Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

اشخاص
ARI Id

1688382102443_56116059

Access

Open/Free Access

Pages

35

الف۔    اشخاص:

          سیالکوٹ کی مٹی بڑی زرخیز اور مردم خیز ہے۔سر زمینِ سیالکوٹ نے علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے میدانوں میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔سیالکوٹ کی علمی و ادبی اہمیت مسلمہ ہے۔ہر دور میں خواہ وہ ہندو راج ہو یا مغلیہ راج یا انگریز راج سیالکوٹ نے ہر دور میں علمی و ادبی مرکز کے حوالے سے اپنی شناخت قائم رکھی ہے۔یہاں سے بہت سی نامور روحانی اور علمی و ادبی شخصیات نے جنم لیاہے اور بعض نے یہاں کی روحانی اور علمی وا دبی شخصیات سے فیض حاصل کیا ہے۔

          اطہر سلیمی کی تحقیق کے مطابق سیالکوٹ قبل مسیح بھی ایک عظیم تعلیمی مرکز تھا وہ اس حوالے سے رقم طراز ہیں:

۷۰۰ق م سے ۶۰۰ ق م تک یہ اتنا عظیم تعلیمی مرکز بن چکا تھا کہ بنارس کے شہزادے بھی حصول علم کے لیے یہاں آتے تھے۔(۵۹)

          مغلیہ عہد حکومت میں سیالکوٹ برصغیر پاک و ہند کے علمی مراکز میں سے ایک اہم علمی مرکز تھا۔خاص طور پر ملاّ کمال کشمیری(م ۱۰۱۷ھ) اورا ن کے شاگر د ملا عبدالحکیم سیالکوٹی کے مکاتیب نے بڑی شہرت پائی۔جہاں ملک اور بیرون ملک کے دور دراز گوشوں سے طالبان علم کھنچے چلے آتے تھے ۔اس زمانے میں سیالکوٹ میں نامی گرامی علما کا اجتماع رہا کرتا تھا۔(۶۰)

          اکبر کے زمانے میں حضرت شاہ حمزہ غوث بڑے متقی بزرگ اور پرہیز گار گزرے ہیں ۔اکبر بادشاہ بھی سیالکوٹ آتا آپ کی صحبت میں ضرور حاضر ہوتا اور آپ کے کارناموں کی وجہ سے آپ کے لیے بہت بڑی جاگیر مقرر کی تھی۔حمزہ غوث آپ ہی کی جاگیر پر آباد ہے اس محلہ میں آپ کا مزار اور چلہ گاہ موجود ہے۔

          بابا فتح اﷲ حقانی بھی اپنے وقت کے صاحب کرامت و ریاضت بزرگ گزرے ہیں۔آپ حضرت بابا اسماعیل کے فرزند ارجمند تھے۔جب کشمیر کے حالات دگرگوں ہو گئے تو بابا فتح اﷲ حقانی مع اہل و عیال کشمیر جیسے جنت نظیر وطن کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر سیالکوٹ چلے آئے۔جب سیالکوٹ والوں کو علم ہوا تو تمام ارباب فضل و کمال ان کی طرف جھک پڑے۔مولانا کمال اور مولاناجمال آپ کے داماد اور مریدو شاگرد تھے۔آپ نے طویل عرصہ تک سیالکوٹ میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔یہ آپ ہی کی محنت کا نتیجہ تھا کہ ملا کمال اور ملا جمال جیسے صاحب علم حضرات نے اس منبع نور سے روشنی حاصل کر کے گوشے گوشے کو منور کیا۔بابا فتح علی حقانی کے بیٹے بابا عمر حقانی بھی بڑے عالم و فاضل تھے۔کشمیر کی فتح کے بعدا کبر بادشاہ نے آپ کو دو گاؤں سیالکوٹ میں بطور جاگیر عطا کیے۔ملا جمال کے بھائی ملا کمال اپنے وقت کے نامور فاضل تھے۔یہ دونوں بھائی اپنی قابلیت کی وجہ سے ملا حقانی کے داماد بنے۔

          اکبر نے جب کشمیر کو سلطنت ہند کے ساتھ ملحق کر لیاتو وہاں مغل گورنر مقرر ہونے لگے۔جن کوناظم یا صوبہ دار کہتے تھے۔اسی زمانہ میں کشمیر کے جید عالم مولانا کمال اکبر ی گورنر سے ناراض ہو کر سیالکوٹ چلے آئے جہاں ان کے کئی ہم وطن موجو د تھے۔سیالکوٹ اس وقت راجہ مان سنگھ کی جاگیر میں تھا۔اس کا کاردار ملا کمال سے بڑی عزت سے پیش آیا۔مولانا کمال الدین نے میاں وارث کشمیری کی عالیشان مسجد میں قرآن و حدیث کا درس جاری کیا جہاں علوم کے پیاسے جوق در جوق آکر سیراب ہونے لگے۔مولانا کی تعلیم کی برکت سے فقہ،حدیث،تفسیر، منطق،فلسفہ میں ایسے ایسے نامور لوگ پیدا ہوئے کہ مولانا کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔جن شاگردوں نے مُلّا کمال کا نام روشن کیا ان میں حضرت مجدد الف ثانیؒ ،مُلّا عبدالحکیم سیالکوٹی ؒ اور نواب سعد اﷲ خان چینوٹی مشہور ہیں۔ملا کمال کے متعلق محمد دین فوق لکھتے ہیں:

