Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

غیر سیاسی اسلامی تحریکیں: تنظیم اسلامی، تحریک ختم نبوت، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی |
Asian Research Index
غیر سیاسی اسلامی تحریکیں: تنظیم اسلامی، تحریک ختم نبوت، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی

تیسرا باب: تبلیغی جماعت
ARI Id

1681275197971_56115133

Access

Open/Free Access

Pages

77

تعارف

پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴ء۔ ۱۹۱۸ء) کے بعد جب تحریک خلا فت ناکا م ہو ئی اور جنگ کے وقت کیے گئے کھوکھلے وعدوں کی کلی کھل گئی تو بہت سے مسلما نوں نے سیا ست سے بیزاری کا اظہار کر تے ہو ئے ایسی تنظیموں کے قائم کر نے کا ارادہ کیا جو افراد اور معاشرے کی نشا ۃ ثانیہ کیلئے کر دار اداکر سکیں۔ تبلیغی جماعت بھی ۱۹۲۷ء میں اسی مقصد کے تحت قائم کی گئی[1]۔

مولا نا محمد الیا سؒ (۱۸۸۵ء۔ ۱۹۴۴ء) تبلیغی جماعت کے با نی ہیں۔ جماعت کے قیام کا بنیا دی مقصد یہ تھا کہ مسلما ن اپنے سا تھی مسلما نو ں کو دین کی بنیا دی با تو ں کی تعلیم دیں تاکہ معاشرے میں ایک دینی فضا پیدا ہو جا ئے۔

۱۹۴۴ء میں مولانا محمد الیا س ؒکے انتقال کے بعد اُن کے بیٹے مولانامحمد یوسف کا ندھلو ی (۱۹۱۷ء۔ ۱۹۶۵ء)کو تبلیغی جماعت کا امیر بنایا گیا۔ مولانا محمد یوسف کے انتقال کے بعد مو لا نا انعام الحسنؒ (م: ۱۹۹۵ء) تیسرے امیر بنے۔

۱۹۹۵ء میں مو لا نا انعام الحسنؒ کے انتقال کے بعد نئے امیر کا انتخاب نہیں کیا گیا بلکہ ایک شوریٰ قائم کی گئی جس میں مو لا نا زبیر الحسن اور مو لا نا سعد کا ند ھلو ی شامل ہیں[2]۔

۱۹۷۸ء میں ورلڈ مسلم لیگ نے ڈیو س بری انگلینڈ میں ایک عمارت تبلیغی جماعت کے لئے وقف کی جسے مسجد میں تبدیل کیا گیا اور اس وقت یہی مسجد یورپ میں تبلیغی جماعت کا ہیڈ کوارٹر ہے[3]۔

تبلیغی جماعت کا عالمی مر کز پاکستان میں لا ہور کے قریب ایک جگہ پر واقع ہے جسے رائے ونڈ کہا جا تا ہے۔ جہا ں ہر سال نو مبر میں تبلیغی جماعت کا سالانہ عالمی اجتماع ہو تا ہے۔ اس اجتماع میں تقریباً۲۰لاکھ افراد شرکت کر تے ہیں[4]۔

انٹرنیشنل نیوزنیٹ ورک کی تحقیق کی مطابق حج کے بعد یہ مسلما نو ں کا سب سے بڑا اجتماع ہو تا ہے۔

"The mammoth congregation of the faithful is said to be the largest after the Hajj pilgrimage in Makkah."[5]

تبلیغی جماعت کا یہ سالانہ اجتما ع تین دن کے لئے منعقد ہو تا ہے۔ آخری دن اجتماعی دعا کے وقت رقت آمیز مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ لوگوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافے کی وجہ سے اب یہ اجتماع دو حصوں میں ہوتا ہے۔

اس سے پہلے کہ تبلیغی جماعت کے طریقہ تبلیغ، ذریعہ تبلیغ اوراثرات ونتائج کا تجزیہ کیا جا ئے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بانی جماعت مو لا نامحمد الیا سؒ (۱۳۰۳ھ/۱۸۸۵ء۔ ۱۳۶۳ھ/۱۹۴۴ء)کا مختصر تعارف بیان کر دیا جا ئے۔

مولا نا محمد الیا س ؒ

مولانا محمد الیا س ؒ کا ند ھلو ی کی ولا دت ۱۳۰۳ھ/۱۸۸۵ء اور وفات ۱۳۶۳ھ/۱۹۴۴ء میں ہو ئی۔

مولانا محمد الیا س خاندان ولی اﷲی سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ وہی خاندان ہے جس کے متعلق اگریہ کہا جائے تو صحیح ہو گا کہ ہندو ستان میں آل تیمور کی غلط سیا ست نے دین اسلام کو جو نقصان پہنچا یا تھا، اس کے تدارک اور اصلا ح کا کا م اﷲ تعالیٰ نے اسی خاندان کے ذریعے لیا۔ مولانا محمد الیا سؒنے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں زند گی میں ہماہمی پیدا کر نے کے لئے لو گو ں کو فرضی واقعات کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ کئی کئی پشت سے اُن کے خاندان اور رشتہ داروں میں علماء اور مجاہدین کی شاندار روایا ت چلی آرہی تھیں۔ اُن کے گھر کے باہر اوراند ر کی مجلسیں سید احمد شہیدؒ (۱۷۸۶ء۔ ۱۸۳۱ء)اورشاہ عبدالعزیز ؒ(۱۷۴۳ء۔ ۱۸۲۳ء) کے خاندان کے قصوں سے گرم تھیں۔

ان بزرگوں کے واقعات مردوں اور عورتوں کی زبانو ں پر تھے اور گھر کی بیبیاں بچوں کو طوطا مینا اور پر یوں کی کہانیاں سنا نے کے بجا ئے اُن کے روح پر ور واقعات سنا تی تھیں۔ گھر میں ہر طر ف نماز، روزہ، تلا وت اور ذکر کا منظر دکھائی دیتا تھا۔ گھر کی کوئی بڑی بی خوش ہو تیں تو یہ نہ کہتیں کہ ’’میرا بچہ آئی۔ سی۔ ایس میں جا ئے گا‘‘بلکہ اُن کی زبان سے نکلتا ’’بیٹے مجھے تجھ سے صحابہ کی خوشبو آتی ہے۔ ‘‘یہ تھے وہ ابتدائی خاندانی حالا ت جن میں مولا نا محمد الیا س ؒ کی پر ورش ہو ئی۔

