Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > تاریخِ ادبیاتِ سیالکوٹ ایک مطالعہ

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

تاریخِ ادبیاتِ سیالکوٹ ایک مطالعہ
Authors

ARI Id

1688382102443_56116052

Access

Open/Free Access

Pages

16

          دریائے چناب جوچن اور آب کا مرکب ہے ۔نیز چندرا اور بھاگا دو دریاؤں کے ملنے سے وجود میں آیا ،ایک طرف تو (چن اور آب )حسن و خوب صورتی کا استعارا ہے تو دوسری طرف(چندرا بھاگا) معنوی لحاظ سے چاند کی قسمت لیے ہوئے ہے۔ اسی لئے اسے دریائے حسن و عشق کے نام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ حسن اور عشق لازم و ملزوم ہیں ۔ یعنی جہاں حسن ہوتا ہے وہاں عشق ہوتا ہے ۔حسن میں جمالیات اور عشق میں جمالیاتی حظ اور ذوق ہوتا ہے ۔یہ حظ اور ذوق تخلیق کا باعث بنتے ہیں ۔شاعری اور ادب چوں کہ تخلیقی عمل ہے ،لہٰذا اس سارے سلسلے کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں دریائے چناب کا تعلق ہے تو اسے دانشورانِ عصر نے بہت سوچ سمجھ کر دریائے حسن و عشق کا نام دیا ہے ۔کیوں کہ اس کے کناروں پر آباد بستیوں میں بسنے والوں کو خالقِ کائنات نے حسنِ وافر عنایت فرمایا ہے جس نے عشق کی بنیاد رکھی۔یہی حسنِ وافراور عشق ادب کی تخلیق کا باعث ٹھہرا ہے ۔ سیالکوٹ بھی دریائے چناب کے کنارے ایک ایسی ہی بستی ہے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ عکسِ زندگی اور نقدِ زندگی کی بھی فراوانی ہے۔اس دھرتی پر زندگی کا عکس پیش کرنے اور زندگی کو اپنی تنقیدی صلاحیتوں سے نکھارنے والی ایسی ایسی شخصیات نے جنم لیا جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس دھرتی کی پہچان بنیں ۔ان معتبر شخصیات میں سے بہت سا ذکر آپ کو ’’تاریخِ ادبیاتِ سیالکوٹ‘‘ میں پڑھنے کو ملے گا لیکن تحقیق میں چوں کہ حرفِ آخر نہیں ہوتا اس لئے اس تحقیق میں بھی کئی نام ایسے رہ گئے ہیں جن کا ادبی مقام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔اِس مقالے میں مطالعہ کرتے ہوئے یوں تو تقریباً۱۵۰ شعراء اور ادباء کا ذکر ملتاہے لیکن ان میں سے ۲۹ شخصیات کا تعارف دو یا تین بار ہوا ہے ۔یوں کل ۱۱۸ شخصیات کے لگ بھگ ایسی ہیں جن کا تعارف یا نگارشات پر تبصرہ ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے ۔ مقالے میں اس طرح کی تکرار ابواب بندی کے تحت ضروری ہوتی ہے اور یہی تحقیق کا تقاضا ہے کیوں کہ جب اصناف کی الگ الگ بحث کی جاتی ہے تو جن اشخاص نے کئی کئی اصناف میں کام کیا ہوتا ہے انہیں بار بار مقالے کا حصہ بنانا مقالہ نگار پر فرض بھی ہے ، لازم بھی اور مجبوری بھی ۔ اس مقالے میں نثر ، نظم اور تنقید کو چوں کہ زیرِ بحث لایا گیا ہے اس لئے جن ادیبوں نے تینوں حوالوں سے کام کیا ہے ان کا تعارف تین بار ، جنہوں نے دو اصناف میں کام کیا ہے انہیں دو بار شامل کیا گیا ہے ۔بہر حال اسے میں حرفِ آخر کے طور پر محفوظ رکھتے ہوئے یہاں ایک طائرانہ نظر اس مقالے پر ڈالنا چاہوں گا۔جی ہاں ! ڈاکٹر نصیر احمد اسد کو اس مقالے کی اساس اور دفاع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری کے قابل سمجھتے ہوئے اسے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگا نے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی۔آپ کا ایم فل کا مقالہ سیالکوٹ کی شعری پہچان کے حوالے سے تھا گویا تیکنیکی طور پر تو نہیں لیکن نظری طور پر اگر اسے لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی کہہ دیا جائے تو میرے خیال میں عام قاری کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔اساتذہ کی بات ایک سپیشلسٹ والی ہے جنرل فزیشن والی نہیں لہٰذا ان کی تشخیص جنرل فزیشن سے واقعتاً مختلف ہو گی ۔