 مولانا جمال کے چھوٹے بھائی(مُلّا کمال) مولوی عبدالحکیم ،حضرت مجد دالف ثانی اور نواب سعد اﷲ خان وزیر شاہ جیسے نامور شاگرد وں کے استاد تھے۔(۶۱)

رشید نیاز مُلّا کمال کے حوالے سے اپنی تصنیف ’’اولیائے سیالکوٹ‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:

علم وعرفان کا ایک پودا سر زمینِ سیالکوٹ میں اُگا جو بہت جلد شجر طوبیٰ بنا اور اس کی علم و دانش کی شاخیں دنیائے اسلام کے علمی گلشنوں کا طرۂ امتیاز بن گئیں۔(۶۲)

          مُلّا جمال ملاّ کمال کے بڑے بھائی تھے۔دونوں بھائی اکٹھے کشمیر سے سیالکوٹ تشریف لائے ۔آپ بھی علوم ظاہری و باطنی میں ید ِطوے رکھتے تے۔ان گنت تلامذہ آپ سے مستفید ہوئے۔مُلّا جمال کا ایک بیٹا قاضی ابو القاسم مُلّاجمالی اپنے وقت کا زبر دست عالم تھا۔نواب سعد اﷲ خان بغرض تعلیم چینوٹ سے سیالکوٹ آئے۔نواب سعد اﷲ خان بھی علم کی سچی لگن رکھنے والے تھے۔آپ مُلّا کمال کشمیری کے شاگرد اور مُلّا عبدالحکیم کے ہم مکتب تھے۔آپ کے دل و دماغ نے جب قوت حاصل کی اور آپ کی ذہانت و ذکات کے جو ہر کھلے تو آپ کے استاد مُلّا کمال نے ان کی تعلیم و تدریس میں خاص دلچسپی لی ۔آپ اپنے زمانے کے علامیؔ و فہامیؔ کہلائے۔آپ اپنی علمی قابلیت کی بنا پر ہی شاہ جہاں کے دستورِ معظم بنے۔بقول فوق:

بادشاہ کی نظروں میں یہاں تک ضرب واقتدار حاصل کیا کردار الشکوہ جوولی عہد اور بادشاہ کاسب سے پیار ا بیٹا تھا اس کو اپنا مد مقابل سمجھتا اوراس سے خوف کھاتا۔(۶۳)

          نواب سعدا ﷲ خان کے علم و فضل اور علمی شہرت و قابلیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔سیالکوٹ میں حصولِ تعلیم کے بعد سعدا ﷲ خان شاہ جہاں جیسے عظیم القدر شہنشاہ کا وزیر اعظم بنا جس کی حضوری و حاضری کے لیے بڑے بڑے مہاراجے،نواب،صوبیدار اور جاگیر دار پہروں کھڑے رہتے تھے۔نواب سعدا ﷲ خان کا بڑا بیٹا نواب لطف اﷲ خان ۱۰۹۱ہجری میں عالمگیر کے دورِ حکومت میں پنجاب کا گورنر بنا۔

          حضرت امام علی الحق ؒ کا اسمِ گرامی علی اور لاحق بابا فرید گنج شکر کا بخشا ہوا خطاب ہے۔حضرت امام کی سیالکوٹ میں تشریف آوری کے متعلق متضاد روایات ہیں۔پہلی روایت کے مطابق فیروز تغلق کے عہد میں راجہ ساہنپال نے قلعے کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے وزیروں اور پنڈتوں سے مشورہ کے بعد ایک مسلمان بڑھیا کے نوجوان بیٹے مراد کے قتل کے بعد خون قلعے کی دیواروں یا بنیادوں میں چھڑکا۔غم کی ماری بڑھیا کسی نہ کسی طرح امام صاحب تک فریاد لے کر پہنچی امام صاحب اپنے دونوں بھائیوں ناصر اور حضرت میراں کے علاوہ دیگر لشکر کو ساتھ لے کر مراد کا بدلہ لینے کے لیے سیالکوٹ تک پہنچ گئے ۔کئی دن تک کفر و اسلام کی شمیشریں آپس میں ٹکرائیں بالآخر فتح نمازیان اسلام کو نصیب ہوئی اس موقع پر شکرانے کے نوافل ادا کرتے وقت کسی کافر نے زہر آلود تیر آپ کی پشت مبارک میں پیوست کر دیا ۔آپ گر ے چند ساعت کے بعد اس جہان فانی سے پردہ فر ماگئے۔

