Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > تاریخی و سیاسی تناظر

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

تاریخی و سیاسی تناظر
ARI Id

1688382102443_56116056

Access

Open/Free Access

Pages

26

سر زمینِ سیالکوٹ صدیوں کی انسانی تہذیب و تمدن ،ادب و ثقافت اور فنونِ لطیفہ کا عظیم الشان گہوارہ ہے۔اس دھرتی کے تاریخی آثار ایک طویل مدت سے مورخین و ماہرین آثارِ قدیمہ کی دلچسپی کا سامان رہے ہیں۔اب بھی اس کی عظمت رفتہ کے قصے اہلِ تحقیق کو ورطۂ حیرت میں ڈالے ہوئے ہیں۔سیالکوٹ بہت قدیم شہر ہے۔اطہر سلیمی اس کی قدامت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

سیالکوٹ کی تہذیب ٹیکسلا او رموہنجو ڈارو کی تہذیبوں کے ہم پلہ ہے۔(۲۴)

          اس عظیم شہر کے رخ سے اگر ماضی کی تاریخ کے گہرے پردے کاٹے جائیں تو ہمیں اس کی تاریخی عظمتوں کا اعتراف کرنا پڑے گا۔سیالکوٹ نے قدیم شہر ہونے کی وجہ سے سینکڑوں روشن اورتاریک رخ دیکھے ہیں۔اس شہر کے سینے میں ہندوراجاؤں ،تاتاریوں اور مغلوں کے تاریخی افسانے پوشیدہ ہیں۔اس کے ذرے ذرے میں ہزاروں ہنگامے پنہاں ہیں۔سیالکوٹ کی ابتدائی تاریخ کی ورق گردانی کرنے پر سب سے پہلے ’’مہابھارات‘‘میں ہمیں اس کا ذکر ملتا ہے۔تقریباً پانچ ہزار سال قبل صوبہ پنجاب کے بہادر راجہ پانڈو خان کے بھتیجے راجہ سل نے اس شہر کو تعمیر کروایا تھا۔یہیں اس نے ایک قلعہ بھی بنوایا اور اپنے ہی نام پر اس کا نام سلکوٹ رکھا۔(۲۵)یعنی سل کا قلعہ جو بعد میں بگڑ کر سیالکوٹ کے نام سے مشہور ہوا ۔اس ضمن میں آتش لدھیانوی رقمطراز ہیں:

یہ راجہ سیاذات کا تھا۔ کہتے ہیں کہ اپنی ذات کی نسبت سے اس جگہ کا نام سیالکوٹ رکھا۔(۲۶)

          جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ اس شہر کا ذکر ہندوؤں کی مذہبی کتب ’’مہابھارت‘‘ اور’’یران ‘‘ میں بھی آیا ہے۔محمد دین فوق نے بھی اس سلسلے میں لکھا ہے:

اس زمانے میں سیالکوٹ کانام شاکل تھا……کہ یہ نگری ’’آپکا‘‘ندی کے کنارہ پر مدر دیش میں واقع ہے۔مدردیش اس زمانہ میں پنجاب کا نام تھا اور سیالکوٹ کی مشہور ندی ’’ایک‘‘ اس زمانہ میں ’’آپ کا ‘‘ندی کہلاتی تھی۔(۲۷)

          بعدا زاں یہ شہر تباہ کن سیلاب کی بدولت کم و بیش ایک ہزار برس تک ویران رہا ۔حتیٰ کہ راجہ سوم دت کے زمانے میں اس شہر کی آبادی کے دوبارہ آثار نظر آتے ہیں۔اس زمانے میں سیالکوٹ کشمیر کا حصہ تھا۔راجہ سوم دت نے تقریباً سو سال تک شان و شوکت سے اس شہر پر حکمرانی کی۔راجہ سوم دت کے بعد راجہ سالباہن حکمران ہوا۔تقریباً دو ہزار سال قبل راجہ سا لباہن نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کروایا ۔قلعہ کو پنجابی زبان میں کوٹ کہتے ہیں۔اس بنا پر اس کا نام شالکوٹ اور بعد میں سیالکوٹ مشہو ر ہو گیا اور اسی نام سے اس کی شہرت بھی ہو گئی۔(۲۸)