          ’’پاکستان کا سٹالن گراڈ‘‘ روس کے شہر سٹالن گراڈ سے ہزاروں سال پہلے وجود میں آ چکا تھا ۔ یہ الگ بات کہ اُس کو دوسری عالمی جنگ میں لہو کی ندیاں بہانے کے بعد شہرت ملی اور سیالکوٹ کو ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کی ہولناکی دیکھنے اور خون کا نذرانہ دینے کے بعد سٹالن گراڈ کی نسبت دی گئی ۔ سٹالن گراڈ کا نام تو دوسری جنگِ عظیم کے بعد تبدیل کر دیا گیا لیکن سیالکوٹ آج بھی دھرتی پر اپنے اصل نام سے موجود ہے ۔

          نصیر احمد اسد کے اس مقالہ کی تہذیب کے دوران میں باب بہ باب اس کی مشاورت میں شامل رہا ہوں لیکن تکمیلی لمحات کے دوران میں شاید وہاں موجود نہیں تھا ۔میرا اگر چہ وہ قد کاٹھ نہیں ہے لیکن مجھے یہاں اسد کی محبت کااعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اس نے مجھے وہ عزت دی جو شاید میری فکری اپج سے بالا ہے۔ نیز کتابی صورت میں لانے اور اشاعت میں بھی مجھے مشاورت کا شرف حاصل رہا ۔ اس پریہ کہ دیباچہ لکھنے کے لئے ناچیز کا انتخاب میرے ادبی قد کو مزید بڑھانے کا باعث بنا ۔

