Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

رسائل و جرائد
ARI Id

1688382102443_56116060

Access

Open/Free Access

Pages

42

شعر و ادب کو پروان چڑھانے میں ادبی شخصیتوں کا اپنا مقام و مرتبہ ہے یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ رسائل و جرائد اور اخبارات ان سے پیچھے رہتے خطہ سیالکوٹ کے مقامی رسائل و جرائد اور اخبارات ادب کی ترقی کے لیے ماضی سے اہم خدمات سر انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ان میں ’’نوائے سماج‘‘،’’ندائے سیالکوٹ‘‘،’’ہمدرد پاکستان‘‘ ،’’محنت کش‘‘ اور ’’شبنم‘‘ اہم رسائل و جرائد میں شمار ہوتے ہیں۔ان رسائل و جرائد اور اخبارات کے باقاعدہ ادبی ایڈیشن بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔

          سیالکوٹ کے اخبارات کی موجودہ صف میں ’’صدائے شہر‘‘ ،’’نوائے شمال‘‘ اور ’’اخبار سیالکوٹ‘‘ نمایاں اخبارات ہیں۔رسائل و جرائد کی فہرست میں ’’مرے کالج میگزین ‘‘،’’مفکر‘‘،’’کاوش‘‘، ’’افق‘‘،’’محورِحیات ‘‘، ’’اقدار‘‘، ’’ادراک‘‘، ’’انتخاب‘‘، ’’کیہان‘‘، ’’یدبیضا‘‘، ’’گجر‘‘، ’’کرائیڈن‘‘، اور’’سٹی میگ‘‘آج بھی ادبی خدمات میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

          ’’گجر‘‘ ،’’انتخاب‘‘،’’ید بیضا‘‘ تاب اسلم کے شعور و فکر کا نچوڑ ہیں ان تینوں رسائل وجرائد کو تاب اسلم بڑی عرق ریزی سے ادبی دنیا کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں۔ان ادبی رسائل نے بہت سے نئے لکھنے والوں کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔تاب اسلم کے ان جرائد کو نہ صرف سیالکوٹ بلکہ برصغیر پاک و ہند کے نامور ادبا و شعرا ،ناقدین اور محققین کا قلمی تعاون حاصل رہا۔سیالکوٹ کے اہم ادبی رسائل و جرائد کے تعارف کے لیے تفصیل پیش کی جاتی ہے۔

۱۔       مر ے کالج میگزین :

          مرے کالج میگزین کا پہلا شمار ہ نومبر ۱۹۱۵ء کو ریورنڈ میک کینی پیڑسن کے ہاتھوں شائع ہوا۔جن کے مدیران مانند جین ،ایم ۔اے لالہ امر ناتھ ،بھاسن ایم اے اور جان گیرٹ ایم اے تھے۔اس میگزین میں سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کامضمون ’’بھٹکے سائے‘‘ شائع ہوا۔(۷۸)

          ۱۹۳۰ء میں مولوی میر حسن کے نام سے ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا گیا اور مولوی میر حسن نے مشن میں ۶۰ سال تدریسی فرائض سر انجام دئیے اور علامہ اقبال ؒ کے استاد ہونے کے ناطے شمس العلما کا خطاب حاصل کیا۔(۷۹)

          ۳۵۔۱۹۳۴ء کا ’’سالانہ کالج نمبر‘‘ پرنسپل جان گیرٹ ایم ۔اے کے ہاتھوں شائع ہوا ۔۱۹۳۵ء میں ڈی ایل سکاٹ جو کہ اس سے قبل سینسر کے فرائض انجام دیتے تھے ان کو مجلس ادارت میں شامل کر لیا گیا ۔اس مجلے میں پنجابی کے علاوہ باقی سب حصص کے مضامین چھپے۔(۸۰)

