Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

غیر سیاسی اسلامی تحریکیں: تنظیم اسلامی، تحریک ختم نبوت، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی |
Asian Research Index
غیر سیاسی اسلامی تحریکیں: تنظیم اسلامی، تحریک ختم نبوت، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی

چوتھا باب: دعوت اسلامی
ARI Id

1681275197971_56115141

Access

Open/Free Access

Pages

97

بانی دعوت اسلامی کا تعارف

دعوت اسلامی کے امیر مولانا محمد الیاس قادری ۲۶ رمضان المبارک ۱۳۶۹ھ بمطابق ۱۹۵۰ء کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حاجی عبدالرحمٰن ؒ (م: ۱۹۵۱ء )آپ کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی اس دارفانی سے کوچ کرگئے تھے۔ جب پاکستان معرض و جود میں آیا اس وقت آپ کے والدین اپنے آبائی گاؤں ’’کتیانہ‘‘(جونا گڑھ) میں مقیم تھے۔ ہندؤں اور سکھوں نے مل جل کر مسلمانوں کو خوب لوٹا۔ ان نامساعد حالات میں مولانامحمد الیاس قادری کے والدین ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ ابتداً کچھ عرصہ حید ر آباد (سندھ) میں قیام کیا اور پھر کراچی منتقل ہوگئے۔ آ پ کے والد نے ایک فرم میں ملازمت اختیار کرلی۔ اس فرم کی ایک شاخ ’’سیلون ‘‘ کے دارالخلافہ ’’کولمبو‘‘ میں بھی تھی لہذا ان کا تبادلہ ’’کولمبو ‘‘ کردیا گیا۔ مولانا محمد الیاس ابھی شیر خوار ہی تھے کہ آپ کے والد حج کرنے کے لیے گئے اور وہیں پر ۱۴

ذوالحجۃ الحرام ۱۳۷۰ ھ /۱۹۵۱ء میں انتقال ہوگیا۔ مولانا محمدالیاس قادری کے بڑے بھائی محترم عبدالغنی صاحب نے جوانی تک آپ کا ساتھ دیا۔ پھر وہ ایک ٹرین کے حادثہ میں انتقال کرگئے۔ اپنے بھائی کی وفات کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد والدہ نے بھی دم توڑ دیا۔ ان حالات میں مولانا محمدالیاس قادری نے سنتوں کے احیا ء اور بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عشق رسول ﷺ کے ساتھ ساتھ اخلاق حسنہ کی نعمت سے بھی مالا مال کیا ہے۔ آپ چھوٹے بڑے سبھی سے نہایت خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ایسے ایسے معاملات جہاں اکثر لوگ غصے سے بے قابو ہوجاتے ہیں وہاں آپ مسکراتے رہتے ہیں۔ وقتاً فوقتاًمبلغین کو بھی یہ نصیحت فرماتے رہتے ہیں کہ اگر تمہیں دین کا کام کرنا ہے تو غصے کو تین طلاق دے دو۔ مولانا محمد الیاس قادری کی صفت عفو و درگزر کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے معتقدین سے کبھی کبھی فرماتے ہیں کہ ’’بالفرض اگر کوئی مجھے قتل بھی کردے تو میرے قاتل کو کچھ مت کہنا۔ کیونکہ میں اپنی ذات کے متعلق ہر ایک آنے والی تنگی و مصیبت خواہ وہ کسی بھی مسلمان بھائی کی طرف سے ہو، پیشگی معاف کرچکا ہوں۔ بلکہ کل بروزِ قیامت اگر مجھے کوئی منصب و جاہت سرکار ﷺ کے صدقہ سے ملا تو اپنے قاتل کو جنت میں لیے بغیر نہیں جاؤں گا جبکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔ کیونکہ اگر یہ قتل نہ کرتا تو مجھے جام شہادت نصیب نہ ہوتا۔ لہذا میں اپنے جام شہادت پلانے والے محسن کے احسان کا بدلہ کیوں نہ دوں ؟‘‘ اتباع سنت کا جذبہ آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اتباع سنت کی نیت سے کبھی فرش پر لیٹتے ہیں تو کبھی چٹائی پر۔ آپ نے اپنے سونے کے لیے نہ تو اپنے گھر میں کوئی نرم بستر رکھا ہوا ہے نہ ہی پلنگ۔ حقوق العباد کے معاملہ میں آپ کی نہایت درجہ احتیاط کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ کراچی کی ایک مسجد میں پنجوقتہ نماز کی امامت کرتے تھے۔ مسجد کے حجرے کے لیے اپنے نام کی پلیٹ لگانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ آپ نے تحریری طور پر اپنا نام ’’محمد الیاس قادری رضوی‘‘ پینٹر کے حوالے کیااور اجرت بھی طے کرلی۔ جب آپ پلیٹ لینے گئے تو پینٹر کے نوکر سے کہا کہ وہ قادری رضوی کے ساتھ ساتھ ’’ضیائی‘‘کا لفظ بھی بڑھادے۔ چنانچہ اس نے لفظ ’’ضیائی ‘‘ بڑھادیا۔ آپ پہلے سے طے شدہ اجرت ادا کرکے واپس لوٹے۔ پھر اچانک خیال آیا کہ مجھ سے تو حق تلفی ہوگئی ہے۔ یعنی اجرت طے کرنے کے بعد لفظ’’ضیائی ‘‘ وہ بھی ملازم سے بغیر اجازت پینٹر لکھوایا ہے اور ظاہر ہے اجرت طے ہونے کے بعد کسی لفظ کے اضافہ کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ پھر اس اضافہ میں رنگ استعمال ہوا اور اس ملازم کا وقت بھی صرف ہوا۔ آپ پریشان ہوگئے اور دوبارہ پینٹر کے پاس آکر اپنی پریشانی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ مہربانی کرکے مزید پیسے لے لیں یا زیادتی لفظ کا اضافہ معاف کردیں۔ خداترسی کا یہ انداز دیکھ کر پینٹر ہکا بکا رہ گیا [1]۔