          ’’تاریخِ ادبیاتِ سیالکوٹ ‘‘اگر چہ ڈگری کے حصول کے لئے لکھا گیا اورڈگری کے حصول کے لئے لکھے جانے والے مقالات بڑے محدود ہوتے ہیں ۔اگرچہ تسوید سے قبل مقالہ نگار ذہنی اور فکری طور پر بالکل بالغ ہو چکا ہوتا ہے۔(قارئین سے گزارش ہے کہ بالغ کو بلوغت نہیں بل کہ بلاغت کے پس منظر میں دیکھا جائے ۔)لیکن اس کی یہ وسعتِ فکر و ذہن اس لئے استعمال نہیں ہو سکتی کہ ایچ ای سی کی قیادت لٹریچر سے ان جان ہونے کی وجہ سے سائنسی علوم کی پابندیاں ادب کے سکالر پر بھی لاگو کر دیتی ہے ۔حالاں کہ سائنس میں ۲+۲ =۴ ہیں اور بس چار ۔اس سے شمہ برابر بھی اِدھر ،اُدھر گناہ تصور ہوتا ہے جب کہ ادب میں ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کبھی سوا چار اور کبھی پونے چار بھی ماننا پڑتا ہے۔اس پالیسی کے تحت سپر وائزر کا بال پوائنٹ ہر وقت کھلا رہتا ہے اور جیسے ہی وہ سائنسی اصول کی حد ٹاپنے لگتا ہے ۔فوراً ہی بال پوائنٹ چل جاتا ہے جس کی زد میں کئی اچھے ، خوب صورت جملے اور پیرے بھی آ جاتے ہیں ۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں نصیر احمد اسد کے سپروائزر نے اپنی حدود سے تجا وز کرتے ہوئے اسے کھلی تو نہیں لیکن کسی حد تک چھٹی دے رکھی تھی اور یہ اندازہ اس کے مقالہ کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے کہ ساڑھے تین سو صفحات کی مقررہ حد کو اس نے لانگ جمپ(long jump) سے نہیں بل کہ ٹرپل جمپ (triple jump)سے اس قدر ٹاپا کہ مقررہ حد بہت پیچھے رہ گئی یہی وجہ ہے کہ یہ مقالہ صرف شاعری یا فکشن تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کو تھوڑے سے ردو بدل کے ساتھ اگر الگ الگ ترتیب دیا جائے تو یہ ایک علاقائی تذکرہ بھی ہے ایک تاریخ بھی ہے،جغرافیہ ہے، کتب کا توضیحی اشاریہ ہے ،سیال کوٹ کی ادبی تاریخ ہے اور سب سے بڑھ کریہ کہ یہ شخصیات کا انسائیکلو پیڈیا ہے ۔اس کا کریڈٹ جہاں نصیر احمد اسد کے وسعتِ مطالعہ اور فکری اپج کو جاتا ہے وہیں اُن کے سپر وائیزر کی وسعتِ قلبی کی داد بھی دینی پڑتی ہے ۔MOI میں پڑھایا جاتا ہے کہ خود کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جائے تو وہ مثال مؤثر ہوتی ہے ۔سو یہاں میں اپنی مثال پیش کرنا چاہوں گا ۔نصیر احمد اسد کا پی ایچ ڈی کا ڈیفنس جولائی ۲۰۲۱ء میں ہوا ۔میرا پی ایچ ڈی تقریباً اس سے ایک سال قبل ہوا۔ میرے سپروائیزر بہت فراخ دل تھے اور انہوں نے دورانِ مقالہ مجھے نہیں پوچھا کہ میں کیا لکھ رہا ہوں اور کیسے لکھ رہا ہوں ۔خاکہ کی تیاری کے بعد میں نے کام شروع کر دیا ۔چوں کہ میرے کام میں زمان و مکاں کی قید نہیں تھی لہٰذا پہلا باب میں نے حضرت آدم علیہ السّلام سے حضرت امیر خسرو تک ترتیب دیا ۔Pre Defenceتک میں اپنا مقالہ تقریباً مکمل کر چکا تھا ۔جب پری ڈیفنس کے وقت میں نے اس پر بات کی تو وہاں بیٹھے ایک سینیئر ڈاکٹر صاحب نے اسے غیر متعلق قرار دے کر رد کر دیا ۔ بہر حال وہ باب ’’اردو کی بنیاد میں اردو کا حصہ ‘‘ کے نام سے اسی عرصے میں کتابی صورت میں شائع ہو گیا ۔دوسرا یہ ہوا کہ میرا مقالہ جمع ہو گیا اور رپورٹ پہنچ گئیں ۔ ڈیفنس نزدیک تھا کہ ایچ ای سی کا یہ حکم مجھے موصول ہوا کہ مقالہ کی ضخامت ساڑھے تین سو صفحات سے کسی صورت زیادہ نہیں ہونی چاہیے ۔میرے سپروائزر نے ان سے بات بھی کی لیکن وہ نہیں مانے ۔میرے لئے مسئلہ یہ تھا ایک سو سے زائد صفحات کتابیات اور ماخذات کے تھے ۔ بہر حال نصیر احمد اسد خوش قسمت ہے کہ اس کے سپر وائزر نے اسے مکمل آزادی دی اور اُس نے کھل کر اپنی خواہش کے مطابق مدتوں سے ذہن میں جو ایک خاکہ بنا رکھا تھا اُسے اوراق پر اُلیک دیا ۔

          ’’تاریخِ ادبیاتِ سیالکوٹ‘‘بظاہر پانچ ابواب پر مشتمل ہے لیکن اس میں کئی موضوعات موجود ہیں ۔ جس کا ذکر محقق نے خود اپنے ابتدائیہ میں کر دیا ہے ۔میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ مقالہ اپنے اسلوب میں سیالکوٹ کا انسائیکلو پیڈیا ہے ۔ اگر مقالہ نگار خود یا کوئی دوسرا شخص اس کو انسائیکلو پیڈیا کی طرز پر چند اضافوں کے ساتھ ترتیب دے تو انسائیکلو پیڈیا کی اصل صورت اختیار کر سکتا ہے ۔سیالکوٹ کی اِس ادبی سر گزشت کو

