Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

اٹھائے کچھ ورق
Authors

ARI Id

1688382102443_56116053

Access

Open/Free Access

Pages

21

          آ ج تک ادبی تناظر میں سیالکوٹ کے حوالے سے جب بھی بات ہوئی، جب بھی قلم اٹھایا گیا، جب بھی کوئی صدا بلند ہوئی شعری ادب ہی طبع آ زمائی کا موضوع ٹھہرا۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ '' تاریخ ادبیات سیالکوٹ'' کے ذریعے ڈاکٹر نصیر احمد اسد کے زشحات قلم نے شاعری،نثر، تنقید اور اقبال شناسی چار پہلوؤں پر نقد و نظر کی ہے۔ یہ کتاب بطور خاص ڈاکٹر صاحب کے پی ایچ ڈی مقالہ '' سیالکوٹ میں نقدو ادب کی روایت'' کے اس سفر کا تسلسل اور سنگ میل ہے جس کا آ غاز ان کے ایم فل کے مقالہ سے ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اس مقالے کے ذریعے قبل مسیح سے آ ج تک کے تعلیمی مرکز اقبال کے سیالکوٹ کے بارے میں شجر طہر انی کی طویل تاریخی نظم ''سالباہن کی نگری '' کو منظر عام پر لانے کا شکریہ، برناباس کی انجیل کے گم شدہ انگریزی ترجمہ کے اردو مترجم استاد مکرم آ سی ضیائی رام پوری کو بھی یاد کرنے کا شکریہ۔ آ سی ضیائی کے حوالے سے آ پ نے کیا خوب لکھا ہے۔'' آ سی ضیائی رام پوری بھی اپنی شاعری اور نثر میں حمدیہ اور نعتیہ لہجہ رکھتے ہیں۔ آ پ کی نعتیہ نظموں میں منفرد اسلوب اظہار،ندرت بیان اور فکری و جذباتی اپیل پائی جاتی ہے۔ ایک عاشق رسول ہونے کے ناطے آ پ کی تب و تاب اور سوز و ساز عمل کا ایک پیغام ہے''

          ڈاکٹر صاحب نے صدیوں کی تہیں کھول کر اہل سیالکوٹ کی خدمات کے خزانے بر آ مد کئے ہیں۔ اس کتاب کے توسط سے ہم کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف مزاحمتی ادب تخلیق کرنے والے سیالکوٹ کے ادیبوں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں۔

          سیالکوٹ میں 1948 میں انجمن ترقی پسند مصنفین قائم ہونے کے بعد اس انجمن نے جس طرح ترقی پسند ادب کو پروان چڑھایا اس میں حصہ لینے والے سیالکوٹ کے ادیبوں کی کاوشوں کو سراہ کر ڈاکٹر صاحب نے ایک صاد کام کیا ہے۔ اصغر سودائی اور تاب اسلم جیسے میرے محسنوں کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے محلے دار آ ثم مرزا کا نام دیکھ کر جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے جو 1945 میں افق ادب پر ابھرے - میرے زمانہ طالب علمی کے میرے ادبی مجلہ ''سروش'' کے لئے افسانہ '' چارہ گری'' لکھنے پر میں آ ثم مرزا کا آ ج تک مقروض ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب نے مولانا غلام حسن کو بھی گوشہ گمنامی سے نکال کر عزت افزائی کے جس تخت پر بٹھایا ہے اقبال، فیض اور مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے تعلق کے ناطے وہ اس کے بجا طور پر مستحق تھے۔ اس کتاب سے مجھے آ گاہی ہوئی کہ محمد دین فوق سیالکوٹ کے پہلے ناول نگار ہیں جن کا پہلا ناول '' انار کلی'' 1900 میں شائع ہوا تھا۔ سیالکوٹ کو جوگندر پال پر بھی فخر ہے جو اس دھرتی کے شہرت یافتہ افسانہ نگار ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ 1944 میں مرے کالج میگزین میں شائع ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں '' جوگندر پال نے روایتی اور علامتی افسانے کے امتزاج سے اپنے فن کو جلا بخشی '' نسائی کہانیاں لکھنے والی غزالہ شبنم کے افسانے کا بڑا موضوع عشق و محبت ہے جبکہ اقبال شناسوں جابر علی سید، آ سی ضیائی رامپوری، طاہر شادانی،خالد نظیر صوفی، ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی اور اسلم ملک کو جاننے کے لئے بھی اس کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب کی نظر میں تنقید کے نئے نظریے وضع کر کے اقبال کے موضوع پر تنقید کرنے والے جابر علی سید کی تنقید نگاری کا دائرہ بہت وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ ادبی تاریخ اس مقصد کے تحت لکھی ہے کہ ’’اس تاریخی علاقے کی ادبی تاریخ کے ان پہلوؤں کو تلاش کیاجائے جنہیں وقت نے فراموش کر دیا ہے۔ ’’تاریخ ادبیات سیالکوٹ‘‘ ادبی تاریخ کو معاصر منظر نامے تک لایا جائے اور عصر حاضر میں ادبی منظر نامے کو تنقیدی شعور کے ساتھ دیکھا جائے‘‘۔