          راجہ سا لباہن کے دوبیٹے تھے۔ایک کانام ’’پورن بھگت‘‘تھا۔پورن بھگت تارک الدنیا تھا۔پنجابی زبان میں اس سے کئی قصے منسوب ہوئے۔پورن بھگت کو اس کی سوتیلی ماں نے آتش غضب سے مغلوب ہو کر کنویں میں ڈلوا دیا تھا۔جس کنویں میں پورن بھگت کو ڈالا گیاتھا وہ آج بھی موجود ہے اور متحدہ ہندوستان میں اسے ہندوؤں کا متبرک مقام سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ پورن بھگت ایک فقیر منش انسان تھا۔دوسرا بیٹا راجہ رسالو اپنے باپ راجہ سا لباہن کی وفات کے بعد تخت نشین ہو ا۔راجہ رسالو رانی لونا چمیالی کے بطن سے تھا۔

          بقول عبدالصمد:

بڑا نام آور اور اہل حثمت اپنے زمانہ کے راجوں میں ہوااور باوجود حکومت اور ملک گیری کے پرلے درجے کا فقیر اور رعایا پرور تھا۔(۲۹)

          ۳۶۰ ء عیسوی کے قریب گگھڑ قبائل نے ایک بڑی فوج سے سیالکوٹ کو فتح کرنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔راجہ رسالو کی وفات کے بعد تین سو سال تک اس شہر میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا راجہ رسالو کے بعد راجہ سا لباہن کی نسل بالکل منقطع ہو گئی۔اس کی وجہ پورن بھگت کا راجہ رسالو کے ہاتھوں قتل ہونا بتایا جاتا ہے۔

          سیالکوٹ ابتدائی مسلم سلاطین کے مختلف ادوار سے گزرا لیکن چودھویں صدی عیسوی میں سلطان فیروز تغلق کے عہد(۱۳۵۱ء۔۱۳۸۸ء) میں جب دہلی میں بد نظمی اور ابتری کا ظہور ہوا تو سیالکوٹ کے باجگزار حکمران راجہ سہنپالی نے مسلمانون کا مقابلہ کرنے کی خاطر قلعہ کو مضبوط بنانا چاہا۔اس وقت یہ شہر دریائے راوی اور چناب میں خوفناک طغیانیوں کے باعث تباہ ہو چکا تھا ۔راجہ نے قلعہ کی تعمیر کی طرف توجہ کی ۔قلعہ کی تین دیواریں مکمل ہو گئیں چوتھی دیوار بنائی جاتی تو روایا ت کے مطابق وہ گر جاتی۔کئی بار بنائی گئی مگر وہ ہر بار گر جاتی۔نجومیوں اور جوتشیوں کے مشورہ پرایک نوجوان مسلمان مراد کو جو نالہ ’’ایک‘‘ کے کنارے مقیم تھا پکڑ کے بے دردی سے ذبح کر کے اس کا خون قلعہ کی بنیادوں کی مضبوطی کی غرض سے چھڑ کا گیا۔محمد مقیم بن رحمتہ اﷲ نے اپنی تالیف’’وقالعِ سیالکوٹ‘‘میں اس واقع کے متعلق لکھا ہے:

راجہ ساہن پال از قوم پنوار کہ کیفیت منقطع شدن نسل آں ازیں دیا کما ینبغی رقم خواہد شد از سر نو شہری آبادی نمودو بحدی کہ دوسر کہ وہ بعرض وطولانی معمورہ آبادی آں معربود،بجای قلعہ قدیم قصد بہ ترمیم عمارت کردامااز یک طرف دیوارآں مرتب نمی شد،منجماں بے دین و منہد سان فاسق الیقین گفتندش کہ یک مسلمان راکشتہ زہر بنیاد مدفون باید نمودہ استوارو پایدار بودہ باشد ،شخصی میرا دنام مسلمان و غریب بطریق مسافری از لاہور بہ قصہ ،مذکورہ ساکن شدہ بود و بیکس و نامراد دانستہ و مخالف مذہب خود شناختہ اسپر دستگیر نو مولود ہ حاضرساختہ،اں جوان غریب مادر،پیراداشت،ہر چند بد الحاح وزاری فریاد کرد نگز اشتند و جلادان بیحیا بدشنہ جفا زبح عفردہ خون اور راد جوانی آں حصار پختذ وحبدوی در بنیادآں دیوار دفن ساختذ(۳۰)

          تاریخی روایات کے مطابق اﷲ کی قدرت کہ وہ دیوار قائم ہو گئی۔جب نوجوان مراد کی والد ہ مائی راستی کو اس بات کا پتہ چلا کہ اس کے بیٹے کو شہید کر دیا گیا تو بوڑھی ماں بیٹے کے غم میں روتی پیٹتی کسی نہ کسی طرح سید امام علی الحق کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔امام صاحب راجہ سہن پال کے ظلم و ستم کی یہ درد ناک کہانی سن کر اسے قرار واقعی سزاد لانے کی غرض سے اپنے ساتھیوں کے علاوہ فیروز تغلق کے ایک لشکر کو بھی ہمراہ لے کر سیالکوٹ عازمِ سفر ہوئے۔امام صاحب نے نالہ’’اَیک‘‘کے جنوب میں پڑاؤ ڈالا۔دو دن تک گھمسان کی لڑائی جاری رہی لیکن لشکر نے نالہ ’’اَیک‘‘ اگلے دن عبور کر کے راجہ کو قلعہ میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا۔کافی دنوں کے محاصر ے کے بعد مسلمانوں کو فتح ہوئی۔حق وباطل کے اس معرکے میں بہت سی نامور ہستیاں شہید ہوئیں۔امام صاحب بھی شدید زخمی ہوئے ،زخم اس قدرگہرے تھے کہ آپ جانبر نہ ہو سکے۔اس واقعہ کے بعد ہندو راج سیالکوٹ سے ختم ہو گیا ۔امام صاحب کے ساتھ بہت سی شخصیات نے جہاں کہیں اورجس حالت میں بھی جام شہادت جام نوش کیا اسی مقام پر اور اسی حالت میں اسے دفن کر دیا گیا۔امام علی الحق کا پہلا معرکہ راجہ جگت پال کے ساتھ ہوا جہاں سید میراں برخودار شہیدہوئے۔جن کا مزاراب بھی پر سرور ہے جسے اب پسرور کہا جاتا ہے،موجو د ہے۔دوسرا معرکہ آدم دراز میں ہو اجس میں ہنس پال مارا گیا۔سید غالب علی غازی نے شہادت پائی۔آدم دراز میں بھی گنج شہید ہوئے ان کے مزارات آپ کے مزار او ر قلعہ کے چاروں طرف موجو د ہیں۔(۳۱)

          سرِ زمین سیالکوٹ کو یہ فخر تا قیامت رہے گا کہ اس کی آغوش میں خاندانِ رسالتؐ کا چشم وچراغ استراحت فر ما رہے ہیں۔حضرت علی امام صاحب کی شہادت کے بعد عرصہ دراز تک اسلامیوں کی حکومت رہی لیکن پھر سیالکوٹ میں غیر مسلموں نے زور پکڑا۔اس علاقے پر گکھڑ قوم کے مختلف افراد متواتر حملے کرتے رہے اور ساڑھے تین سو سال تک یہ تاریخی شہر کسمپرسی کے عالم میں رہا۔

