنی برتری کا ثبوت مہیا نہ کرسکے گا‘‘ [28]دوسری طرف فضا ختم نبوت زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ ادھر پولیس حکم کی منتظر تھی، لاٹھی چلی، پکڑدھکڑ ہوئی اور جلسہ ناکام ہوگیا۔ دوسرے دن صبح کو جلسے کی روئیداد ملک بھر میں پھیل گئی۔ جب یہ خبر لاہور پہنچی تو سخت ہلچل مچی۔ مجلس احرار نے جلسہ عام کا اعلان کیا اور احرار کی جانب سے بیرون دہلی دروازہ میں عظیم الشان جلسہ ہوا۔ اس جلسے میں ؎ احتجا ج کیا گیا: یا تو ظفر اﷲ خان سے وزارت خارجہ کا قلمدان چھین لیجئے اور یا اسے منع کردیا جائے کہ وہ زندہ اسلام اور مردہ اسلام کا وعظ کہنا چھوڑدے۔ [29]

ملک بھر میں جلسے جلوس منعقد ہوئے۔ ایساہی ایک جلوس ملتان میں بھی ہوا۔

ملتان جلوس پر فائرنگ

انہیں دنوں ملتان شہر کے تھانہ (کپ)کے سب انسپکٹر غلام مصطفی نے (جو کہ مرزائی تھا)جولائی ۱۹۵۲ء کو عوام کے ایک جلسے پر لاٹھی چارج کیا۔ عوام نے تھانہ کے سامنے جمع ہو کر اس کے خلاف احتجاج کیا تو اس مجمع پر بلا وار ننگ گولی چلا دی گئی۔ دس منٹ تک سترراونڈچلائے گئے جس کے نتیجے میں چھ مسلمان شہید ہوگئے اور زخمیوں کی تعدادکہیں زیادہ تھی۔ اس خونی واردات کے خلاف سارے پاکستان میں یوم احتجاج منا یا گیا[30]۔

ملتان کے چھ مسلمانوں کی شہادت نے ایک کہرام مچادیا۔ مسلمانوں نے پولیس فائر نگ پر شہر میں مکمل ہڑتال کر کے غم وغصے کا اظہار کیا۔

۲جون ۱۹۵۲ء کراچی کنونشن (مجلس مشاورت)

مولانا لال حسین اختر نے کراچی میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کی ایک میٹنگ بلائی جن کے سامنے صورتحال رکھی گئی اور ۳جون ۱۹۵۲ء کو ایک مجلس مشاورت طلب کی گئی۔

اس کانفر نس کے دعوت نامے پر مولانا احتشام الحق تھانوی (دیوبند)(۱۹۱۵ء۔ ۱۹۸۰ء)، مولانا عبد الحامد بدایونی (بریلوی)(۱۸۸۹ء۔ ۱۹۷۰ء)، مولانا مفتی جعفر حسین (شیعہ)، مولانا محمد یوسف (اہل حدیث)اور مولانا لا ل حسین اختر نے دستخط کئے۔ اس کانفر نس میں پہلی مرتبہ مندرجہ ذیل تین مطالبات بھی متعین کئے گئے:

۱۔ قادیانی ایک غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جائیں۔

۲۔ چوہدری ظفر اﷲ خان کو وزارت خارجہ کے عہدہ سے الگ کر دیاجائے۔

۳۔ تمام کلیدی اسامیوں سے قادیانی افسروں کو علیحدہ کردیا جا ئے [31]۔

آل مسلم پارٹیز کنونشن

مجلس مشاورت ہی کے اجلاس میں آل مسلم پارٹیز کنونشن بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں ایک بورڈ مقرر کیا گیا۔ اس بورڈ کا اجلاس۱۳جولائی ۱۹۵۲ء کو ہو ا جس میں مندرجہ ذیل جماعتوں کو دعوت نامے جاری کئے گئے۔

۱۔ جمعیت العلمائے پاکستان ۲۔ جمعیت العلمائے اسلام

۳۔ جماعت اسلامی ۴۔ تنظیم اہلسنت والجماعت

 ۵۔ جمعیت اہلسنت ۶۔ جمعیت اہلحدیث

۷۔ موتمر اہل حدیث پنجاب۸۔ ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پنجاب

۹۔ مجلس تحفظ ختم نبوت۱۰۔ مجلس احرار اسلام

۱۱۔ جمعیۃ العربیہ ۱۲۔ جمعیۃ الفلاح ) [32]

مجلس عمل کا قیام

۱۳جولائی ۱۹۵۲ء کو برکت علی ہال لاہور میں آل مسلم پارٹیز کا ایک اور اجلاس ہوا جس کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات منظورنہ کئے تو وہ راست اقدام کریں گے۔ دوسری طرف کراچی میں ۱۳جولائی کو ہی اس امر کا فیصلہ ہوا کہ مسئلہ قادیانیت پر آخری غور وخوض کرنے کے لئے ۱۶، ۱۷، ۱۸جنوری ۱۹۵۳ء کوکراچی میں تمام مکاتب فکر کا کنونشن منعقد کیاجائے۔ اس ابتدائی اجتماع میں شرکت کیلئے مولانا ابولحسنات قادری(۱۸۹۶ء۔ ۱۹۶۱ء)، شیخ حسام الدین، ماسٹر تا ج الدین انصاری، مولانا مرتضی میکش لاہور سے کراچی گئے اور کنونشن کی تیاریوں کیلئے خدمات پیش کیں[33]۔

یہ کوئی معمولی اقدامات نہ تھے بلکہ مرزائیت کے شدید احتساب کی طرف فیصلہ کن اقدامات تھے۔ چونکہ یہ سب کچھ احرار رہنماؤں کی مساعی سے ہورہا تھا اس لئے شیخ حسام الدین، ماسٹر تاج الدین انصاری اور سید عنایت شاہ بخاری وغیرہ گرفتار کیے گئے۔ اس کے بعد پنجاب کے مشہور شہروں جن میں سیالکوٹ، گوجرانوالہ، راولپنڈی، شیخوپورہ، میں مجلس عمل کے زیر اہتمام عظیم الشان کانفرنسیں منعقد ہوئیں جن میں تاریخی اجتماعات ہوئے، مطالبا ت کو دہرایا گیا۔ عوام کو پرامن جدوجہد کی تلقین کی گئی اور حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے متفقہ مطالبا ت منظور کرے۔

مجلس عمل کے وفد کی ۱۳اگست۱۹۵۲ء کو وزیر اعظم سے ملا قا ت:

عوام کے اضطراب کو محسوس کر تے ہوئے مجلس عمل نے فیصلہ کیا کہ اُن کا ایک وفد وزیراعظم سے ملے۔ چنانچہ ۱۳اگست ۱۹۵۲ء کو یہ وفد وزیر اعظم سے کراچی میں ملا لیکن انہوں نے وفد کو ٹرخا دیا اورکہا کہ ’’کل ۱۴اگست یوم پاکستان ہے۔ بعض مصروفیتوں میں الجھا ہوا ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ یوم پاکستان کے گزر جانے کے بعد آپ تشر یف لائیں‘‘[34]۔

۱۴اگست ۱۹۵۲ء

جب ۱۴اگست کا دن آیا تو جہانگیر پارک کراچی میں ایک عظیم الشان اجتماع سے خواجہ صاحب نے خطاب کیا۔ مسلمانان کراچی بے پناہ جوش عقید ت اور جذبہ اسلامی کے تحت جہانگیر پارک میں جمع ہوئے کہ آج وزیر اعظم مسلمانوں کے مطالبات کے متعلق اپنی پالیسی واضح کریں گے۔ لیکن وزیر اعظم کے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ ’’جلسے اور مظاہرے اس بات کو ظاہر نہیں کرتے ہیں کہ ان مطالبا ت کے سا تھ عوام کی اکثر یت بھی شامل ہے‘‘[35]۔

وزیر اعظم کے رویہ پر عوامی رد عمل

مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ چنانچہ کراچی کے مسلمانوں نے اسی شب آرام باغ کراچی میں ایک عظیم الشان اجتماعی جلسہ منعقد کیا جس کی صدارت احتشام الحق تھانوی نے سرا نجام دی۔ یہ اجتماع اپنی نوعیت کا ایک تاریخی جلسہ تھا۔ اس جلسے میں خواجہ صاحب کے رویے کی پرزور مذمت کی گئی اور زبردست احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے اور سر ظفر اﷲ خاں کو وزارت خارجہ سے جلد ازجلد الگ کر دے اور یہ کہ جب تک مسلمانوں کے خالص دینی مطالبا ت منظور نہیں کئے جا تے اس وقت تک وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے [36]۔

وفد کی  آخری ملا قا ت اور الٹی میٹم

۲۲جنوری ۱۹۵۳ء کو پیر صاحب سر سینہ شریف کی زیر قیادت خواجہ صاحب سے وفد نے ملاقا ت کی۔ وفد نے خواجہ صاحب کو اپنی پچھلی ملاقاتوں کے بارے میں بھی بتا یا اور کہا کہ اگر آپ کچھ نہیں کرسکتے تھے اور بے بس تھے تو ہمیں پہلی بار ہی کہہ دیتے ہم آپ کو باربار زحمت نہ دیتے۔ اس کے بعد اپنے مطالبات دہرائے اور قادیانیت پر بحث بھی کی اور آخر میں پیر صاحب سر سینہ شریف نے خواجہ صاحب کو تیس دن کا الٹی میٹم دیا۔ وہ فرمانے لگے الٹی میٹم کیسا؟تو پیر صاحب نے فرمایا کہ یہ فیصلہ تو آل مسلم کنونشن کا فیصلہ ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے آپ کو یہ مطالبات مان لینا چاہئیں[37]۔

خواجہ صاحب نے کہاکہ ’’میں اگر قادیانیوں کے خلاف آپ کا مطالبہ مان لوں تو امریکہ ہمیں ایک دانہ گند م کا نہیں دے گا۔ دوسرایہ کہ وہ کشمیر کے مسئلے میں ہماری کوئی مد دنہیں کرے گا‘‘[38]۔

خواجہ ناظم الدین کے الفاظ یہ ظاہر کررہے ہیں کہ امریکہ قادیانیت کی مکمل حمایت کر رہا تھا کیونکہ مرزاغلام احمد مسلمانوں کی کمر میں چھرا گھونپ رہا تھا او رجہاد کے خلا ف فتویٰ بھی مرزا غلام احمد ہی نے دیا تھا۔ غیر مسلم طاقتیں ہمیشہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے خائف رہی ہیں۔ دوسری چیز مسلمانوں کی حضور اکر م صلی اﷲ علیہ وسلم سے والہانہ محبت ہے جس سے یہود و ہنود خائف ہیں۔ مرزا غلام احمد نے اس محبت پر بھی وار کیا اور اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا جس سے وہ امریکہ کا چہیتا بن گیا۔

عوام میں شدید غم وغصہ

اب عوام کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ایک ماہ کا عرصہ گزر جائے گا لیکن خواجہ صاحب یہ مطالبات تسلیم نہیں کریں گے۔ اس لئے عوام مرنے مارنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ’’زمیندار‘‘اخبار اس زمانے میں مغربی پاکستان کا عظیم اخبار تھا۔ اس اخبار میں روزانہ ایک چوکھٹا شائع ہوتا تھا جس کی عبارت ہوتی ’’مجلس عمل کے نوٹس کی میعاد میں صرف․․․․․ دن باقی، حکومت اور وزراء کے جذبہ ایمان کا امتحان ‘‘[39]۔

لاہور میں جلسہ عام

۵فروری ۱۹۵۳ء کو بیرون باغ موچی دروازہ لاہور میں مولانا ابوالحسنات کے زیر صدارت عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں بے پناہ لوگ تھے۔ تاحد نظر عوام کا ٹھا ٹھیں مارتا ہوا سمندر موجود تھا۔ عوام کے جذبات کا یہ عالم تھا کہ وہ مقرر کی زبا ن سے نر م با ت سن کر ناک بھوئیں چڑھاتے تھے۔ مولانا عبد الغفور ہزاروی (۱۹۱۰ء۔ ۱۹۷۰ء) نے قوم سے پر جوش خطاب کیا۔ آپ نے دوران تقریر کہا:

’’خواجہ صاحب یاممتاز دولتانہ کا نام طاقت نہیں۔ طاقت عوام کا نام ہے اور عوام کی طاقت کے سامنے حکومت کو جھکنا ہی پڑے گا۔ اگر تحفظ ختم بنوت کے لئے عامۃ المسلمین نے اپنی اس جمہوری طاقت کا مظاہر ہ نہ کیا تو وہ قیامت کے روز محمد عربی ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے‘‘[40]۔

