Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > تہذیبی و سماجی تناظر

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

تہذیبی و سماجی تناظر
ARI Id

1688382102443_56116057

Access

Open/Free Access

Pages

30

تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے۔عربی میں یہ لفظ تراشنا،کانٹ ،چھانٹ کرنا،اصلاح کرنا،سنوارنا ،بچے کی اخلاقی تربیت کرنا اور اسے شائستہ بنانا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔اُردو زبان میں لفظ تہذیب کے معانی اصلاح ،صفائی ،آراستگی ،ذہنی ترقی،شائستگی ،ادب و تمیز،طرزِ معاشرت ،رہنے سہنے کا انداز و تمدن ہے ،کلچر وہ مرکب کل ہے جس میں عقیدہ ،علم ،آرٹ،اخلاق،قانون ،رسم و رواج اور دیگر قابلتیں اور عادات شامل ہیں ۔جن کا انسا ن نے معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے اکتساب کیا ہو۔مختصر یہ کہ تہذیب سے مراد ایک کثیر آبادی والے منظم معاشرے کی وہ تمام ذہنی و مادی سرگرمیاں ہیں جو نسلِ انسانی کی بقا ،معاشرے کی تنظیم ،قدرتی وسائل کا استعمال ،انسان کی روحانی و اخلاقی تربیت اور جمالیاتی حس کے لیے کی جائیں۔

          سیالکوٹ کی تہذیب قدامت کے لحاظ سے پانچ ہزار سال سے بھی پہلے کے آثار ظاہر کرتی ہے۔راجہ شل نے اس تہذیب کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔’’مہابھارت‘‘ میں راجہ شل کی نگری ’’شاکل ‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔(۳۶)

          ہندوؤں کی مشہور کتاب ’’مہا پور نیا‘‘ ہندی میں ہے۔اس کا قدیم نسخہ سرائے بھا بھڑیاں کے لالہ اوم پرکاش نے تاریخ سیالکوٹ کے مصنف رشید نیاز کو ۱۹۴۲ء میں دیا تھا۔(۳۷)

          اس کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے:

گیانی حام کے چھہ لڑکے تھے ۔ایک کانام ہنددوسرے کا نام سندھ،تیسرے کانام حبش ، چوتھے کانام افریج ،پانچویں کا نام ہرمز اور چھٹے کانام بویہ تھا۔سب سے بڑے لڑکے ہند نے بھارت کی بنیاد رکھی ۔ہند کے مشہور شہروں میں ایک مشہور شہر سیالکوٹ تھا۔یہ شہر جمبو(جموں) کے ڈھلوان میں آ پکا ندی کے کنارے آبا دہے۔راجہ بکر ماجیت سے ایک ہزار سال پہلے اس شہر پر راجہ کلدیوبھانی کی حکومت تھی۔اس نے شہر کو خوب محفوظ اور آباد کیااورایک عظیم فصیل بھی تعمیر کروائی ۔اس راجہ نے چھوٹے چھوٹے قلعے(گھڑیاں) بھی تعمیر کروائیں۔(۳۸)       

          اشوک کے بعد جب موریہ سلطنت پر زوال آیا تو باختر (شمالی افغانستان) کے یونانی نژاد باد شاہوں نے وادی سندھ پر قبضہ کر لیا ۔ان کی راج دھانی پہلے ٹیکسلا اور پھر سیالکوٹ (سکالا) تھی۔ان بادشاہوں نے با ختر سے اپنا رشتہ توڑلیا او رسلاطین مغلیہ کی طرح یہیں کے ہو کر رہ گئے۔(۳۹)

          ۳۲۳ قبل مسیح سکندر اعظم کے ساتھ جو مورخ پنجاب میں آئے ان میں مہورات نامی مورخ نے اپنی کتاب تذکرہ کی شکل میں تالیف کی جس کا ترجمہ زین العابدین شاہ کشمیری نے فارسی کے مشہور عالم سلیمان امروہی سے ’’معرکہ سکندر وپورس‘‘کے نام سے کرایا۔معرکہ سکندر وپورس کے صفحہ ۸۰ پر نقل ہے کہ حضرت مسیح سے تیرہ سو سال قبل دریائے راوی اور چناب میں زبر دست طغیانی آئی جو نہ صرف سکالا (سیالکوٹ ) کو بلکہ سارے دو آبہ رچنا کو صفحہ ہستی سے مٹا گئی۔(۴۰)