          یہ روایت فوقؔ،عبدالصمد کے علاوہ جاوید اقبال بھی بیان کرتے ہیں مگر رشید نیاز اس سے اختلاف کرتے ہیں اور امام صاحب کی سیالکوٹ میں آمد کے بارے میں دوسری روایت بیان کرتے ہیں:

حضرت امام فیروز تغلق کے نہیں بلکہ بلبن کے زمانے میں گزرے ہیں۔(۶۴)

          رشید نیاز مولف’’ خزیۃ الاصفیا ‘‘کے حوالے سے امام صاحب کی سیالکوٹ کی سر زمین میں آمد جنگی مشن کی بجائے پرامن تبلیغی سلسلے کی کڑی ثابت کرتے ہیں۔فوق اسم گرامی علی الحق بیان کرتے ہیں جب کہ رشید نیاز امام علی لاحق اسم گرامی بیان کرتے ہیں۔بہر حال یہ طے ہے کہ حضرت امام کا زمانہ کوئی بھی ہو یا پھر ان کی سیالکوٹ میں آمد جنگی سلسلہ یا پر امن تبلیغی سلسلے کی کڑی ہو آپ کی ذات بابرکت نے انسانوں کے دلوں میں ایمان کی روشنی کو تیز سے تیز تر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔آپ کی تبلیغی خدمات کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔

          شیخ المشائخ حضر ت بابا عمر حقانی کشمیری بابا فتح اﷲ شاہ حقانی کے بیٹے تھے۔بابا عمر حقانی پر مغل بادشا ہ اکبر کی بے حد عنایتیں تھیں ۔آپ ہی کی وساطت سے علما وصلحائے کشمیر کی جماعت اکبر کے دربار میں پہنچی ۔اس جماعت کی استدعا پر اکبر نے کشمیر کو خانہ جنگیوں سے نجات دلا کر ممالک مجروسہ میں شامل کیا۔تسخیرِ کشمیر (۱۵۵۶ء ) کے بعد اکبر نے حضرت بابا عمر حقانی کو ۱۹۰۰ بیگھہ زمین موضع رسول پور پرگنہ بسنت حوالئے دہلی میں بطور جاگیر عنایت کی ۔دو موضع سیالکوٹ سے دیے کہ سرکار پنجاب کے ماتحت تھا اور چند قریہ خادمان بابا عمر کے لیے کشمیرمیں وقف کیے۔(۶۵)

          مُلّا محمد رضا رحمتہ مُلّا کمال کشمیر ی کے فرزندتھے۔ آپ خدا داد قابلیت کی بنا پر حکیم دانا کے نام سے مشہور ہوئے۔ ایک عرصہ تک آپ نے سیالکوٹ میں درس و تدریس کا شغل اختیار کیے رکھا ۔جہانگیر بادشاہ نے آپ کی شہرت و قابلیت سن کر آپ کو اپنی مجلس میں شامل کیا ۔ اس نے آپ کو اپنے دربار میں ایک اعلیٰ عہدے سے بھی نوازا۔(۶۶)

          مُلّا کمال کے شاگرد علامہ مُلّا عبدالحکیم سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ان کے ابتدائی حالات کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔فوق کے مطابق روضتہ الادبا میں ان کے والد کا نام شمس الدین لکھا ہے۔فوق کے مطابق آپ کی پیدائش کا زمانہ اکبر کا عہد ہے۔حضرت مجد د الف ثانی ؒ اور نواب سعداﷲ آپ کے ہم مکتب اور عزیز ساتھی۔(۶۷)ڈاکٹر امین اﷲ و ثیر کے مطابق مُلّا عبدالحکیم کا سال پیدائش ۱۵۶۰ء کے لگ بھگ ہے۔