          اگر با حق نیازے ہست حاجت نیست تعمیرے : ستون و سقفِ درویشاں ہمیں دستِ دعا باشد

          جیسے خوبصورت شعر کے خالق میرزا محمد علی رائج سیالکوٹی جن کا فارسی دیوان ،مرکزِ تحقیقِ فارسی ایران و پاکستان نے شائع کیا ، سے شروع کرکے ساحل سلہری(پ:۱۹۸۲ء) کی تنقیدی کتاب ’’عباس تابش ایک مطالعہ‘‘ پر ختم کیا گیا ہے ۔ساحل سلہری کی اس کے بعد بھی چند کتب شائع ہو چکی ہیں لیکن صاف ظاہر ہے وہ اس مقالے کے بعد منظرِ عام پر آئیں ۔یوں زیرِ نظر کتاب میں سیالکوٹ کے ادبی منظر نامے کے تقریباًتین سو سال کے عہد کو قلم بند کیا گیا ہے ۔ نصیر احمد اسد نے رائج سیالکوٹی سے پہلے کے جس شاعر (محمد خان وامق)کا حوالہ دیا ہے میرے علم کے مطابق اس کی ولادت رائج کے بعد کی تسلیم کی جاتی ہے ۔

          ’’پاکستان کا سٹالن گراڈ ‘‘روس کے سٹالن گراڈ سے صدیوں پر دھرتی کے سینے پر اپنا وجود قائم کر چکا تھا ۔دوسری جنگِ عظیم میں سٹالن گراڈ نے اپنے وجود پر لہو کی ندیاں بہتے دیکھیں تو پاکستان کے اس سٹالن گراڈ نے ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں اپنے پیٹوں کو خون میں نہاتے دیکھا ۔اس شہر نے جرأت اور خون کا وہی منظر دیکھا جو روس نے اپنے سٹالن گراڈ میں دیکھا تھا۔اُس شہر نے اپنا نام اب تبدیل کیا جب کہ یہ شہر شاکل یا شاکلہ سے سل یا سالبان کے آنے کے بعد سیالکوٹ بنا ۔ اس شہر نے تاریخ کو تبدیل ہوتے دیکھا ، جغرافیہ کو بدلتے دیکھا ، سیاست میں تبدیلیاں دیکھیں ، جنگوں کے مناظر دیکھے ، آرت اور مصوری کی نمائشیں دیکھیں ، معاشی اور معاشرتی تغیر سے واسطہ پڑا۔ ادب میں نت رونما ہوتی تبدیلیاں دیکھیں اور ان تمام عوامل کا ذکر نصیر احمد اسد نے اپنے اس مقالے میں کیا ہے ۔جس نے مجھے کم از کم اپنے حصار سے نکلنے نہیں دیا۔اسد نے مہابھارت میں سیالکوٹ کا نام شامل ہونے کا حوالہ دیا ہے اور اسے پانچ ہزار قبل مسیح کا زمانہ لکھا ہے ۔مہا بھارت کو ہم بالکل نارمل لیتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ۔اس کے اشلوکوں کی تعداد ۲۵ لاکھ الفاظ بتائی جاتی ہے جو ۱۸ جلدوں پر مشتمل ہے ۔سنسکرت میں ویاس نے است تحریر کیا ۔اس کے کچھ حصوں کے ترجمے میری نظر سے گزر چکے ہیں ۔یہ بھارت خاندان کی بہت بڑی کہانی ہے ۔وکی پیڈیا میں اس کا عرصہ ۲۸ سے ۲۴ صدیاں پہلے ،جب کہ مہا بھارت کا قابلِ قبول دور ۳۱۰۲ قبل مسیح اور دوسری روایت کے مطابق ۱۰۰۰ قبل مسیح ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافے ہوتے رہے اور یہ عمل ۲۵۰۰ ق۔