Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

مقدمہ
Authors

ARI Id

1688382102443_56116049

Access

Open/Free Access

Pages

12

          ۲۰۰۹ء میں جب میں نے سرگودھا یونیورسٹی میں ایم۔ فل اُردو میں داخلہ لیا تو اُسی وقت سے ہی سیالکوٹ کے شعر و ادب کی تاریخ لکھنے کا خیال میرے ذہن میں تھا اور یوں بھی زمانہ طالب علمی سے جب میں مرے کالج سیالکوٹ میں بی۔اے کا طالب علم تھا تو میری دلچسپی سیالکوٹ اور اس کے گردو نواح میں تخلیق پانے والے شعر و ادب اور اس علاقے کی تاریخی ،سیاسی ، سماجی و تہذیبی اور جغرافیائی اہمیت سے تھی۔ میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ خطۂ سیالکوٹ کا روایتی ماحول تھا۔ یہ خیال آتا تھا کہ قدیم ترین خطۂ سیالکوٹ میں وقت کے ساتھ ساتھ جو تبدیلیاں رونما ہوئیں اور خاص طور پر جنھوں نے اس علاقے کے شعر و ادب کو متاثر کیا۔ اس کے بارے میں تحقیق ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے میں نے ۲۰۱۰ء میں سرگودھا یونیورسٹی میں ایم۔فل اُردو کے لیے تحقیقی مقالے ’’سیالکوٹ میں اُردو شاعری کا ارتقا ۱۹۴۷ء تا ۲۰۰۹ء ‘‘ کا انتخاب کیا۔ اس تحقیقی و تنقیدی مقالے میں شعرائے سیالکوٹ کے سوانحی حالات اور ان کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مقالے میں تشنگی رہہ گئی تھی کیوں کہ اس میں شاعری کی مکمل ادبی تاریخ کا بھی صحیح معنوں میں تحقیقی و تنقیدی جائزہ نہیں لیا گیا تھا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ سیالکوٹ کے شعری ادب کے ساتھ ساتھ نثری ادب کا بھی مکمل طورپر تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا جائے ۔اس عظیم کام کو سر انجام دینے کے لیے تحقیق کار نے ۲۰۱۲ء میں یونیورسٹی آف سرگودھا میں پی۔ایچ ڈی اردو میں داخلہ لیا۔ ۲۰۱۴ء میں یونیورسٹی نے ’’سیالکوٹ میں نقدو ادب کی روایت‘‘ عنوان کے تحت ریسرچ پروپوزل پی ایچ ڈی اُردو مقالے کے لیے منظور کی۔

          یہ مقالہ شروع کرنے سے پہلے میں نے سوچا کہ اس تاریخی علاقے کی ادبی تاریخ کے ان پہلوؤں کو تلاش کیا جائے جنھیں وقت نے فراموش کر دیا ہے چنانچہ اس کے لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ ادبی تاریخ کو معاصر منظر نامے تک لایا جائے اور عصرِ حاضر میں ادبی منظر نامے کو تنقیدی شعور کے ساتھ دیکھا جائے کہ خطۂ سیالکوٹ میں اُردوشعر و ادب بدلتے ہوئے علمی ،سیاسی ،سماجی و تہذیبی اور جغرافیائی تناظر میں کن کن تبدیلیوں سے دو چار ہوا۔ اب تک سیالکوٹ میں ادبی تاریخ کے حوالے سے جتنی تحقیق ہوئی وہ فرداً فرداً زیاد ہ تر شاعر ی پر ہوئی اور اس میں بھی کافی حد تک خامیاں موجود تھیں۔ نثری اور تنقیدی ادب کو بالکل نظر انداز کیا گیا۔ میرے اس مقالے میں پہلی مرتبہ شعری و نثری ادب کا تحقیقی و تنقیدی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔

          ایم۔ اے ،ایم۔فل اور پی۔ایچ ڈی کی سطح پر تاریخ ادب سیالکوٹ اور سیالکوٹ کی ادبی روایت کے جن پہلوؤں پر کام ہوا میں نے اس ریسرچ سے استفادہ بھی کیا اور نتائج اس انداز میں نکالے کہ جس سے تاریخ ادب کا ایک باب بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سیالکوٹ میں شعرو ادب کی روایت کا جائزہ لیتے ہوئے میں نے کوشش کی کہ اسے محض شعرا اور نثر نگاروں کا تذکرہ نہ بنایا جائے بلکہ اس بات کا کھوج لگایا جائے کہ ادب پر اثر انداز ہونے والے اس شہر اور باہر سے آنے والے ادبا، ادبی تحریکیں، ادبی تنظیمیں، ادبی ادارے اور مرکزی ادبی دھارے سے اخذ و قبولیت کے عوامل کا جائزہ اس خطے کے تخلیقی ادب سے لیا جائے اور گمنامی کے گوشوں میں موجود ادب کو بھی تلاش کیا جائے۔ اقبال شناسی اور فیض شناسی کی ایک پوری روایت عالمی ادب میں وجود میں آنے کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی اس خطے کے ادب میں اتنی گنجائش ہے کہ مزید کام کیا جاسکے۔ یہ تحقیق اصناف کے حوالے سے بھی ہو سکتی ہے اور رجحانات کے اعتبار سے بھی۔

          حضرت رائج سیالکوٹی ، دلشاد پسروری، مولوی فیروز الدین ڈسکوی ، محمد الدین فوق، پنڈت میلا رام وفا، مولانا ظفر علی خان، شجر طہرانی ، اثر صہبائی ، امین حزیں سیالکوٹی ،فاخر ہریانوی ،سلیم واحد سلیم ،آغا وفا ابدالی ،سرمد صہبائی ،یوسف نیر، سدرشن ،صابر ظفر، جوگندر پال، غلا م الثقلین نقوی، جابر علی سید، عبدالحمید عرفانی ، طفیل ہوشیار پوری ،حفیظ صدیقی اور طاہر شادانی پرفرداً فرداً تحقیقی و تنقیدی کام ہوا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد ادیب ایسے ہیں جن پر تا حال کام نہیں ہوا ان میں بشیر احمد چونچال سیالکوٹی ،مجید تاثیر سیالکوٹی ،میرزا ریاض ،ریاض حسین چودھری، آسی ضیائی رامپوری ،تاب اسلم ، خالد نذیر صوفی ، حبیب کیفوی ،آثم مرزا، ضیا محمد ضیا، مضطر نظامی ،ساغر جعفری ، قاضی عطا اﷲ عطا، رشید آفریں ،محمد جمیل پرواز ،اطہر صدیقی ، عبدالرحمان اطہر سلیمی ،امتیاز اوجھل، سید صادق حسین ،اے۔ڈی اظہر، عشقی الہاشمی ، اصغر سودائی ،سید عدید عمیرہ احمد اور شاہد ذکی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔اس طرح بہت سے انفرادی موضوعات پر کام نہیں ہوا جس سے خطہ سیالکوٹ کی ادبی روایت کا تاریخی ،سماجی اور ادبی تناظر میں ایسا تحقیقی و تنقیدی جائزہ مرتب کیا گیا ہے کہ ایک طرف یہاں کی ادبی روایت اپنے تسلسل اور ارتقاء کے ساتھ سامنے آئے۔ دوسری طرف وہ تمام ادیب جو تا حال گوشہ گمنامی میں پڑے ہیں سامنے آئیں تاکہ انفرادی تحقیق کے دروا ہو سکیں۔یہ مقالہ اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں سیالکوٹ میں مختلف ادوار میں لکھی جانے والی شاعری اور نثر پر زمانی ترتیب سے بحث کی گئی ہے۔

          سیالکوٹ کی ادبی روایت کا مفصل تجزیہ کرنے کے لیے مقالے کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔باب اول میں جغرافیائی تناظر، تاریخی تناظر ، تہذیبی و سماجی تناظراور ادبی تناظر(اشخاص، رسائل و جرائد، ادبی تنظیمیں ،ادبی ادارے) کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ باب دوم میں سیالکوٹ میں قبل از قیام پاکستان اور مابعد قیامِ پاکستان اُردو شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے۔باب سوم میں سیالکوٹ میں قبل از پاکستان اور مابعد پاکستان اُردو نثر کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ باب چہارم میں سیالکوٹ میں اردو تنقید کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ باب پنجم میں اس تحقیقی و تنقیدی مقالے کا محاکمہ پیش کیا گیا ہے۔ اس مقالے میں تحقیق کا دستاویزی طریقہ کار(تاریخی طریقہ، تقابلی طریقہ، تجزیاتی طریقہ)اور عمرانی طریقہ کار(انٹر ویو، سوالنامے، مراسلت )اختیار کیا گیا ہے۔