          لاریب ڈاکٹر صاحب نے یہ کام کر دکھایا ہے کہ اس مقالے میں پہلی مرتبہ شعری و نثری ادب کا تحقیقی و تنقیدی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ڈاکٹر صاحب کی بیگم ڈاکٹر صاحب کے تنقیدی انداز پر کیا تحقیقی نظر رکھتی ہیں مگر میں ڈاکٹر صاحب کے مداحوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی اس کاوش کو سیالکوٹ میں ادب کا ایک تفصیلی مطالعہ قرار دے کر قاری کو 915 صفحات پر پھیلی اس کتاب کے مطالعے سے سیر حاصل استفادے کی دعوت دیتا ہوں۔ جس کے آ غاز میں 7 صفحات کا گراں مایہ مقدمہ اور آ خر میں 22 صفحات پر مشتمل کتابیات کا بیش بہا خزانہ ہے۔

          اس کتاب کے ذریعے ڈاکٹر صاحب نے اپنے داخل کو جس خوبی کے ساتھ خارج میں انڈھیلا ہے وہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کا ایک پر تو بھی ہے اور نو بہ نو ان کے ذہنی سانچے، ادبی لگاؤ، شخصی ر چاؤ اور پر سکون ٹھہراؤ کا ایسا تلاطم خیز دھارہ جس نے کیا ہے سیالکوٹ کی ادبی خدمات کو آ شکارہ۔ ان کی اس کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں بھنور بھی کنارہ ہے اور اس کتاب میں چھپا پیغام محبت کی صورت اس امت کے مرض کہن کا چارہ ہے۔ جہاں بہت سی کتابیں محض ردی کے لئے کار آ مد ہوتی ہیں وہیں یہ کتاب سرقہ کرنے والوں کے لئے یہ کتاب معلومات کا ایک بہتا ہوا دریا ہے۔ وہ اس کتاب سے ''مرے کالج کے طالب علموں کی ادب کے لئے خدمات'' نامی کتاب بڑی آ سانی سے مرتب کر سکتے ہیں۔ یوں الکتاب کا گہرا تصور دینے والے اس صدی کے مفکر سید مودودی کے پیروکار کی یہ کتاب،کتاب کے اندر کتاب ہے اور بڑی لاجواب ہے۔

          ناروے کے لوگ کہتے ہیں کہ مطالعہ مسرت دیتا ہے اس لئے کتاب مسرت کا منبع ہوتی ہے۔ مسرت کے اس منبع کے مصنف، دھرتی کے سپوت ڈاکٹر نصیر احمد اسد مرے کالج کے اولڈ بوائے ہونے کے ناطے میرے ہم مکتب ہیں اور جماعت اسلامی کے رکن ہونے کی بنا پر میرے ہم مشرب۔ باقی ہم ٹھہرے مریض ان کے عشق کے اور وہ خیر سے ڈاکٹر ہیں۔ مجھے یقین کامل ہے کہ مستقبل کی ڈاک ڈاکٹر صاحب کے پتے پر آ یا کرے گی اور سیالکوٹ کے ادبی ستارے اس چاند کے ہالے میں رہیں گے۔ یوں جب تک حرف کی حرمت باقی ہے یہ کتاب زندہ رہے گی اور ڈاکٹر نصیر احمد اسد صاحب تابندہ۔

 

میاں محمد آ صف اقبال

ایڈیشنل آ ئی جی پولیس (ر)

سیالکوٹ،پنجاب،پاکستان

10 مئی 2023

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...