Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > جغرافیائی تناظر

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

جغرافیائی تناظر
ARI Id

1688382102443_56116055

Access

Open/Free Access

Pages

23

سیالکوٹ پاکستان کا ایک قدیم شہر ہے۔یہ ۳۲ درجے ۳۰ دقیقے عرض بلد شمالی اور ۷۴ درجے ۳۲ دقیقے طول بلد پر واقع ہے۔یہ سطح سمند ر سے ۸۰۰ فٹ بلند ہے۔(۱)اس کے شمال میں ضلع گجرات اور جموں کا علاقہ ہے۔جنوب میں بھارت کا ضلع امر تسر ،مشرق میں ضلع گورداس پور،مغرب میں ضلع شیخوپورہ اور جنوب مغرب میں ضلع گوجرانوالہ ہے۔(۲) مغرب میں دریائے چناب ضلع سیالکوٹ اور ضلع گجرات کے درمیان بہتا ہے ۔سیالکوٹ رچنا دو آب میں (دریائے راوی اور چناب کے درمیان)واقع ہے اوراس کا بالائی حصہ (جو کوہ ہمالیہ کی تلہٹی میں واقع ہے) بہت زرخیز ہے۔جنوبی حصہ نسبتاً کم زرخیز ہے۔(۳)شہر کے شمال سے گزرنے والے دریائے چناب کے سوٹے کوہ ہمالیہ سے پھوٹتے ہیں ۔یہ قدیم دریا عوامی جمہوریہ چین کے قریب سے شروع ہوتا ہے۔قدیم زمانے میں اس دریا کو ’’چین آب ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔جو زمانے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا ہوا آج دریائے چناب کہلاتا ہے۔یہ دریا جموں کشمیر کے پہاڑی علاقوں سے گزرتا ہوا جب ضلع سیالکوٹ میں داخل ہوتا ہے تو ہیڈ مرالہ کے مقام پر یہاں اس میں دو اور دریا اٹھکیلیاں کرتے اور زندگی کی بہاریں تقسیم کرتے آکر مل جاتے ہیں۔یہ دریائے جموں توی اور دریائے (مناواں) مناور توی ہیں۔(۴)

          دریائے چناب میں مرالہ کے مقام پر بند باندھ کر نہر اپر چناب نکالی گئی ہے۔اس نہر کی تین شاخیں ہیں۔ایک شاخ کا پانی تحصیل ڈسکہ اور باقی دو شاخوں کا پانی ضلع گوجرانوالہ کے کھیتوں کو سیراب کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔نہر مرالہ راوی لنک ضلع سیالکوٹ کے مغربی حصے کو سیراب کرتی ہے اور جو پانی باقی بچ جاتا ہے۔اس لنک کے ذریعے دریائے راوی میں چلا جاتا ہے تاکہ دریائے راوی سے نکلنے والی نہر اپر باری دو آب میں پانی کی کمی واقع نہ ہو۔ضلع سیالکوٹ کے زیادہ تر حصے میں نہروں کا پانی نہیں پہنچایا جا سکا۔پانی کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ٹیوب ویلز سے استفادہ کیا جاتا رہاہے۔

          ضلع سیالکوٹ میں کئی ایک برساتی نالے بھی بہتے ہیں۔جو جموں و کشمیر کی پہاڑیوں سے نکلتے ہیں۔برسات کے موسم میں یہ نالے کناروں سے باہر اچھلنے لگتے ہیں اور اکثر و بیشتر سیلابی تباہ کاریوں کا باعث بنتے ہیں۔ماضی میں ان برساتی نالوں کے کناروں پر کسانوں نے رہٹ لگائے ہوئے ہوتے تھے جنھیں جھلار کہا جاتا تھا۔ماضی میں ان جھلاروں سے بھی آبپاشی کا موزوں اور مفید کام لیا جاتا رہا ہے۔ضلع سیالکوٹ کے شمالی حصے میں ’’پلکھو‘‘ ایک مشہور برساتی نالہ ہے۔پلکھو سیالکوٹ اور ڈسکہ کی تحصیلوں کے شمالی حصے میں مشرق سے مغرب کو بہتا ہے۔یہ نالہ کم چوڑائی کی وجہ سے برسات کے موسم میں اکثر آس پاس کے علاقوں میں زبردست طغیانی لاتا ہے۔نالہ’’ایگ‘‘ سیالکوٹ شہر کے جنوب سے گزرتا ہے ۔یہ نالہ مشرق سے مغرب کو بہتا ہوا ضلع گوجرانوالہ میں پلکھو سے جا ملتا ہے۔ضلع سیالکوٹ کے جنوبی حصے میں نالہ’’ڈیگ ‘‘بہتا ہے۔یہ نالہ شما ل مشرق سے جنوب مغرب کو بہتا ہے۔یہ برساتی ندی نالے بہت تیز رفتار ہیں۔برسات کے موسم میں سیالکوٹ کے باشندوں کے بہت زیادہ جانی او ر مالی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