آپ کے گھر میں ایک تجارتی کتب خانہ تھا جس کا انتظام آپ کے بڑے بھائی مولا نا یحیٰی صاحب کرتے تھے۔ مولانا محمد الیا سؒ یوں بھی بچپن سے کمزور ہو نے کی وجہ سے جسمانی مشقت کا کام نہ کر سکتے تھے اور وہ اس میں کچھ حصہ نہ لیتے تھے۔ اُن کا وقت زیادہ ترمطالعہ اور دینی مشاغل میں گزرتا تھا۔ اس کے برعکس بڑے بھائی کا فی محنت سے کتاب خانہ کے امور انجام دیتے تھے۔ ایک روز کتاب خانہ کے منتظم نے کہا ’’مولوی الیا س کتاب خانہ کے کامو ں میں کچھ ہا تھ نہیں بٹاتے۔ کوئی خدمت اُن کے ذمہ بھی کر دینی چاہیے۔ ‘‘بڑے بھائی نے تکدّرکے سا تھ جو اب دیا’’میرا اعتقاد ہے کہ مجھے اسی بچہ کی برکت سے رزق مل رہا ہے۔ اس لئے آئندہ اس قسم کی با ت مجھ سے نہ کہی جا ئے‘‘اخلا ص اور دینداری کے اس ماحول کا نتیجہ یہ تھا کہ مولانا کی پرورش اس طر ح ہو ئی گو یا وہ دین کے گہوارے میں پل رہے ہیں۔ ایسے حالا ت میں جذبا ت کا دین کی راہ پر مڑجا نا بالکل فطری تھا۔ مولانا کے ایک ہم درس بیان کر تے ہیں کہ بچپن میں جب وہ اُ ن کے ساتھ مکتب میں پڑھتے تھے، ایک دن آپ لکڑی لے آئے اور کہا ’’آؤ میاں ریا ض الا سلام !چلو بے نمازیوں پر جہاد کریں‘‘۔

مکتب کی تعلیم سے فارغ ہو کر مولا نا نے قدیم طر ز پر عربی ودینی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مدرسہ مظاہرالعلوم (سہارن پور)میں استاد مقرر ہو ئے۔ مگر قدرت کو منظور تھا کہ اب آپ کو اگلے مر حلے کی تربیت گاہ میں پہنچایا جا ئے۔ آپ کے والد صاحب (مولانا محمد اسماعیلؒ م: ۱۳۱۵ ھ/۱۸۹۸ء)دہلی کے پا س بستی نظام الدین میں رہتے تھے۔ وہاں انہوں نے ایک چھوٹا سامدرسہ جاری کیا تھا، جس میں کچھ غربیوں کے بچے پڑھنے آیا کر تے تھے۔ والد صاحب کے انتقال (۱۳۱۵ھ/۱۸۹۸ء)کے بعد آپ کے بھائی مولا نا محمدؒ (م: ۱۳۳۶ھ/۱۹۱۹ء)نے اس مدرسہ کو سنبھالا۔ ۱۳۳۶ھ میں اُ ن کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس وقت جب آپ اس سلسلہ میں نظام الدین گئے تو وہاں لو گو ں نے اصرار کیا کہ اب یہیں قیام کر یں اور والد اور بھائی کی جگہ، جواُن کی وفات سے خالی ہو ئی ہے، اس کو پر ُ کر یں۔ آپ نے اس درخواست کو منظور کر لیا۔ یہاں سے آپ کی زندگی کا دوسرا دورشروع ہو تا ہے۔ جب کہ میواتیوں سے تعلق کی وجہ سے آپ کو تبلیغی تحریک چلانے کی طرف توجہ ہوئی۔ تبلیغ کا ابتدائی محرک میواتی مسلمان بنے۔ اس کے بعد یہ کام دوسرے تمام مقامات پر پھیل گیا[6]۔

مولانا محمد الیا س ؒکا اخلا ص

کسی بھی تحریک کی کا میابی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے قائد ین اخلا ص کا پیکر ہو ں۔ یہ با ت یقین کے سا تھ کہی جا سکتی ہے کہ تبلیغی جماعت کے قائد ین (الا ماشاء اﷲ)خلو ص کے سا تھ اپنے کام میں مگن ہیں۔ اس تحریک کی فکری وعملی کمزوریوں پرہم آگے چل کر گفتگوکر یں گے۔ سر دست اس جماعت کے بانی مولانا محمد الیا س ؒکے خلو ص اور اپنے مشن کے سا تھ سچی وابستگی کی چند جھلکیاں پیش کی جا تی ہیں۔

مولا نا وحید الدین خاں اپنی کتاب تبلیغی تحریک میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ دوران تبلیغ آپ (یعنی مولانا محمد الیا س ؒ)نے ازراہ محبت ایک شخص کے اوپر ہا تھ رکھ دیا۔ وہ آگ بگلو لہ ہو گیا اور کہنے لگا کہ اگر اب کی تم نے ہا تھ لگا یا تو میں لٹھ مار دو ں گا۔ آپ نے فوراً اس کے پا ؤ ں پکڑلیئے اور فرمایا کہ ’’پا ؤ ں کو تونہیں کہا تھا‘‘اس کے بعد اس کا غصہ کا فور ہو گیا اور فوراً نرم پڑگیا۔ اسی طرح آپ ایک بار ایک میواتی پر تبلیغ کر رہے تھے کہ وہ بگڑ گیا اور آپ کو ایک گھونسہ مار دیا۔ مولانا محمد الیا س ؒ دبلے کمزورآدمی تھے، گھونسہ کی تاب نہ لا کر زمین پر گرپڑے۔ کچھ دیر بعد جب اُ ن کے حواس بجا ہو ئے تو وہ گرد جھاڑ کر اُٹھے اور میواتی کا دامن پکڑ لیا اورکہا

’’اچھا تم تو اپنا کام کر چکے، اب میری سنو۔ ‘‘

یہ دیکھ کر میواتی آپ کے قدمو ں پر گر پڑا اور بولا’’مولو ی مجھے معاف کر ورنہ میری بخشش نہیں ہو گی‘‘[7]۔

مولانا محمد الیا س ؒ کے اسی خلو ص کا نتیجہ تھا کہ میواتیوں کی کثیر تعداد دین کی طرف مائل ہو ئی اور وہ لو گ جوکلمہ بھی نہیں پڑھ سکتے تھے، مولا نا کی دعوت پر اسلام کے مبلغ بن گئے۔ ایک مرتبہ بانی تحریک کے ایک پرانے ساتھی نظام الدین گئے۔ اس وقت مولانا محمد الیا سؒ کا انتقال ہو چکا تھا۔ اُنہوں نے گھر میں مولا نا محمد ا لیا سؒ کی زوجہ محترمہ کے یہاں کہلا بھیجا کہ مولانا کی کوئی خا ص با ت جو آپ کو یا د ہو بتائیے۔

محترمہ نے اندر سے کہلا یا

’’جب میر ی شادی ہو ئی اور میں رخصت ہو کر مولانا کے گھر گئی تو میں نے دیکھا کہ مولا نا راتوں کو بہت کم سوتے ہیں اُ ن کی راتیں بستر پر کروٹ بدلنے اور آہ بھرنے میں گزرتی تھیں۔ میں نے کہا کہ یہ کیا با ت ہے کہ آپ کو راتوں کو نیند نہیں آتی۔ مولا نا نے ایک آہ بھری اور فرمایا۔ کیا بتا ؤ ں اگر تم کو وہ با ت معلوم ہوجا ئے تو جاگنے والا ایک نہ رہے، دوہو جا ئیں‘‘[8]۔

مندرجہ بالا واقعہ مولانا محمد الیا س ؒکے خلو ص اور مسلمانوں کے سا تھ گہر ے تعلق کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر ہم حضور ﷺ کی امت کے لئے بے چینی کا مطالعہ کریں تو مولا نا محمد الیا سؒ کی بے چینی سمجھ میں آتی ہے۔

ایک مکتوب میں مولانا محمد الیا سؒ لکھتے ہیں:

’’ہماری یہ تحریک ایمان جس کی حقانیت کو اہل جہاں تسلیم کر چکے ہیں، اس کے عمل میں آنے کی صورت بجزاس کے کہ ہر آدمی لاکھ جان کے ساتھ قربان ہونے کو تیار ہو اور کوئی ذہن میں نہیں آتی [9]۔

 مولانا کے نزدیک جب تک خلوص اور انتھک محنت کے ساتھ لوگوں کو ایمان کی دعوت نہیں دی جائے گی، اس وقت تک دین کا کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ انہوں نے اپنے عمل سے بھی یہی بات لو گوں کو پہنچائی۔ یہ اُن کی تربیت کااثر تھا کہ اُن کے پیروکاروں نے پوری دنیا کے سفر کئے اور اﷲ کا پیغام دنیا کے کو نے کو نے تک پہنچایا۔

تبلیغی جماعت کے اصول

تبلیغی جماعت کی دعوت کے چھ بنیادی اصول ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کے فکر وعمل کی بنیا د چھ با تو ں پر ہے۔ (۱)تصحیح کلمہ (۲)تصحیح نماز(۳)تصحیح علم و ذکر (۴)تفریغ اوقات (۵)اکر ام مسلم اور(۶)تصحیح نیت۔

جماعت کی ساری تبلیغی سرگرمیاں انہی اصولوں کے گر د گھومتی ہیں اور کسی کو اجا زت نہیں ہے کہ وہ ان اصولو ں سے بال برابربھی تجا وز کر ے۔ مولانا محمد الیا سؒ کی دعوت دراصل انہی اصولو ں کی دعوت تھی اور ان میں بھی وہ خصو صیت کے سا تھ کلمہ، نماز اور علم و ذکر پر بہت زیا دہ زور دیتے تھے۔ مولانا کی نظر میں ان اصولو ں کی جو اہمیت تھی وہ اُن کے اس بیان سے بالکل ظاہر ہے:

’’دوستو!اس تبلیغ میں اصولو ں کی پا بند ی نہایت ضروری ہے۔ اگرکسی اصول میں ذرا بھی کو تا ہی کروگے تو خدا کا وہ عذاب جو شاید بدیرآئے فوراً ہی تمہارے سر پر آمو جو د ہو گا‘‘[10]۔

مزید فرما یا

’’یاد رہنا چاہے کہ ہر چیز اپنے اصول اور اپنے طریقہ سے سہل ہو تی ہے۔ غلط طر یقہ سے تو آسان سے آسان کام بھی دشوار ہو جا تا ہے۔ اب لو گو ں کو یہ غلطی ہے کہ وہ اصول کی پا بند ی ہی کو مشکل سمجھتے ہیں اور اس سے گریز کر تے ہیں حالانکہ دنیا میں کوئی معمولی سے معمولی کا م بھی اصول کی پا بندی اور مناسب طریقہ کاراختیار کئے بغیر انجام نہیں پا یا۔ جہاز، کشتی، ریل، موٹر سب اصول ہی سے چلتے ہیں حتیٰ کہ ہنڈیا روٹی تک بھی کسی اصول ہی سے پکتی ہے‘‘[11]۔

مولانا محمد الیا س ؒ نے جن چھ اصولو ں کی تاکید کی اور جن پر وہ اپنی زندگی میں سختی سے کار بند رہے، ابھی تک تبلیغی جماعت میں رائج ہیں اور جماعت کے مبلغین انہی چھ اصولوں کی حدود میں محدود رہ کر گفتگوکر تے ہیں۔ لیکن بانی جماعت ان چھ اصولوں کا جو مفہوم اپنے ذہن میں رکھتے تھے اور جس کا اظہار اُن کے اقوال میں بھی ملتا ہے، موجو دہ ددور کی تبلیغی جماعت ان اصولوں کا شاید وہ مفہوم پیش نظر نہیں رکھتی۔ اگر یہ کہا جا ئے کہ تبلیغی جماعت اپنے بانی کی دعوتی طریقہ کار سے کسی حد تک منحرف ہو چکی ہے تو بے جانہ ہو گا۔

تبلیغی جماعت کا پہلا اصول تصحیح کلمہ ہے۔ مولانا محمد الیا سؒ نے کلمہ طیبہ کا مفہوم یوں بیان کیاہے:

’’اس وقت بدقسمتی سے ہم کلمہ تک سے نا آشنا ہو رہے ہیں۔ اس لئے سب سے پہلے اسی کلمہ طیبہ کی تبلیغ ہے جو کہ خدا کی خدائی کا اقرار نامہ ہے یعنی اﷲ کے حکموں پر جان دینے کے علاوہ درحقیقت ہمارا کو ئی بھی مشغلہ نہ ہوگا‘‘[12]۔

مولانا محمد الیا سؒ کے مندرجہ بالا قول سے یہ با ت مترشح ہو تی ہے کہ اُن کے نزدیک تصحیح کلمہ سے مراد یہ تھی کہ لو گو ں کو نہ صر ف کلمہ طیبہ کے الفا ظ یا د کر ائے جا ئیں بلکہ اُنہیں اﷲ کے دین کی خاطر جان کی قربانی دینے کے لئے بھی تیار کیا جا ئے۔ لیکن یہ با ت باعث حیر ت ہے کہ اس وقت تبلیغی جماعت کے کارکنا ن کی توانا ئیاں صر ف کلمہ کے الفا ظ کی درستگی پر صر ف ہو رہی ہیں اور دین اسلام کا تصور جہاد نظروں سے اوجھل ہے۔ ہر تبلیغی اجتماع میں جس با ت پر ساری توجہ مرکوز ہو تی ہے وہ یہ کہ لوگ کثیر تعداد میں چلّے دیں۔ لیکن آج تک کسی اجتماع میں خواہ وہ عالمی اجتماع ہی کیوں نہ ہو، جہاد کی بات کوئی بھی نہیں کرتا اور یہ مولانا محمد الیاسؒ کی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ ہے۔

تبلیغی جماعت کے دوسر ے اصول تصحیح نما ز کا جہاں تک تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت لوگو ں کو نمازی بناتی ہے اور نماز کے ظاہر ی ارکا ن کی درستگی کابھی اہتمام کر تی ہے۔ لیکن مولانا محمد الیاس ؒ محض ظاہری ارکان کی درستگی کو کافی نہیں سمجھتے تھے۔ مولانا نے ایک دفعہ ارشا د فرمایا:

’’صلوٰۃ اعمال کے اعتبار سے سب سے اہم اور بڑا عمل ہے۔ یہ دروازہ ہے تمام اعمال کا۔ کلمہ طیبہ میں جس چیز کا عہد کیا تھا کہ صر ف خدا ہی کو احکم الحاکمین اور اپنا ہر چیز کا مرجع مانوں گا اور اُ س کے حکم کے ما تحت اپنی زندگی گزاروں گا، یہ اس کے ثبوت کا پہلا عملی قدم ہے۔ صلوٰۃ کے بھی دو اجزاء ہیں، ایک ظاہری دوم باطنی۔ ظاہری مقدما ت صلوٰۃ کو درست اور حسن کے سا تھ اداکر نا۔ مثلاً وضو کو سنن ومستحبات کے ساتھ کر نا اور اس کو صحیح بنانا اور ہر ہر رکن کو سنت کے مطابق اداکرنا۔ باطنی، ہر ہر رکن میں خشوع کے کمال کی کو شش کرنا جس سے نماز میں تنہیٰ عن الفحشاء کی صفت پیدا ہو۔ نما ز ایک روشندان ہے جس کے ذریعہ سے تمام اعما ل پر نورانیت پہنچتی ہے۔ یہ نما ز کی روح ہے‘‘[13]