اس جلسے کے بعد رضا کارانِ ختم نبوت کی بھرتی کا کام شروع ہوا، ہر ضلع میں رضا کاروں کی بھرتی کا کام شروع ہوا۔ رضا کار اپنے بھرتی کے مراکزپر آتے جسم پر بڑی دلیری سے زخم لگاتے اور خون سے حلف نامے پر دستخط ثبت کردیتے۔ بس ایسے معلوم ہوتا جیسے ان نوجوانوں کے سینوں میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے دل دھڑکنے لگے ہیں اور یہ دنیا وما فیھا سے منہ موڑکر آپ ﷺ کی حرمت پر قربان ہو جانا چاہتے ہیں۔

الٹی میٹم کی مدت کا خاتمہ

 ۲۱فروری ۱۹۵۳ئء کو علمائے کرام کا ایک وفد جومولانا سید سلیمان ندوی (۱۸۸۴ء۔ ۱۹۵۳ء)، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا مفتی محمد شفیع (۱۸۹۶ء۔ ۱۹۷۶ء)، مولانا عبد الحامد بدایونی اور پنجاب مجلس عمل کے رکن مولانا اختر علی خان پر مشتمل تھا، خواجہ ناظم الدین سے ملا اور اُ ن کو یا د دلایا گیا کہ ایک ماہ ختم ہو گیا ہے، آپ مطالبات کے لئے دوٹوک فیصلہ کریں لیکن خواجہ صاحب نے وہی پرانی باتیں دہرائیں اور معذرت کر لی۔ اسی وقت مجلس عمل نے ۲۴، ۲۵ اور۲۶فروری کو عظیم الشان جلسے منعقد کر نے کے فیصلے کئے۔ ان جلسوں میں امیر شریعت عطاء اﷲ شاہ بخاری(۱۸۹۲ء۔ ۱۹۶۱ء)مولانا ابوالحسنات، مولانا احتشام الحق، صاحبزادہ سید فیض الحسن(۱۹۱۱ء۔ ۱۹۸۴ء)، سید مظفر علی شمسی، مولانا لا ل حسین اختر، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا بدایونی اور ماسٹر تاج الدین انصاری نے کراچی کے مسلمانو ں کو خطاب کیا۔ آخری جلسہ نہایت ہی شاندار تھا۔

تحریک راست اقدام

خواجہ صاحب سے مایوس ہونے کے بعد مجلس عمل نے تحریک راست اقدام کا فیصلہ کیا اور یہ طے کیا کہ پانچ رضاکار ایسے جھنڈے اُٹھائے ہوئے ہوں گے جن پرمطالبا ت ثبت ہوں گے۔ شاہراہ عام سے نہیں بلکہ چھوٹی سڑکوں پر سے ہوتے ہوئے وزیر اعظیم کی کوٹھی پر جائیں گے۔ اگر وہاں اِن رضا کاروں کو کوئی رو کے گا تو وہ اس سے کہیں گے کہ وہ وزیر اعظم کی خدمت میں مطالبا ت پیش کرنے آئے ہیں اوروہ اسی صورت میں واپس جائیں گے کہ وزیر اعظم ان مطالبا ت کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیں۔

اگریہ رضاکارگرفتار کرلئے جائیں گے تو مجلس عمل پانچ رضاکاروں کا ایک اوردستہ بھیج دے گی اور یہ سلسلہ پر امن طریقے پر اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مطالبا ت تسلیم نہ کئے جائیں۔[41]۲۷فروری ۱۹۵۳ء کی صبح مجلس عمل کے راہنماؤں کی گرفتاریاں ہوئیں۔ یہ واقعہ صبح تقریباً چاربجے کاہے۔ جن افراد کی گرفتار یاں ہوئیں ان میں امیر شریعت عطا ء اﷲ شاہ، مولانا ابوالحسنا ت، ماسٹر تاج الدین انصاری، صاحبزادہ فیض الحسن، مولانا لا ل حسین اختر، سید مظفر علی شمسی اور مولانا عبد الرحیم جو ہر قابل ذکر ہیں ۔[42]لیکن اخبارات وغیرہ میں یہ خبر نہ آسکی۔ اگلے دن ۲۸فروری کو جب پنجاب کے مختلف شہروں میں گرفتاریاں ہوئیں تو لوگوں کو پتہ چلا کہ اب تحریک شروع ہو گئی ہے۔

عوام کا ردّ عمل

عوام نے تقریباً تمام شہروں میں ہڑتالیں کردیں۔ تحریک ختم نبوت اور مرزائیت کا مسئلہ ہر شخص کا موضوع سخن بن گیا۔ لوگوں کو انتہائی صدمہ ہو اکہ حکومت نے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بغیر کسی اعلان کے باغ بیرون دہلی دروازہ لاہور میں لو گوں کابے پناہ ہجوم جمع ہو جا تا۔ ایسے ہی ایک جلسہ میں مولانا احمدعلی لاہور ی (۱۸۸۷ء۔ ۱۹۶۲ء)پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود شرکت کے لئے آئے۔ لیکن پولیس نے مولانا احمد علی کو گرفتار کرلیا۔ لاہور کے عوام تحریک ختم نبوت کے رضاکاروں پر ہونے والے مظالم کو دیکھ کر ضبط اور صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور سول نافرمانی کی تحریک بغاوت میں تبدیل ہوتی ہوئی دکھائی دینے لگی۔ تین دن تک پولیس نے بے پناہ مظالم ڈھائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ ملک فیروزخان نون (۱۸۹۳ء۔ ۱۹۷۰ء) نے پبلک طور پر بیان دے کر اسی بات کی تصدیق اور تائید کی[43]۔

مارشل لاء ۱۹۵۳ء

جب پنجاب پولیس اپنے شدید ظلم وستم کے باوجود تحریک پر کنٹرول نہ کر سکی بلکہ تحریک میں بغاوت ہونی شروع ہوئی تو ایسے میں صوبائی حکومت نے لاہور کو فوج کے حوالے کر دیا لیکن غیور مسلمان سوائے رب کے کسی سے ڈرنے والے نہیں تھے۔ چنانچہ مولانا بہاؤالحق قاسمی، مولانا خلیل احمد قادری اور مولانا عبد الستار نیازی (۱۹۱۵ء۔ ۲۰۰۱ء) مارشل لاء کے دوران بھی مسجد وزیر خان میں جرأت اور حوصلہ مندی سے صبح وشام تقریریں کرتے، ہزارہا مسلمان ہر وقت مسجد میں مو جو دہوتے ) [44] ۔