          تاریخی حوالے سے نالہ’’ایگ‘‘اصل میں ’’آپکا ندی‘‘کے نام سے مشہور تھا۔اشفاق نیاز نالہ ایک کے بارے میں مختلف تاریخی کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:

آپکا ندی (نالہ ایک) پر مدردیس میں واقع ہے چونکہ یہی دیس میں مدردیس کہلاتا ہے اور ’’آپکا ندی‘‘ کو ہی ’’نالہ ایک ‘‘کہتے ہیں۔اس لیے محققین و مورخین نے اسے مستند حوالہ تسلیم کیا ہے۔مہابھارت کے علاوہ بھگوات پران،ویشنو پران،سکندھ پران اور وایو پران میں بھی سیالکوٹ کو شاکل اور آپکا ندی کو نالہ ایک کے طورپر تحریر کر کے یہ بات بڑے وثوق سے کہی ہے کہ راجہ سل ہی سیالکوٹ کا بانی تھا۔ہندوؤں کی ایک اور مذہبی کتاب’’گیان شکتی‘‘ کے صفحہ نمبر ۱۲ پر لکھا ہے کہ راجہ سل نے ہی نالہ ایک کے کنارے سیالکوٹ کی بنیاد ڈالی۔(۵)

          سیالکوٹ میں اوسطاً سالانہ بارش پہاڑیوں کے نزدیک ۳۶ انچ کے قریب اور جو علاقے پہاڑیوں سے دور ہیں وہاں اوسطاً ۲۲ انچ کے قریب ہو جاتی ہے۔(۶)آب وہوا کی درجہ بندی کے مطابق سیالکوٹ کی گرم مرطوب آب و ہوا ہے۔مئی اور جون گرم ترین مہینے ہیں۔سردیوں میں درجہ حرارت صفرسینٹی گریڈ تک گر سکتا ہے۔زیادہ تر بارش گرمیوں میں مون سون کی وجہ سے ہوتی ہے۔جس سے اکثر سیلاب آجا تا ہے۔ملک کے موسم کی پیشن گوئی اور سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والے جدید ترین مراکز قائم ہیں۔(۷)سیالکوٹ میں اختتام اکتوبر سے مارچ تک سردی ہوتی ہے اور موسم خوشگوار رہتا ہے۔اپریل کے اوائل میں گرمی کا آغاز ہو جاتاہے اور دوسرے پنجاب کے میدانی علاقوں کی مانند گرمی زیادہ نہیں ہوتی۔(۸)۱۹۹۸ء کی مردم شماری کے مطابق سیالکوٹ کا کل رقبہ ۳۰۱۵ مربع کلو میٹر ہے۔کل آبادی ۴۸۰،۲۳،۲۷ افراد پر مشتمل ہے۔دیہی آبادی ۱۵۲ ،۱۰،۲۰ افراد اور شہری آبادی ۳۲۹،۱۳،۷ افراد پر مشتمل ہے۔(۹)سیالکوٹ شہر میں زیادہ تر پنجابی ،کشمیری اورپشتو ن آبا دہیں۔جٹ،آرائیں،راجپوت،چغتائی ،اعوان ککے زئی،بٹ،شیخ ،گجر،پٹھان،مغل اور قریشی بڑی ذاتیں ہیں۔سیالکوٹ کا دو ہزار مربع میل سے کچھ کم علاقہ زرعی ہے۔۶۹۵ افراد ایک مربع میل میں آباد ہیں۔سیالکوٹ کے شمالی اور شمال مغربی علاقے چاولوں کی کاشت کے لیے موزوں ہیں۔۸۰ فیصد کے قریب علاقہ زیر کاشت ہے۔(۱۰)سیالکوٹ کے بارانی علاقوں میں ایک ہی فصل ہوتی ہے ۔گندم،گنا اور مکئی اعلیٰ قسم کی بڑی فصلیں ہیں۔چراگاہوں کی قلت کی وجہ سے چار ہ کھیتوں ہی سے حاصل کیا جاتا ہے۔خالص ریتلے علاقوں میں کاشت کاری نہیں ہوتی۔ کم ریتلی زمین میں موٹھ ،ماش ،خربوزہ اور جو کی فصلیں بوئی جاتی ہیں۔زمین کی ایک قسم مائرہ ہے۔اسے پکامسی یا لال مائرہ بھی کہتے ہیں۔ یہ قسم سارے ضلع میں پائی جاتی ہے۔یہ کاشت کے لیے زرخیز ہوتی ہے ایک اور قسم روہی ہے یہ سخت نمدار مٹی ہونے کی وجہ سے زیادہ محنت طلب ہے۔پانی کی ضرورت بھی زیادہ مقدار میں پڑتی ہے۔نشیبی علاقوں میں پائی جاتی ہے اور چاول کی کاشت کے لیے بہترہوتی ہے۔