          مذکورہ بالا اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیالکوٹ کی تہذیب بہت قدیم ہے حتی کہ سکندر اعظم سے پہلے بھی اس تہذیب کے آثار تاریخ میں واضح طورپر پائے جاتے ہیں۔

          الیگزینڈر سے پیشتر سیالکوٹ کا علاقہ گھنے جنگلوں سے بھر پور تھا۔صرف دریاؤں کے کناروں پر یہاں لوگ جھونپڑیوں کی شکل میں رہائش پذیر تھے۔جنھیں یاہزر کہا جاتا تھا۔ریاست راجپوتانہ کے راجہ داچھورراؤ کے سپاہی اندور اور اوجین سے رضاکارانہ طورپورس کی امداد کے لیے آئے۔لڑائی کے خاتمہ پران پانچ ہزار سپاہیوں میں سے ساڑھے تین ہزار ادھر ہی رہ گئے اور جنگلوں کو صاف کر کے کھیتی باڑی کے کام میں لگ گئے۔ان میں شن(Shun)،ہن(Hun)اور ڈل(Dull)تھے۔انھوں نے مقامی رہنے والے باشندوں کو کاشتکاری کی تربیت دی اور کنوؤں کے طریقہ استعمال سے بھی آگاہ کیا۔مقامی باشندے جنس(Juns)اور یرز(Yirs)کہلاتے تھے جبکہ بھلر،مان اور ہیز با ری دو آب میں سکونت پذیر تھے۔(۴۱)وہ جٹورو،جاٹس یاجات(بحوالہ سنسکرت پوتا) جواب جاٹ کہلاتے ہیں مثلاً بھلر ،مان ،اور ہیر باقی سب راجپوت ہیں۔کوٹ نیناں اور جموں کی پہاڑیوں کے نزدیک جنس کنبے پائے جاتے ہیں۔جو ہندل تصور کیے جاتے ہیں جن کا تعلق راجپوتانے سے ہے۔ضلع سیالکوٹ میں اب اصل خاندان باجوہ ذات کے ہیں جو ’’اُج‘‘ جھنگ سے آئے۔اعوان غزنی سے ،گھمن مکیالہ (وسط انڈیا)سے،سندھو اودھ سے سلہریا پہاڑیوں سے ۔ان میں سے صرف اعوان مسلمان تھے۔(۴۲)

          ضلع سیالکوٹ میں جاٹ قوم کی علاقہ وار آباد کاری کچھ اس طرح ہے۔اعوان کوٹلی لوہاراں کے ارد گرد ،گھمن سمبڑیال کے گر د، چیمہ اور ساہی ملکھانوالہ اور ڈسکہ کے درمیان ،گورایا لڑھکی کے نزدیک اور سندھو ؤں کی زیادہ آبادی وڈالہ سندھواں کے گر دہے۔باجوہ ذات تحصیل پسرور اور نارووال میں آباد ہیں۔سلہریا ضلع سیالکوٹ کے شمال میں اورنالہ ڈیک کے نزدیک اوپر کے حصہ میں سلہریا ،منہاس ،باجوہ،کاہلوں اور دیو بھی آباد ہیں۔جنوب کی طرف بھنڈر،بسرا اور وڑائچ بھی رہائش پذیر ہیں ۔یہ تمام جاٹ کہلاتے ہیں ۔اراضی کے مالک اور کاشتکاری کے پیشے سے منسلک ہیں۔(۴۳)

          آتش لدھیانوی اپنے مضمون ’’سیالکوٹ انیسویں صدی میں ‘‘ سیالکوٹ کی اہم ذاتوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