          ان کے مطابق مجدد الف ثانیؒ کا سال پیدائش ۱۵۶۳ء ہے ۔آپ مُلّا عبدالحکیم سیالکوٹی سے تین سال چھوٹے تھے۔(۶۸)مجدد الف ثانی ؒ اور مُلّا عبدالحکیم کے درمیان خوشگوار روابط قائم تھے۔عبدالحکیم نے جب ۱۶۱۳ء میں اپنے کسی شاگرد کے توسط سے حضرت مجدد الف ثانی کا ایک مقالہ پڑھا تو وہ اس کے معارف و حقائق سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے مجدد الف صاحب کی خدمت میں ایک ارادت مندانہ عریضہ ارسال کیا۔جس میں حضرت مجددؒ کو امام ربانی ،محبوب سبحانی ،مجدد الف ثانی کے الفاظ سے مخاطب کیا۔مجدد الف ثانی کا خطاب اس قدر مقبول ہوا کہ حضرت کے دیگر خطابات ’’قیوم اول‘‘ و خزینتہ الرحمتہ‘‘ سے زیادہ شہر ت پائی۔عبدالحکیم مجد د الف ثانی کے ایسے معتقد ہوئے کہ ۱۶۱۴ء میں سیالکوٹ سے سر ہند پہنچ کر حضرت مجددؒ سے شرفِ بیعت حاصل کیا اور حضرت کے مجد د الف ثانی ہونے کے اثبات میں ایک رسالہ ’’دلائل التجدید ‘‘کے نام سے لکھا ۔حضرت مجدد ؒ نے مُلّا عبدالحکیم کو ’’آفتاب پنجاب‘‘ کے لقب سے نوازا۔(۶۹)

          اکبر کے دربار تک مُلّا عبدالحکیم کی رسائی نہیں ہوئی تاہم اس عہد میں اکبر کے مدرسہ لاہور میں سرکاری مدرس مقرر ہو گئے تھے۔وہاں وہ فاضل لاہوری کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے۔جہانگیر نے جن ارباب علم و فضل کی قدر شناسی کی تھی ان میں وہ بھی تھے۔جہانگیر نے انھیں ایک معقول جاگیر بھی عطا کی تھی۔شاہ جہان کا دربار کئی اسلامی ملکوں کے علماو فضلا کا ماوا و ملجا بنا ہوا تھا ۔ان سب میں عبدالحکیم کا مرتبہ بہت بلند اور نمایاں تھا۔کچھ مدت تک وہ شہزادوں کو بھی تعلیم دیتے رہے۔شاہ جہان نے انھیں ’’ملک العلما‘‘کا خطاب عطا کیا اور دو بار چاندی سے تلوا کر ان کے وزن کے برابر چھ چھ ہزار روپیہ نقد بخشا۔(۷۰)

          عبدالحکیم سیالکوٹی علوم عقلیہ و نقلیہ کے جامع اور اپنے عہد کے نامور عالم تھے ان کی شہرت ان کی زندگی میں قسطنطنیہ تک پہنچ گئی تھی۔حاجی خلیفہ (۱۶۵۷ء ) نے اپنی تصنیف’’کشف الظنون ‘‘ میں ان کی تصانیف کا ذکر کیا ہے۔آپ کی مشہور تصانیف میں سے چند کے نام یہ ہیں۔(الف)تفسیر میں (۱)حواشی علیٰ تفسیربیضاوی ،بیضاوی تفسیر کا اہم حصہ ہے۔ یہ پہلی دو سورتوں کی تفسیر ہے ۔اس حصے پر کئی علما نے حواشی لکھے ہیں،مگر عبدالحکیم کے حواشی اساتذہ و تلامذہ میں بہت مشہور اور متداول ہیں۔حاجی خلیفہ نے کشف الظنون میں تعریف کے ساتھ ذکر کیا ہے۔محمد محبی نے ’’خلاصتہ الا ثرفی اعیان القرن الحادی عشر‘‘ میں لکھا ہے۔

(ا)      ’’رایتہا و طالعت فیھا ابحاثاً دقیقتہ

(۲)     حاشیتہ علی الکشاف (غیر مطبوعہ )

 (ب)   فقہ میں (۳) حاشیتہ علی االتلویح (غیر مطبوعہ)

(۴)     حاشیتہ علی الحسامی (مطبوعہ)

(ج)     علم کلام میں (۵) حاشیتہ علی الخیالی (مطبوعہ)

 (۶)    حاشیتہ علی شرح العقائد الجلالی (مطبوعہ )

(۷)     حاشیتہ علی شرح المواقف( مطبوعہ)

(۸)     الرسالتہ الخاقانیتہ الموسومتہ بالدار الثمینہ (غیر مطبوعہ)

 (۹)    زبدۃ الا فکار (غیر مطبوعہ) علم منطق و فلسفہ میں

(۱۰)   حاشیتہ علی میر قطبی (غیر مطبوعہ)

(۱۱)   حاشیتہ علی حاشیتہ مطالع الانوار(غیر مطبوعہ)

(۱۲)   حاشتیہ علی قطبی (غیر مطبوعہ)

(۱۳)   حاشیتہ علی میبذی (غیر مطبوعہ) صرف و نحو معانی میں

(۱۴)   حاشیتہ علی المطول (مطبوعہ)حاشیہ علی حاشیہ عبدالغفور ۔مخطوطات کے لیے دیکھے برا کلمان اور زبیر احمد:

Contribution of Indo-Pakistan to Arabic Lit

          اِن مذکورہ بالا کتب کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب بھی انھیں کی تصنیف ہیں لیکن نہ وہ طبع ہوئیں اور نہ کہیں ان کا مخطوطات کی شکل میں موجود ہونا معلوم ہے۔