۲۳مارچ ۱۹۵۳ء کو مولانا عبد الستار نیازی اور مولانا مودودی (۱۹۰۳ء۔ ۱۹۷۹ء) کوگرفتار کرلیا گیا اور دونوں کو مسلمانوں میں جذبات شہادت پیدا کرنے کے جر م میں سزائے موت سنائی گئی۔ گرفتار شدگان کی سماعت کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ ایک قومی فوج نے اپنی ہی قوم سے اس طرز کا سلوک کیا جو فاتح اقوام مفتوح اقوام سے جنگ کے بعد کرتی ہیں۔

مارشل لاء انتظامیہ کو چیف آف جنرل سٹاف جنرل احیا ء الدین جو ایک پکا قادیانی تھا کی ذات سے بڑی حوصلہ افزائی ملی۔ وہ اس تحریک کو کچلنے کے لئے سخت تشدد کا استعمال کرنے کے حق میں تھا[45]۔

آخر جب حالات قابو میں آگئے تو مارشل لاء ختم کر دیا گیا۔ لیکن عوام کے دلوں میں اپنی ہی فوج کے خلا ف ایک قلق پیدا ہوگیا۔ اس طرح تحریک تووقتی طور پردب گئی لیکن دوررس اثرات مرتب کر گئی۔

۱۹۵۳ء کی ناکامی کے اسباب واثرات

تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء ایک واقعہ تھا جس کو منیر انکوائر ی رپورٹ میں ’’احمدی اور احراری‘‘نزاع قرار دیا گیا اور جس کو حکومت نے جزوی مارشل لا ء لگا کر وقتی طور پر دبالیا لیکن اس تحریک نے بہت گہرے اثرات چھوڑے۔ ذیل میں ہم ان اثرات کا جا ئز ہ لیتے ہیں۔

۱۔ تحریک ختم نبو ت ۱۹۵۳ء کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ قادیانی مسلے کا عوام میں شعور پیدا ہوا۔ مسلمانوں کے تمام فرقے ایک مسئلے پر جمع ہوئے۔ اس وقت جتنی بھی مذہبی جماعتیں تھیں سب نے بھر پور حصہ لیا۔ شیعہ اور سنی فرقوں نے بیک آواز ہوکر حکومت سے مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیا جائے۔

۲۔ پاکستان کی سیا سی مرکز یت اس سانحہ کے بعد کمزور ہونے لگی۔ اسی زمانے میں پاکستان کی سیاسی ابتری شروع ہوئی اور حالا ت بگڑتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ عالمی طاقتوں نے پاکستان کو اپنی شطرنج کا مہرہ بنالیا۔ جمہوریت کمزور ہوگئی۔ ملک غلام محمد نے میاں ممتاز دولتانہ کو خواجہ ناظم الدین سے برخاست کروایا اور پھرایک ماہ بعد خواجہ صاحب کو بھی بر خاست کر دیا اور قومی اسمبلی توڑدی۔

۳۔ تحریک کی پسپائی کے بعد مرزائیوں نے مختلف محکموں میں حصول اقتدار کا منصوبہ تیار کیا۔ قادیانی امت نے ملک غلام محمد کے زمانہ ہی سے فوج میں اپنی طاقت پیدا کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اسکندر مرزاکے عہد میں اس ارادے میں مضبوطی آئی۔ چوہدری ظفر اﷲ کا پاکستان کی وزارت خارجہ سے سبکدوش ہو کر نیشنل کورٹ کا جج ہونا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔

۴۔ تحریک کا سب سے نمایا ں پہلو یہ ہے کہ تحریک وقتی طور پر دب گئی لیکن لوگوں کے دلوں میں مرزائیوں کے خلاف نفرت موجود رہی۔ وہ موقع کی تلا ش میں رہے اور ۱۹۷۴ء میں اُن کو جوں ہی موقع ملا انہوں نے دل کھول کر قادیانیوں کے خلاف تحریک میں حصہ لیا اور آخر پاکستان کی پارلیمنٹ نے ان کو ۷ستمبر ۱۹۷۴ء کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ اس طرح ۱۹۵۳ ء میں جو تحریک شروع ہوئی تھی ۱۹۷۴ء میں جا کر کامیاب ہوئی۔

۵۔ تحریک کی ناکامی کا اہم سبب حکومتی مظالم بھی تھے۔ پولیس نے ظلم وتشدد کی انتہا کر دی۔ سرعام جلسوں پر گولیاں چلائی جاتیں۔ ہزاروں لوگ گولیوں کا نشانہ بنے اور ظلم وستم سے اس تحریک کو دبا دیا۔

۶۔ یہ تحریک گوکہ پورے ملک میں چلی تھی لیکن سوائے پنجاب اور سند ھ کے دوسرے صوبوں میں زیادہ منظم نہیں تھی اور جب راست اقدام کے پہلے دن ہی مجلس عمل کے رہنما ؤں کو گرفتار کر لیا گیا تو پھر پیچھے کوئی اتنے بڑے لیڈر نہ تھے جو تحریک کومنظم رکھ سکتے۔ الغر ض ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ۱۹۵۳ء کی تحریک ناکام ہوئی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ۱۹۷۴ء کی تحریک کی کامیابی میں اس تحریک کا اہم کردار ہے۔

تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء

ختم نبوت کے سلسلے میں ۱۹۵۳ء کی تحریک راست اقدام حکومت کے وحشیانہ تشدد کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔ جس نے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگر حالات مستقلاً یونہی رہے تو نتیجے کے طور پر ملت اسلامیہ کا وجود بھی خطرے میں پڑسکتا ہے۔ مسلمانوں میں قادیانیت کے خلاف شعور بیدار کرنے کے لئے علماء کرام نے اہم کردار ادا کیا۔ سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری نے ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کی شکل میں فتنے کی تردید کے لئے بے انتہا کوششیں کیں۔

تحریک راست اقدام ۱۹۵۳ء سے لے کر مارشل لا ء۱۹۵۸ء کے آغاز تک مرزائی اپنے سیاسی خاکوں میں رنگ بھرتے رہے۔

قادیانیوں کو فوجی آمریت ایک نعمت غیر مترقبہ کے طورپر ملی۔ اس سے انہیں اپنے قدم جمانے کا موقع ملا اور اانہوں نے بیرون ممالک اپنے تبلیغی مراکز قائم کئے۔ ایوبی دور حکومت میں قادیانی اپنے آپ کو محفوظ خیال کرتے تھے۔ اس دور میں پاکستان اور بیرون ممالک انہوں نے بڑی تیزی سے ترقی کی[46]۔