اہم ذاتوں میں راجپوت ،جاٹ اور ارائیں ذاتوں کے لوگ کاشتکاری کرتے ہیں۔ جاٹ لوگ ضلع کے تقریباً ہر حصے میں آباد ہیں۔کاشتکار لوگوں میں یہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس ذات کے لوگ کئی گوتوں میں تقسیم ہیں۔مشہور گوتیں باجوہ، بسرا،چیمہ، گھمن،کاہلوں،ملہی، گورایا ،ساہی اور سندھو ہیں۔سوائے ڈسکہ کے باجوہ گوت کے لوگ تمام تحصیلوں میں آباد ہیں یہ اپنے آپ کو راجہ رام چندر سورج بنسی کے خاندان سے بتاتے ہیں۔(۴۴)

          سیالکوٹ میں آباد لوگوں کا لباس پنجاب کے دیگر شہروں سے ملتا جلتا ہے۔دیہاتی لوگ سادہ لباس،قمیض یا کرتا،لاچہ ،لنگوٹ،پگڑی یا صافہ پہنتے ہیں۔کندھوں پرا یک چادر رکھتے ہیں۔سردی کے موسم میں کھیس ،دوہر یا چوتہی کا استعمال کرتے ہیں۔عام طور پر سوائے پگڑی کے تمام ملبوسات کھدر کے ہوتے ہیں۔پاجامہ شہری اور امیر لوگ پہنتے ہیں۔شہری زیادہ تر پینٹ شرٹ،پینٹ کوٹ اور شلوار قمیض پہنتے ہیں۔

          سیالکوٹ کے قدیم رہائشی جو زیورات استعمال کرتے تھے ان کے نام آتش لدھیانوی کی تحقیق کے مطابق درج ذیل ہیں۔

گھوکھر و یا کنگن ،پہنچی ،چوڑی ،بند ،بازو بند ،انگشتری ،چھلا ،چھاپ ،پازیب ،کری ، توڑے، بانی ،ہانکل ،ہاسیری ،ہریاس کے زیورات ،چاندی کے لونگ، نتھہ ، جھمکا، ٹکہ ، سونے کے آرسی ،تیلا،ڈنڈیاں ،بالا ،تعویز ،پھل ،چونکا سونے اور چاندی دونوں دھاتوں کے ہوتے ہیں۔(۴۵)

          طرزِ تعمیر کا کسی علاقے کی تہذیب سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔سیالکوٹ کی طرز تعمیر میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔سیالکوٹ کی قدیم طرز تعمیر آتش لدھیانوی کے مطابق کچھ یوں تھی:

گھر یا تو مٹی اور گارے سے بنے ہوتے ہیں یا پھر اینٹ سے تعمیر کردہ ہیں۔دیہات کے گھروں کی چھتیں کھلی ہوتی ہیں اور ان پر مٹی ،بھوسا اور گوبر کی آمیزش سے تیارکردہ گارے سے لیپ ہوتا ہے۔اکثر دیہاتی گھروں کے باہر دیواروں پر اوپلے لگے ہوتے ہیں۔جو ایندھن کے طورپر استعمال میں لائے جاتے ہیں۔بڑے دیہات میں کوئی کوئی مکان اینٹوں سے بنا ہوا دکھائی دیتا ہے۔(۴۶)

          زبان انسان کا فطری ذریعہ ابلاغ ہے۔زبان ہی کی بدولت تہذیبی و سماجی ترقی ممکن ہوئی ۔زبان کسی بھی تہذیب کی پہچان ہے۔ابتدا میں انسان بے ہنگم آوازوں کے ذریعے ابلاغ کرتے تھے لیکن تہذیب و سماج کی ترقی کے ساتھ ساتھ بے ہنگم آوازوں نے ترقی یافتہ زبانوں کی شکل اختیار کی ۔شروع میں ہر تہذیب و سماج میں صرف عام روز مرہ بول چال کی زبان تھی ۔ا س طرح وقت کے ساتھ ساتھ یہ زبان صرف بات چیت تک محدود ہو گئی اور علم کے لیے زبان اس سے مختلف قرار پائی۔عالمی زبانوں کی طرح سیالکوٹ کی زبان میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔

          قیام پاکستان کے بعد سیالکوٹ کی پانچ تحصیلیں تھیں لیکن ۱۹۹۰ء میں جب تحصیل نارووال کو ایک علیحدہ ضلع بنا دیا گیا تو اس کے ساتھ شکر گڑھ کو بھی سیالکوٹ سے علیحدہ کر دیا گیا ۔شکر گڑھ سیالکوٹ کی تحصیل رہی ہے۔اس کی پنجابی بول چال اور اردو زبان میں ڈوگری اور گجری زبان کی آمیزش ہے۔شکر گڑ ھ کے لوگ اپنی زبان میں حرف’’ و‘‘ اور’’ ج‘‘ استعمال نہیں کرتے۔یہ لوگ اردو لفظ چھہ،کو شہ،اور پھہ کو ف پڑھتے ہیں۔

          شکر گڑھ کی دیہاتی زبان سیالکوٹ کے باشندوں کو سمجھنے میں بہت دقت محسوس ہوتی ہے۔سیالکوٹ کا حصہ ہونے کے باوجود اس علاقے کی زبان کا اثر سیالکوٹ کے دیگر علاقوں کی زبان پر نہیں پڑ سکا۔سیالکوٹ کی زبان کی اپنی اصلیت اور شناخت ہے۔تحصیل سیالکوٹ کا وہ علاقہ جو باؤنڈری لائن سے منسلک ہے۔اس علاقے کے باشندوں کی زبان پر جموں کی ڈوگری زبان کے گہرے اثرات ہیں۔بجوات کے لوگوں کی پنجابی اور اردو زبان میں گجری زبان کے بہت زیادہ الفاظ موجود ہیں۔بجوات میں مہاجرین کی اکثریت ہے جو قیام پاکستان کے بعد جموں سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔

          باونڈری لائن پر آباد زیادہ طرح لوگ گجر،سلہری ،ملک اور راجپوت برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ لوگ تیز پنجابی زبان بولتے ہیں ان کی پنجابی زبان کا لہجہ سیالکوٹ کے دیگر حصوں سے منفرد ہے اور اپنی علیحدہ پہچان رکھتا ہے۔سیالکوٹ شہر میں اردو زبان کے ساتھ ساتھ پنجابی بھی بولی جاتی ہے۔تحصیل سمبڑیال ،ڈسکہ اور پسرور میں پنجابی بولی جاتی ہے۔دیہی علاقوں میں پنجابی اور شہری علاقوں میں زیادہ تر اردو زبان بولی جاتی ہے۔سیالکوٹ کی پنجابی زبان کا تعلق پنجابی کے ماجھی گروہ کے ساتھ ہے ۔سیالکوٹ کے باشندے اردو زبان کے الفاظ کو لمباکرکے بولتے ہیں۔(۴۷)

          سیالکوت کی تہذیب میں روایتی تہواروں کا بھی اپنا منفرد رنگ موجود ہے۔خطہ سیالکوٹ یہ تہوار بڑے جوش وجذبے سے منائے جاتے ہیں۔بسنت ایک موسمی تہوار ہے۔جو بہا رکی آمد کے موقع پر منایا جاتاہے۔لوگوں میں عید کے روز اتنا جوش و ولولہ نظر نہیں آتا جتنا کہ بسنت کے روز دیکھنے میں آتا ہے۔سیالکوٹ میں کروڑوں روپے اس تہوار کی نظر ہو جاتے ہیں۔یہاں پتنگوں کا سب سے بڑا گڑھ چوک دارہ آرائیاں ہے۔یہ تہوار سیالکوٹ میں قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔

          بیساکھی ایک دیہاتی موسمی تہوار ہے اور اس کا رواج بھی پنجاب کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ سیالکوٹ میں صدیوں سے چلا آرہا ہے۔یہ تہوار ہر سال اپریل کی ۱۰ تاریخ کو گندم کی فصل کی کٹائی کے موقع پر منایا جاتا ہے۔اس تہوار میں دیہاتی لوگ خصوصاً ذوق و شوق سے شرکت کرتے ہیں۔اس میں بھنگڑا خاص طور پر قابل دید ہوتاہے۔سکھوں کا بھنگڑا ہمیشہ ہی خاص توجہ کا مرکز رہا ہے۔بیساکھی کے موقع پر ہندو اور سکھ مردو خواتین صبح سویر ے نالہ’’اَیک ‘‘ میں اشنان کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔یہاں یہ روایت بھی قابل ذکر ہے کہ بیساکھی کے موقع پر نالہ اَیک میں اشنان کرنے کی وجہ سے انسان خارش کے مرض سے محفوظ رہتا ہے۔اس طرح سیالکوٹ کے بعض علاقوں میں بیساکھی میلہ بھی لگتا رہا ہے۔(۴۸)