(۱)     حاشیتہ شرح حکمتہ العین

(۲)     حواشی برشرح مراح الارواح

(۳)     القول المحیط بتحقیق جعل مولف و جعل بسیط

(۴)     حاشیتہ شر ح تہذیب

          مندرجہ بالا شرو ح و حواشی کے علاوہ بھی عبدالحکیم کی بعض تصانیف و تالیف کے نام ملتے ہیں۔

          مُلّا عبدالحکیم سیالکوٹی کا دائرہ تصنیف و تالیف خاصا وسیع ہے۔وہ علم کلام، تفسیر ،منطق ،فلسفہ ،صرف و نحو، اُصولِ فقہ اور علمِ فرائض میں مہارت تامہ رکھتے تھے اور ان تمام علوم میں اُن کی تالیفات موجو د ہیں۔منطق و فلسفہ اور اسلامی عقائد سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔بہت سی معروف درسی کتابوں پر قابل قدر حواشی اور تشریحات کے علاوہ بعض مستقل تصانیف بھی ان کی یاد گار ہیں جن کی بنا پر وہ علمی دنیا میں ایک مشہور ومعروف ہستی کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔پاکستان و ہند کے مسلمان علما کی صف میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔عبدالحکیم کی تالیفات عام طورپر ان کے مربی اور قدر دان مغل بادشاہ شاہ جہان کے نام معنون ہیں۔(۷۱)

          مُلّا عبدالحکیم کی شہرت صرف پاک و ہند میں نہیں تھی بلکہ وہ ہندوستان سے باہر اسلامی دنیا میں بھی علمی حیثیت رکھتے تھے۔

          اس حوالے سے ڈاکٹر امین اﷲ وثیریوں رقم طراز ہیں:

عراق،شام اور استانبول کی متعدد درسگاہوں میں مجھے ان کی تصانیف داخل درس دیکھنے کا موقع ملا……ہندوستان سے باہر بلا داسلامیہ میں علمی حیثیت سے جو شہرت عبدالحکیم سیالکوٹی صاحب کو حاصل ہوئی اسے کوئی ہندوستانی مصنف حاصل نہیں کر سکا۔(۷۲)

          قرآن مجید کی تعلیم کے بعد حضرت مجد د الف ثانیؒ اپنے والد سے تعلیم حاصل کرتے رہے۔سیالکوٹ میں بعض کتابوں کی تعلیم مولانا کمال کشمیری اور علم حدیث کی تعلیم مولانا محمد یعقوب کشمیری سے حاصل کی ۔سترہ سال کی عمر میں علوم ظاہری سے فراغت حاصل کر کے تدریس و تصنیف میں مشغول ہوگئے۔طالب علمی کے دور میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ سیالکوٹ میں رہے اس لحاظ سے حضرت مجدد کا سیالکوٹ سے بھی گہرا تعلق رہا۔

          جہانگیر کے وظیفہ خواروں میں حاجی فتح محمد ؒ بھی سیالکوٹ میں صاحب کرامت تھے۔ہندو مسلم بلا تمیز مذہب و ملت آپ کی سخاوت سے مستفید ہوتے تھے۔سیالکوٹ میں محلہ حاجی پورہ آپ ہی کے نام پر آبا د ہے۔اسی محلہ میں آپ نے ایک عالی شان مسجد تعمیر کروائی آپ کا مزار اسی مسجد کے قریب ہے۔

          سیالکوٹ میں حضرت شاہ سید بھی بلند پایہ بزرگ گزرے ہیں۔حضرت شاہ دولہ گجراتی انہیں کے مرید تھے۔آپ کا مزار گندم منڈی میں ہے۔بہادر شاہ کے عہد میں حضرت شاہ خاکی ولی بہت ہی پرہیز گار بزرگ گزرے ہیں۔آپ اپنا وقت زیادہ تر گوشہ نشینی اور یا دالہیٰ میں گزارتے تھے۔آپ کا مزار محلہ رنگپورہ میں واقع ہے۔حضرت شاہ مونگا ولی کا تعلق بھی سیالکوٹ سے تھا۔جو بہادر شاہ کے عہد میں بہت بڑے خدا پرست اور گوشہ نشین بزرگ تھے۔آپ اپنے وقت کے قطب اور تاج ولایت کے درخشندہ موتی حضرت سیدنا مست سیالکوٹی کے خاص مریدوں میں سے تھے۔رنجیت سنگھ کے عہد میں راجہ گھمان کے بہت بڑے وزیر سنگھ نے حسن اعتقاد سے ان کے مقبرہ کی شاندار عمارت بنوائی جو قابل تعریف ہے۔