          کسی بھی ادبی موضوع پر قلم اُٹھانا اور تحقیقی کام کرنابہت مشکل کام ہوتا ہے لیکن مجھے زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ اس کٹھن کام کو مکمل کرنے میں میرے مہربان اساتذہ نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ میں سب سے زیادہ اُستاد محترم ڈاکٹر غلام عباس گوندل صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اپنی نگرانی میں اس موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے کی اجازت میں میری بھرپور مدد کی اور ان کی نگرانی میں مجھے مشکلات کا احساس نہیں ہوا۔ ان کے مخلصانہ مشور ے اور محبت میرے لیے باعث فخر ہے۔

          میری سب سے زیادہ خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر سید عامر سہیل(صدر شعبہ اُردو) جیسے مستند اور جفا کش محقق و نقاد اور میرے محسن استاد نے بھی قدم قدم پر میری رہنمائی کی ہے۔ ان کی رہنمائی اگر شامل حال نہ ہوتی تو شاید میں اس تحقیقی کام کو مکمل نہ کر پاتا۔ میں ممنون ہوں اپنے اساتذہ کرام ڈاکٹر محمد یار گوندل صاحب، ڈاکٹر خالد ندیم، ڈاکٹر عظمیٰ سلیم صاحبہ، ڈاکٹر سمیرا اعجاز صاحبہ اور پروفیسر شاکر کنڈان صاحب کا کہ انھوں نے میرے جیسے نا تجربہ کار محقق کی دلچسپی کے ساتھ رہنمائی فرمائی اور میری تحریر میں پختگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُستاد محترم پروفیسر یوسف نیر مرحوم کا بھی احسان مند ہوں کہ انھوں نے سیالکوٹ کے ادیبوں کے بارے میں بیش بہا معلومات فراہم کیں۔جی سی یونیورسٹی کے چیف لائبریرین عبدالوحیدشیخ اور ینٹل کالج یونیورسٹی کے چیف لائبریرین محمد صالح اقبال لائبریری سیالکوٹ کے انچار ج محمد عامر خان صاحب،قائد اعظم لائبریری لاہور کے چیف لائبریرین ،پنجاب پبلک لائبریری لاہور کے چیف لائبریرین ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آبادلائبریری کے انچار ج اور اقبال منزل سیالکوٹ کے انچار ج سید ریاض حسین رضوی کا بے حد مشکور ہوں کہ انھوں نے نایاب کتب اور تحقیقی مقالہ جات کی فراہمی میں میری بہت زیادہ مدد کی۔ ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر ،ڈاکٹر طاہر تونسوی ، ڈاکٹر طارق کلیم ، ڈاکٹرعابد خورشید، احمد عبداﷲ اور فہد ابرار کا بے حد شکر گزار ہوں کہ مقالے کی تکمیل میں ان پر خلوص کرم فرماؤں نے میرے تحقیقی کام کو سہل بنا دیا۔میں اپنے بھائی حافظ محمد سعید، ڈاکٹر عبدالمنان چیمہ اور دوست محمد ابوبکر کی چاہتوں کا بھی بہت مقروض ہوں کیونکہ ان لوگوں نے مجھے مکمل فراغت کا ماحول فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ خصوصاً اپنی رفیقہ حیات آسیہ خانم ایم ایس سی بائیو کیمسٹری (ہیڈ مسٹریس) اور بیٹوں عمر ،حارث اور حسن کا بے حد ممنون ہوں جنھوں نے مقالہ لکھنے میں مجھے بہت وقت دیا۔میں درویش صفت والد مرحوم اور والدہ صاحبہ کا بھی بے حد مشکور ہوں کہ جن کی دعاؤں اور تربیت کی بدولت اس مقام پر پہنچا اور تحقیقی مشن میں کامیاب ہوا ہوں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...