۱۹۶۵ء میں محمدایوب خاں(۱۹۰۷ء۔ ۱۹۷۴ء) نے انتخابات کروانے کا اعلان کیا، مارشل لاء ختم ہوا اورحزب اختلاف کی جماعتوں نے متحدہ حزب اختلاف کے نام سے ایک اتحاد محترمہ فاطمہ جناح (۱۸۹۳ء۔ ۱۹۶۷ء) کی قیادت میں بنایا مگر قادیانیوں نے کھلے عام ایوب خان کا ساتھ دیا۔ نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کونسل کی شہرت کو داغدار کرنے کے لئے ان کے قائدین کی کردار کشی کی گئی۔ اور قادیانیوں کی پشت پناہی سے فرضی تنظیموں نے سینکڑوں اشتہارات، رسالے، جرائد اور کتابچے شائع کروا کر تقسیم کیے۔ پس قادیانیوں نے ایوب خان کی انتخابی مہم میں ساتھ دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ۱۹۶۵ء میں پاکستان، ہندوستان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں عوام کی توجہ ہندوستان کی طرف ہو گئی لیکن جب جنگ ختم ہوئی تو عوام کے جذبات پھر بھڑک اُٹھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر قادیانی ہی تعینات تھے جن کا حکومت میں اثر ورسوخ بڑھتا ہی جارہاتھا۔ چنانچہ اسی کے خلاف عوام نے آواز اُٹھانی شروع کردی لیکن قادیانی اس قدر اثر ورسوخ حاصل کرچکے تھے کہ انہوں نے عوامی ردعمل کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ بہت سے علما کو گرفتار کر لیا گیا۔ مذہبی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں مثلاً مجلس احرار، جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی نے قادیانی سازشوں کو افشاء کرنے اور اس سامراجی سیاسی آلہ کار تنظیم کی درست انداز سے گت بنانے کے لئے بے انتہا خدمات سر انجام دیں۔

۲۱اپریل ۱۹۶۸ء کو ہفت روزہ چٹان کے پریس کو ضبط کر لیا گیا۔ یہ سب کچھ اس وقت تین اشخاص یعنی گورنر مغربی پاکستان جنرل موسیٰ خان، وزیر اطلاعات احمد سعید کرمانی اور ایوب خان کے سب سے زیادہ چہیتے الطاف گوہر کے عیارانہ اشتراک کی وجہ سے ہوا۔ انہوں نے پاکستان میں احمد یہ مخالف عناصر کو دبانے کے لئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ [47]۔ لیکن ان پابندیوں اور سختیوں کے باوجودختم نبوت کے محافظ ان دھمکیوں سے مرعوب نہ ہونے۔ جمعیت علمائے اسلام کی لاہور میں کانفرنس کے دوران شورش کاشمیری نے ایک شاندار تقریر کی جس میں آپ نے چونکا دینے والے انکشافات کیے کہ

۱۔ ایوب خان اور اُس کے مشیر نوکر شاہی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ظالم آمرانہ حکومت نے عوام کو سیاسی و معاشی طور پر کچل کر رکھ دیا ہے۔

۲۔ قادیانیوں نے پاکستان میں بڑے اہم اور حساس عہدوں تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ پروفیسر عبدالسلام پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کا چیرمین (اور صدر کامشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی) ہے۔ ایم ایم احمد منصوبہ بندی کمیشن کا ڈپٹی چیرمین ایم اختر پی آئی اے کا چیف ہے[48]۔

اس تقریر کے بعد شورش کو ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ شورش کی گرفتاری نے عوام میں ایک ہیجان برپا کردیا۔ مشرقی و مغربی پاکستان میں عوام نے شورش کی رہائی کے لئے ایک بڑی تحریک چلائی۔ لہذا امن وامان کی صورتحال سے مجبور ہوکر حکومت نے۲۵دسمبر ۱۹۶۸ء کو شورش کو رہا کردیا۔ حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ آرمی چیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان(۱۹۱۷ء۔ ۱۹۸۰ء) نے ایوب خان کو مجبور کیا کہ وہ ۲۵مارچ ۱۹۶۹ء کو اقتدار اس کے حوالے کردے۔ آخر ایوب خان کو اس کے سوا کوئی حل نظر نہ آیا اور اقتدار کی کرسی پر جنرل یحییٰ خاں جلوہ افروز ہوا۔

یحییٰ خان کے دور حکومت میں بھی قادیانی برسراقتدار رہے۔ ایم ایم احمد (ڈپٹی چیرمین منصوبہ بندی) صدر یحییٰ کا مشیر برائے اقتصادیات مقرر ہوا جو یحییٰ خان کے اندرونی کابینہ کے اہم رکن کے طور پر بھی کام کرتا رہا۔ اس ضمن میں کراچی کے جنگ اخبار نے لکھا کہ ’’بنگال سٹوڈنٹس لیگ کے صدر المجاہدی نے منصوبہ بندی کمیشن ڈپٹی چیرمین شپ سے ایم ایم احمد کی فوری برطرفی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے واضح کیاکہ ایم ایم احمد نے ہمیشہ مشرقی پاکستان کو نظر انداز کیا ہے اور اپنی اقتصادی حکمت عملی سے مشرقی و مغربی اقتصادی عدم مساوات پیدا کی[49]۔

یحییٰ کے مارشل لاء کے بعد پاکستانی معاملات میں امریکی مداخلت خوفناک حد تک بڑھ گئی۔ اس میں بڑا ہاتھ ظفر اﷲ قادیانی کا تھا جس نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ امریکہ اور صدر یحییٰ کے اہل کاروں کے درمیان رابطے کا کام جاری رکھا[50]۔ عوام کے پر زور مطالبے پر یحییٰ خان نے انتخابات کا اعلان کر دیا۔

چنانچہ پاکستان میں آئندہ ہونے والے انتخابات کے بارے میں پروگرام ترتیب دینے کے لئے لندن میں قادیانی اکابر سی آئی اے کے آلہ کار اور صیہونی تنظیموں کے ارکان کا ایک خفیہ اجلاس منعقد ہوا جس میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ احمد یہ جماعت کے ذریعے پاکستان میں سرگرم عمل اپنے آلہ کاروں کو سامراجی اور صیہونی تنظیمیں مالی اور اخلاقی امداد مہیا کریں گی[51]۔