مولا نا محمد الیا سؒ کے مندرجہ بالا قول سے یہ با ت ظاہر ہو تی ہے اور قرآن کی تعلیم بھی یہی ہے کہ نما ز کے ذریعے انسا ن بے حیائی اور برائی سے بچتا ہے۔ جب انسان خو د برائی سے بچے گا تویقینی بات ہے کہ برائی اور بے حیائی کو دیکھ کر اُس کا خون کھولے گا اور جس طرح حضوراکرم ﷺ نے فرمایا’’من رایٰ منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فاان لم یستطع فبلسا نہ فاان لم یستطع فبقلبہ وزالک اضعف الا یمان‘‘)۱۴(۔

ــ’’تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے تو اُسے اپنے ہا تھ سے روکے اور اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس برائی کو براجا نے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے اُسے براجا نے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔

 ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ برائی اور بے حیائی کو دیکھ کر اُسے روکنے کی حتی المقدورکوشش کر ے۔ لیکن یہ با ت مشاہدے میں آتی ہے کہ تبلیغی جماعت کے کارکن نماز یں تو خوب پڑھتے ہیں لیکن فحاشی اور برائی پر ا ُن کی ایمانی غیرت کو بالکل جو ش نہیں آتا۔ اُن کی ساری تو انائیاں لوگوں کو گھر وں سے نکالنے پر صر ف ہو رہی ہو تی ہیں۔ حالانکہ بے شمار ایسے لوگ میرے زاتی مشاہدے میں آئے ہیں جو چلے لگا نے کے با وجو د غلط کاریوں سے باز نہیں آتے۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت نے مولانا محمد الیا سؒ کے اقوال کو بھلا دیا ہے اور نماز کی روح پر توجہ نہیں دی جاتی، صر ف ظاہر کا خیال رکھا جا تا ہے۔

جماعت کا تیسرا اصول تصحیح علم وذکر ہے۔ مولانا محمد الیا سؒ کے نز دیک وہی علم دین معتبر ہے جس کا رشتہ عمل سے قائم ہو۔ دارالعلوم دیوبند کے طلبہ کی ایک جماعت سے جو مرکز میں مقیم تھی، خطاب کر تے ہو ئے مولانا نے فرمایا

’’وہ ہمیشہ اس فکر میں لگے رہیں اور اس فکر کے بوجھ کے ساتھ زندگی گزاریں کہ جو کچھ پڑھا ہے اور جو پڑھیں گے، اس کے مطابق زندگی گزرے۔ علم دین کا یہ پہلا لا زم حق ہے۔ دین کو ئی فلسفہ اور فن نہیں ہے۔ بلکہ زندگی گزارنے کا وہ طریقہ ہے جوانبیاء لے کر آئے ہیں۔ اﷲ کے رسول ﷺ نے ’’علم لا ینفع‘‘(یعنی اس علم سے جو عمل پر نہ ڈالے)سے پنا ہ مانگی ہے اور اس کے علاوہ بھی عالم بے عمل کے لئے جو سخت وعیدیں قرآن وحدیث میں آئی ہیں وہ آپ کے علم میں ہیں۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہے کہ عالم کی بے عملی نماز نہ پڑھنا اور روزہ نہ رکھنا، شراب پینا یا زنا نہیں ہے۔ یہ تو عام آدمیوں کے گنا ہ ہیں۔ عالم کا گنا ہ یہ ہے کہ وہ علم پرعمل نہ کرے اور اس کا حق ادا نہ کر ے‘[14]۔

اگرچہ مو لا نامحمد الیا سؒ نے علم اورعمل پر بہت زور دیا لیکن بدقسمتی سے وہ اپنے کارکنا ن کو قرآن مجید کے فہم وادراک کی طر ف راغب نہ کر سکے۔ رسول ﷺ نے لوگوں کو دین کی طر ف دعوت دینے کے لئے قرآن مجید کو ذریعہ ہدایت کے طورپر پیش کیا۔

تبلیغی جماعت نے کبھی بھی قرآن مجید کو تبلیغ کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ یہ تاثر کا فی حد تک حقیقت پر مبنی ہے کہ جماعت کے بزرگ قرآن مجید کو ترجمے کے سا تھ پڑھنے کی حوصلہ شکنی کر تے ہیں۔ یہ با ت بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ تبلیغی جماعت میں جو مقام فضائل اعمال نا می کتاب کا ہے وہ مقام شائد قرآن مجید کو بھی حاصل نہیں۔ مساجد میں باقاعدگی سے فضا ئل اعما ل سے درس دیا جا تا ہے لیکن قرآن مجید کا درس تبلیغی جماعت کی شاید ہی کسی مسجد میں ہو تا ہو۔ جہاں تک ذکر کا تعلق ہے، بلا شبہ تبلیغی جماعت میں اذکار کا اہتمام کیا جا تا ہے اور خا ص طور پر ایک تسبیح سوئم کلمہ کی صبح کو اور ایک شام کو اوردرودواستغفار کی دو دوتسبیح روزانہ کا معمول اکثر تبلیغی کارکنا ن میں نظر آتا ہے۔ لیکن اگر نفلی اذکار کے سا تھ سا تھ مسنو ن اذکار کا بھی اہتمام کیا جا ئے تو زیادہ افادیت ہو گی۔ مگرافسوس اس با ت کا ہے کہ تبلیغی جماعت میں بزرگوں کے اقوال اور معمولا ت قرآن وحدیث پر فوقیت رکھتے ہیں اور اصحاب تبلیغ نے تبلیغی نصاب اور ذکر نفلی کو حقیقی علم و ذکر سمجھ لیا ہے۔

تبلیغی جماعت کا چوتھا اصول تفریغ ِوقت ہے۔ موجو د ہ تبلیغی جماعت اس اصول پر پہلے ہی کی طر ح کار بند ہے۔ لو گ اپنا وقت تبلیغ کی خاطر نکالتے ہیں۔ ایسے لو گ بھی جماعت میں ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگیاں تبلیغ کی خاطر وقف کی ہو ئی ہیں۔ لو گو ں کو سہ روزہ، چلہ یعنی چالیس دن، چار ماہ وغیرہ کے لئے آما دہ کیا جا تا ہے۔ بلا شبہ لو گو ں کی قربانیاں ہی ہیں کہ آج دنیا کے ہر کو نے میں تبلیغی جماعت پہچانی جا تی ہے۔

پانچواں اصول اکرام مسلم ہے۔ بلا شبہ یہ ایک عمدہ اصول ہے۔ اس اصول کی وضاحت کر تے ہو ئے مولا نا محمد الیا س فرما تے ہیں:

’’ہر شخص میں یقیناًکچھ خوبیاں اور کچھ خرابیاں ہو تی ہیں مگر خرابیوں کے سا تھ نظر اندازی اور پر دہ پو شی کا اور خوبیوں کی پسندیدگی اور اُ ن کے اکرام کا ہم مسلمانو ں میں رواج پڑجائے تو بہت سے فتنے اور بہت سی خرابیاں اپنے آپ دنیا سے اُٹھ جا ئیں اورہزاروں خوبیوں کی اپنے آپ بنیاد پڑ جا ئے مگر دستور اس کے خلا ف ہے‘‘[15]۔

تبلیغی جماعت مولانامحمد الیا س ؒ کی مندرجہ بالا ہدایت پر کسی حد تک عمل پیرا ہیں۔ جہاں تک جماعت کے پر انے رفقاء کا تعلق ہے، اُن میں یقینا اکرام مسلم کا جذبہ موجو د ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس مسجد میں تبلیغی جماعت کا کنٹرول ہو، وہاں کسی اور جماعت کو کو ئی دینی پر وگرام کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ معلوم نہیں اکرام مسلم کا اصول اُس وقت کیوں نظروں سے اوجھل ہو جا تا ہے جب دوسری جماعت کے افراد کو دھمکیاں دے کر مسجد میں درس قرآن کا پروگرام کر نے سے روکا جا تا ہے۔ شاید ہماری مذہبی جماعتوں کا یہی کمزور کردار ہے جس کی بدولت امت مسلمہ زوال سے دوچار ہے۔ بدقسمتی سے قول اور فعل کا تضا د تبلیغی جماعت میں بھی مو جود ہے اور یہ اکرام مسلم کے دینی تصور کے بالکل خلا ف ہے[16]۔

تبلیغ کا چھٹا اور آخری اصول تصحیح نیت ہے۔ یعنی جو بھی کا م کیا جا ئے اس میں نیت رضائے الہٰی ہو نی چاہیے۔ مولا نا محمدالیا س ؒ فرماتے ہیں:

’’ہر عمل کے بارے میں اﷲ نے جو وعدے، وعید فرما ئے ہیں ان کے موافق اس امر کی تعمیل کے ذریعے اﷲ کی رضا اور مو ت کے بعد والی زندگی کی درستی کی کوشش کر نا‘‘[17]

تبلیغی جماعت کے افراد ہمیشہ اپنے خرچے پر سفر کر تے ہیں اور دوران تبلیغ لو گو ں کی کڑوی کسیلی باتیں بھی برداشت کر تے ہیں۔

مولا نا محمدالیا سؒ نے جس اخلا ص کا درس اپنے پیروکاروں کو دیا تھا اُ س کی واضح جھلک آج بھی جماعت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ بڑے سے بڑا افسر بھی تبلیغی دورے کے دوران لو گو ں کی ڈانٹ صبر سے برداشت کر تا ہے کیونکہ اُس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ مجھے اﷲ کی رضا حا صل ہو جا ئے گی۔

تبلیغی جماعت اور علما ء کا کردار

مو لا نا محمد الیا س ؒ (۱۸۸۵ء۔ ۱۹۴۴ء)کی یہ شدید خواہش تھی کہ علما ء کر ام دعوت و تبلیغ کے کا م کی سر پرستی کر یں۔ انہیں یہ اندیشہ تھا کہ اگر علماء نے اس کا م کو نظر انداز کیا اور عام افراد کے ہا تھوں میں تبلیغ کی با گ ڈوررہی تو اس سے شدید نقصان ہو گا۔ وہ اکثر اپنی محفلو ں میں یہ کہتے تھے کہ علما ء اپنی خداداد صلا حیتیں اس کا م میں لگائیں۔ چونکہ مولا نا محمد الیا سؒ خود بھی ایک عالم دین تھے اس لیے انہیں مدارس اور علماء کی اہمیت کا اچھی طر ح اندازہ تھا۔ لیکن اس کے سا تھ سا تھ مولانا، مدارس کی پڑھائی کو بھی متا ثر نہیں کر نا چاہتے تھے۔ اپنے ایک خط میں مو لا نا محمد الیا س ؒ لکھتے ہیں۔

’’اگر میری تحریک کی وجہ سے علمی حرج ہو تو یہ ایک بہت بڑا نقصان ہو گا۔ تبلیغ سے میرا یہ قطعاً مقصد نہیں ہے کہ مدارس کے طلبا ء کی پڑھائی متاثر ہو‘‘[18]۔

حکیم الا مت حضرت مولانا اشر ف علی تھانو ی ؒ (۱۸۶۳ء۔ ۱۹۴۳ء)کی یہ رائے تھی کہ وہ علماء جنھوں نے آٹھ سے دس سال تک دین کی تعلیم حا صل کی ہو تی ہے، جب کسی تبلیغی دورے پر جا تے ہیں تو بعض اوقا ت انہیں مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے، توایسے حالا ت میں یہ اَن پڑ ھ اور جا ہل میواتی جن کی کو ئی تربیت بھی نہیں کیا کر یں گے؟لیکن جب انہیں مسلسل یہ اطلا عا ت ملیں کہ تبلیغی گروہ علماء کی سر پر ستی میں کا م کر رہے ہیں اور ایسی باتیں نہیں کر تے جن سے اُ نہیں منع کیا گیا ہے۔ تو اس پر وہ (یعنی مولا نا اشر ف علی تھا نو ی ؒ)مطمئن ہو گئے۔ شیخ الا سلام مو لا ناسید حسین احمد مدنی ؒ(۱۸۷۹ء۔ ۱۹۵۷ء)کا سیا ست سے تعلق کو ئی راز کی با ت نہیں تھی۔ اگرچہ انہوں نے جماعت کے سا تھ وقت نہیں لگا یا تھا لیکن پھر بھی وہ اپنے سیا سی جلسوں میں تبلیغی جماعت کا تذکر ہ کیا کر تے تھے۔ سید ابوالحسن علی ندوی (۱۹۱۴ء۔ ۱۹۹۹ء)تبلیغی جماعت کے سا تھ بہت گہرا تعلق رکھتے تھے۔ ایک دن علی میاںؒ نے کہا:

 ’’اگر چہ ندوہ نے ہمیشہ دیندارلو گو ں کی طر ف محبت کا ہا تھ بڑھا یا ہے، لیکن انہیں شاید ہی کبھی مثبت جواب ملا ہو، خدا کا شکر ہے کہ مولا نا محمدالیا س اُن سے محبت کر تے ہیں‘‘۔ مولانامحمدمنظورنعمانی (م: ۱۹۹۷ء) اورمولاناعبد القادر رائے پوری بھی مو لا نا محمد الیا س کے قریبی سا تھیوں میں سے تھے[19]۔