          ۷۹۰ء میں قلعہ اور شہر کو راجہ پروت نے یوسف زئی قبیلے کی امداد سے حملہ کر کے بالکل تباہ وبرباد کر دیا۔اس حملے کے بعد سیالکوٹ کی تاریخ پھر خاموش ہو جاتی ہے اور ہمیں صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ مہاراجہ جموں برہم دیو کے تصرف میں چلا گیا ۔اس کے بعد کے حالات کے متعلق احمد نبی خاں نے تحقیق سے بتایا ہے:

In 510A.H/1184 A.D,The Ghrurid Sultan, Shihabud Din Muhammad,came to Lahore and defeated Khusrau Shah, The descenl-deent of Muhammaad of Ghazna during his Journey,he also visited Sailkot and ordered for the repair of the fort.He also appointed a Governer to look after the affairs of Sailkot. (32)

          شہاب الدین غوری کی واپسی کے بعد امیر خسرو صوبہ دار لاہور نے سیالکوٹ پر قبضہ کر لیا۔چودھویں صدی کے شروع میں جب تیمور دہلی سے واپس لوٹا تواس کی فوج کے کچھ دستے جموں پر حملہ کرتے ہوئے سیالکوٹ کے قلعہ میں کچھ عرصہ تک اقامت گزیں رہے۔۱۵۲۰ء میں جب بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو واپسی پر سیالکوٹ کا علاقہ خسرو کلتاش کے قبضے میں دے دیا ۔اکبر کے زمانہ میں سیالکوٹ کو صوبہ لاہور کا پر گنہ بنا دیا گیا۔

"At the time of Akbar,the present district with the excepetion of Bajwat, trans-Chenab formed part of the Rechnabad Sirkar,or district of the Lahore Suba." (33)

          کشمیر کو تسلط میں لانے کے بعد اکبر خود سیالکوٹ میں مقیم رہا ۔اس زمانے میں راجہ مان سنگھ کو سیالکوٹ میں جموں کی جاگیر داری اور فوجداری عطا کی۔راجہ مان سنگھ نے سیالکوٹ کی تعمیر و ترقی پر کافی دھیان دیا اور کاغذ بنانے کی صنعت کو خاص طور پر ترقی دی۔شاہجہاں کے زمانے میں یہ پر گنہ علی مردان خان کے تصرف میں رہا۔اس زمانہ میں شہزادہ مراد بخش کے زیر کمان مغل فوج کا بل اور پشاور سے ہوتی ہوئی سیالکوٹ کے راستے پٹھان کوٹ پہنچی۔محمد شاہ کے زمانے میں ملکی افراتفری کے نتیجے میں پٹھانوں کے ایک طاقتور خاندان نے سیالکوٹ پر قبضہ کر لیا۔۱۷۴۸ء میں احمد شاہ ابدالی نے حملہ کے بعد واپسی پر میر منو کو حاصہ مالیہ ادا کرنے کے وعدے پر سیالکوٹ کا حاکم بنادیا۔اس کے بعد دوسرداروں جھنڈا سنگھ اور گنڈا سنگھ نے حملہ کر کے اس علاقہ پر قبضہ کر لیا۔۱۷۹۰ء میں رنجیت سنگھ کا دورِ اقتدار شروع ہوا اور سکھ قوم کے زوال کے بعد سیالکوٹ پر فرنگی دور حکومت مسلط ہو گیا۔انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کے بھیس میں ایک تاجر کی حیثیت سے یہاں آئے۔۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سیالکوٹ میں لڑی گئی جو دبادی گئی اسے انقلاب ۱۸۵۷ء کانام دیا گیا ۔سرِزمینِ سیالکوٹ کے غیور او رحریت پسند مسلمانوں کو قید و بند اور ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑا۔