انتخابات کے بعد بھٹو، مجیب تعلقات اچھے نہ تھے کہ مفاہمت کی راہ نکل سکتی۔ الغرض اندرونی و بیرونی ملکی حالات اتنے خراب ہوگئے کہ اس صورتحال میں ہندوستان نے بگڑتے ہوئے حالات سے فائدہ اُٹھایا، نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں نکلا اور ۲۰دسمبر ۱۹۷۱ء کو بھٹو نے بطور صدر پاکستان اقتدار سنبھالا۔ بھٹو حکومت کے ابتدائی دو سالوں میں قادیانیوں نے بھرپور تعاون کیا۔ الفضل ربوہ نے کئی اداریے لکھے جن میں لوگوں کو نصیحت کی گئی کہ وہ احتجاجی سیاست ترک کردیں۔ امن و امان قائم کرنے میں حکومت کا ساتھ دیں اور عوامی حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں[52]۔

اپریل ۱۹۷۳ء میں قادیانیوں اور حکومت کے تعلقات میں اس وقت سردمہری آئی جب حکومت کا تختہ الٹنے کے منصوبے کے الزام میں تین قادیانی فوجی افسران (میجر فاروق آدم خاں، سکواڈرن لیڈر محمد غوث اور میجر سعید اختر ملک)کوگرفتار کرلیا گیا[53]۔

دوماہ بعد حکومت نے ایک اور سازش کی اطلاع دی جس میں پاک فضائی افواج کے چودہ افسران ملوث تھے۔ ان افسران کے خلاف بڈبیر، اٹک میں دوجولائی ۱۹۷۳ء کو مقدمہ شروع کیا گیا۔ ایک ملزم گروپ کیپٹن عبدالستار نے یہ انکشاف کیا کہ احمدی بھٹو حکومت کو ختم کر نے کی سازشیں کررہے ہیں۔ اس میں ائیر مارشل ظفر چوہدری اورایئر وائس مارشل سعد اﷲ خان، کورلیفٹیننٹ جنرل اے حمید خان اور ائیر کموڈوررائے ڈبلیو مفتی ملوث تھے[54]۔

چنانچہ ان تمام عزائم کے افشاء ہونے سے بھٹوپر سے احمدیت کا نقاب ہٹ گیا اور یہیں سے چپقلش کاآغاز ہوا۔ اسی دوران اپریل۱۹۷۳ء میں بھٹو نے یہ راز افشاء کیا کہ اسرائیل نے پاکستان توڑنے میں اہم کردار اداکیا ہے[55]۔

اسی دوران شورش کا شمیر ی نے بھٹو کو کھلا خط لکھا جس میں قادیانی اسرائیلی اتحا د کو اجاگر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ قادیانی پاکستان میں بالکل وہی کردار ادا کر رہے ہیں جوصیہونی امریکہ اور برطانیہ میں اداکررہے ہیں[56]۔

شورش کا شمیر ی(م: ۱۹۷۵ء) کے خط نے ذوالفقار علی بھٹو کی آنکھیں کھول دیں۔ پاکستان کے آئین میں قادیانی اپنے سیاسی، مذہبی اور معاشی مفادات کے تحفظ کے خواہشمند تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان سے بھی ملاقاتیں کیں۔ قادیانی جماعت کے خدشات دور کر نے کے لئے آئین کا حتمی مسودہ ظفراﷲ خان کو دکھا یا گیا۔ اس نے آئین میں وزیر اعظم کو حاصل بے تحاشا اختیارات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ [57]۔ لیکن حزب اختلاف کو تسلی دینے کے لئے آئین میں یہ ضروری قراردیا گیا کہ صدر اور وزیر اعظم اس بات کا حلف اٹھائیں کہ وہ مسلمان ہیں اور حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں[58]۔

۲۹اپریل ۱۹۷۳ء کو آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن جناب (ریٹائرڈ)میجر محمد ایوب نے آزاد کشمیر اسمبلی کے ایوان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرار دادپیش کی جوبالا تفاق پاس ہوگئی[59]۔

اس قرار داد کا پا س ہو نا تھا کہ پاکستان کے مسلمان عوام میں خوشی کی لہر دوڑگئی۔ کراچی سے خیبر تک اس قرار داد کا خیر مقدم کیا گیا۔ مرزائیت پر اوس پڑگئی۔ اُن کی پریشانی قابل دید تھی۔ انہوں نے حکومت کا دروازہ ایک مرتبہ پھر کھٹکھٹایا اور بھٹومرحوم کو ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں اپنی مدد ومعاونت کا احسان یاد دلایا۔ بھٹوصاحب نے سردار عبدالقیوم خاں پر پورا زورڈالا کہ قرار داد واپس لے لی جائے مگر اب ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔ اب پاکستان میں صورتحال سنگین ہوگئی کیونکہ عوام کا مطالبہ مزید بڑھ گیا کہ اب پاکستان کی حکومت بھی قادیانیوں کواقلیت قراردے۔ اسی دوران عوام کے جذبات اس وقت زیادہ بھڑک اٹھے جب مرزاناصر احمد (۱۹۰۹ء۔ ۱۹۸۲ء)اپنے بیرونی رشتوں کو مضبوط کر نے کے لئے انگلستا ن اور افریقہ پہنچے۔ مرزا نے اپنے اس دورے کو کامیاب قرار دیا اور واپسی پر اس سفر کا کتابچہ شائع کیا گیا۔ اس کتابچہ میں نائجیر یا کی ایک مسجد کے دروازہ پر کلمہ طیبہ ’محمد رسول اﷲ‘بدل کر ’’احمد رسول اﷲ‘‘کندہ کرایا گیا [60]۔ ہفت روزہ چٹان نے اس کی ایک فوٹو سٹیٹ شائع کر دی۔ اس کا چھپنا تھا کہ پورے ملک میں شور مچ گیا جس سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو گیا اور یہی وہ واقعہ تھا جس کی بنا پر آئین کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔

سانحہ ربوہ

۲۲مئی ۱۹۷۴ء کو نشتر میڈیکل کالج کے تقر یباً سوطلباء شمالی علاقوں کی سیر وسیاحت کے لئے بذریعہ ایکسپر س ملتان سے پشاور روانہ ہوئے۔ ٹرین جب ربوہ (چنا ب نگر)ریلو ے اسٹیشن پر رکی تو حسب معمول چند قادیانی نوجوان گاڑی کی مختلف بوگیوں میں داخل ہوئے اور قادیانیت کا لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا۔ جب طلبا ء کی بوگی میں کفر وارتداد کا یہ لڑ یچر تقسیم کیا گیا تو طلباء میں اشتعال پھیل گیا۔ جواباً انہوں نے ربوہ ریلو ے اسٹیشن پر ختم نبوت زند ہ باد، قادیانیت مردہ باد کے زوردار نعرے لگائے۔ طلباء کی اس جرأت سے ربوہ کے قصر خلا فت میں ایک زلزلہ آگیا۔ اور انہوں نے طلباء کو یادگارسبق سکھانے کا فیصلہ کیا[61]۔ چنا نچہ ۲۹مئی ۱۹۷۴ء کو قادیانیوں نے نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء پر اس وقت حملہ کردیا جب وہ تفریحی سفر سے واپس آرہے تھے۔ گاڑی جب ربوہ اسٹیشن پر رکی تو قادیانیوں نے حملہ کردیا۔ اُن کے پاس ڈنڈے اور ہلکے ہتھیار تھے۔ پچاس طلبا ء کو بری طرح پیٹا گیا جن میں تیر ہ کی حالت نازک تھی[62]۔ قادیانی حملہ آوروں نے طلبا ء کا قیمتی سامان اچک لیا، ان کے کپڑے پھاڑ دئیے۔ سگنل ہونے کے باوجود گاڑی کو چلنے نہ دیا۔ خداخدا کر کے جب گاڑی چلی تو اس ظلم وبربریت کی خبر فیصل آباد پہنچ چکی تھی۔ غصّے سے بپھرا ہوا سارا شہر اسٹیشن پر پہنچ چکا تھا۔ مجاہد ختم نبوت مولانا تاج محمو د ان طلباء کے لئے چشم براہ تھے۔ ڈی سی، اے سی، ایس پی سمیت ساری انتظامیہ اسٹیشن پر موجود تھی۔ جونہی ٹرین اسٹیشن پر پہنچی، کہرام مچ گیا۔ لوگ جذبات میں آکر رورہے تھے۔ مولانا تاج محمود نے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔

’’آپ کے بہنے والے ہر قطرہ سے قادیانیوں کی موت کے پر وانے پر دستخط ہوں گے۔ اگر آپ کا خون رائیگاں گیا تو میں آپ کے خون کا جواب دوں گا‘‘[63]۔

قادیانیوں کی اس دید ہ دلیری پر پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی۔ عوام کے ملک گیر احتجاج کو دیکھتے ہوئے پنجاب گورنمنٹ نے سانحہ ربوہ کی عدالتی تحقیقا ت کا حکم دے دیا او رعدالت عالیہ کے جج مسٹر جسٹس کے اے صمدانی کو ربوہ کے واقع پر تحقیقا ت کے لئے مقرر کیا۔ برطانیہ میں مقیم احمد یوں نے یہ الزام لگایا کہ پاکستان میں احمد یوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ لیکن حکومت نے اس الزام کو بے بنیا د قرار دیا۔ تحریک ختم نبوت کے عروج کے دنوں میں صوبہ سرحد کی اسمبلی نے پہل کر تے ہوئے جو ن ۱۹۷۴ء میں ایک قرار داد منظور کر لی جس میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا[64]۔

اس فیصلے کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی۔ اب بھٹو حکومت مجبور ہوگئی کہ اس کا بہتر طر یق کار اختیار کرے۔ ۷ستمبر ۱۹۷۴ء کو پون صدی پر پھیلی ہوئی جدوجہد تاریخ ساز لمحوں میں سمٹ آئی۔ مرکزی وزیر قانون جناب عبد الحفیظ پیرزادہ نے آئین میں ترمیم کابل پیش کیا اس بل کو جب وزیر قانون پیش کررہے تھے توفقرے فقرے پر قومی اسمبلی کے ارکان جذبات سے بے قابو ہوکر ڈیسک اور تالیاں بجارہے تھے۔ مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی ترامیم کے حق میں ایک سوتیس ووٹ آئے جبکہ اس کی مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہ ڈالاگیا[65]۔

قومی اسمبلی کے سا تھ سینٹ (Senate)نے بھی متفقہ طور پر اسے پاس کرلیا۔ جب بل متفقہ طور پر پاس ہوگیا تو حزب اقتدار اور حزب اختلا ف کے ارکان آپس میں فرط مسرت سے بغل گیر ہوئے حتیٰ کہ وزیر اعظم بھٹو اور عبدالولی خاں(۱۹۱۷ء۔ ۲۰۰۴ء) بھی گر مجوشی سے ملے[66]۔

اس بے نظیر فتح پر ملک میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ لوگوں نے شکر انے کے نوافل اداکئے۔ شہروں میں مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ مکانوں پر چراغاں کیے گئے۔ شہیدان نبوت کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائی گئیں۔ مساجد میں خصوصی اجلا س ہوئے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس فیصلے کا کریڈ ٹ سب مسلمانوں کا حق ہے۔

حزب اقتدار، حزب اختلاف، علماء، طلباء سیا سی کارکن، صحافی الغرض سب نے اپنا فرض اداکیا۔ مرزائیت کے خدوخال اجاگر کیے اور اس کی صحیح تصویر دیکھی بھی اور دکھائی بھی۔ اب یہی تصویر دستور کے صفحات پر ثبت رہے گی۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے (انشاء اﷲ وآمین)



[1]  غلام احمد، کتاب البرید، قادیان، باردوئم، دسمبر ۱۹۳۲ء، ص ۱۳۴، ۱۳۵۔

[2]  شیخ محمد اکرام، موج کوثر، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور، ۱۹۹۲ء، ص ۱۷۷۔

[3]  غلام احمد، کتاب البرید، ص ۲۸۔

[4]  غلام احمد، کتاب البرید، ص ۲۸۔

[5]   ابو مدثرہ، قادیان سے اسرائیل تک، عالمی مجلس احرار اسلام، پاکستان، ملتان، ۱۹۸۹ء، ص ۲۷۔

[6]   بشیر احمد، سیرت المہدی، احمدیہ کتاب گھر قادیان، اشاعت دوئم، ۱۹۳۵ء، جلد اوّل، ص ۷۔

[7]  خالد بشیر احمد، تاریخ محاسبہ قادیانیت، نفیس پرنٹنگ پریس فیصل آباد، دسمبر۱۹۷۹ء، ص ۳۴۔

[8]  سیرت المہدی، ص ۱۰۳، ۱۰۴۔

[9]   مرزا غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقۃ الوحی، قادیان، ۱۹۲۳ء، ص ۶۸-۶۷۔

[10]   سیرت المہدی، ص ۴۵۔

[11]   میر قسیم علی قادیانی، تبلیغ رسالت، قادیان، ن۔ د، جلد اوّل، ص ۶۱۔

[12]   سیرت المہدی، ص ۱۴۔

[13]   سیرت المہدی، ص ۱۴۔

[14]   غلام احمد قادیانی، شہادت القرآن، الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ، ن۔ د، ص۲۸۔