مولانا محمد الیاس کے حالات زندگی سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ ابتداء سے ہی اﷲ رب العزت نے انہیں تقویٰ کی صفت سے متصف کیا تھا۔ جو شخص بھی دین کی دعوت کاکام کرنا چاہے، اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اﷲ رب العزت کی عظمت اپنے دل میں بٹھائے رکھنے کے ساتھ ساتھ عفوودرگزرکی صفت سے بھی مالا مال ہو۔ جب ہم مولانا محمد الیاس کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ صفت بھی بدرجہ اتم نظر آتی ہے۔ لیکن ان کا یہ کہنا کہ ’’کل بروزقیامت اگر مجھے کوئی منصب و جاہت سرکار ﷺ کے صدقہ سے ملا تو اپنے قاتل کو جنت میں لیے بغیر نہیں جاؤں گا جبکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو ‘‘۔ محل نظر ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس موقع پر حد اعتدال سے تجاوز کررہے ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید میں اﷲ رب العزت نے فرمایا ہے۔

من قتل نفساً بغیر نفس او فساد افی الارض فکانما قتل الناس جمیعا۔ ( المائدہ: ۳۲)

ترجمہ: جس نے کسی انسانی جان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا ‘‘۔

جب ایک شخص ایک مسلمان کو قتل کررہا ہے تو اس کو جنت میں لیجانے کی خواہش کرنا چہ معنی دارد۔ پھر یہ کہ مولانا، قیامت کے روز منصب و جاہت کے بھی خواہش مند نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ایک مسلمان کو تو ہر وقت اپنے خاتمہ ایمان کے بارے میں فکر مند رہنا چاہئے۔ ایک حدیث مبارکہ میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

عن عبداﷲ قال: حدثنا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وھو الصادق المصدوق قال: ان احدکم یجمع فی بطن امہاربعین یوماً، ثم یکون علقۃً مثل ذلک، ثم یکون مضغۃً مثل ذلک، ثم یبعث اﷲ ملکاً فیؤمربأربعٍ: برزقہ، واجلہ، وشقی، او سعید، فواﷲ ان احدکم او الرجل یعمل بعمل اھل النار حتٰی مایکون بینہ وبینھا غیر باعٍ او ذراعٍ فیسبق علیہ الکتاب فیعمل بعمل اھل الجنۃ فیدخلھا، وان الرجل لیعمل بعمل اھل الجنۃ، حتٰی مایکون بینہ وبینھا غیر ذراعٍ، او ذراعین فیسبق علیہ الکتاب فیعمل بعمل اھل النار فیدخلھا[2]۔

’’عبداﷲ ؓسے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں بتایا کہ آپؐ سچے اور تصدیق کیے گئے ہیں کہ تم میں سے ہر آدمی کا مادہ تخلیق چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں قطرہ آب کی صورت میں محفوظ رہتاہے۔ پھر منجمد خون بن جاتا ہے اتنے ہی دنوں تک اور پھر گوشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے اتنی ہی مدت تک کے لیے پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور پھر اسے چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتاہے۔ وہ اس کا رزق، اس کی عمر اور یہ بات لکھتا ہے کہ وہ بدنصیب ہے یا خوش نصیب۔ پس قسم ہے خدا کی تم میں سے کوئی آدمی دوزخ والوں جیسے کام کرتاہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس پر نوشتہ تقدیر غالب آجاتا ہے اورپھر جنتیوں جیسے عمل کرتا ہے۔ پس وہ اس میں داخل ہوجاتا ہے اور یقیناتم میں سے کوئی جنتیوں جیسے کام کرتاہے یہاں تک کہ اس کے اورجنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ یا دو ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر نوشتہ تقدیر اس پر غالب آجاتا ہے تو وہ دوزخ والوں جیسے کام کرنے لگے جاتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوجاتاہے ‘‘۔