م سے ۸۰۰ ق۔م تک جاری رہا (روایات میں اختلاف کے باعث ۳۵۰۰ قبل مسیح سے ۸۰۰ء تک کا زمانہ بھی تاریخوں میں لکھا ملتا ہے) ۔جو تھوڑا بہت میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے اُن اشلوکوں میں شاکلا یا شاکل کا نام مجھے نظر نہیں آیا ۔ ۵۰۰۰ سال قبل مسیح کے حوالے سے دوسری بات جو میں کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ بائبل میں جتنی بھی تحریفات ہو چکی ہوں پھر بھی وہ ہمارے نزدیک مقدس اور قابلِ احترام صحیفہ ہے ۔ بائبل یا عہد نامہ عتیق کے پہلے باب(بابِ پیدائش) میں ہمیں پیغمبرانِ الٰہی علیہم السلام کی عمروں کا ،ایک نبی ؑ سے دوسرے نبی ؑکی پیدائش تک کا وقفہ ایک تسلسل سے مرقوم ہے۔اس تسلسل کو اگر جمع تفریق کیا جائے تو حضرت آدمؑ کے زمین پر وجود سے لے کرحضرت عیسیٰ علیہ السّلام تک تقریباً ۵۵۱۷ سال بنتے ہیں ۔امام ابنِ عساکر نے حضرت آدمؑ سے حضور نبی ِمکرم حضرت محمد ﷺ تک کا عرصہ ۷۷۳۸ سال لکھا ہے ۔نیز حضرت آدمؑ ،حضرت شیثؑ اوردیگر انبیاء پر اتارے گئے صحائف کے علاوہ جس پہلی کتاب کا ہمیں پتہ چلتا ہے ۔اس کا انگریزی میں " Book of the Dead"کے نام سے ترجمہ ہو چکا ہے اور وہ قابلِ قبول حوالے کے مطابق لگ بھگ ۲۲۵۰سال قبل مسیح میں تحریر ہوئی تھی ۔وکی پیڈیا میں اس کے سنین میں اختلاف ہے ۔لہٰذا ۵۰۰۰ قبل مسیح میں مہا بھارت کا لکھا جانا ذہن کی پہنچ سے باہر ہے ۔ پہلی بار میں نے شاکلا کا نام کچھ یوں لکھا ہوا پڑھا۔ ’’سکندرِ اعظم کے لوٹنے کے بعد کچھ لوگ برِ صغیر میں ہی رہ گئے اور وہ کوہ ہندو کش کے شمال میں آباد ہو گئے ۔(یہ روایت کالاش اور کافرستان کی آبادیوں کے بارے میں ہے) یہ لوگ ۲۵۰قبل مسیح میں خود مختار تھے اور باختر کے نام سے ایک حکومت قائم کر چکے تھے ۔(اس ریاست کا ذکر مقالہ نگار نے بھی کیا ہے)۔کچھ عرصہ بعد یہ لوگ فتوحات کی غرض سے نکلے اور دو حصوں میں بٹ گئے ۔ایک حصے کا مرکز بلخ اور دوسرے حصے کا ساگلا تھا (جسے راقم نے مقالہ نگار کے حوالے سے شاکل یا شاکلا لکھا ہے۔)ساگلا کا مشہور بادشاہ مینانڈر تھا جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ بدھ کا پیرو تھا۔ یہی ساگلا،شاکلا یا شاکل سیال کوٹ کا قدیم نام ہے ۔‘‘جو بعد میں راجہ سل عرف سلوان یا سالبان کے نام پر سیالکوٹ قرار پایا ۔