          حضرت حافظ برخوردار نو شاہی قادری سلسلہ کے بانی حضرت محمد شاہ گنج بخش قادری کے فرزند ارجمند تھے۔آپ حدیث،فقہ،علم الکلام کے کامل عاقل تھے اور زبردست شاعر تھے۔سوہنی مہینوال،یوسف زلیخا اور ہیر رانجھا کے علاوہ بہت سی منظومات آپ نے لکھی ہیں۔

          ۱۸۵۰ء سے ۱۹۰۰ء کے دوران سیالکوٹ میں مولانا شبیر محمد،مولانا غلام حسن،مولانا غلام مرتضیٰ اور مولوی محبوب بہت بڑے عالم فاضل گزرے ہیں۔ان اساتذہ کے اپنے کتب خانے بھی تھے۔جس سے وہ خود اور ان کے شاگرد استفادہ کرتے تھے۔(۷۳)ان کتب خانوں کے علاوہ مشن کے تعلیمی اداروں ،میونسپل بورڈ ہائی سکول کے اپنے اپنے کتب خانے بھی موجود تھے۔جس سے تشنگان علم اپنی پیاس بجھاتے رہے۔

          سیالکوٹ کا ادبی ذوق او ر ادبی ماحول مضبوط تر ادبی روایات کاحامل رہا ہے۔جب اقبال ابھی طالب علم ہی تھے توان دنوں سیالکوٹ میں میراں بخش جلوہ سیالکوٹی کا بڑا چرچا تھا۔جلوہ انیسویں صدی کے ربع آخر میں اردو شعر کہتے تھے۔انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسوں میں نظمیں پڑھتے تھے۔اپنے زمانے میں سیالکوٹ کے بڑے معروف شخص تھے۔آپ جہلم کے اخبار ’’سراج الاخبار‘‘ کے سیالکوٹ میں رپورٹر تھے اور آپ کی شاعری بھی اسی اخبار میں چھپتی رہی۔ سیالکوٹ کی ادبی تاریخ میں گلاب متخلص عشق پیچہ سیالکوٹی کانام اہم ہے۔عشق پیچہ کشمیر ی بٹ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین کے مطابق:

عشق پیچہ ۱۸۵۷ء میں جوان تھے۔ میر حسن ان دنوں ابھی بچے تھے۔ہم محلہ ہونے کی وجہ سے میر حسن نے ان کو عہد شباب میں دیکھا تھا۔عشق پیچہ اس وقت کے مشاعروں کی جان تھے۔ان کی زیر صدارت شعرو شاعری کی محفلیں جمتی تھیں۔اقبال کا ابتدائی کلام یقینا ان کی نظروں سے گزرا ہو گاا ور اپنی رائے کا اظہار بھی کیا ہو گا۔عشق پیچہ نے ایک طویل عمر پا کر ۲۴ مئی ۱۸۹۰ء کو سیالکوٹ میں انتقال کیا۔(۷۴)

          حامد شاہ مولوی میر حسن کے برادر عم سید حسام الدین کے بڑے فرزند تھے۔۱۸۷۷ء میں انھوں نے مڈل کا امتحان پاس کیا۔و ہ اردو میں شعر کہتے تھے۔سیالکوٹ کے مشاعروں میں اپنا کلام سنا کر داد تحسین وصول کیا کرتے تھے۔حامد شاہ نے مرزا غلام احمد قادیانی کی بیعت کر لی۔ایک دفعہ حامد شاہ نے اقبال کو مرزائی ہونے کی دعوت دی۔اقبال نے انکار کیا اور۴۰ اشعار پر مشتمل ایک منظوم شکل میں جواب دیا۔(۷۵) مولوی فیروز الدین اردو اورپنجابی میں شعر کہتے تھے۔ڈسکہ کے رہنے والے تھے۔مسدس حالی سے متاثر ہو کر ’’اصلاح قوم کی تحریک‘‘ کے زیر عنوان ایک طویل نظم جو حمایت اسلام لاہور کے مجلہ بابت ماہ جون ۱۸۹۴ء میں شائع ہوئی تھی۔آپ سیالکوٹ کے مشاعروں میں حصہ لیتے تھے۔قرآن مجید کے کچھ حصوں کو اردو میں منظوم کیا اور اردو کی ایک لغت ’’فیروز اللغات ‘‘مرتب کی ۔محمد فیروز الد ین نے ۱۹۱۳ء میں سیالکوٹ میں وفات پائی۔(۷۶)

          نوراﷲ شاہ(۱۹۴۸ء ۔۱۸۶۳ء) اور نورالحسن نقشبندی (۱۸۶۰ء۔پ) نے بھی اردو اور پنجابی کے شاعر کی حیثیت سے اپنا ادبی کردار ادا کیا ۔امین حزیں سیالکوٹی (۱۸۸۴ء ۔پ) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ان کا اصل نام خواجہ محمد مسیح پال تھا۔آپ مشن ہائی سکول اور مشن کالج میں مولوی میر حسن کے شاگرد رہے ۔آپ بچپن میں شعر کہتے تھے۔ڈاکٹر عبدالوحید مولف’’شعرائے اردو‘‘ ان کے حوالے سے لکھتے ہیں:

۱۹۰۲ء میں ان کی غزل لکھنو کے رسالے ’’پیامِ یار‘‘ میں شائع ہوئی اور مقبول ہوئی ۔غزل میں امین حزیں غالب اور نظم میں اقبال سے متاثر تھے۔ان کی شاعری کے مجموعہ ’’گلبانگِ حیات‘‘مطبوعہ ۱۹۴۰ء کے بعد وہ ہندوستان میں بہت مشہور ہوئے۔(۷۷)

          امینِ حزیں کا کلام اس دور کے مختلف ادبی رسائل و جرائد مثلاً ہمایوں ،’’ادیب لطیف‘‘،’’ساقی ‘‘،’’ نگار‘‘ ، ’’ محفل‘‘ اور ادبی دنیا میں تواتر سے شائع ہوتا رہا۔ان کی وفات کے بعد سرور سر مدی اور ’’نوائے سروش‘‘ شعری مجموعے شائع ہوئے۔تاہم ان کا کثیر تعداد میں کلام زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوا۔

          مولانا ظفر علی خان(۱۸۷۳ء ۔۱۹۵۶ء) سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے دیہات کوٹ مہر تھ میں پیدا ہوئے ۔ علی گڑھ کالج سے مولانا ظفر علی خان نے بی۔اے کیا۔علامہ شبلی نعمانی اور پروفیسر آرنلڈ مولانا کے بہترین اساتذہ میں سرِ فہرست تھے۔مولوی عبدالحق ،خواجہ غلام الثقلین ،ڈاکٹر سر ضیا ء الدین اور علی برادران آپ کے ہم جماعت تھے۔حسرت موہانی آپ کے جونئیر اور عزیز مرزا سے آپ کو بہت قربت تھی۔داغ دہلوی کی صحبت بھی میسر آئی لیکن شبلی کی نصیحت پر داغ کا رنگ اختیار نہ کیا۔شعرو شاعری کے ساتھ ساتھ صحافت میں بھی اپنا نام پیدا کیا ۔’’زمیندار‘‘ اور ’’ستارہ صبح‘‘ کے علاوہ بہت زیادہ اخبارات و رسائل نکالے جن کی شہرت سارے برصغیر میں پھیلی ،آپ کا کلام برصغیر کے اہم ادبی رسائل میں چھپتا رہا ۔آپ کا شعری اسلوب آپ کی صحافت اور خطابت سے بہت متاثر ہوا ہے۔صحافت اور خطابت کے ان تقاضوں نے ظفر علی خان میں بدیہہ گوئی کے وصف کو خوب اجاگر کیا جس کے لیے اردو شاعری میں وہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔

          شجر طہرانی(۱۸۷۲ء۔۱۹۶۸ء)نے اپنی ادبی زندگی کا زیادہ تر حصہ سیالکوٹ میں گزارا ۔آپ لکھنو میں جب میڈیکل کالج میں طالب علم تھے توا س دور میں آپ کو حضرت داغ دہلوی سے تلمذ ہوا۔اسی دور میں انھوں نے باقاعدہ ادبی زندگی کا آغاز کیا۔آپ کا کلام ہندوستان کے مشہو رادبی رسائل و جرائد میں چھپتا رہا ۔شجر کی زندگی میں ان کا پہلا شعری مجموعہ صبر جمیل ۱۹۲۸ء میں شائع ہوا۔اس کے علاوہ ’’زبان فطرت‘‘ اور ’’جہاں گرد‘‘ شعری مجموعے شائع ہوئے ۔آج ان کے رفقا کے پاس ان کے ۲۲مسودے محفوظ ہیں۔آپ اقبال کے ہم عصر تھے ۔آپ کی شاعری میں اقبال کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔

          اثر صہبائی (۱۹۱۰ء۔۱۹۶۳ء ) نے سیالکوٹ سے بی۔اے کیا اور بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔اے فلسفہ کیا۔کچھ سال وہ سری نگر اور جموں میں مقیم رہے۔قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے دوبارہ سیالکوٹ اپنے قدیم وطن میں آبسے ۔۱۹۳۴ء میں آزاد بک ڈپوسیالکوٹ نے اثر صہبائی کی غزلوں،نظموں اور رباعیات کا مجموعہ ’’خمستان‘ شائع کیا۔اثر صہبائی اردو رباعی کے بہت اچھے شاعر تھے۔