          شورزدہ زمین کی د واقسام ہیں ایک کلر اور دوسری کلراتھی روہی۔کلر مکمل طور پر ناقابل کاشت ہوتی ہے۔کلراتھی روہی میں پانی اطمینان بخش ہو تو چاول کی فصل اچھی ہو جاتی ہے۔دریائی علاقوں میں دوہری فصل اُگائی جاتی ہے۔باجرہ ، جوار ،دال ،سبزیاں ،تمباکو،مصالحے اور تیل کے بیج کی فصلیں زیاد ہ زرخیز علاقوں میں بوئی جاتی ہیں۔سال میں دو فصلیں خریف(اکتوبر سے نومبر تک) اور ربیع (اپریل سے جون تک) ہوتی ہیں۔خریف میں موٹھ تارا میرا،سینجی،جوار ،مکئی ،تربوز اور تمباکو کی فصلیں بھی اُگائی جاتی ہیں۔زرعی آباد ی کے لحاظ سے سیالکوٹ پنجاب میں دوسرے نمبر پر ہے۔سیالکوٹ میں چاول تین اقسام (باسمتی ،مونجی جھونا اور تان کھرسو ) میں پیدا ہوتا ہے اور کافی ممالک میں برآمد کیا جاتا ہے۔چاول کی پیداوار تناسب ضلع کی کل پیداوار کا ساٹھ فیصدہے۔(۱۱)

          سیالکوٹ میں انواع و اقسام کے درخت بھی پائے جاتے ہیں۔’’چینا کی‘‘ اور ’’ٹاہلیا نوالہ‘‘ کے جنگلاتی ذخیرے ماضی میں مشہور جنگلات تھے۔اس کے علاوہ شیشم ،کیکر،یاببول ،پھلاہی ،بوہڑ ،دھریک ،شہتوت،جامن اور پیپل کے درخت بھی ملتے ہیں۔دریاؤں کے کناروں پر نیم بانس املتاس ،کچنار ،بہیڑا اور ڈھاک کے درخت اُگتے ہیں۔آم ، نارنگی،سنگترہ،آڑو،کیلا ،امرود،سیب،ناشپاتی ،انار ،آلوچہ ،لیموں ،چکوترا ،فالسہ،لوکاٹ اور بہی کے پھل بھی پائے جاتے ہیں۔(۱۲)