          جون ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں ایک نیا فیچر"The Collage Charivari"جو کہ پروفیسر ایف ایس خیراﷲ کا تھا شائع ہوا۔یہ فیچر باقاعدہ سالانہ نمبروں میں چھپتا رہا۔جنوری ۱۹۴۷ء کی اشاعت ڈی ایل سکاٹ کے علاوہ پروفیسر ڈی این شرما ،چیف ایڈیٹر،پروفیسر ایف ایس خیر اﷲ ،معاون ایڈیٹر رفیق محمود،ایف۔اے قریشی ،تاک چاند اور گیانی پیا را سنگھ اردو انگریزی اور ہندی کے ایڈیٹر تھے۔اس سال تین سپیشل نمبر’’سالانہ نمبر‘‘،’’ہمارا ہمسایہ نمبر‘‘،اور ’’آزادی نمبر ‘‘ چھاپے گئے اور پہلی دفعہ سٹوڈنٹ ایڈیٹر کی طرف سے اداریہ لکھا گیا ۔جون ۱۹۴۹ء کا شمار ہ ’’اقبال نمبر‘‘ تھا۔اردو حصہ میں اقبال پر بہت سے مضامین شائع ہوئے۔مر ے کالج کے ادبی مجلے کی علامہ اقبال پر پہلی خصوصی اشاعت تھی۔(۸۱)

          ۱۹۵۵ء کا ’’سالانہ نمبر‘‘ مارچ میں شامل ہوا۔اس وقت ڈاکٹر ایف ایس خیرا ﷲ چیف ایڈیٹر تھے۔۱۹۵۸ء میں میگزین کا حصہ اردو افسانہ نمبر شائع ہوا۔جس سے بہت عمدہ اور دلچسپ افسانے شائع ہوئے۔۱۹۶۰ء سالانہ نمبر تھا۔مارچ ۱۹۶۱ء میں’’ڈائمنڈ جوبلی‘‘ نمبر شائع ہوا۔

          مارچ ۱۹۶۲ء میں ’’سالانہ نمبر‘‘تھا۔ ۶۵۔۱۹۶۴ء ،۱۹۶۶ء ۔۱۹۶۷ء،۱۹۶۸ء ،۱۹۶۹ء ۱۹۷۰ء ،۷۴۔۱۹۷۱ء ،۷۳ ۔۱۹۷۲ء کے میگزین سالانہ نمبر تھے۔ایک وقت ایسا آیا جب میگزین سال میں ایک ہی مرتبہ شائع ہونے لگا۔۱۹۷۵ء اور ۱۹۷۷ء کے میگزین ’’اقبال نمبر‘‘ تھے۔ان میگزین میں اقبال کو بہت سے مضامین لکھ کر خراج تحسین پیش کیا گیا اور اقبال کے نام نظمیں بھی شائع ہوئیں۔۸۲۔۱۹۸۱ء میں پندرھویں صدی ہجری نمبر شائع ہوا۔۱۹۸۲ء کا میگزین سالانہ تھا۔اس کی مجلس ادارت میں پروفیسر امین طارق کانام سر فہرست ہے۔۱۹۷۵ء میں ’’اقبال نمبر‘‘ شائع کیا گیااور ولادت اقبال کی ایک صدی مکمل ہونے پر عالمی سطح پر تقریب کی تیاری آخری مراحل میں تھی۔ اقبا ل ی پہلی مادر علمی نے بھی اپنے عظیم سپوت کو خراج تحسین پیش کرنے کی غر ض سے مر ے کالج کے ادبی مجلے کو اسی کے نام کر دیا۔اس وقت سٹاف ایڈیٹر پروفیسرامین طارق تھے۔انھوں نے کالج کو نسل سے منظوری لینے کے بعد ادبی مجلے کانام مرے کالج میگزین کی بجائے علامہ اقبال جو مفکر اسلام اور مفکر پاکستا ن تھے کے نام سے منسوب کر نے کی غرض سے ’’مفکر‘‘ مقرر کر دیا گیا۔تب سے آج تک مرے کالج میگزین ’’مفکر کے نام سے شائع ہوتا رہا۔(۸۲)

          ۱۹۷۲ء میں مرے کالج کو قومیالیا گیا تو فنڈ میں کمی آنے اور مہنگائی کے باعث مجلے کی اشاعت میں تعطل ہونا شروع ہوا۔کئی کئی سال بعد اشاعت ممکن ہوتی تھی۔۱۹۸۶ء میں مفکر کے سالنامے کی اشاعت ہوئی جسے سالنامہ ۸۷۔۱۹۸۶ء تصور کیا گیا۔