          میں نے جب ’’تاریخِ ادبیاتِ سیالکوٹ ‘‘ کا مطالعہ شروع کیا تو میرے ذہن میں سیالکوٹ کے حوالے سے کئی نام گردش کرنے لگے ۔جن کے حوالے سے مجھے یقین تھا کہ یہ نام شامل ہونے سے رہ گئے ہوں گے ۔اِن میں سے کئی نام تو ہمارے درمیاں گفتگو کا حصہ بن چکے تھے پھر بھی نہ جانے ذہن اُن کی شمولیت کے بارے میں تشکیک کا شکار تھا ۔پہر حال جوں جوں میں مطالعہ کرتا گیا وہ نام ایک ایک کرکے نظروں کے سامنے آتے گئے اور میں ہر نام کے دیکھنے پر نصیر احمد اسد کی محنت،وسعتِ مطالعہ اور تحقیقی شعور کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکا ۔اگر چہ مقالہ کی تہذیب کے دوران کئی شخصیات زیرِ بحث آئیں لیکن نہ جانے مجھے کیوں شک سا رہا کہ یہ نام ممکن ہے مقالہ نگار کو یاد نہ رہا ہو ۔اُن میں سے پہلا نام میلا رام وفا کا تھا لیکن میلا رام وفا کا تعارف اور کلام دیکھ کر اگلی سوچ مجھے بلرام کومل کی آئی لیکن اسے بھی آخری صفحات میں پا کر ساحل سلہری کا نام میرے ذہن میں آیا لیکن اس کا ذکر بھی موجود ہے ۔ سدرشن کا نام آیا تو وہ بھی موجود ،سجاد نقوی، سبطِ علی صبااور جوگندر پال کے نام ذہن میں آئے تو وہ بھی موجود ۔پورا مقالہ پڑھنے کے بعد چند نام جو میرے ذہن کے کینوس پر ابھرے وہ نام واقعی یہاں موجود نہیں تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ ۱۹۷۱ء کے لگ بھگ ایک ناول ’’ہیرا‘‘ سیالکوٹ سے شائع ہوا تھا جس کے مصنف محمد نواز تھے ۔میں نے نصیر احمد اسد سے اس کا ذکر بھی کیا تھا لیکن تلاشِ بسیار کے بعد اسے وہ ناول نہیں مل سکا ۔خیر یہ تو ایک غیر رسمی سی بات تھی ۔ جو اشخاص مجھے یاد آ رہے ہیں مجھے امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں ان ادبا و شعرا کو بتحقیق شامل کیا جائے گا ۔شاید ان میں سے کوئی نام کتاب کا حصہ ہو اور میری نظروں سے پوشیدہ رہا ہو ۔ لیکن پھر بھی ……تحقیق کا در کبھی بند نہیں ہوتا اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور کبھی کبھی کچھ منہا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ ہر آنے والا محقق کچھ نئے پہلو لے کر آتا ہے اور نئی چیزیں اجاگر کرتا ہے ۔

          میں نے ایک دفعہ مقالہ نگار سے اردو زبان کے شاعر ،مصنف ڈائریکٹر ، موسیقار ،ہندو مسلمان(افسانے)، نکاتِ زباندانی، شہابِ ثاقب ، اونسیاں (پنجابی، اردو، ہندی، فارسی۔مجموعۂ کلام) کے مصنف اور اردو میں پہلا ماہیا لکھنے کے دعوی دار ’’ہمت رائے شرما ‘‘کے بارے میں بتایا تھا کہ اس کا جنم ۱۹۱۹ء میں سیالکوٹ میں ہوا تھا ۔شاید یہ بات مقالہ نگار کے ذہن سے محو ہو گئی اسی وجہ سے اس کا نام مجھے دکھائی نہیں دیا ۔

          این اے صوفی ۱۹۴۲ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔مرے کالج سے گریجو ایشن کرنے کے بعد ایئر فورس جوائن کر لی اور گروپ کیپٹن کے عہدے سے پنشن یاب ہوئے ۔’’روپ ، دھوپ اور صحرا‘‘، ’’پھر وہی دن کا اجالا‘‘، ’’وارفتہ‘‘(شعری مجموعے)، ’’نا تمام کائنات‘‘(فلکیات) اور ’’ایک اور دستخط‘‘(افسانے) وغیرہ آپ کی تصانیف شائع ہو چکی ہیں ۔ایک مدت تک ہند و پاک کے ادبی رسائل میں متواتر سے شائع ہونے والے جناب حمید یورش نے بھی ۱۹۲۵ء میں ظفر وال میں آنکھ کھولی ۔میٹرک کے بعد فوج میں بھرتی ہو گئے اور اور میجر کے عہدے سے پنشن پائی۔ ۱۹۸۹ء میں راول پنڈی میں فوت ہوئے ۔زندگی میں ایک شعری مجموعہ ’’جوئے تشنۂ تلاطم‘‘ کے نام سے شائع ہوا ۔محمد طارق طور ۱۹۵۲ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے نثر میں ظرافت کو پیروڈی کا رنگ دیا ۔ ’’دروغ بر گردنِ قاری‘‘آپ کی پہلی مزاحیہ تصنیف ہے ۔