          فیض احمد فیض نے(۱۹۱۱ء ۱۹۸۴-ء) ایف ۔اے تک تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے ۔ فیض احمد فیض نے ۱۹۲۸ء میں مرے کالج سیالکوٹ کی ادبی تنظیم ’’اخوان الصفا‘‘ کے طرحی مشاعرے میں اپنی پہلی غزل سنائی اور یہی ان کی شہرت و مقبولیت کا آغاز ثابت ہوئی۔دوران طالب علمی ’’مرے کالج میگزین ‘‘ میں ان کا ابتدائی کلام شائع ہوتا رہا۔۱۹۳۰ء کی دہائی میں ترقی پسند شعرا کی نظری و عملی سر گرمیوں سے وابستہ رہے۔شاعری کے مزاج ،ہیت اور اسلوب کے اس ترقی پسندانہ رویے میں فیض کا فکری اور نظری شعور اپنی مقالیت کے اعتبار سے بڑی خصوصیت کا حامل ہے۔

          اصغر سودائی (۱۹۲۶ء۲۰۰۶-ء) شہرِ اقبال کے مشہور شاعر تھے۔انھوں نے مرے کالج سے بی۔اے کیا ۔اسلامیہ کالج لاہور سے ایم۔اے معاشیات کیا۔دورانِ طالب علمی ان کا کلام مرے کالج میگزین میں چھپتارہا۔آپ مرے کالج میگزین کے نائب مدیر بھی رہے۔آ پ تحریکِ پاکستان کی اسا س بننے والے نعرۂ پاکستان’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ ‘‘کے خالق بھی ہیں۔شاعری میں آپ غالب،اقبال ،فیض ،جگر ،حسرت اور فراق سے بہت متاثر ہیں۔ آپ کا پہلا مجموعہ کلام بزم رومی و اقبال سیالکوٹ نے ۱۹۸۹ء میں شائع کیا۔

          جابر علی سید(۱۹۲۳ء۔۱۹۸۵ء) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔جابر علی سید ایک اچھے شاعر ،ادیب ،محقق،نقاد،ماہر لسانیات وعروض اور متواضع استاد بھی تھے۔تاب اسلم سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور سیالکوٹ کی مقامی ادوبی تنظیموں اورمشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔۱۹۴۴ء میں ان کی پہلی نظم ’’ادب لطیف‘‘میں مرزا ادیب نے شائع کی۔آپ نے ادبی رسالے’’گجر‘‘،’’انتخاب‘‘ اور ’’ید بیضا‘‘ سیالکوٹ سے جاری کیے۔آپ کے بہت سے شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔غلام الثقلین نقوی نے ایف۔اے مرے کالج سیالکوٹ سے کیا۔آپ کے افسانے ’’مرے کالج میگزین‘‘ میں طالب علمی کے دور میں شائع ہوتے رہے۔جدید افسانہ نگاروں میں آپ اہم مقام رکھتے ہیں۔ان کے ہاں دیہاتوں کے ماحول کے زندہ مرقعے ملتے ہیں۔آ پ ’’بند گلی‘‘ ،’’شفق کے سائے ‘‘،’’نغمہ او ر آگ‘‘ اور ’’لمحے کی دیوار‘‘ جیسے افسانوی مجموعوں کے خالق ہیں۔

          ریاض حسین چودھری ( ۱۹۴۱ء۔پ )محلہ خراساں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔آپ کو اپنے نعتیہ شعری مجموعے ’’تمنائے حضوری‘‘ پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔آپ کا کلام مقامی ادبی رسائل و جرائد کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتا رہا ہے۔مرے کالج میں طالب علمی کے دور میں آپ مرے کالج میگزین کے مدیر بھی رہے ہیں۔آپ نے نعتیہ شاعری کو آزاد اور پابند نظموں کے وسیع امکانات کے ذریعے نئے آفاق دکھائے ہیں اور غزلیہ انداز کی نعتوں کو جدید اسالیب سے ہم آہنگ کر کے نیا وقار عطا کیا ہے۔

          جس سر زمین نے اقبال و فیض پیدا کیے اس زمانے میں صابر ظفر(۱۹۴۸ء۔پ) جیسے شاعر کو جنم دیا۔صابر ظفر نے جدید فن شعر میں ایک اونچا نام پیدا کیا ہے۔آپ کے تیس سے زائد شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔

          مختصر یہ کہ سیالکوٹ علمی و ادبی لحاظ سے ایک تابناک پس منظر کا حامل ہے۔اس شہر نے نامور ہستیاں پیدا کی ہیں۔جن کے علم وادب کی دھوم دنیا کے ہر کونے میں پہنچ گئی ۔سیالکوٹ کی زمین علم و ادب کے لحاظ سے ہمیشہ زرخیز رہی۔یہاں کی زرخیزی کا ثبوت اہل علم و ادب نے اپنی قابلیت کے جو ہر دکھا کر ہر عہد میں پیش کیا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...