          سیالکوٹ میں جہاں دوسرے تہوار جوش و جذبے سے منائے جاتے ہیں وہاں سیالکوٹ میں بسنے والی ہندو برادری دیوالی کا تہوار بڑے تزک و احتشام کے ساتھ مناتی ہے۔ہندوؤں کے گھروں میں بھجن اور کرتن سے دیوالی کا آغاز ہوتاہے۔رات کو گھروں میں چراغاں کیا جاتا ہے۔دوست احباب اور رشتہ داروں میں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ہندو مہرا برادری کے لالہ سوہن لال اس جشن کے موقع پر بڑے فعال نظر آتے ہیں۔دیوالی کا تہوار صدیوں سے سیالکوٹ میں منایا جارہا ہے۔(۴۹)

          دھمتھل سنکھترا کے نزدیک گاؤں لوہان واقع ہے۔وہاں ایک غیرمسلم حضرت سخی سرور کے مزار پر ہر سال پیدل زیارت کے لیے جایا کرتاتھا۔راستے میں جہاں اس کا قیام ہوتا وہاں ایک میلہ منعقد ہوتا ہ۔اسی طرح چونڈہ میں بھی وہ دیسی ماہ پھاگن کی پہلی جمعرات کو آتا۔قصبہ کی مشرقی جانب ٹھاکر دوارہ میں قیام کرتا،جہاں جمعہ کے رو ز عورتوں کا میلہ ’’بڈھی میلہ‘‘ ہوتا اور ہفتہ کے رو ز شہر کے مغربی جانب باوامیلو کے نزدیک ہندوؤں کے تالاب کے جنوب کی طرف ایک پیپل کے نیچے ڈیرہ لگاتا جہاں بڑا میلہ لگاتا جسے چوکی میلہ کہا جاتا ہے۔۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے پہلے یہ میلہ نیچ قوم اچھوت اور چماروں کا میلہ تصور ہوتا رہا ۔عقیدت مند دور دو ر سے تشریف لاتے اور بزرگ ہندو کو نذرانے پیش کرتے،چڑھاوے چڑھاتے ،منتیں مانتے،یہ میلہ آہستہ آہستہ اس علاقے میں خاص شہرت حاصل کر گیا۔قیام پاکستان کے بعد لوہان کا مذکورہ بالا غیر مسلم ہجرت کر کے بھارت چلا گیا اور اس کی جگہ ایک ڈھول بجانے والے شیخ نے آنا شروع کر دیا۔جس کی اولا د متواتر ہر سال اب بھی سخی سرور کے مزار پر آتی ہے۔(۵۰)

          ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی سپاہیوں نے محاذ چونڈہ پر ملک کا دفاع کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ان شہیدوں کی یاد میں’’میلہ شہیداں‘‘۳ ستمبر تا ۹ ستمبر منعقد ہوتا ہے۔مقامی تعلیمی اداروں میں حکومتی احکامات پر چھٹی ہوتی ہے۔یہاں مویشیوں کی بہت بڑی منڈی بھی لگتی ہے۔ملکی سطح کے تمام تھیٹر ،سرکس،ورائٹی شو اور مختلف کھیلوں کی ٹیمیں اس میلہ میں شرکت کرتی ہیں۔اس میں ادبی محفلوں ،مشاعروں ،نعت خوانی اور قوالیوں کی محفلیں بھی خوب جمتی ہیں۔میلہ میں شہدا کے ورثا آکر شہدا کے ورثا آکر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔شہدا کی قبروں کو سلامی دی جاتی ہے اور پھولوں کی چادریں اور پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں۔یہ میلہ ضلع سیالکوٹ کا سب سے بڑا میلہ تصور کیا جاتاہے۔(۵۱)