محولا بالا حدیث سے یہ معلوم ہو اکہ کسی نیکی پر فخر اور غرور نہیں کرنا چاہئے بلکہ انسان کو ہر وقت اپنے اﷲ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے۔ مبادا کسی عمل پر گرفت ہوجائے۔ یہ بات انتہائی خطرناک ہے کہ انسان آخرت میں منصب و جاہت کی طلب کرتا پھرے۔ اس سے جہاں انسان کے اندر تکبر کا احساس پیدا ہوتا ہے وہیں حضرات صحابہ کے عمل کی بھی نفی ہوتی ہے کیونکہ صحابہ کرام ؓ ہمیشہ آخرت میں بخشش کی طلب کیا کرتے تھے نہ کہ منصب و جاہت کی۔

دعوت اسلامی کا تعارف

دعوت اسلامی کا آغاز ۱۴۰۱ھ بمطابق ۱۹۸۱ء باب المدینہ کراچی (پاکستان) میں ہوا[3]۔ یہ ایک غیر سیاسی عالمگیر تحریک ہے جس کا مقصد دعوت اسلامی کے قائدین کے نزدیک قرآن و سنت کی تبلیغ ہے۔ دعوت اسلامی اپنا پیغام دنیا کے کئی ممالک تک پہنچاچکی ہے۔ جن کی تعداد ا س وقت ۵۱ہے [4]۔ اس تحریک کے مبلغ غیر مسلم ممالک میں بھی دین کی دعوت کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ ۱۴۲۴ھ /۲۰۰۴ء کے آخری دو تین ماہ میں ساؤتھ افریقہ کے اندر دعوت اسلامی کے مبلغین کی انفرادی کوششوں کے نتیجے میں کم و بیش ۱۰۰ غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا[5]۔ دعوت اسلامی کے زیر انتظام نہ صرف لڑکوں اور لڑکیوں کی دینی تعلیم کے مراکز کام کر رہے ہیں بلکہ گونگے اور بہرے مسلمانوں کو نمازی اور سنتوں کا عادی بنانے کے لئے مجالس بھی قائم ہیں۔ ہفتہ وار اجتماعات میں ہونے والے بیانات کا اشاروں کے ذریعے اُن کو مفہوم بتایا جاتا ہے اور اُن کو اِشاروں کے ذریعے سنتیں سکھائی جاتی ہیں۔ یعنی یہ سکھایا جاتا ہے کہ کھانے کا مسنون طریقہ کیا ہے۔ پانی پینے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اُن کے قافلے بھی سنتوں کی تربیت کے لئے سفر کرتے ہیں۔ اُن میں اشاروں کے ذریعے دینی کام کرنے کے لئے مبلغین کو خاص طور پر تربیت دی جاتی ہے ۔ دعوت اسلامی میں حضور اکرم ﷺ کے روزمرہ کے معمولات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور اقامت دین کے حوالے سے آپ ﷺ کی سنت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

دعوت اِسلامی کے زیر اہتمام عالم و مفتی کورس: ۔

دعوت اسلامی کے زیر انتظام کئی جامعات بنام جامعۃ المدینہ قائم کی گئی ہیں، جہاں سے کثیر تعداد میں مبلغین درس نظامی (عالم کورس) کرکے دنیا کے مختلف ممالک میں دعوت اسلامی کا پیغام پہنچارہے ہیں۔ یہ کورس آٹھ سالہ ہوتا ہے اور اس میں درس نظامی کا مروجہ نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ جامعۃ المدینہ سے سند فراغت حاصل کرنے والے علماء اپنی شناخت کے لئے اپنے نام کے ساتھ مدنی لکھتے ہیں۔ جامعۃ المدینہ میں ’’ تخصص فی الفقہ‘‘ (مفتی کورس) کا سلسلہ بھی ہے۔

دارالافتاء کا قیام

دعوت اسلامی کے علماء دارلافتاؤں میں بالمشافہ اور ٹیلیفون کے ذریعے نیر بذریعہ ڈاک مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی سعی کررہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے فتاویٰ کمپیوٹر کے ذریعے کمپوز کرکے پیش کیے جاتے ہیں۔

انٹر نیٹ کے ذریعے دین کی خدمت

انٹر نیٹ کی ویب سائٹwww.dawateislami.net کے ذریعے دنیا بھر میں دعوت اسلامی کا پیغام عام کیا جارہا ہے۔ اور دعوت اسلامی کی Website میں IMAM ASK THE پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے پوچھے جانے والے مسائل کاحل، غیر مسلموں کے اسلام پر اعتراضات کے جوابات اور اُن کو اِسلام کی دعوت پیش کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔

مجلس تحقیقات شرعیہ

چونکہ دعوت اسلامی کے بانی مولانا محمد الیاس قادری، امام احمد رضا بریلویؒ٭(۱۴ جون ۱۸۵۶ء۔ ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۱ء) کو اپنا رہبر و رہنما مانتے ہیں، اس لئے مولانا محمد الیاس نے مجلس تحقیقات شرعیہ قائم کی ہے جو بزرگانِ دین، آئمہ مجتہدین اور امام احمد رضا بریلوی کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں اُمت کو پیش آمدہ جدید مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔

٭ عالم دین، صوفی اور نعت گو شاعر تھے۔ عام طور پر اعلیٰ حضرت اور فاضل بریلوی کے نام سے مشہور ہیں۔ پانچ برس کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کر لیا۔ ۱۸۶۹ء میں تمام علوم دینی و عقلی کی سند حاصل کر کے مسند افتاپر فائز ہوئے۔ آپ نے بعض علوم میں ذاتی مطالعے اور غور و فکر سے کمال پیدا کیا۔ خصوصاً ریاضی اور نجوم و فلکیات میں۔ ساری عمر تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ قرآن مجید کا ترجمہ ’’کنز الایمان‘‘ کے نام سے کیا۔ آپ کا فقہی شاہکار ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ ہے جو بارہ جلدوں میں بارہ ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ شاعری میں آپ کا ذوق تسلیم حمد و ثنا اور نعت و منقبت کے علاوہ کسی اور صنف سخن کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ آپ کے مشہور زمانہ سلام کی گونج پاک و ہند کے گوشے گوشے سے سنی جاتی ہے۔

مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام

شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

( سید قاسم محمود، انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا، شاہکار بک فاؤنڈیشن، طبع اول، مارچ ۱۹۹۸ء، ص۱۷۱۔ )

المدینۃ العلمیہ کا قیام

علمائے اہلسنت بالخصوص امام احمد رضاؒ کی کتب کی تسہیل اور غیر مطبوعہ کتب کو منظر عام پر لانے کے لیے المدینۃ العلمیہ قائم کی گئی ہے۔

تنظیم خدام المساجد

مساجد کی تعمیرات کے سلسلے میں تنظیم خدام المساجد کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو کروڑوں روپے خرچ کرکے تعمیرات مساجد کے کام میں مشغول ہے۔ دعوت اسلامی کے مراکز کی تعمیرات، جامعات و مدارس اور دیگر تبلیغی کاموں کے اخراجات مسلمانوں کے عطیات کے ذریعے پورے کیے جاتے ہیں۔ مگر ہر شخص کو چندہ جمع کرنے کی اجازت نہیں۔ اس کے لیے دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کی اجازت ضروری ہے۔

مدنی مذاکرہ

دعوت اسلامی کے تحت ایسے مذاکروں کا بھی انتظام کیا جاتا ہے جن میں مولانا محمد الیاس قادری مختلف موضوعات مثلاً عقائد و اعمال، شریعت و طریقت، فقہ، طب، تاریخ، اور اورادو وظائف وغیرہ پر پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیتے رہتے ہیں۔ ایسے مذاکروں کے لئے دعوت اسلامی میں مدنی مذاکرہ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ مدنی چینل کے ذریعے پوری دنیا میں مدنی مذاکرہ دیکھا اور پسند کیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے لوگوں کو شرعی مسائل کا علم حاصل ہوتا ہے۔

تنظیمی نظم و ضبط

مولانا محمد الیاس قادری دعوت اسلامی میں نظم و ضبط کا خاص اہتمام کرتے ہیں اور تنقید کے حوالے سے بھی ایک طریقہ کار کی پیروی کی تلقین کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ــ’’اگر آپ کسی اسلامی بھائی میں برائی پائیں تو دوسروں پر اظہار کرکے غیبت کا کبیرہ گناہ کرنے کے بجائے براہ راست اُسی کو نرمی کے ساتھ اکیلے میں سمجھائیں۔ اگر ناکامی ہوتو خاموشی اختیار کریں۔ اگر دینی نقصان کا اندیشہ ہو تو تنہائی میں یا لکھ کر اپنے یہاں کی مشاورت کے ’’ذیلی نگران‘‘ کا تعاون حاصل کریں جبکہ وہ مسائل حل کر سکتا ہو۔ ورنہ شریعت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مزید آگے مثلاً اپنی مشاورت کے ’’حلقہ نگران‘‘، پھر تحصیل مشاورت کے نگران، پھر شہر مشاورت کے نگران، پھر ڈویژن کی مشاورت کے نگران، پھر صوبے کی مشاورت کے نگران، پھر ملک کی انتظامی کابینہ کے نگران سے رجوع کریں‘‘[6]۔

مولانا محمد الیاس قادری کی مندرجہ بالا نصیحت کے نتیجے میں دعوت اسلامی انتہائی منظم انداز میں دعوت کا کام کررہی ہے۔

اجتماعات میں بیان کے ضمن میں مولانا محمد الیاس قادری یہ شرائط عائد کرتے ہیں:

(۱)وہ مبلغین جو علم و عمل میں ممتاز ہوں گے اور تبلیغ کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہوں گے، اُن کو زبانی بیان کرنے کی اجازت ہوگی۔

(۲)وہ مبلغین جو علم میں ممتاز نہ ہوں گے وہ علمائے اہلسنت کی کتب سے حسب ضرورت فوٹو کاپیاں کرواکر اپنی ڈائری میں چسپاں کرکے اُنہیں دیکھ کر من و عن بیان کریں گے[7]۔

مندرجہ بالا شرائط میں لفظ علمائے اہلسنت، معنی خیز ہے اور بریلوی مسلک کو ظاہر کر رہا ہے۔ دعوت اسلامی میں مسلکی تعصب بہت زیادہ ہے۔ مبلغین سوائے بریلوی مسلک کے علمائے کے، کسی بھی عالم کی کتاب کے پڑھنے کو اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔

دعوت اسلامی کی سرگرمیاں

دعوت اسلامی کے زیر انتظام مختلف سرگرمیاں سرانجام دی جاتی ہیں تاکہ تحریک کی فکر کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے اور لوگوں کو دعوت اسلامی میں شامل کیا جائے۔

 ذیل میں سرگرمیوں کی تفصیل بیان کی جاتی ہے[8]۔

۱۔ فیضان سنت کا درس

تبلیغی جماعت میں فضائل اعمال نامی کتاب کا جو مقام ہے، دعوت اسلامی میں فیضان سنت کی وہی حیثیت ہے۔ مولانامحمد الیاس قادری کی مرتب کردہ اس کتاب میں ضعیف اور موضوع احادیث کی بھر مار ہے۔ دعوت اسلامی کے کارکنان مساجد میں نمازوں کے بعد فیضان سنت سے درس دیتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان اور بیرون ملک ہزاروں مساجد ایسی ہیں جہاں روزانہ نمازوں کے بعد فیضان سنت کا درس دیا جاتا ہے۔ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ دعوت اسلامی میں قرآن مجید کی تفہیم پر اتنا زور نہیں دیا جاتا جتنا فیضان سنت کے درس پر دیا جاتا ہے۔

۲۔ نیکی کی دعوت

دعوت اسلامی کی سرگرمیوں میں سے ایک اہم سرگرمی نیکی کی دعوت ہے۔ مختلف گروپوں کی شکل میں لوگ محلوں میں نکلتے ہیں اور لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں۔ اُنہیں فیضان سنت کے درس میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دعوت اسلامی کی افرادی قوت میں اضافہ کیا جائے۔ یہ طریقہ بھی تبلیغی جماعت کے گشت سے ملتا جلتا ہے۔

۳۔ مدنی قافلے

جس طرح تبلیغی جماعت میں شامل افراد سہ روزہ اور چلے ( ۴۰ روز) وغیرہ لگاتے ہیں، بالکل اسی طرح دعوت اسلامی میں شامل لوگ بھی دعوت دین کے لئے ۳دن، ۴دن، ۱۲دن، یا ۳۰دنوں کے لئے نکلتے ہیں۔ ہر قافلے میں کم از کم چھ افراد ہوتے ہیں جنہیں کسی گاؤں، شہر یا ملک میں بھیجا جاتا ہے۔ اگر چہ دعوت اسلامی صرف دین اسلام کے مذہبی گوشے سے بحث کرتی ہے اور وہ بھی بریلوی مسلک کی حدود سے محدود ہوکر، پھر بھی ان مدنی قافلوں سے بیشمار لوگ عبادات کے پابند ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان نسل دعوت اسلامی سے بے حد متاثر ہوئی ہے۔ کاش دعوت اسلامی دین اسلام کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی شعبوں میں بھی امت مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی۔

۴۔ مدنی انعامات

مولانا محمدالیاس قادری نے دعوت اسلامی کے کارکنوں کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں ۷۲نکات پر مشتمل ہدایات نامہ جاری کیا ہے۔ جسے مدنی انعامات کہا جاتا ہے، ہر مسلمان مرد اور عورت کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ ممکنہ حد تک ان نکات پر عمل کریں تاکہ اُن کی زندگی رسول اکرم ﷺ کی زندگی کے مطابق گزر سکے۔

۵۔ ہفتہ وار اجتماع

دعوت اسلامی کے زیر اہتمام اجتماعات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جن میں تنظیم کے مبلغین اپنے بیانات کے ذریعے لوگوں میں دین کا شعور بیدار کرتے ہیں۔

ہفتہ وار اجتماع ہر جمعرات کو مغرب کی نماز کے بعد بڑے بڑے شہروں کی اُن مساجد میں ہوتا ہے جہاں دعوت اسلامی کا مرکز ہو۔ ان اجتماعات میں قرآن مجید کی تلاوت کے بعد نعتیں پڑھی جاتی ہیں، مبلغین کے بیانات ہوتے یں، ذکر الٰہی کے بعد دعا ہوتی ہے۔ اس کے بعد لوگ مختلف چھوٹے چھوٹے حلقوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں اور ہر حلقے میں ایک مبلغ کسی خاص موضوع کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کی سنتیں بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد شرکاء اجتماعی کھانا کھاتے ہیں اور تہجد تک آرام کرتے ہیں۔ تہجد اور فجر کی نماز کے بعد ایک مختصر بیان ہوتا ہے اور آخر میں صلاۃ و سلام پر یہ ہفتہ وار اجتماع اختتام کو پہنچتا ہے۔ اسی طرح خواتین کیلئے جنھیں دعوت اسلامی میں اسلامی بہنیں کہا جاتا ہے، ہر اتوار کو فیضان مدینہ کراچی میں نماز ظہر سے نماز عصر تک اجتماع منعقد کیا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر شہروں میں بھی یہ اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔

دعوت اسلامی کے ہفتہ وار اور سالانہ اجتماعات بہت پر اثر ہوتے ہیں۔ ان اجتماعات میں شرکت کرنے والے اپنے اندر تبدیلی محسوس کرتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ غیر مستند واقعات اور قصے کہانیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ میں نے ذاتی طور پر ان اجتماعات میں شرکت کرکے اپنے اندر تاثیر محسوس کی ہے۔

۶۔ مدنی تربیت گاہ

دعوت اسلامی کے زیر انتظام پاکستان اور بیرون ملک مختلف ادارے سرگرم عمل ہیں۔ ان اداروں کو مدنی تربیت گاہوں کا نام دیا جاتاہے۔ ان تربیت گاہوں کے مقاصد مندرجہ ذیل ہیں۔

i۔ قرآن پاک ناظرہ اور حفظ کی تعلیم دی جائے۔ نیز تجوید کے اصولوں کو طلباء کے ذہن نشین کرایا جائے۔

ii۔ ان تربیت گاہوں میں آٹھ سالہ شریعت کورس کرایا جاتا ہے تاکہ علماء کی ایسی کھیپ تیار کی جاسکے جو دعوت اسلامی کے کام کو آگے بڑھائے۔

iii۔ مدنی تربیت گاہوں میں طلباء کو سنت رسول ﷺ کی تعلیم دی جاتی ہے اور اُن کے دلوں میں حضور اکرم ﷺ کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

iv۔ مختلف قسم کے مختصر کورسز مثلاً امام کورس، مبلغ کورس وغیرہ بھی مدنی تربیت گاہوں میں منعقد کیے جاتے ہیں۔

بلاشبہ مدنی تربیت گاہوں میں طلباء کو بہترین ماحول فراہم کیا جاتا ہے اور صاحبان علم و عمل کے زیر تربیت طلباء کے کردار پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خاص طور پور اُن کے اند صبر و حلم کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔

۷۔ مکتبہ المدینہ

دعوت اسلامی کا یہ شعبہ مذہبی کتابیں، کتابچے، پمفلٹ وغیرہ شائع بھی کرتا ہے اور تقسیم بھی۔ اس شعبے کے تحت آڈیو کیسٹس اور قرآت، نعت، تقاریر وغیرہ کی سی ڈیز بھی جاری ہوتی ہیں۔ اس شعبے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور بیرون ملک اسلامی لٹریچر ارزاں قیمت پر زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔

۸۔ مجلس فیضان قرآن

مجلس فیضان قرآن دعوت اسلامی کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ یہ ایک غیر سیاسی مجلس ہے جس کے قیام کا مقصد معاشرے کے تمام طبقات کے لوگوں کی اخلاقی، دینی و اصلاحی تربیت کرنے اور انہیں معاشرے کا باکردار شہری بنانا ہے۔ تاکہ دنیا و آخرت کی بہتری کے لئے ہر مسلمان اپنا مثبت ذہن بنا سکے کہ ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ ‘‘ اصلاح اُمت کے جذبے کے تحت پاکستان کی کئی جیلوں میں دینی کام ہورہا ہے۔ اس غیر سیاسی مجلس کے تحت قیدیوں کو قرآن و سنت، نماز، روزہ، قاعدہ، ناظرہ، حفظ قرآن، تجوید کورس، شریعت کورس، امامت کورس، ترجمہ و تفسیر کورس، مدرس کورس، عربی لینگوئج کورس، کرائے جا رہے ہیں۔ نیز معاشی استحکام کے لئے کمپیوٹر کورس، اور ٹیکنیکل کورسز بھی کرائے جاتے ہیں۔ پاکستان بھر میں ۴۰سے زیادہ جیل مدارس قائم ہو چکے ہیں۔ سندھ کی ایک جیل میں قیدیوں کو باقاعدہ درس نظامی کرایا جارہا ہے نیز کئی جیلوں میں ماہانہ اور ہفتہ وار اجتماع ذکر و نعت کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ کی جیلوں میں مجلس فیضان قرآن کی جانب سے مسجد، مدرسہ وغیرہ کی تعمیر کا کام ہورہا ہے۔

مجلس فیضان قرآن کی کاوشیں جذوی حد تک قابل قدر ہیں۔ قیدیوں کو قرآن و سنت کی تعلیم کے ذریعے معاشرے کا سودمند شہری بنایا جاسکتا ہے اور یہ کام مجلس فیضان قرآن ایک حد تک انجام دے رہی ہے۔ کچھ اور تنظیمیں بھی اس مقصد کے لیے سرگرم ہیں مثلاً جماعت اسلامی۔

 ۹۔ مدنی چینل

دعوت اسلامی کے زیر انتظام ۲۰۰۸ء میں مدنی چینل کے نام سے ٹی وی چینل کا آغاز کیا گیا۔ یہ چینل پوری دنیا میں دعوت اسلامی کی سرگرمیوں کی نشرواشاعت کا اہم ذریعہ ہے۔

تقابل دعوت اسلامی و تبلیغی جماعت

برصغیر پاک و ہند میں تبلیغی جماعت بھی دین اسلام کی دعوت کے اعتبار سے خاصی شہرت رکھتی ہے اور بلا مبالغہ یہ ایک بین الاقوامی تحریک بن چکی ہے کیونکہ اس تحریک کے وفود پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے جاتے ہیں۔ دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت کے طریقہ کار میں کچھ چیزیں مماثلت رکھتی ہیں جبکہ کئی باتوں میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔

مماثلت

i۔ دونوں تحریکیں دین اسلام کے بارے میں محدود تصور رکھتی ہیں۔ ان جماعتوں نے اسلام کو مذہب بنالیا ہے۔ یعنی چند عبادات اور رسومات کا مجموعہ۔ جبکہ اسلام کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام کا نقشہ ان دونوں جماعتوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت کبھی بھی دین اسلام کے غلبے کی بات نہیں کرتیں۔

ii۔ دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت افراد کی انفرادی اصلاح پر توجہ دیتی ہیں۔ معاشرے کی اجتماعی اصلاح کا ان دونوں کے پاس کوئی پروگرام نہیں۔ معاشرے میں اجتماعی سطح پر اگر اﷲ رب العزت کے احکامات ٹوٹ رہے ہوں، سودی کاروبارعروج پر ہو، بے حیائی اور فحاشی زوروں پر ہو، کبھی بھی دعوت اسلامی یاتبلیغی جماعت کی طرف سے احتجاج نہیں ہوگا، کیونکہ یہ جماعتیں ایسے احتجاج کو وقت کا ضیاع سمجھتی ہیں۔

iii۔ دعوت اسلامی اورتبلیغی جماعت، افراد کی اصلاح کے لئے ایک خاص ماحول فراہم کرنے کی اہمیت پر بہت زور دیتی ہیں۔ تبلیغی جماعت میں افراد کو سہ روزہ، سات روزہ، چالیس دن (چلہ)، چار ماہ، نو ماہ اور ایک سال کے لئے تبلیغی کام میں مصروف رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح دعوت اسلامی میں افراد کو ۳دن، ۴دن، ۱۲دن، یا ۳۰دنوں کے لئے تبلیغی دوروں پربھیجا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی بھی اصلاح کریں اور دوسروں کی اصلاح کے لئے بھی محنت کریں۔

iv۔ یہ بات عام مشاہدے کی ہے کہ تبلیغی دوروں کے دوران دونوں جماعتوں کے کارکنوں میں بہت زیادہ عاجزی اور انکساری دیکھنے میں آتی ہے۔ لیکن عام حالات میں یہی کارکن روکھے پن اور عدم تعاون کا رویہ ظاہر کرتے ہیں جس سے بے عمل لوگوں میں دین سے مزید دوری پیدا ہوتی ہے۔

v۔ دونوں جماعتوں نے ہدایت کا ذریعہ قرآن مجید کو نہیں بنایا۔ تبلیغی جماعت کا ذریعہ دعوت تبلیغی نصاب (فضائل اعمال) ہے اور دعوت اسلامی کا ذریعہ دعوت فیضان سنت نامی کتاب ہے۔

vi۔ دونوں جماعتوں میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ دونوں کے بانیان کے نام محمد الیاس ہیں اور دونوں کے کارکن اپنے قائدین سے پرستش کی حد تک عقیدت رکھتے ہیں۔

vii۔ دونوں جماعتوں کے لٹریچر میں قتال فی سبیل اﷲ کا کہیں تذکرہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہود و نصاریٰ دونوں جماعتوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت میں جہاں مختلف معاملات میں مماثلت پائی جاتی ہے وہیں کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں دونوں جماعتوں میں اختلاف موجودہے۔ ذیل میں اُن اختلافی نکات کی وضاحت کی جاتی ہے۔

اختلافی نکات

i۔ دعوت اسلامی کے بانی مولانا محمد الیاس امام احمد رضا خاں بریلوی کے معتقد ہیں اور انہی کے نظریات کے پیروکار ہیں۔ گویا کہ دعوت اسلامی بریلوی مسلک کی نمائندہ جماعت ہے۔ اس کے برعکس تبلیغی جماعت کے علماء اگرچہ یہ دعویٰ تو کرتے یں کہ اُن کا کسی مسلک سے تعلق نہیں لیکن اُن کا دعویٰ درست نہیں کیونکہ تبلیغی جماعت کے تمام علما دیو بندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ خود مولانا محمد الیاس بھی دارلعلوم دیوبند سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔

ii۔ دعوت اسلامی کے مبلغین اپنے بیانات میں حضور اکرم ﷺ کی سنتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مثلاً آپ ﷺ کا کھانا کھانا، آپ ؐ کا سونا، جاگنا، پانی پینا وغیرہ۔ نیز خوابوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن کے ذریعے مولانا محمد الیاس کی محبت دلوں میں اُجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جبکہ تبلیغی جماعت کے مقررین اپنی گفتگو صرف چھ نمبروں تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ چھ نمبر یوں ہیں۔ ۱۔ کلمہ طیبہ، ۲۔ نماز، ۳۔ علم و ذکر، ۴۔ اکرام مسلم، ۵۔ اخلاص یعنی تصحیح نیت، ۶۔ دعوت تبلیغ۔