          ۱۹۸۹ء میں مرے کالج کے قیام کو ایک سو سال پورے ہوگئے۔ادبی مجلے ’’مفکر‘‘ کی خصوصی اشاعت صد سالہ کا منصوبہ بنا۔اس اشاعت صد سالہ کی ضخامت کتاب ۶۹۹ صفحات پر مشتمل تھی۔نمایاں نگارشات میں سابقہ مجلوں کا اشاریہ ،ماضی کی نمائندہ تحریروں کا انتخاب ،کالج میگزین کی تاریخ ،مشاہیر اساتذہ ،مشاہیر طلبا،طلبائے قدیم اور قدیم اساتذہ قابل ذکر ہیں۔اس خصوصی اشاعت کی ایک اور قابل ذکر صفت یہ ہے کہ یہ خصوصی اشاعت صد سالہ ہونے کے ساتھ ساتھ۱۹۱۵ء۔۱۹۰۰ ء ،۷۵سال کی تکمیل پر ڈائمنڈ ’’جوبلی نمبر‘‘ کہلائی۔یہ اشاعت ۱۹۹۱ء میں منظر عام پر آئی۔مرے کالج میگزین نے اپنی ساری زندگی غزل گوئی،نظم گوئی،افسانہ نگاری ،مزاح نگاری ،اقبال شناسی اور دیگر متفرقات کی ترویج میں وقف کر دی اور بڑے دانشور ،ادیب شاعر اور مفکر پیدا کیے۔ادبی خدمت کا یہ سلسلہ آج بھی ’’مفکر‘‘ میگزین جاری رکھے ہوئے ہے۔۱۹۹۳ء میں ’’غالب نمبر‘‘ شائع کیا گیا اور مجلہ ’’فکر و ادب‘‘ کا شمارہ منظر عام پر آیا۔

          ’’مر ے کالج میگزین ‘‘نے بہت سی علمی وادبی خدمات سر انجام دی ہیں۔بہت سے مصنفین و شعرا مرے کالج کے طالب علم رہ چکے ہیں جوکالج میگزین کو اپنی خوبصورت تحریروں سے سجاتے رہے ہیں۔ان میں اقبال،فیض ،اصغر سودائی،امین حزیں،اثر صہبائی ،جو گندر پال،آسی ضیائی رامپوری ،غلام الثقلین نقوی،پروفیسر جمشید راٹھور ،خالد نظیر صوفی،خالد حسن،یحییٰ امجد،وارث میر اور کرشن موہن کے نام اہم ہیں۔

          مرے کالج میگزین کے بارے میں ڈاکٹر انورسدید کہتے ہیں:

مرے کالج میگزین ‘‘یوں تو مرے کالج کی علمی سر گرمیوں کا نقیب تھا اور سال میں ایک ہی با ر چھپتا تھا لیکن ۱۹۵۵ء میں حفیظ الرحمان احسن کی ادارت میں ا س پرچے نے ایک باقاعدہ ادبی ماہ نامے کی صورت اختیا رکر لی ا ور ایک سال کے دوران ’’مرے کالج میگزین ‘‘ کے پانچ پرچے مسلسل شائع ہوئے۔ان پرچوں میں آسی ضیائی رامپوری ،ممتاز حسین گیلانی ،امین جاوید،افضل رندھاوا،عارف رضا ،صوفی محمد اشرف اور پروفیسر سید لیاقت حسین کے مضامین نظم و نثر بے حد وقیع ہیں۔(۸۳)

۲۔       راہ گزر:

          یہ ہفت روزہ اخبار ۱۹۳۸ء سے میدانِ ادب اور صحافت میں خدمات سر انجام دے رہا ہے۔کچھ عرصہ یہ اخبار بند بھی رہا لیکن معروف ادیب و شاعر عاصم صہبائی نے ساز گار حالات کے باوجود اسے جاری رکھا ان کی وفات کے بعد بھی اس پرچے کی اشاعت جاری ہے۔(۸۴)

۳۔       گمنام:

          یہ ماہوار ادبی مجلہ ۱۹۵۷ء میں محترمہ آنسہ ہانسوی ،وزیر حسن زبیری اور شکیل آزاد کی زیر ادارت شائع ہونا شروع ہوا۔(۸۵)

۴۔مشعلِ راہ:

          یہ سہ ماہی جریدہ جنوری ۱۹۶۷ء میں شائع ہونا شروع ہوا اور تقریباً ۴ سال تک شائع ہوتا رہا۔’’مشعل راہ ‘‘ سٹوڈنٹس ویلفئیر سو سائٹی رجسٹرڈ سیالکوٹ کے زیر اہتمام جناب ریاست علی چودھری کی زیر ادارت شائع ہوتاتھا ابتدا میں اس کے نگران تسنیم گیلانی تھے۔سو دو سو صفحات تک شائع ہونے والے جریدے کی قیمت ۷۵ پیسے ہوا کرتی تھی۔اس جریدے کے بہترین شمارے آج بھی ریکارڈ میں موجود ہیں۔خاص طور پرا س کا ’’مرے کالج نمبر‘‘ قابل دید ہے۔(۸۶)

          ڈاکٹر انور سدید مشعل راہ کے بارے میں یوں تبصرہ کرتے ہیں:

سیالکوٹ سے سہ ماہی ’’مشعلِ راہ ‘‘ ریاست علی چودھری نے جنوری ۱۹۶۷ء میں جاری کیا۔اس پرچے نے سیالکوٹ کے گردو نواح میں ادب کی روشنی پھیلانے اور لکھنے والوں کی تخلیقی سر گرمیاں ابھارنے میں نمایاں خدمات سر انجام دیں ۔جنوری ۱۹۶۷ء میں ’’مشعلِ راہ ‘‘ نے مرے کالج نمبر نکالا اور اس میں مرے کالج کے قدیم طلبہ فیض احمد فیض ، جوگندر پال ،وارث میر،شہزادہ کبیر،کرشن موہن،امجد ورک ا ور اے ڈی اظہر کے مضامین پیش کیے۔(۸۷)

۵۔محورِ حیات:

          مئی ۱۹۶۷ء میں آلو مہار(سیالکوٹ) سے ماہانہ ’’محورِ حیات‘‘ جاری ہوا۔اس کی ادارت خلیفہ محمد سعید اور پروفیسر سلطان بخش سر انجام دیتے ہیں۔اس پرچے کے لکھنے والوں میں احسان دانش،کوثر نیازی ،نور الحسن ہاشمی،مفتاح الدین ظفر اور محمد ارشد بھی شامل ہیں۔اس پرچے کا مقصد ادب کے ذریعے اخلاق تعمیر کرنا تھا۔چناچنہ ۱۹۶۷ء میں اس کا ’’تعمیرِ اخلاق کا نفرنس نمبر‘‘ شائع ہوا۔(۸۸)

۶۔زینت:

          سیالکوٹ سے خواتین کے لیے ایک ماہنامہ’’زینت‘‘ جنوری ۱۹۶۷ء میں جاری ہواجس کے مدیر اسلم ملک تھے۔

          ڈاکٹر انور سدید کی ’’زینت‘‘ کے بارے میں یہ رائے ہے:

زینت کے مستقل عنوانات میں معاشرتی بہبود، اسلامیات، نفسیات، حکایات او ر منظومات کے علاوہ صحت و زندگی اور خوردو نوش وغیرہ شامل تھے اس پرچے نے رضیہ فصیح احمد،واجدہ ،تبسم ،زہرہ نگار،زاہدہ صدیقی،عرفانہ عزیز،فہمیدہ ریاض،روحی کنجاہی ،خدیجہ مستور،کشور ناہید ،صدیقہ بیگمم ،سہوہاروی،نجمہ انوار الحق،ادا جعفری اور رشید سلیم سیمی کا تعاون حاصل کیا اور اہل ادب کے سامنے اعلیٰ پائے کی تخلیقات اور مضامین اس طرح پیش کیے کہ ’’زینت‘‘ خواتین کا معیاری ادبی ماہ نامہ بن گیا۔(۸۹)

۷۔ اقدار:

          ’’اقدار‘‘ اپریل ۱۹۷۴ء میں ’’حلقہ ارباب قلم سیالکوٹ‘‘ کے زیرا ہتمام نکلا اس کے مدیر خواجہ اعجاز بٹ تھے۔

ڈاکٹر انور سدید ’’اقدار ‘‘ کے بارے میں رقم طراز ہیں:

اقدار کے مضامین پر نظر ڈالیں تو اس کا فکری اور ادبی زاویہ بو قلموں نظر آتا ہے۔’’ہم کیسا ادب چاہتے ہیں‘‘ کے عنوان سے ایک مذاکرہ ترتیب دیا گیا ایک باب صرف افسانچوں کے لیے مرتب کیا گیا جس میں جوگندر پال ،آغا سہیل، نریش کمار،ریاض سوجانوی،شاہد رضا اور اعجاز بٹ نے شرکت کی۔ایک حصے میں زاہدہ صدیقی کی شاعری کا خصوصی مطالعہ پیش کیا گیا ۔شعرا کی فہرست میں اختر احسن ،منیر نیازی،حفیظ صدیقی،محمد علوی ،رشید نیاز،محمود شام،ناصر زیدی اور سلیم احمد کے نام شامل ہیں۔مقالات کے حصے میں ڈاکٹر وزیر آغا ،طفیل دارا اور خواجہ اعجاز بٹ نے شرکت کی۔(۹۰)

۸۔ادراک:

          یہ اخبار تحریک پاکستان کا رکن جلیل جاوید ایڈووکیٹ کی زیر ادارت شائع ہونا شروع ہوا اور ان کی وفات کے بعد اس اخبار کو ان کے بیٹے کا مران جاوید ایڈووکیٹ چلا رہے ہیں۔ڈاکٹر انور سدید کی ’’ادراک‘‘ کے بارے میں یہ تحقیق ہے:

ادراک سیالکوٹ کا ہفتہ وار ضلعی پرچہ تھا ۔۱۹۷۸ء میں رخسانہ آرزو نے اس کا دوماہی ادبی ایڈیشن جاری کیا۔ اس پرچے کا بنیادی مقصد اقبال کے افکار کا فروغ اور شہرِ اقبال کی ادبی سر گرمیوں کی اشاعت تھا لیکن ان مقاصد کی تکمیل نہ ہو سکی ۔شاید ادراک کو قارئین کا تعاون حاصل نہ ہو سکا۔(۹۱)

۹۔انتخاب:

          معرو ف غزل گو شاعر تاب اسلم نے ۱۹۸۷ء میں ’’انتخاب ‘‘ کے نام سے غیر مطبوعہ تحریروں کا ایک ادبی مجلہ شائع کیا۔آپ اس کے مرتب تھے یہ مجلہ وقفوں وقفوں سے مسلسل شائع ہوتا رہا۔اس میں آپ مختلف تنقیدی مضامین کو جگہ دیتے ۔تاب اس میں ملکی اور غیر ملکی شعرا کی غزلیں،نظمیں اور افسانے بھی شامل کرتے تھے،اس میں کئی کتابوں ،رسالوں اور ادبی شخصیات کو بھی متعارف کروایا جاتا تھا۔مختلف افراد کے اس حوالے سے خطوط بھی شامل کیے جاتے تھے۔تاب اس کا اداریہ خود تحریر کرتے تھے۔یہ جریدہ شہر اقبال کے ادبی افق پر روشن ستارے کی طرح طلوع ہوا۔یہ ہر قسم کی گروہ بندیوں اور اجارہ داریوں کے خلاف اعلانِ جہاد تھا۔انتخاب کے دروازے ہرا س ادیب پر کھلے ہوئے تھے جو سچے حرفوں اور کومل جذبوں کی تلاش میں راہگزار حیات میں سر گرداں تھے۔جس کے اندھیروں میں آنے والے کل کی روشنی جھلملا رہی تھی۔اس مجلے کے توسط سے ملک بھر اور بیرون ملک بھی اردو ادب کی شناخت اور ترجمانی ہوئی ۔ایسے دور میں کہ جہاں ہزاروں مشکلات تھیں اور پھر سیالکوٹ جیسے شہر سے انتخاب کا شائع کرنا ایک ولولہ انگیز جرأ ت کے مظاہرے سے کم نہیں تھا۔اس مجلے کے حصہ نظم و نثر دونوں میں خاصی رنگا رنگی اور تنوع پایا جاتا تھا۔

۱۰۔ید بیضا:

          ۱۹۹۱ء میں تاب اسلم نے ’’ید بیضا‘‘ کے نام سے عصری ادب میں جدید رویوں کا ترجمان ایک ماہنامہ شروع کیا ۔ تاب ید بیضا کے مدیر اعلیٰ ہیں۔اس رسالے میں مضامین ،غزلیں ،افسانے ،نظمیں ،میزان ،اور مکتوبات شامل ہوئے ہیں۔ید بیضا پڑھنے والوں میں ایک صحت مندانہ ادبی رحجان پید ا کرتا ہے۔یہ قارئین کے ذوق کی تسکین کرتا ہے۔انھیں منتخب اور اعلیٰ ادب فراہم کرتا ہے۔یہ بہت خوبصورت اور معیاری ادبی تحریروں سے مزین ہوتا ہے۔خصوصاً شاعری کا انتخاب تاب اسلم کے حسن انتخاب کا آئینہ دار ہے۔یہ رسالہ اس ہیجانی دور میں قلبی سکون بخش رہا ہے۔اس کے منظوم حصے کے ساتھ ساتھ نثر کا مواد بھی خوب ہے۔اردو زبان و ادب کے فرو غ کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔

          تابؔ نے اردوزبان و ادب سے پیمانِ وفا باندھ لیا ہے اور اس پیمان کو آخری دم تک نبھائیں گے ۔ید بیضا کا ہر شمارہ اپنی روایت،سادگی اور متانت لیے ہوئے ہے۔تخلیقی تنوع ید بیضا کا امتیازی وصف ہے ۔تابؔکا حسنِ انتخاب ا س مجلے کو معیار کی رفعت سے آشنا کر رہا ہے۔ید بیضا کو خطوط کے ذریعے ملک بھر سے نامور شخصیات نے سراہا۔محسن بھوپالی کراچی سے تابؔ کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

اردو مراکز سے دو ر سیالکوٹ سے اتنا اچھا اور نمائندہ تحریروں سے مزین پرچہ نکالنے پر آپ کی مساعی قابلِ داد ہے۔(۹۲)

          ید بیضا نے ادبی حلقے میں اپنی ایک الگ شناخت بنالی ہے۔ملک بھر سے نمائند ہ شخصیات اس کا مطالعہ کرتی اور اسے سراہتی ہیں۔یہ اقدام قابلِ تحسین ہے۔یہ اپنے اندر ادبی توانائی اور رعنائی رکھتا ہے۔سیالکوٹ سے ادبی رسائل کا اجرا بڑا جرأ ت مندانہ اقدام ہے۔بڑے بڑے شہر جو کبھی تہذیب و ادب کے گہوارے تھے اب صنعتی اور تجارتی آندھیوں کی لپیٹ میں ہیں۔ا ن شہروں میں بلا شبہ بلند فکر ادیب و شاعر موجود ہیں اور ان کی تخلیقی سر گرمیاں بھی جاری ہیں۔ایسے ہی افراد میں تاب اسلم کا بھی شمار ہوتا ہے۔

۱۱۔ماہنامہ نیاز:

          یہ جریدہ مورخِ تاریخ سیالکوٹ رشید نیازؔ کی یاد میں ۱۹۹۱ء میں شروع ہوا۔شرو ع شروع میں یہ جرید ہ سہ ماہی تھا۔پھر ۱۹۹۵ء میں ماہنامہ ہو گیا ۔اس میگزین نے ۱۹۹۶ء میں بہترین کارکردگی پر سعودی عرب سے انٹر نیشنل ایوارڈ بھی حاصل کیا ۔سیالکوٹ میں شائع ہونے والے اخبارات و جرائد میں پہلا ایوارڈ تھا جو کسی پرچے کو ملا تھا ۔اس کے چیف ایڈیٹر اشفاق نیازؔ ہیں جب کہ منتظم اعلی خالد لطیف ہیں۔(۹۳)

۱۲۔ماہنامہ افہام:

          یہ ادبی جریدہ سیالکوٹ سے جمیل مرزا بی۔اے کی ادارت میں شائع ہوتا ہے ۔یہ علمی و ادبی سر گرمیوں کی بھر پورعکاسی کرتا ہے۔(۹۴)

۱۳۔کاوش:

          یہ ادبی مجلہ گورنمنٹ جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے نکلتا رہا ہے۔اس کی ترقی و ترویج میں پروفیسر عبدالجبار شیخ کا بڑا کردار ہے۔پروفیسر آسی ضیائی رامپوری کے شاگر د پروفیسر تجمل سلیمی اور معروف شاعر اکرام سانبوی اس میگزین کی مجلس ادارت میں رہے ہیں اور بطور مدیر بھی کام کرتے رہے ہیں ۔راقم الحروف بھی طالب علمی کے دور میں اس میگزین میں لکھتا رہا۔نوجوان نسل میں ادبی ذوق پیدا کرنا اور انھیں ذمہ دار شہری بنانا اس مجلے کا اصل مقصد تھا۔(۹۵)

۱۴۔اُفق:

          یہ ادبی مجلہ گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین سیالکوٹ سے نکل رہا ہے۔اس کی ترقی و ترویج میں پروفیسر عقیلہ حمید ،ڈاکٹر خالدہ گیلانی اور پروفیسر شگفتہ نقوی کا اہم کردار ہے۔یہ ادبی مجلہ طالبات میں ادبی ذوق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔اس مجلے میں اساتذہ او رطالبات کا شعری و نثری کلام شائع ہور ہاہے۔کالج ہذا نے پچاس سال کی علمی خدمات کے بعد ۲۰۰۱ء میں کالج میں گولڈن جوبلی تقریبات کا انعقاد کیا اورا س موقع پر علمی وادبی مجلے افق کا گولڈن جوبلی نمبر نکالا گیا جس میں متفرق موضوعات پر مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ اقبالیات غالبیات پر تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھے گئے۔(۹۶)

۱۵۔سٹی میگ:

          یہ پندروہ روزہ ادبی رسالہ گذشتہ سات سال سے شہرِ اقبال سے شائع ہو رہا ہے۔اس کا مقصد سیالکوٹ کے شعراو ادبا کے کلام کو متعارف کروانا ہے۔اس میگزین نے سیالکوٹ کے نامور شعراو ادبا کے انٹر ویو بھی کیے ہیں۔یہ رسالہ سیالکوٹ شہر میں نئے نئے لکھاری پیدا کررہا ہے۔جس سے علم وادب میں ترقی ہو رہی ہے۔اپنی طباعت ،کاغذ اور معیار کے لحاظ سے اس میگزین کا سیالکوٹ میں کوئی بھی ثانی نہیں ۔مجلے کے تمام صفحات رنگین ہیں۔اس رسالے کے مدیر جوان فکر دانش ور خالد لطیف ہیں۔(۹۷)

دیگر ادبی رسائل و جرائد اور اخبارات :

          دیگر ادبی رسائل و جرائد اور اخبارات کے صرف نام اور سن آغاز اشاعت دی جاتی ہے۔

۱۔       ریاض الا خبار(۱۸۵۱ء)                 ۲۔       چشمٔہ فیض ۱۸۵۲ء)

۳۔       وکٹوریہ پیپر(۱۸۵۳ء)                             ۴۔       معلم العلما(۱۸۵۶ء)

۵۔       انوارالاسلام (۱۸۹۷ء)                    ۶۔       پنجاب گزٹ(۱۸۹۸ء)

۷۔       انصاف(۱۹۳۰ء)                           ۸۔       پاسبان(۱۹۳۲ء)

۹۔       انسان(۱۹۳۵ء)                             ۱۰۔     حقیقت(۱۹۴۸ء)

۱۱۔     جہاد(۱۹۴۸ء)                     ۱۲۔     الفقر(۱۹۴۸ء)

۱۳۔     نظامِ تعلیم(۱۹۴۹ء)                        ۱۴۔     علم و ادب(۱۹۵۰ء)

۱۵۔     مخزن صحت(۱۹۵۲ء)                             ۱۶۔     ضربِ نو(۱۹۵۵ء)

۱۷۔     کلیسا(۱۹۵۶ء)                    ۱۸۔     ماہنامہ شہر نامہ(۱۹۷۳ء)

۱۹۔     عکس عوام (۱۹۸۶ء)                     ۲۰۔     منزل منزل(۱۹۸۷ء)

۲۱۔     ایوارڈ(۱۹۹۰ء)                             ۲۲۔     ماہنامہ وائس آف برادر ھڈ(۱۹۹۱ٔ)

۲۳۔     نیوز البم(۱۹۹۲ء)                          ۲۴۔    ماہنامہ ردا(۱۹۹۷ء)

۲۵۔     ایکس نیوز(۲۰۰۱ء)                       ۲۶۔     اقبالین (۲۰۰۲ء)

          محنت کش ،سیالکوٹ گزٹ،پاک وطن،نوائے چناب،صدائے عام،ندائے سیالکوٹ،ندائے شہرِ اقبال، جرنیل،آہ وفغاں ،دی سیالکوٹ مرِر،اخبارِ سیالکوٹ،ایوان وقت،تعاقب،شعلہ ،رہبر،پرواز،انقلاب ،ضامن، کیہان، نوائے ملت، نوائے شمال،ضربِ کلیم،گجر۔(۹۸)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...