          آرٹ اور فن سے انسان کا رشتہ برسوں پرانا ہے۔جب روشنی کی کرنیں منعکس ہو کر تاریک غاروں کو اجالا دیتیں توا نسان ان پر نقش و نگار بنانے کے لیے کھڑا ہوجاتا۔روشنی کے اس سفر سے جنم لینے والا یہ ہنر آج ’’مونا لیزا‘‘ کی ابدی مسکراہٹ پر کھڑا ہے۔اس ہنر سے وابستہ ہر فرد اس ابدیت کی تلاش میں سر گرداں ہو کر تخلیق و اختراع کے نت نئے زاویے تراش رہا ہے۔ تخلیق اختراع کے اس میدان میں ایک نام عظیم مصور ایس ایم خالد کا ہے۔جو پاکستان میں پنسل کلر پورٹریٹ کے خالق ہیں۔ان کا پورا نام سید محمود خالد ہے۔آپ تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں ۱۹۳۶ء کو پیدا ہوئے۔(۵۲)بین الاقوامی شہرت کے حامل عظیم مصور جالی ۱۹۳۱ء کو سیالکوٹ کے محلہ کشمیری (اقبال روڈ) میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد پروفیسر فضل حق علامہ اقبال کے بھانجے تھے اورجالی صاحب کی دادی علامہ اقبال کی حقیقی ہمشیرہ تھیں۔(۵۳)

          اسلم کما ل گوہد پور سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔فن مصوری اور خطاطی پر حکومت پاکستان نے ۱۹۹۳ء میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔لاہور میوزیم اور پنجاب کونسل آف دی آرٹس کے زیر اہتمام ان کی پہلی نمائش حضرت اقبال ؒ کے صد سالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں اقبال انٹر نیشنل کانفرنس کے موقع پر منعقد ہوئی۔مشہور ادبی رسالہ’’نقوش‘‘ اور دوسرے کئی ادبی رسالوں نے اپنے تاریخ ساز ’’اقبال نمبر‘‘ اسلم کمال کی اقبالیاتی مصوری سے ہی با تصویر کیے ہیں۔اسلم کمال کی اقبالیاتی مصوری سے ہی باتصویر کیے ہیں۔اسلم کمال کوکئی یونیورسٹیوں نے اپنی طرف سے صدارتی ایوارڈز سے نوازا۔(۵۴)صدارتی ایوارڈ یافتہ مصور بشیر کنور کا تعلق بھی سیالکوٹ کی دھرتی کے ساتھ گہرا ہے۔ان کا اسٹوڈیو مغل مارکیٹ ریلوے روڈ سیالکوٹ میں واقع ہے۔آپ پہلے آرٹسٹ ہیں جنھوں نے سب سے پہلے چنے کی دال پر تصویر بنائی او رچاول کے دانے پر کلمہ طیبہ لکھا۔انھوں نے دورِشباب میں سابق صدر ایوب خان کی یاد گار پورٹریٹ بنائی جس پرا نھیں صدارتی ایوار ڈ سے نوازا گیا۔(۵۵)فن مصوری اور کمرشل ڈیزائنگ کی دنیا میں ممتاز آرٹسٹ تفضّل ضیا اپنی مثال آپ ہیں۔سید تفضّل ضیا ۳ فروری ۱۹۳۲ء کو سیالکوٹ کے محلہ اسلام آباد میں پیدا ہوئے۔(۵۶)نذیر سجاد،جاوید اقبال (کارٹونسٹ) ،استاد محمد حسین،جمیل مرزا،شوکت علی اور محمدا کرام سیالکوٹ کے شہرت یافتہ آرٹسٹ ہیں۔