          انیسویں صدی سے برصغیر پاک و ہند میں آزادی کی تحریکات کا آغاز ہوا ۔سیالکوٹ کے حریت پسند ان تحریکات میں عملی طورپر شامل تھے۔ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے تحریک عدم تعاون، تحریک ِ خلافت ، خاکسار تحریک،مجلس احرار، کانگریس اور مسلم لیگ کے نام سے جماعتیں قائم ہو گئیں ۔آزادی کی یہ تحریکیں زور پکڑ گئیں بالآخر مسلم لیگ اور کانگریس کی انتھک جدوجہد کی بدولت انگریز قوم کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ۔تحریکِ آزادی میں اہل سیالکوٹ کا کردار قابلِ تحسین رہا۔سیالکوٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ۱۹۳۰ء میں اس دھرتی کے مایہ ناز سپوت علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن پاکستان کاتصور پیش کیا ۔اسی طرح سیالکوٹ کی قابل فخر شخصیت پروفیسر اصغر سودائی نے نعرۂ پاکستان:

          پاکستان کا مطلب کیا۔لاالہ الا ﷲ محمد رسول اﷲ

          لکھ کر اس شہر کی شہرت کو چار چاند لگا دئیے۔ یوں تحریک آزادی کے ثمرات کے نتیجے میں ۱۴اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔

          ۱۹۴۷ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد ہزاروں مسلمانوں نے پٹھان کوٹ،گورد اس پور اور مشرقی پنجاب کے دوسرے حصوں سے سیالکوٹ ہجرت کی لیکن جب گورد اسپور کو بھار ت میں شامل کر دیا گیاتو یہ مہاجرین سیالکوٹ میں ہی آباد ہو گئے۔آزادی کے بعد جموں و کشمیر سے بھی بہت زیادہ مہاجرین نے سیالکوٹ کا رخ کیااور یہاں مستقل طورپر آباد ہو گئے۔پاکستانی حکومت نے ان مہاجرین کو سیالکوٹ میں زمینیں بھی الاٹ کیں۔گورداس پور کو برطانیہ نے اس لیے انڈیا میں شامل کیا تاکہ زمینی راستے کے ذریعے انڈیا کشمیر اور جموں پر قبضہ کر سکے۔بہت سے ہندو اور سکھ جو سیالکوٹ میں آباد تھے مشرقی پنجاب ،بھارت میں ہجرت کر گئے۔(۳۴)

          ۱۹۶۵ء میں کشمیر کی جنگ کے دوران بھارت نے لاہور کے ساتھ ساتھ سیالکوٹ پر بھی حملہ کر دیا۔جنگی برتری کے باوجود بھارت صرف چند ایک سرحدی علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔سیالکوٹ کے عوام بھارت کے چھ سو ٹینک کے حملے کو پسپا کرنے اور اپنے علاقے کو آزاد کرانے کے لیے افواج پاکستان کے ساتھ میدان عمل میں آئے۔سیالکوٹی غیور عوام نے مکار دشمن کے غاصبانہ قبضے سے سیالکوٹ کے سرحدی علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔خطۂ سیالکوٹ کے بہادر سپاہی اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے اور تاریخ کے سب سے بڑے ٹینکوں کے حملے کو پسپا کیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سیالکوٹ کے چونڈہ سیکٹر پر ٹینکوں کی یہ سب سے بڑی جنگ تھی۔۱۹۶۶ء میں حکومت پاکستان نے سرگودھا،لاہور اور سیالکوٹ کے جرأ ت مندا ور بہادر شہریوں کو ’’ہلالِ استقلال‘‘ اعزاز عطا کیا۔۱۹۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا ۔مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے میں بھارت نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔یہ جنگ پاکستان کے دیگر محاذوں کے ساتھ سیالکوٹ محاذ پر بھی شدت سے ہوئی ۔خصوصاً سیالکوٹ اور شکر گڑھ کے علاقے میں شدید جھڑپیں ہوئیں جس میں پاکستانی آرمی نے دشمن کی فوج کے حملوں کو جواں مردی سے پسپا کیا۔(۳۵)

Loading...
Table of Contents of Book
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Loading...
Chapters/HeadingsAuthor(s)PagesInfo
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...