Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > جادبی تحریکات اور تنظیمیں

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

جادبی تحریکات اور تنظیمیں
ARI Id

1688382102443_56116061

Access

Open/Free Access

Pages

48

          سیالکوٹ کی ادبی فضا کو نکھارنے میں ادبی تحریکات اور تنظیموں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔سکاچ مشن سکول کی لڑیری سو سائٹی کے بعد ’’انجمن پنجاب سیالکوٹ‘‘ نے علمی و ادبی سر گرمیوں کی آبیاری کی ۔انجمن پنجاب لاہور کی طرز پر ۱۸۶۶ء میں سیالکوٹ ،حصارا وردہلی میں انجمنیں قائم ہوئیں۔رشیدنیازؔ کی تحقیق کے مطابق سیالکوٹ کی پہلی ادبی تنظیم ۱۸۹۰ء میں قائم ہوئی۔وہ اس حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:

سیالکوٹ کی سر زمین میں سب سے پہلی بزم ’’دائرۃ الا دب‘‘ تھی۔یہ تنظیم ۱۸۹۰ء میں معرض وجود میں آئی۔(۹۹)

          تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ دائرۃ الا دب سے بھی پہلے سیالکوٹ میں ادبی تنظیمیں موجود تھیں ۔جوادب کی ترقی میں کوشاں تھیں۔سطور بالا میں مشن سکول اور کالج کی لڑیری سوسائٹی اور انجمن پنجاب سیالکوٹ کا وجود بزم دائرۃ الادب سے پہلے کا ثابت ہوتا ہے۔

          ماضی میں سیالکوٹ میں متعدد ادبی تنظیمیں ادب کی خدمت میں سر گرم رہی ہیں۔ان ادبی تنظیموں کے ذکر کے ساتھ ساتھ گذشتہ بیسویں صدی کی سیالکوٹ کی ادبی تاریخ بھی ہمارے سامنے آتی ہے۔ماضی میں سیالکوٹ میں جوادبی انجمنیں فعال اور متحرک رہی ہیں ان میں بزم اردو جموں و کشمیر،انجمن ترقی پسند مصنفین،انجمن آزاد خیال مصنفین ،رائٹر ز گلڈ،حلقہ ارباب ذوق،بزمِ افکار،بزمِ فروغ اردو،بزمِ فکر وطن اور بزم ِاحباب قابل ذکر ہیں ۔یہ تنظیمیں اپنے اپنے وقت میں سیالکوٹ میں ادبی سر گرمیوں میں مصروف رہی ہیں۔ان تنظیموں میں سے اہم تنظیموں کا مختصر تعارف دلچسپی سے خالی نہیں۔

۱۔بزم اردو جموں و کشمیر:

          بزمِ اردو جموں و کشمیر ۱۹۳۲ء میں سری نگر میں قائم ہوئی۔پہلے اس تنظیم کانام ’’بزمِ سخن‘‘ تھا۔۱۹۳۷ء میں مولانا علیم الدین سالک کی تحریک پر اس کانام ’’بزم اردو جموں و کشمیر‘‘ رکھا گیا۔نومبر ۱۹۴۷ء میں بشیر محمد خان قیس اور ملک محمد اکبر کی معاونت سے اس بزم نے سیالکوٹ میں از سر نو کام شروع کیا۔اس کے سر گرم اراکین میں ملک محمد اکبر،سرور فیروز پوری،باقر رضوی،شاہد واسطی ،رئیس میرٹھی ،عباس اثر،شجر طہرانی ،آثم فردوسی اور آزاد شکیل کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔(۱۰۰)

۲۔حلقہ ٔ ارباب ذوق:

          حلقۂ ارباب ذوق کی تحریک ۲۴ اپریل ۱۹۳۴ء کو سید نصیر جامی ،نسیم حجازی،تابش صدیق،اقبال احمد اور سیر محمد اختر کے تعاون سے وجود میں آئی ۔پہلے اس کانام ’’مجلسِ داستانِ گویاں ‘‘تھا۔بعدا زاں ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘ نام رکھا گیا ۔ سیالکوٹ میں حلقہ ارباب ذوق کی ابتدا کے متعلق یوسف رحمت لکھتے ہیں:

سیالکوٹ میں اس کی ابتدا ۱۹۶۱ء میں ہوئی۔اس کے پہلے کنونیر حفیظ صدیقی تھے۔بعدازاں اکرام سانبوی، ریاض حسین چودھری ،عابد چودھری اور تاب اسلم سیکرٹری رہے۔(۱۰۱)

          گلزار بخاری کے بعد ۱۹۸۲ء میں یوسف نیر اس کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔حلقہ ارباب ذوق پندرہ روزہ بلکہ ہفتہ وار بھی ادبی تنقیدی نشستوں کا اہتمام کر تا رہا۔

۳۔بزمِ ارباب سخن:

          بزم ارباب سخن ۱۹۴۴ء میں معروف شاعر سلیم و احد سلیم کی کوششوں سے معرض وجود میں آئی۔سلیم واحد سلیم اس کے پہلے سیکرٹری چنے گئے۔اس کا پندرہ روزہ اجلاس باقاعدگی سے ہوتا تھا۔شرکا میں تصورکرت پوری ،ظہیر لکھنوی،اثر صہبائی ،آثم مرزا اور تاب اسلم پیش پیش تھے۔(۱۰۲)

۴۔انجمن ترقی پسند مصنفین:

          سیالکوٹ میں انجمن ترقی پسند مصنفین ۱۹۴۸ء میں قائم ہوئی۔(۱۰۳)

          سیالکوٹ میں اس انجمن نے ترقی پسندانہ سوچ کو پروان چڑھایا اس تحریک سے وابستہ شعرا وادبا نے اپنے ترقی پسند انہ نظریات کی بدولت اپنی پہچان کروائی۔اس انجمن میں شجر طہرانی ،سلیم واحد سلیم ،اثر صہبائی وحید قریشی،جابر علی سید اور محمد خان کلیم بھی شامل تھے۔۱۹۵۳ء میں ترقی پسندمصنفین پر پابندی لگا دی گئی۔

۵۔انجمن شباب اردو:

          معروف شاعر عشقی الہاشمی کی کوششوں سے ۱۹۴۷ء کو یہ انجمن معرض وجود میں آئی۔عشقی الہاشمی اس کے صدر،گلزار حیدری سیکرٹری اور چودھری عطا اﷲ تبسم خزانچی تھے۔اس کے اراکین میں آثم مرزا ،حفیظ ہاشمی،جلیل جاوید،بشیر چونچال سیالکوٹی،آثم فردوسی ،باقر رضوی،شکیل آزاد،قمر تابش اور سید عبدالعزیز شامل تھے۔(۱۰۴)

۶۔بزمِ اقبال:

          بزمِ اقبال ۱۹۴۸ء میں سر زمین سیالکوٹ میں قائم ہوئی۔جلیل جاوید اس کے پہلے سیکرٹری چنے گئے اس کے ہفتہ وار اجلاس باقاعدگی سے ہوتے تھے۔ادیب فیروز پوری،محمد خان کلیم،تاب اسلم ،آثم فردوسی ،سرور انبالوی اور جاوید شاہین اس کے اراکین میں شامل تھے۔(۱۰۵)

۷۔بزمِ انیس:

          ۱۹۴۹ء میں حیدر رضوی نے بزم انیس قائم کی ۔اس کی ابتدا میں عارف میرٹھی صدر،حیدر رضوی نائب صدراور رئیس میرٹھی اس کے سیکرٹری چنے گئے ۔اس کے ہر ماہ باقاعدگی سے اجلاس منعقد ہوتے تھے۔ان اجلاس میں اﷲ رکھا،محمد خان کلیم،شجر طہرانی،عباس اثر،عارف میرٹھی اور دیگر اراکین باقاعدہ شرکت کرتے تھے۔یہ ا دبی بزم احتشام حید ر کی وفات پر ختم ہو گئی۔(۱۰۶)

۸۔بزمِ شعر وادب:

          یہ بزم ۱۹۵۰ء میں معرض وجود میں آ ئی۔آثم فردوسی اس کے کنوینر تھے۔جب انتخاب ہوا تو آثم فردوسی صدر،وحید نیاز سیکرٹری اور فاروق پال خزانچی منتخب ہوئے۔اس بزم کے ماہانہ اجلاس باقاعدگی سے دارالکریم میں منعقد ہوتے تھے۔بسمل صحرائی،تاب اسلم،آثم مرزا،اسلم ڈیوڑا،محمد اقبال ،شکیل آزاد اور سرور ساقی اس کے سر گرم رکن تھے۔(۱۰۷)

۹۔بزمِ ارباب اردو:

          یہ محفل ادب ۱۹۵۳ء میں وجود میں آئی۔اصغر سودائی اس کے پہلے سیکرٹری چنے گئے۔تصور کرت پوری اس کے ناظم مقرر کیے گئے ۔اس بزم کا ماہانہ اجلاس باقاعدگی سے جناح ہال سیالکوٹ میں منعقد ہوتا تھا۔اس بزم میں عشقی الہاشمی ،ظہیر لکھنوی،اصغر سودائی،مجید تاشیر سیالکوٹی ،خلیل شرر،راز قریشی،آثم فردوسی ،تصورکرت پوری اور خالدحسین سر گرمی سے شریک ہوتے تھے۔(۱۰۸)

۱۰۔لڑیری لیگ:

          یہ محفل ادب ۱۹۵۳ء میں قائم ہوئی۔اصغر سودائی اس کے پہلے سیکرٹری چنے گئے۔تصورکرت پوری اس کے ناظم مقرر کیے گئے ۔اس لیگ کا ماہانہ اجلاس باقاعدگی سے جناح ہال میں منعقد ہوتا تھا۔لیگ کے اجلاس میں اثر صہبائی ،تصور کرت پوری،شجر طہرانی ،تاب اسلم ،آثم فردوسی ،چونچال سیالکوٹی،مجید تاثیر سیالکوٹی ،محمد خان کلیم ،سرور مجاز،اور ارشاد کاظمی باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔(۱۰۹)

۱۱۔انجمن آزاد خیال مصنفین:

          ۱۹۵۳ء میں جب انجمن ترقی پسند مصنفین پرپابندی لگا دی گئی تو ترقی پسندادیبوں اور شاعروں نے انجمن آزاد خیال مصنفین کی بنیاد رکھی۔یوسف نیر اس بارے میں لکھتے ہیں:

سیالکوٹ میں انجمن آزاد خیال مصنفین ۱۹۵۳ء میں قائم ہوئی۔ترقی پسندادیب اور شاعر تصور کرت پوری اس کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔(۱۱۰)

          تاب اسلم بھی اس انجمن میں شامل تھے۔اس انجمن نے اس وقت سیالکوٹ میں بہت سے مشاعر ے کروائے۔۱۹۵۳ء کو رامتلائی روڈ پر جگر مراد آبادی نے بھی کئی مشاعر ے پڑھے۔اس وقت میر عزیز پنجابی او ر اردو شاعری کے حوالے سے ایک معتبر نام تھا۔(۱۱۱)

          تاب اسلم کے ساتھ اور بھی بہت سے افراد اس انجمن سے منسلک تھے۔جن میں گلزار حیدری،اکبر ملک،عباس اثر،شفیع ضامن،ساغر جعفری اور قمر تابش تھے۔

۱۲۔پاکستان رائٹرز گلڈ سب ریجن سیالکوٹ:

          یہ تنظیم ۱۹۵۴ء میں تشکیل دی گئی۔۱۹۶۰ء میں شیخ محمد اختر اس کے پہلے کنونیر تھے۔جولائی ۱۹۶۱ء میں ان کے لاہور چلے جانے کی وجہ سے اصغر سودائی کو کنونیر شپ مل گئی۔۱۹۵۷ء سے ۱۹۶۶ء تک آثم مرزا سیکرٹری کے فرائض انجام دیتے رہے۔۱۹۷۴ء میں تاب اسلم اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۴ء تک ریاض حسین چودھری اس کے سیکرٹری رہے۔۱۹۹۰ء میں الیکشن ہوئے تو پھر تاب اسلم اس کے سیکرٹری بنے اور تا حال ہیں۔اس تنظیم کے زیراثر سیالکوٹ میں مختلف تقریبات ،ماہانہ مشاعرے،تنقیدی نشستیں ،شامِ غزل،مذاکرے اور شام افسانے جیسی مجلیس منعقد ہوئیں۔(۱۱۲)