تبلیغی جماعت میں خواب بیان کرنے کی شدید حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ البتہ مختلف مقررین اپنے تبلیغی دوروں کی روداد ضرور بیان کرتے ہیں۔ اس روداد کے لئے تبلیغی جماعت میں ’کار گزاری‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

iii۔ دعوت اسلامی کے کارکن تبلیغی دوروں کے دوران صرف بریلوی مسلک کی مساجد میں جاتے ہیں اور صرف بریلوی مسلمانوں کو دعوت اسلامی میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ تبلیغی جماعت کے کارکنوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ تمام مسالک کی مساجد میں جائیں اور ہر طرح کے افراد سے مل کر اُنہیں تبلیغی جماعت میں شامل کریں۔ اس انداز تبلیغ کی وجہ سے بعض اوقات تبلیغی جماعت کے کارکنوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

iv۔ اگر فیضان سنت اور تبلیغی نصاب (فضائل اعمال) کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو تبلیغی نصاب میں ضعیف روایات کی تعداد فیضان سنت کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے۔

v۔ تبلیغی جماعت کا قیام ۱۹۲۴ء میں عمل میں آیا جبکہ دعوت اسلامی ۱۹۸۱ء میں قائم ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ تبلیغی جماعت کا حلقہ اثر دعوت اسلامی کے مقابلے میں وسیع ہے۔

نتائج

i۔ دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت کے طریقہ کار کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دین حق کا غلبہ ان دونوں جماعتوں کے پیش نظر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم طاقتیں ان جماعتوں کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتیں۔

ii۔ ان جماعتوں کے اثر رسوخ کے تحت عام آدمی یہ سمجھنے لگ گیا ہے کہ اگر اس نے نماز، روزہ وغیرہ کی پابندی کرلی تو وہ جنت میں چلا جائے گا خواہ اس کا سارا کاروبار سود پر ہی کیوں نہ چل رہا ہو۔

iii۔ دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت نے مسلمانوں کو قرآن مجید سے بہت دور کردیا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں جماعتیں قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔

iv۔ دعوت اسلامی کے ماننے والے دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے۔ یہی معاملہ تبلیغی جماعت کا ہے۔ اس طرح یہ دونوں جماعتیں مذہبی منافرت کو ہوا دیتی ہیں۔

 

 

خاتمہ کلام

تنظیم اسلامی نے  قرآن مجید کو بنیاد بنا کر اپنے پیغام کو عام کرنے کی سعی کی ہے۔ بانی تنظیم کے بیان کردہ منہج انقلاب نبوی ﷺ سے  بعض اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔ یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا اقلیت ایک نظریہ کو درست سمجھتے ہوئے اکثریت پر اپنی سوچ مسلط کر سکتی ہے؟

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی نے پوری دنیا میں اثرات مرتب کیے ہیں، تاہم  یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان جماعتوں نے دعوت و تبلیغ کے لیے قرآن مجید کو بنیادی ذریعہ کی حیثیت سے اختیا ر نہیں کیا۔ تبلیغی جماعت میں فضائل اعمال  نامی کتاب جبکہ دعوت اسلامی میں  فیضان سنت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

تحریک ختم نبوت  کے ذریعے رسول اکرمﷺ کا   مقام اور آنجناب  کی حیثیت  پوری دنیا میں واضح ہوئی ہے نیز قادیانیوں کی  سازشوں سے  سادہ لوح مسلمانوں کو آگاہ کرنے کا سہرا بھی تحریک ختم نبوت کے سر ہے۔

مصنف اس بات کا  اعتراف کرتا ہے کہ  تنظیم اسلامی، تبلیغی جماعت اور تحریک ختم نبوت کے  اکابرین   کا اخلاص  بے مثال ہے۔ کسی جماعت  کے طریقہ کار اور نظریات سے اختلاف  کا مطلب ہرگز یہ نہیں   لینا چاہیے کہ  جماعت کے بانی یا  دیگر علماء کرام کی نیتوں پر شک کیا  جا رہا ہے۔ ادب کے ساتھ اختلاف کرنے اور دلیل کے ساتھ جواب دینے کی  روایت کو  مضبوط ہونا چاہیے۔

آخر میں  اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔



[1]   مولانا محمد الیاس قادری، تعارف از مفتی نیاز احمد سلیمانی قادری، فیضان سنت، ناشر مکتبہ المدینہ شہید مسجد کھارادر کراچی، ت۔ ن، ص ۶ تا ۳۱۔

[2]   محمد بن اسماعیل بخاری ؒ، صحیح بخاری، کتاب القدر، ح: ۶۵۹۴، دارالا شاعت کراچی، پاکستان۔

 

[3]   دعوت اسلامی کا تعارف، پیشکش مرکزی مجلس شوریٰ ( دعوت اسلامی)، شہید مسجد، کھارادر، باب المدینہ کراچی، پاکستان، سن اشاعت ۲۰۰۴ء، ص ۱۔

[4]   حوالہ سابق، ص ۳۔

[5]    حوالہ سابق، ص ۴۔

[6]   دعوت اسلامی کاتعارف، ص ۲۷، ۲۸۔

[7]  حوالہ سابق، ص۲۹۔

[8]      www.dawateislami.net

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...