          صنعت کے میدان میں ضلع سیالکوٹ کو بڑا اہم مقام حاصل ہے۔یہاں کی بہت زیادہ صنعتی چیزیں اندرون اور بیرون ممالک بھیجی جاتی ہیں۔سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے مٹی کے برتن پورے ملک میں استعمال ہوتے ہیں۔برتن بنانے کے لیے اعلیٰ مٹی سیالکوٹ اور پسرور کے علاقوں کے قریب مل جاتی ہے۔سیالکوٹ کی پیلی چکنی مٹی برتن بنانے کے لیے بڑی کارآمد ثابت ہوتی ہے۔مٹی کے مرتبان جالی ،ہنڈیاں ،گھڑے،جھجھریں ،پکانے کے برتن،کھانے کے برتن اور پینے کے برتن مشہور ہیں۔یہاں کی ہنڈیاں اتنی مضبوط ہوتی ہیں کہ شدید آگ پر رکھنے کے باوجود بھی نہیں ٹوٹتیں۔رنگین مٹی ستراہ کے مقام سے حاصل کی جاتی ہے۔(۱۳)سیالکوٹ کے ٹین کے ٹرنک ،دریاں اور تالے اپنی مضبوطی کے لیے مشہور ہیں ۔اعلیٰ درجے کے کرکٹ بیٹ،ریکٹ،پولو سٹک،ہاکی اور کرکٹ کے گیند ،ہاکیاں ،فٹ بال،بیڈ مینٹن،ٹینس،اور گاف کا بہترین سامان تیار ہوتا ہے۔(۱۴)کوٹلی لوہاراں میں زیاد ہ تر لوہار قوم کے افراد آباد ہیں۔ لوہے کی اشیاء میں چاقو،چھریاں ،ہتھیار،پلیٹیں،صندوق،قلمدان،رکابیں ،استرے،کیش بکس اور آلات جراحی تیا ر کیے جاتے ہیں۔لکڑی کے سامان میں ٹانکے اور ٹانکوں کا سامان،فرنیچر،پیڑے اور پاوے بہت مشہور ہیں۔لوہے اور فولاد کے (جواہرات رکھنے کے)کیس تیار کیے جاتے ہیں۔ٹرے اور شیلڈز بھی بنائی جاتی ہیں۔کپڑے کی صنعت میں پشمینہ ،چادریں ، کھدر،کھیس،نوار اور پھول کاری مشہور چیزیں ہیں۔کانسی کے کٹورے ،تھالیاں اور تھال بھی تیار کیے جاتے ہیں۔نکل پالش کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ٹیزیز کے سلسلے میں ٹبہ کاکڑاں اور پنڈی آرائیں قدیم مرکز ہیں۔(۱۵)

          قیامِ پاکستان سے قبل سیالکوٹ لاہور،جموں اور سری نگر شاہراہ پر واقع ہونے کی وجہ سے ایک لحاظ سے مین لائن پر واقع تھا۔یہ تجارت کی منڈی تھی کیونکہ ریاست جموں و کشمیر کے لوگ اپنی ضروریات کی اشیاء سیالکوٹ سے ہی خریدتے تھے۔قیامِ پاکستان کے بعد ریاست جموں و کشمیر کی تیاری کے لیے جو لکڑی ریاست جموں و کشمیر سے آتی تھی وہ بھی بند ہوگئی لیکن یہاں کے لوگوں نے اس چیلنج کو بھی قبول کیا اور متبادل راستے اور ذرائع اختیار کیے۔شہتوت اور دیگر اقسام کی لکڑی چھانگا مانگا کے جنگلات سے حاصل کی ۔ولو کی لکڑی صوبہ سرحد کے جنگلات سے مہیا ہونا شروع ہو گئی اور یوں سپورٹس گڈز کے لیے درکار لکڑی کا متبادل انتظا م ہو گیا۔(۱۶)

          قیامِ پاکستان سے پہلے سرمایہ دار اور کارخانہ دار زیادہ تر ہندو اور سکھ تھے جو ۱۹۴۷ء میں ہندوستان چلے گئے ۔ مسلمان زیادہ تر مزدور اور کاریگر تھے۔سیالکوٹ کے لوگوں نے ہمت نہ ہاری ۔سپورٹس اور سرجیکل کی صنعتوں کی ترقی پر توجہ جاری رکھی اور اس کے علاوہ نئی نئی صنعتیں قائم کیں۔سیالکوٹ میں بے شمار صنعتیں ہیں لیکن اہم صنعتوں میں سپورٹس گڈز،سرجیکل انسٹرومنٹس ،گلوز،میوزیکل انسٹرومنٹس ،کٹلری ،لیدر گڈز ،بیجز،ریڈی میڈ گارمنٹس اور قالین بھی شامل ہیں۔(۱۷)

          مین لائن سے ہٹ جانے کی وجہ سے سیالکوٹ کی صنعتوں پر جو اثرات مرتب ہوئے ان کے رد عمل کے طور پر سیالکوٹ کے لوگوں میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوا انھوں نے سوچا کہ ساری دنیا کے ملکوں سے تجارت کی جائے چنانچہ بتدریج یہ رجحان بڑھتا گیا اور اب یہ وقت آگیا ہے کہ شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ہو گا جس سے سیالکوٹ کی تجارت نہ ہو۔محتاط اندازے کے مطابق مذکورہ بالا صنعتوں کے تیار شدہ مال کی برآمدات سے جو رقوم حاصل ہوتی ہیں۔وہ پاکستان کی سالانہ برآمدات میں نمایاں مقام و اہمیت کی حامل ہیں۔