[15]   غلام احمد قادیانی، توضیح مرام، ریاض الہند پریس امرتسر، ۱۹۲۲ء، ص ۱۵۔

[16]   غلام احمد قادیانی، مکتوبات احمد، قادیان، ن۔ د، ص ۸۵۔

[17]  میر قاسم علی قادیانی، اشتہار مرزا غلام احمد، مدرج تبلیغ رسالت، جلد دوئم، ن۔ د، ص ۲۱۔

[18]   غلام احمد قادیانی، ازالہ اوہام، مقام طبع ندارد، طبع دوئم، ن۔ د، ص ۱۹۵۔

[19]   غلام احمد قادیانی، اربعین، ضیاء الاسلام قادیان، دسمبر ۱۹۰۰ء، ص ۲۱۔

[20]    غلام احمد قادیانی، ایک غلطی کا ازالہ، مقام طبع ندارد، ن۔ د، ص۱۰، ۱۱۔

[21]   غلام احمد قادیانی، تحفۃ الندوہ، ص ۴، بحوالہ قادیانیت مطالعہ و جائزہ، ابو الحسن علی ندوی، مجلس نشریات  اسلام ناظم آباد کراچی، اشاعت پنجم، ۱۹۸۵ء، ص ۸۵، ۸۶۔

 

[22]    حوالہ سابق، ص ۱۶۳، ۱۶۴۔

[23]   غلام احمد قادیانی، حقیقۃالوحی، قادیان، بار دوئم ستمبر ۱۹۲۳ء، ص ۶۸۔

[24]   غلام احمد قادیانی، کشتی نوح، ضیاء الاسلام قادیان، ۱۹۰۴ء، ص۱۳۔

[25]   اﷲ وسایا، تحریک ختم نبوت۱۹۵۳ء، عالمی تحفظ ختم نبوت ملتان، اشاعت اوّل ۱۹۹۱ء، ص ۱۰۵۔

[26]   حوالہ سابق، ص ۱۱۰۔

[27]    شورش کاشمیری، تحریک ختم نبوت، مطبوعہ چٹان لاہور، اشاعت دوئم۱۹۸۰ء، ص ۸۹۔

[28]   حوالہ سابق، ص ۹۰۔

[29]   اﷲ وسایا، تحریک ختم نبوت، ص ۱۱۱۔

[30]   جانباز مرزا، حیات امیر شریعت، لاہور، اشاعت اوّل ۱۹۶۹ء، ص ۴۳۰۔

[31]   اﷲ وسایا، تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء، ص ۱۱۴۔

[32]   شورش کاشمیری، تحریک ختم نبوت، ص ۹۱۔

[33]   حوالہ سابق، ص ۹۱۔

[34]   اﷲ وسایا، تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء، ۲۰۸، ۲۰۹۔

[35]   حوالہ سابق، ص ۲۰۹۔

[36]   حوالہ سابق، ص ۲۱۰۔

[37]   حوالہ سابق، ص ۲۴۹۔

[38]   حوالہ سابق، ص ۲۴۹۔

[39]   حوالہ سابق، ص ۲۵۰۔

[40]   حوالہ سابق، ص ۲۶۱۔

[41]   جانباز مرزا، حیات امیر شریعت، ص ۴۴۲، ۴۴۳۔

[42]   حوالہ سابق، ص ۴۴۸۔

[43]   منیر انکوائری رپورٹ، ۵ مارچ کے حالات و واقعات، بحوالہ تحریک ختم نبوت۱۹۵۳ء، اﷲ وسایا، ص۳۷۲۔

[44]   شورش کاشمیری، تحریک ختم نبوت، ص ۱۳۴۔

[45]   میجر جنرل (ریٹائرڈ) امراؤ خاں، ایک جرنیل کی سرگزشت، لاہور، ۱۹۸۵ء، ص ۹۲۔

[46]   رپورٹ مجلس مشاورت، ربوہ ۲۲، ۲۴ مارچ ۱۹۶۳ء، ربوہ فیصلہ نمبر بتاریخ ۱۷ اکتوبر ۱۹۶۸ء، ص۶۱۴۔

[47]    بشیر احمد، تحریک احمدیت سامراجی گٹھ جوڑ، عبیداﷲ اکیڈمی لاہور، ن۔ د، ص ۶۴۶۔

[48]   شورش کاشمیری، تحریک ختم نبوت، ص ۱۷۸۔

[49]   جنگ کراچی، ۱۱ اپریل ۱۹۷۰ء، ص ۶۔

[50]   بشیر احمد، تحریک احمدیت، سامراجی گٹھ جوڑ، ص ۶۵۵۔

[51]   حوالہ سابق، ص ۶۶۲، ۶۶۳۔

[52]   تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ربوہ، ۱۹ دسمبر ۱۹۷۰ء، ص ۶۔

[53]   بشیر احمد، تحریک احمدیت، سامراجی گٹھ جوڑ، ص۶۹۵۔

[54]   پاکستان ٹائمز، ۱۳ مئی۱۹۷۳ء، بحوالہ تحریک احمدیت، سامراجی گٹھ جوڑ، ص ۶۹۶۔

[55]   حوالہ سابق، ص ۶۹۷۔

[56]   ہفت روزہ چٹان، لاہور، ۱۹ اپریل ۱۹۷۳ء، ص ۳۔

[57]   پندرہ روزہ آتش فشاں، لاہور، ۷ مئی ۱۹۸۱ء، ص ۴۔

[58]   بشیر احمد، تحریک احمدیت، سامراجی گٹھ جوڑ، ص ۶۹۸۔

[59]   تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء، حضوری باغ ملتان، اشاعت اوّل ۱۹۹۳ء، جلد اوّل، ص ۸۶۵۔

[60]   شورش کاشمیری، تحریک ختم نبوت، ص ۲۲۶۔

[61]    اﷲ وسایا، پارلیمنٹ میں قادیانی شکست، اشاعت اوّل ۲۰۰۰ء، ص ۱۳۔

[62]    جسارت، کراچی، ۳۱ مئی ۱۹۷۴ء، ص ۲۔

[63]   اﷲ وسایا، پارلیمنٹ میں قادیانی شکست، ص۱۴۔

[64]   پاکستان ٹائمز، راولپنڈی، ۷ جون ۱۹۷۴ء، ص ۴۔

[65]   شورش کاشمیری، تحریک ختمِ نبوت، ص۲۵۱۔

[66]   حوالہ سابق، ص ۲۵۱۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...