۱۳۔بزمِ افکار:

          ۱۹۵۷ء میں جب سرور انبالوی لاہور سے تبدیل ہو کر ملٹری اکاؤ نٹس آفیسر سیالکوٹ میں آئے تو انھوں نے عباس اثر،شجر طہرانی کے تعاون سے اس تنظیم کا آغاز کیا۔عباس اثر اس کے پہلے صدر اور سرور انبالوی سیکرٹری تھے۔(۱۱۳)

۱۴۔بزمِ فکر وفن:

          ۱۹۶۰ء میں بزمِ فکرو فن کے نام سے ادبی تنظیم بنائی گئی۔تاب اسلم اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔اس کے زیر اثرسیالکوٹ میں ماہانہ مشاعرے اور ہفتہ وار تنقیدی نشستیں ہوئیں۔قمر تابش،آثم مرزا،شعور اشرف،سعید تبسم اور فیروز رومانی اس تنظیم کے اہم اراکین میں سے تھے۔یہ تنظیم ۱۹۶۴ء میں ختم ہو گئی۔(۱۱۴)

۱۵۔حلقہ ارباب قلم:

          اس ادبی تنظیم کی بنیاد ۱۹۶۳ء میں سیالکوٹ میں رکھی گئی ۔توقیر احمد قریشی نے ا س تنظیم کے آغاز کے حوالے سے لکھا ہے:

حلقہ ارباب قلم کی بنیاد ۱۹۶۳ء میں رکھی گئی۔آغاز میں پروفیسر حفیظ صدیقی،اختر نواز صوفی،اقبال منہاس،گلزار وفا چودھری اور خواجہ اعجاز بٹ مل کر اس کی ادبی تقریبات کا اہتمام کرتے تھے۔(۱۱۵)

۱۶۔قلم قبیلہ:

          گذشتہ صفحات میں سیالکوٹ کی مختلف تنظیموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ان میں سے بیشتر کا تعلق شعرو شاعری کی حد تک تھا۔نثری حوالے سے کوئی قابل ذکر تنظیم نہ تھی۔بالآخر ایک ایسی تنظیم کی ضرورت محسوس کی گئی ۔جو خالصتاً نثری ہو۔اس ضمن میں’’قلم قبیلہ‘‘ کا قیام عمل۱۹۸۱ء میں لایا گیا ۔جس کا موضوع اور دائرہ ادب کی نثری قسم کا افسانہ تھا۔یوں افسانہ لکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم میسر آگیا جس کے تحت وہ اپنی تخلیقات پیش کرتے جن کو تنقیدی کسوٹی پر پرکھا جاتا اور ان کا معیارو مرتبہ متعین کیا جاتا۔

          توقیر احمد قریشی اپنے مضمون ’’سیالکوٹ کی ادبی تنظیموں کا جائزہ‘‘میں اس حوالے سے رقم طراز ہیں:

شہر کے افسانہ نگاروں نے حال ہی میں ایک نئی ادبی تنظیم ’’قلم قبیلہ‘‘ کے نام سے قائم کی ہے۔حال ہی میں اس تنظیم کا پہلا اجلاس ہوا۔اجلاس میں شہر کے افسانہ نگاروں نے شرکت کی۔(۱۱۶)

          مذکورہ بالا صفحات میں سیالکوٹ میں ادبی سر گرمیوں کو زندہ رکھنے والی فعال تنظیموں کا ذکر اجمالاً کیا گیا ہے۔ان ادبی تنظیموں نے شعرو ادب کی ترقی و ترویج میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔سیالکوٹ کی ادبی تاریخ میں ان تنظیموں سے صرف نظر نا ممکن ہے۔