          محتاط اندازے کے مطابق ۱۹۸۹ء کے لیے پاکستان کی مجموعی برآمدات کا ہدف قریباً ۸۰ ارب روپے مقرر کیا گیا ۔سیالکوٹ سے برآمدات یوں تو ہر صنعت سے وابستہ ہیں لیکن نمایاں طور پر سپورٹس گڈز سرجیکل انسٹرومنٹس اور گلوز کی ایکسپورٹ ۴ اور ۵ ارب کے قریب ہے۔ان میں اگر بیرون ملک کا م کرنے والے سیالکوٹ کے لوگوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم اور سیالکوٹ میں پیدا شدہ چاول کی برآمدات کو جمع کیا جائے تو مجموعی طورپر جو رقم بنتی ہے وہ پاکستان کی مجموعی سالانہ برآمدات کا ۱۰ اور ۱۵ فیصد کے درمیان بنتا ہے۔(۱۸)حکومت کی طرف سے سپورٹس گڈز ،سرجیکل انسٹرومنٹس اور لیدر گڈز کی بہتری کے لیے ادارے قائم کیے گئے بلکہ حال ہی میں مختلف صنعتوں سے وابستہ Trade bodiesکی طرف سے Research and Development cell قائم کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔حکومت کی طرف سےExportpromotion Bureau قائم کیا گیا ہے۔ڈپٹی کنڑولر اسپورٹس اینڈ ایکسپورٹ کا دفتر بھی قائم کیا گیا ہے جو بہت خدمات سر انجام دے رہا ہے۔کسٹمر ہاوس کے قیام سے سیالکوٹ کے لوگوں کے مسائل مقامی طورپر حل ہو جاتے ہیں۔تجارت کے فروغ کے لیے سیالکوٹ میں ڈرائی پورٹ کا قیام بھی بروقت اقدام ہے۔(۱۹)

          سیالکوٹ شہر کے وسط میں واقع قدیم ریلوے اسٹیشن انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔سب سے پہلے وزیر آباد سے سیالکوٹ کے درمیان ۲۷ میل لمبی ریلوے لائن کا افتتاح یکم جنوری ۱۸۸۰ء کو ہوا ۔بعد ازاں سیالکوٹ کو بذریعہ ریلوے لائن جموں سے ملا دیا گیا۔ موجودہ ریلوے اسٹیشن سے سالانہ ساڑھے چار لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں۔(۲۰)

          سیالکوٹ انٹر نیشنل ائیر پورٹ لمیٹڈ بھی پرائیوٹ پارٹنر شپ کی ایک شاندا ر مثال ہے۔اس وقت اس کے ڈائریکٹرز کی تعداد ۲۵۰ کے قریب ہے ۔جو کہ سیالکوٹ کے نمایاں صنعت کار ہیں۔اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ہر ڈائریکٹر نے پچاس پچاس لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی اور یوں یہ میگا پراجیکٹ اڑھائی ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔۲۳ کروڑ روپے کا قرض گورنمنٹ آف پاکستان نے دیا جس سے ائیر پورٹ کے لیے اراضی خریدی گئی۔(۲۱) معروف صنعت کار خاور انور خواجہ نے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف سے ۱۹۹۸ء میں ائیر پورٹ کی تجویز پیش کی تھی۔صدر مشرف کے دور میں ۲۰۰۷ء میں ائیر پورٹ کی بنیاد رکھی گئی ۔سیالکوٹ ائیر پورٹ سیالکوٹ سے ۱۶ کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب میں سیالکوٹ ڈرائی پورٹ کے شمال میں ایوی ایشن کے لحاظ سے نہایت موزوں جگہ پر واقع ہے۔اس ائیر پورٹ کارن وے پاکستان کا سب سے بڑا رن وے ہے۔جس کی لمبائی ۳۰۶کلو میٹر ہے۔(۲۲) سیالکوٹ ،گوجرانوالہ اور گجرات کی گولڈن ایکسپورٹ ٹرائی اینگل سمیت میر پور ،آزاد کشمیر ،منڈی بہاء الدین ،حافظ آباد،نارووال کے اضلاع سے تعلق رکھنے والے ۱۰ لاکھ سے زائد افراد سالانہ بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔جو اس ائیر پورٹ سے بھر پور فائد ہ اٹھا رہے ہیں۔اس ائیر پورٹ سے دس ہزار سے زائد ایکسپورٹر اپنی مصنوعات دنیا بھر میں متعارف کروا رہے ہیں۔(۲۳)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...