          پیر زادہ سید ظفر ہاشمی کی پیدائش ۱۹۰۵ء میں چک ہاشمیاں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ لاہور سے نکلنے والے معروف رسالے ’’عالم گیر‘‘ کے معاون مدیر اور امرتسر سے جاری ہونے والے ادبی پرچے’’چمنستان‘‘ کے مدیر رہے ۔ شاعری میں ’’حسنِ خیال‘‘ ، ’’حسنِ کلام ‘‘، ’’تنویرِ عجم ‘‘اور ’’آہنگِ ظفر‘‘ جب کہ نثر میں ’’مقالاتِ ظفر‘‘ اور ’’حسنِ ادب ‘‘ آپ کی تصانیف ہیں ۔

          ۱۹۲۲ء میں مترانوالی ضلع سیالکوٹ میں عالمِ ہست و بود میں آنے والی شخصیت انور گوئندی،جس نے کامران مشاعروں اور کامران رسالے کے حوالے سے برِ صغیر میں نام کمایا ۔جس کا کلام اور نگارشات آپ کی وفات کے بہت عرصہ بعد ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے ’’نوائے انور ‘‘ کے نام سے یک جا کر کے شائع کروائیں ،بھی مقالہ نگار سے کے تحت الشور میں ہی رہ گئے ۔

          حمایتِ اسلام کے مشاعروں اور صحافتی دنیا میں ’’اردو زبان‘‘ کے اجرا سے پہچان بنانے والے عصمت علیگ بھی ۱۹۲۷ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔آپ ڈاکٹر وزیر آغا کی محفلوں کی رونق ہوا کرتے تھے۔

          ’’لوح و قلم‘‘ ، ’’آئینۂ دل‘‘ اور ’’نوائے سروش ‘‘ جیسے شعری مجموعوں کے تخلیق کار شیخ غلام حسین قیصر جن کی میّت۱۴؍ اگست ۱۹۷۴ء کو وفات پانے پر اُن کے آبائی شہر سیالکوٹ میں پہنچائی اور دفن کی گئی ۔آپ حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے خاندان میں سے تھے ۔

          اگر ادب کی تعریفات میں سے اس نظریے یعنی ’’جو چیز احاطۂ تحریر میں آ جاتی ہے وہ ادب ہے‘‘کو درست مان لیا جائے تو ’’مرزائیت اور اسلام‘‘، ’’قادیانیت‘‘ ، ’’بریلویت تاریخ و عقائد‘‘، ’’الشیعہ و اہل البیت‘‘، ’’الشیعہ والسنہ‘‘ اور ’’تصوف تاریخ و عقائد ‘‘جیسی کتب کے مصنف علامہ احسان الٰہی ظہیر کو ادب سے خارج نہیں کیا جا سکتا اور آپ کا تعلق بھی سیالکوٹ سے تھا ۔

          اسلم کمال کو آرٹسٹ کے حوالے سے تو جگہ دی گئی لیکن ایک ادیب کی حیثیت نظر انداز ہو گئی ۔آپ کا سفر نامہ’’ لاہور سے چین تک ‘‘کافی مقبول ہوا ۔  اسی طرح مولانا عبید اﷲ سندھی،ابنِ آدم ،ایوب صابر،جگدیش مہتا درد ،خوشتر گرامی،ناصر ساحلی ،اجیت سنگھ حسرت،مختار صدیقی،بلدیو سنگھ ہمدم، مختار مسعود،نجمہ تصدق، کے ایل ناصر، گل شیر بٹ،کلدیپ نیئر ،بابا محمد یحییٰ خان،صوفیہ بیدار،مشتاق قریشی، فاروق قیصر، ڈاکٹر عمرانہ مشتاق،سوشیل کمار رام پال،سعید پسروری،سراج الدین آذر اور کئی دیگر صاحبانِ کتب بھی مقالے میں شامل نہ ہو سکے ۔ شکر گڑھ جو ۱۹۹۱ء تک سیالکوٹ کا حصہ رہا ،اس وقت تک کے ادبا اور شعرا کو شاید دانستہ نظر انداز کیا گیا ہے کہ وہ اب سیالکوٹ کا حصہ نہیں رہا ۔ جیسے پنڈت ترلوک چند ،سرور ارمان ، شفیق چغتائی ، رشید میواتی اور یعقوب انجم وغیرہ۔