          سیالکوٹ کی دھرتی نے دیگر فنون کے علاوہ فنِ موسیقی میں بھی اعلیٰ پایہ کے فن کار استاد موسیقی پیدا کیے جن میں استاد طفیل نارووالیہ طبلہ نواز،استاد شفیع پسروریا ،طبلہ نوا ز ،استاد اﷲ دتہ بہاری پوریا طبلہ نواز،استاد اﷲ رکھا ٹانڈے والیا طبلہ نواز،آغا مبارک وائلن نواز ،استاد صوفی محمد اسماعیل بیناں والے اور استاد احمد دین جو مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کو موسیقی کی تعلیم دیتے تھے۔اشفاق نیاز تاریخ سیالکوٹ میں اس حوالے سے رقم طراز ہیں:

مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال استاد احمد دین خان سے موسیقی کی تعلیم لیتے رہے۔(۵۷)

          مشہورِ زمانہ گلوکار غلام علی ،استاد احمد حسین،معراج دین چائے والے ،چن نور،نثار بٹ ،جلیل غوری جو کلاسیکل گلوکاراورا ستاد موسیقی ہیں۔مذکورہ بالا نام سیالکوٹ میں موسیقی کے حوالے سے منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔خطۂ سیالکوٹ میں مقامی میوزک اکیڈیمیاں بھی موسیقی کی تعلیم و ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔سر سنگم اکیڈمی(۱۹۹۶ء ) پاکستان آرٹس ،سرکل سیالکوٹ ،مڈ نائٹ میوزیکل گروپ ،پائیسرز گروپ ،ردھم میوزیکل گروپ (۱۹۹۲ء ) کے سب رنگ میوزیکل گروپ ،پائیسرز گروپ ،ردھم میوزیکل گروپ اور جوش میوزیکل گروپ سیالکوٹ کے اہم میوزیکل ادارے ہیں۔

          سرِزمین سیالکوٹ سے تھیٹر کو بھی بہت سے نامور فنکار ملے جنھوں نے تھیٹر کو اپنے فن سے روشن کیے رکھا۔ماسٹر چراغ دین ،ماسٹر عبدالعزیز، غلام حسین،اﷲ دتہ،سوہنا،قربان علی ،بنی بخش ،فیروز الدین ،بڑے عاشق علی ،عاشق جٹ ،نواب دین جٹ،ولی شاہ ،پھجوپیا ،منظور حسین،اقبال شیخ اور حامد خان ایسے ہی فنکاروں میں سے ہیں۔

          ماسٹر لبے خان ،ماسٹر تیر تھہ رام ،ماسٹر منظور احمد اور عاشق علی خان کے تھیٹر میں دھنیں بنانے اور باجہ بجانے میں بھی بہت نام کمایا ۔جو سیالکوٹ کی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں۔سیالکوٹ میں بے شمار فن کاروں نے جنم لیاجن کی اسٹیج ڈرامے شروع ہی سے دلچسپی کا باعث رہے۔محمود الحسن مکھن ،صوفی غلام حیدر،محمد اقبال ،قاضی ذکا ،اعظم جہانگیر ،قمر انجم ،آغا امتیاز ،بشیر کنور، انور عروج ،امتیاز شاہ اور عاصی گمنام پوری سیالکوٹ کے اہم ڈرامہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔

          خطہ سیالکوٹ میں تھیٹر اور اسٹیج ڈراموں کو ترقی دینے میں شاہین آرٹس کونسل سیالکوٹ ،ڈرا میٹک سو سائٹی اسلامیہ کالج سیالکوٹ ،الشہکار آرٹ سو سائٹی سیالکوٹ،خان آرٹ کونسل سیالکوٹ اور سیالکوٹ آرٹس ایکویٹی جیسے اداروں نے اہم کردار ادا کیا ۔انوا ر کلب سیالکوٹ ،جناح ہال قلعہ سیالکوٹ ،نیو پرل سینما ہال سیالکوٹ ،سیالکوٹ تھیٹر اور نشاط سینما ہال سیالکوٹ میں اسٹیج ڈرامے ہوتے رہے ہیں۔۱۹۹۵ء کے بعد اسٹیج ڈراموں میں بہت زیادہ تبدیلی آگئی اور اسٹیج ڈرامے پر فحش کلامی کی وجہ سے فیملی ڈراموں کا خاتمہ ہو کر رہ گیا۔لوگوں نے اسٹیج ڈرامے دیکھنے چھوڑدئیے۔(۵۸)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...