اس میں کو ئی شک نہیں کہ دارلعلوم دیوبند سے تعلق رکھنے والے علماء نے تبلیغی جماعت کے سا تھ بھر پور تعاون کیا ہے جس کے نتیجے میں بلا مبالغہ لا کھوں افراد اس جماعت سے وابستہ ہو ئے ہیں۔ اگر کسی بھی مو قع پر علما ء نے جماعت سے تعاون ختم کیا تو یہ تبلیغی جماعت کے لئے بہت بڑا المیہ ہو گا۔ یہاں پر اس با ت کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بریلوی مکتب فکر، سلفی مکتب فکر اور اہل تشیع کے علمائے کر ام تبلیغی جماعت سے اعلان برأت کرتے ہیں اور اپنی مساجد میں تبلیغی جماعت کے افراد کو داخل ہو نے کی اجاز ت نہیں دیتے۔ کیونکہ ان مسالک کے علما ء یہ سمجھتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کے افراد ضعیف احادیث بیان کر تے ہیں اور قوم کو گمراہ کر رہے ہیں نیز جماعت پر مسلک کے پرچار کا الز ام بھی لگا یا جا تا ہے۔ علما ء کر ام کی طرف سے لگائے گئے دونو ں اعتراضات کو یکسر نظر انداز کر نا خا صا مشکل ہے۔

تبلیغی جماعت اور خواتین کا کردار

اﷲ تعالی نے دین کی دعوت کا کا م جس طر ح مردوں پر لا زم کیا ہے بعینہ یہ کام عورتوں پر بھی فرض ہے۔ آنحضورﷺ کی ازواج کی زندگیا ں ہمارے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

تبلیغی جماعت میں جہاں مردوں کے قافلے دربدر پھر تے ہیں اور لو گو ں کو کلمہ، نماز وغیرہ کی تلقین کرتے ہیں، وہیں پر عورتوں کی جماعتیں بھی روانہ کی جا تی ہیں جو مختلف علا قو ں میں خواتین کی تربیت کر تی ہیں۔ غیر ممالک مثلاً فرانس، امریکہ، افریقہ وغیرہ سے خواتین (مستورات)کی جماعتیں پاکستان اور دیگر ممالک میں آتی ہیں جبکہ یہاں سے جماعتیں اُن ممالک میں جا تی ہیں۔ خواتین کے اجتما عات بھی منعقد کئے جا تے ہیں۔ تبلیغی جماعت کی خواتین مساجد میں نما ز بھی ادا کر تی ہیں۔ کراچی کی مکی مسجد میں ہر جمعے کو ظہر سے عصر تک خواتین اکٹھی ہو تی ہیں۔

 Barbara metcalfاپنے ایک مضمو ن Women in the tablighi Jama'atمیں لکھتی ہیں کہ

"At a meeting i attended in July 1991 at the Makki Masjid, a woman and a man addressed a crowd of approximately a thousand women over a loudspeaker."[20]

’’جو لائی 1991ء میں میں نے مکی مسجد کے ایک اجتماع میں شرکت کی، ایک مرد اور عورت نے تقریباً ایک ہزار خواتین سے بذریعہ لا ؤ ڈ سپیکر خطا ب کیا۔ ‘‘

Barbara Metcalfایسے اجتماعات کی افادیت بیان کر تے ہو ئے لکھتی ہیں کہ

"In these settings, women from humble backgrounds may take on roles of leaderships and guidance for others."[21]

’’ان اجتماعات کے ذریعے عام طبقا ت کی خواتین کویہ مو قع ملتا ہے کہ وہ دوسروں کے لئے قیادت اور رہنما ئی کا کردار ادا کر سکیں۔ ‘‘

تبلیغی جماعت کے افراد اس حقیقت سے اچھی طر ح واقف ہیں کہ جماعت کے بانی امیر مولا نامحمد الیاس ؒ نے خواتین میں تبلیغ کے کا م کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اُن کی ہدایت پر اُ ن کے قریبی ساتھی مولانا عبد السجان کی بیوی نے دہلی میں تبلیغ کا کام شروع کیا اور ایک اجتما ع منعقد کیا جس میں خواتین اپنے محارم کے سا تھ شر یک ہوئیں۔ اگرچہ اس وقت دیگر علما ء کر ام نے عورتوں کے تبلیغ کر نے کے عمل کی مخالفت کی لیکن مولا نا محمد الیا س نے آہستہ آہستہ اُن علما ء کی ہمدردیاں حاصل کر لیں[22]۔

تبلیغی جماعت کے بر عکس مذہبی سیا سی جماعتیں خواتین کے تبلیغی رول کو قبول نہیں کر تیں۔ مثلاً جماعت اسلامی جس کی بنیا د مولا نا مودودی مر حوم(۱۹۰۳ء۔ ۱۹۷۹ء) نے ۱۹۴۳ء میں رکھی، خواتین کے بارے میں یہ نقطہ نظر رکھتی ہے کہ اُنہیں اپنی گھر یلو ذمہ داریوں کو اسلام کے مطا بق اداکرنے کی کو شش کر نی چاہیے۔ سید ابوالاعلیٰ مو دودی اپنی کتاب پر دہ میں عورت کے دائرہ عمل کی وضا حت کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ: ’’اس (یعنی عورت)کو ایسے تمام فرائض سے سبکدوش کیا گیا ہے جو بیرون خانہ کے امو ر سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ مثلا ً

(i)اس پر نما ز جمعہ واجب نہیں(ا بوداؤ د، باب الجمعہ للملو ک والمراۃ)

(ii)اس پر جہا د بھی فرض نہیں، اگرچہ بوقت ضرورت وہ مجا ہد ین کی خدمت کے لئے جا سکتی ہے۔

(iii)اس کے لئے جنا زوں کی شرکت بھی ضروری نہیں، بلکہ اس سے روکا گیا ہے۔ (بخاری، باب اتباع النسا ء الجنائز )

(iv)اس پر نما ز باجماعت اور مسجد و ں کی حا ضری بھی لا زم نہیں کی گئی۔ اگرچہ چند پابندیوں کے سا تھ مسجدوں میں آنے کی اجا زت ضرور دی گئی ہے۔ لیکن اس کو پسند نہیں کیا گیا۔

(v)اس کو محرم کے بغیر سفر کر نے کی بھی اجا زت نہیں دی گئی المراۃ تحج ب(ترمذی، باب ماجاء فی کراہیتہ ان تسافر المراۃ وحدھا۔ ابوداؤد باب فیغیر محرم)

غرض ہر طریقے سے عورت کے گھر سے نکلنے کو نا پسند کیا گیا ہے اور اس کے لئے قانو ن اسلامی میں پسندید ہ صورت یہی ہے کہ وہ گھر میں رہے‘‘[23]۔

مولا نا مودودیؒ کے بیان کر دہ محولہ بالا موقف سے اگر چہ جماعت اسلامی انحراف کر چکی ہے اور جماعت کی خواتین سیا سی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم جماعت اسلامی اب بھی تبلیغی جماعت کے اس طریقہ کار سے اتفاق نہیں کر تی کہ خواتین کئی کئی دنو ں کے لئے اپنے گھر وں کو چھوڑکر دعوت دین کا کام کریں۔ جماعت اسلامی کی سر کر دہ رہنما سمیعہ راحیل قاضی کا نقطہ نظریہ ہے کہ ’’عورت کا اصل دائرہ کا ر اس کا گھر ہے۔ ہمارا سیا ست میں حصہ لینا باامر مجبوری ہے۔ جیسے ہی اسلامی نظام قائم ہو گیا۔ ہم اپنے اصل دائر ے میں لوٹ جا ئیں گی[24]۔۔ اگر تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کے مو جو دہ نظریے کا مو ازنہ کیا جائے تو دونو ں میں جھول محسوس ہو تا ہے۔ اسلام نہ تو عورت کو اس با ت کی اجا زت دیتا ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں اسلام کی تبلیغ کر تی پھرے اور نہ ہی اسلام کسی مجبوری کو تسلیم کر تا ہے جس کی وجہ سے عورت گھر کا چراغ بننے کی بجائے شمع پارلیمنٹ بن جا ئے۔ اسلام نے مسلما نو ں کو الا قر ب فالاقر ب کا اصول عطا کیا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے فرما یا:

’’وانذرعشیر تک الا قر بین‘‘(الشعرا ء: ۲۱۴)

’’اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔ ‘‘

اسی اصول کے تحت رسول اﷲ ﷺ نے سب سے پہلے اپنے خاندان والو ں کو دین کی دعوت دی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عورتوں پر بھی دین کی تبلیغ لا ز م ہے۔ لیکن شریعت کا منشایہ ہے کہ عورتیں اپنے گھر میں مو جو د عورتوں کو دین کی دعوت دیں اور اپنی گھر یلو ذمہ داریوں کو ادا کر تے ہو ئے اپنی دعوت کے دائر ے کو بڑھا ئیں۔ اس دوران کسی لمحے بھی اُن کے ذہنوں سے یہ با ت محو نہیں ہونی چاہیے کہ اُن کا اصل دائرہ کاراُن کا گھر ہے۔ سیرت النبی ﷺ کے مطالعے سے یہ با ت ہمارے سامنے آتی ہے کہ جس طر ح مردوں نے دعوت وتبلیغ کے کام میں کٹھن مراحل کو عبور کیا اور دور دراز کے سفر کئے، عورتوں کے سا تھ بالعمو م ایسا معاملہ نہیں ہو ا کیونکہ عورت کی اصل ذمہ داری اپنی اولا د کی صحیح تعلیم وتر بیت اور گھر کی دیکھ بھال ہے۔

۷ھ میں غزوہ خیبر پیش آیا۔ اس غزوہ سے متعلق یہ واقعہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ جس سے غزوہ خیبر میں خواتین کے کردار پر روشنی پڑتی ہے۔ اس واقعے کو امام احمد ؒبن محمد بن حنبل (م: ۲۴۱ھ )نے اپنی مسنداورامام ابو داؤدسلیمان بن اشعثؒ (م: ۲۷۵ھ ) نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ ــــ

’’ حشرج بن زیاد عن جدتہ ام ا بیہ انھا خرجت مع رسول اﷲ ﷺ فی غزوۃ خیبر سادس ست نسوۃ فبلغ رسول اﷲ ﷺ فبعث الینا فجئنا فراینا فیہ الغضب فقال مع من خرجتن وباذن من خرجتن فقلنا یارسول اﷲ خرجنا نغزل الشعرونعین بہ فی سبیل اﷲ ومعنا دواء الجرحی ونناول السھام ونسقی السویق فقال قمن حتی اذا فتح اﷲ علیہ خیبر اسھم لنا کما اسھم للرجال قال قلت لھا یا جدۃ وما کان ذلک فقالت تمراً۔ [25]۔

’’حشرج بن زیاد اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ غزوہ خیبر کے موقع پرآنحضورﷺ کے ساتھ چھ خواتین کے ہمراہ باہر نکلیں، جن میں چھٹی وہ خود تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب حضور ﷺ کو ہمارے نکلنے کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے ہمیں بلوایا۔ جب ہم حاضر ہوئیں تو آپﷺ کو غضبناک پایا۔ آپﷺنے پوچھا: تم کس کے ساتھ نکلی ہو اور کس کی اجازت سے نکلی ہو ؟ ہم نے عرض کیا: ہم اون کاتیں گی اور کچھ اﷲ کی راہ میں کام کریں گی۔ ہمارے پاس کچھ مرہم پٹی کا سامان ہے۔ ہم( مجاہدین کو) تیر پکڑا دیں گی، انہیں ستو گھول کر پلا دیں گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اٹھو، واپس چلی جا ؤ!پھر جب اﷲ نے خیبر فتح کرادیا تو حضوراکرم ﷺ نے (مال غنیمت میں سے)ہمارے لئے بھی مردوں کی طرح حصہ نکالا۔ حشرج کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: دادی جان!(مال غنیمت میں سے)کیا چیز ملی تھی؟ توانہوں نے جواب دیا: کچھ کھجوریں!‘‘۔

اس حدیث میں رسول ﷺ کا ان خواتین سے یہ استفسار کہ تم کس کے سا تھ نکلی ہو اور کس کی اجازت سے نکلی ہو بہت اہم ہے۔ اس سے اس با ت کی وضا حت ہوتی ہے کہ کو ئی خاتون اگر کہیں باہر نکلتی ہے تو سب سے پہلے اس سے یہ پوچھا جا ئے گا کہ اس کے سا تھ محرم ہے یا نہیں؟سیر ت کا یہ اہم واقعہ ہماری خواتین کو پیش نظررکھنا چاہیے۔

اﷲ تعالیٰ نے فریضہ اقامت دین اور اعلائے کلمۃ اﷲ کی جدوجہد مردوں پر فرض کی ہے اور عورتوں پر یہ ذمہ داری براہ راست عائد نہیں کی۔ البتہ خواتین سے مطلوب یہ ہے کہ وہ اس جدوجہد میں اپنے مردوں کی معین ومددگار ہوں۔ بچوں کی پرور ش اور تعلیم وتربیت کو اپنی ذمہ داری سمجھیں اور مردوں پر اس کا زیا دہ بوجھ نہ پڑنے دیں۔ وہ مردوں کے لئے اس راہ میں زیادہ سے زیادہ وقت فارغ کر نا ممکن بنائیں۔ اُ ن پر اپنی فرمائشوں کا بوجھ اس طر ح نہ لا ددیں کہ وہ انہی مسائل میں الجھ کر رہ جا ئیں اور دین کی سر بلندی کے لئے جہدوکو شش نہ کر سکیں۔ خواتین اگر ان امور کو مدنظر رکھتے ہو ئے شوہر وں سے تعاون کر یں تو یہ اُن کی طر ف سے اقامت دین کی جدوجہد میں شرکت کا بدل بن جائے گا اور اُن کے لئے اجرکثیر اور ثواب عظیم کا باعث ہو گا۔ اور خواتین کے لئے اس سے بڑھ کر خوش آئندبا ت اور کیا ہو سکتی ہے کہ انہیں گھر بیٹھے بٹھائے مردوں کے برابر اجر وثواب مل جا ئے!!