          یہاں صرف یہ یاد دلانا مقصود ہے کہ آئندہ مقالہ نگار خود یا کوئی اور محقق سیالکوٹ کے حوالے سے کام کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان نکات کو ذہن میں رکھے ۔ جیسا کہ قبل ازیں میں عرض کر چکا ہوں کہ تحقیق میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا

           مزید کہ جامعاتی تحقیق میں جب کہ آپ کے پاس وقت محدود ہے اور آپ کو پابندیوں کی حد میں رہ کر اپنا کام سمیٹنا ہے ۔آپ کے پاس محدود ذرائع ہیں ۔ماخذات کی تلاش میں سفر بھی کرنا ہے ۔مصاحبہ و مکالمہ کی ضرورت پڑتی ہے ۔کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک ایک دانہ اکٹھا کرنا ہے ۔بعض اوقات آپ سات سو صفحے کی کتاب کھنگال لیتے ہیں اور آپ کو اپنے مقصد کی ایک سطر بھی نہیں ملتی سو ایسے حالات میں مایوسی بھی اپنا گھیرا تنگ کر لیتی ہے ،تو محقق اس حصار میں جو کچھ ملتا ہے اسی پر اکتفا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ان حالات کے تحت نصیر احمد اسد نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بھر پور کوشش کی اور وقت کو استعمال کرتے ہوئے مقالہ کو بہتر سے بہتر بنایا ۔

          ڈاکٹر نصیر احمد اسد نے مقالے کی ترتیب میں عہد اور زمانے کا لحاظ رکھتے ہوئے تاریخی تحقیق کے ضمن میں روایت کو بر قرار رکھا ہے ۔یہ کام کسی بھی دوسری تحقیقی ترتیب کی نسبت کافی مشکل ہوتا ہے کیوں کہ بعض شخصیات کی تاریخ ولادت یا وفات تو الگ عہد کا پتہ بھی نہیں چلتا ۔خاص کر پرانی کتابوں کی اشاعت کے ایڈیشنز اور تحریر کے سنین میں بہت اختلاف ہوتا ہے یہاں تک کہ قدیم ایڈیشنز میں مصنفین کے نام تک نہیں ملتے۔ گویا تاریخی حقیقت کی پرکھ میں لانا مشکل ہی نہیں بعض اوقات نا ممکن ہو جاتا ہے ۔اسد نے اسے فطرت کے مطابق پیش کرنے میں کافی محنت سے کام لیا ہے ،اگر کہیں اسقام موجود بھی ہیں تو وہ مجبوری کے باعث ۔ڈاکٹر اسد کا اسلوبِ نگارش نہایت سادہ ،شگفتہ اور دلکش ہے۔پڑھنے والا تحریر سے اکتاتا نہیں اور اگر قاری کا تعلق سیالکوٹ سے ہے یا ادب سے وابستہ اور ایسی تحریروں کے پڑھنے میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ اِس سہل ،سادہ اور نہایت صاف ستھری زبان اور انداز سے پورا حظ اٹھاتا ہے ۔

          محمد الدین فوق اور رشید نیاز کے بعد سیالکوٹ کو اس انداز میں اپنا فرض سمجھتے ہوئے روشناس کرانے اور عزت و توقیر دینے پر ڈاکٹر نصیر احمد اسد کے اس کام کو سراہنا چاہیے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تا کہ وہ آئندہ اس کام کی تکمیل کر سکے اور جو عوامل وقت کی کمی کے باعث رہ گئے ہیں انہیں شامل کرتے ہوئے سیالکوٹ کا ایک انسائیکلو پیڈیا مکمل کر سکے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...