تبلیغی جماعت کی فکر کا تنقید ی جائزہ

تبلیغی جماعت اس وقت مسلم دنیا کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ دنیا کے ہر کو نے تک تبلیغی جماعت کے کارکن اپنا پیغام پہنچا تے ہیں۔ پاکستان میں وہ علاقے جہاں دین سے دوری کا یہ عالم ہے کہ مساجد میں بلیوں اورکتوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں یہ تبلیغی جماعت کے افراد ہی ہیں جو ایسی مسا جد کو آباد کر تے ہیں۔ میر ے ذاتی علم میں ایسی مسجد ہے جہاں کتیا نے بچے دیے ہو ئے تھے، تبلیغی جماعت وہا ں پہنچی اور مسجد کو آذان و نما ز سے آبا د کیا۔ بلا شبہ یہ مساعی قابل تحسین ہیں۔ بے شمار افراد اسی جماعت کی بدولت شراب اور بدکاری چھوڑکر نمازی بن جا تے ہیں۔ ایک خا ص ماحول میں رہنے سے ان پر اثرات مرتب ہو تے ہیں اور وہ برے کام چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس جماعت کی بدولت بے شمار افراد نمازی بنے ہیں لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ بے حد اہم ہے کہ کیا افراد کے نما زی بننے سے دین اسلام کو بطور نظامِ زندگی بھی فائد ہ پہنچایا نہیں ؟میری ذاتی رائے یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کے اثرونفوز سے دین اسلام کو نظام زندگی کی حیثیت سے فائدہ نہیں پہنچا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ اس جماعت نے اسلام کو دین نہیں بلکہ مذہب سمجھا ہے جس کی وجہ سے یہ جماعت حضور ﷺ کے اسوہ سے ہٹ گئی ہے۔ دین اسلام نہ صر ف عبادات اور عقائد سے بحث کر تا ہے بلکہ سیاسی، معاشرتی اور معاشی اُمور میں بھی مکمل رہنمائی فراہم کر تا ہے۔ اگر حضور اکرم ﷺ صرف عبادات پر ہی زور دیتے تو مشرکین مکہ کبھی بھی آپ ﷺ کی مخالفت نہ کر تے۔ مشرکین مکہ نے آپ کی مخالفت اس لئے کی کہ آپ اس نظام کو چیلنج کر رہے تھے جس نظام نے غیر اﷲ کی حاکمیت کو جا ئز قرار دیا ہو ا تھا۔ بدقسمتی سے تبلیغی جماعت ظالمانہ نظام کو بدلنے کی بالکل بات نہیں کر تی۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کے مقررین کبھی بھی نہ تو اسلام کے معاشی نظام پر گفتگوکریں گے اور نہ سیا سی نظام زیر بحث لائیں گے۔ سوچنے کی با ت یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کواسلام دشمن ممالک میں بھی کام کر نے کی اجا زت ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس جماعت کے ذریعے ہمارے سیاسی نظام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ اس جماعت سے سب سے بڑی بھول یہ ہو ئی ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کو تبلیغ کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ایک ایسی کتاب (فضائل اعمال) کو ذریعہ بنایا ہے جس میں ضعیف روایا ت اورحکایا ت کی بھرمار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت، قرآن مجید کی طر ف رجوع کرے اور اسلام کو بطور دین اختیار کر ے نہ کہ بطور مذہب۔ حضوراکرم ﷺ نے قرآن مجید کو ذریعہ تبلیغ بنایا تھا۔ مسلمانو ں کے لئے ضروری ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اختیار کر یں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 فَذَکِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن یَخَافُ وَعِیْد[26]

پس قرآن کے ذریعے اس شخص کو نصیحت کیجیے جو میرے وعدہ عذاب سے ڈرتا ہے۔ تبلیغی جماعت کے کارکنا ن کے علمی معیا ر کو دیکھا جا ئے تو معلوم ہو تا ہے کہ اکثر یت اَن پڑھ یا کم تعلیم یا فتہ لو گو ں پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تبلیغی جماعت کے مبلغین اکثر بے سروپا قسم کی باتیں کر تے ہیں۔ مثلاً ایک دفعہ ایک تبلیغی بزرگ نے مجھے بتایا کہ ایک مبلغ نے دوران ’’بیان‘‘(یعنی تقریر)قمیض کے کالروں کو جب غیر اسلامی کہا تو تبلیغی بھائیوں نے فوراً کالروں کو کاٹنا شروع کردیا۔ ‘‘جب اس قسم کے سطحی سوچ والے لوگ ایک جماعت میں اکثر یت میں ہوں گے تو دین کے صحیح تصور کا ابلا غ امرمحال ہو جا ئے گا۔



[1]   Anwar-ul-Haq, The faith movement of Moulana Muhammad Ilyas,London: Alten, 1972

[2]   Tablighi Jamaat-wikipedia, The free encyclopedia,

Alexiev, Alex. "Tablighi Jamaat: Jihad's stealthy Legions.

(http: //www.meforum.org/article/686)", Middle East

Quarterly, winter 2005. Retrieved on 2007-02-01

[3]   Ibid; p. 35 

[4]   Raiwind-Wikipedia, the free encyclopedia

[5]   http: //www.onlinenews.com.pk/articledetails.php

id=37658

 

[6]   مولانا وحید الدین خاں، تبلیغی تحریک، دارلتزکیر، اُردو بازار لاہور، سن اشاعت ۲۰۰۰ء، ص ۹، ۱۰۔

 

[7]   حوالہ سابق، ص ۱۳۔

[8]   حوالہ سابق، ص ۱۴۔

[9]   مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا محمد الیاس اور اُن کی دینی دعوت، مجلس نشریات اسلام کراچی، سن اشاعت ۱۹۹۸ء، ص ۲۸۶۔

[10]   مولانا محمد الیاس اور اُن کی دینی دعوت، ص ۱۶۰۔

[11]   محمد منظور نعمانی(مرتب)، ملفوظات حضرت مولانا محمد الیاسؒ، مجلس نشریات اسلام کراچی، سن اشاعت ۱۹۹۵ء، ص ۱۳۔

[12]    مولانا محمد الیاس اور اُن کی دینی دعوت، ص ۲۷۹۔

[13]    افتخار فریدی(مرتب)، ارشادات و مکتوبات بانی تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب، نوید پبلشرز اُردو بازار لاہور، سن اشاعت ۲۰۰۰ء، ص ۱۰۸۔

[14]   مسلم بن حجاج بن مسلم قشیری، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النھی عن المنکر من الا یمان، ح: ۴۹، دارالاشاعت کراچی، پاکستان۔

[15]   ملفوظات حضرت مولانا محمد الیاس، ص، ۱۳۰۔

[16]  حوالہ سابق، ص ۸۱، ۸۲۔

[17]   مولانا محمد الیاس اور اُن کی دینی دعوت، ص ۲۸۰۔

[18]   http: //www.darsequran.com/articles/english/tablighi

jamat.php

[19]   .Ibid.

[20]   http: //www.stanford.edu/group/SHR/5-1/text/metcalf/html

[21]   ایضا.

[22]   سید عبدالشکور ترمذی، دعوت و تبلیغ کی شرعی حیثیت، ادارہ اسلامیات لاہور، سن اشاعت ۱۹۸۱ء، ص ۱۰۵، ۱۰۶۔

[23]   سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، پردہ، اسلامک پبلیکیشنز لاہور، سن اشاعت اکتوبر ۱۹۹۹ء، ص ۲۰۰، ۲۰۱۔

  [24] انٹر ویو، سمیعہ راحیل قاضی، روزنامہ نوائے وقت ملتان، سنڈے میگزین، اپریل ۲۰۰۷ء، ص ۲۰۔

[25]   ابو داؤد سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، باب فی المرأۃ والعبد یحذیان من الغنیمۃ، ح: ۲۷۲۹، مکتبہ رحمانیہ، لاہور۔

[26]   ق: ۴۵

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...