د:۔ ادارے

۱۔ضلع اسکول:

          فروری ۱۹۴۹ء میں انگریزوں نے گجرات کے مقام پر سکھوں کو شکست دے کر کلی طورپرپنجاب پر قبضہ کر لیا۔زندگی کے ہر شعبے میں اصلاحات نافذ کیں۔بڑے بڑے شہروں میں ضلع اسکول کے نام سے تعلیمی ادارے قائم کیے۔سیالکوٹ میں بھی ۱۸۵۴ء میں حکومت نے ایک ضلع اسکول قائم کیا۔اس سکول میں مولوی میر حسن نے مڈل تک تعلیم حاصل کی تھی۔مئی ۱۸۶۸ء میں حکومت نے نصف قیمت پر ضلع سکول کو سکاچ مشن کے ہاتھ فروخت کر دیا۔(۱۱۷)

۲۔امریکن مشن اسکول:

          ۱۸۵۴ء میں حکومت کے ایماء پرا یک امریکی شخص ریونڈٹی ایچ فسٹز پیڑ ک نے شہر سیالکوٹ میں ایک پرائمری سکول قائم کیا۔۱۸۵۷ء میں یہ سکول ہائی درجہ پر ترقی پا گیا۔۱۹۳۵ء میں یہ سکول بند کر دیا گیا۔(۱۱۸)

۳۔سکاچ مشن سکول گندم منڈی:

          سیالکوٹ میں بے شمار تعلیمی ادارے ہیں جہاں لا تعداد طلبا نے فیض حاصل کیااور بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ۔انھی اداروں میں حضرت اقبالؒ کا مادر علمی سکاچ مشن سکول گندم منڈی انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔حکومت نے ۱۸۵۴ء میں قائم ہونے والے اس ادارے کو مڈل سکول میں ترقی دی۔بعدازاں ۱۸۷۳ء میں اس سکول کو ہائی سکول کا درجہ دے دیا گیا۔۱۸۸۸ء میں حکومت پنجاب نے سیالکوٹ میں ایک کالج کے اجرا کے لیے سکاچ مشن کو پیش کش کی۔جس کے بعد مشن ہائی سکول کی عمارت میں فرسٹ ائیر کی تدریس کا آغاز ۱۲ طلبا سے کیا گیا۔اس ادارے میں مو لوی ابراھیم میر،فیض احمد فیض اور ڈاکٹر جمال بھٹہ (بانی نشتر میڈیکل کالج) نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔(۱۱۹)

۴۔مرے کالج:

          سیالکوٹ کے تاریخی شہر اور چھاؤنی کے مابین ساڑھے بارہ ایکڑ رقبے پر مشتمل گورنمنٹ مرے کالج کو شاعر مشرق ،مفکر اسلام علامہ محمد اقبال کی مادرِ علمی او ربیسویں صدی کے جدید نامور شاعر فیض احمد فیض کی تعلیمی درسگاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔امین حزیں،اثر صہبائی ،جوگندر پال،کرشن موہن،غلام الثقلین نقوی،وارث میر،خالد حسن اور اصغر سودائی جیسے مایہ ناز شعراو ادبا بھی اس گلستانِ علم وادب کے خوشہ چیں ہیں۔اس عظیم و قدیم درسگاہ کا آغاز ۵ مئی ۱۸۶۸ء کو ہوا۔(۱۲۰)

          ۱۸۸۸ء میں حکومت پنجاب نے سیالکوٹ میں ایک کالج کے اجرا کے لیے سکاچ مشن کو پیش کش کی۔لیفٹیننٹ گورنر پنجاب سر جیمز لائل نے میونسپل بورڈ سیالکوٹ کے بجٹ سے رقم مخصوص کی اور یوں ۵ مئی ۱۸۸۹ء کو سٹی سکاچ مشن ہائی سکول کی عمارت ہی میں گیارھویں جماعت کی تدریس کا آغاز بارہ طلبا سے کیا گیا۔مشن کے سر براہ ریورنڈ جے ڈبلیو ینگسن کالج ہذا کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔(۱۲۱)مولوی میر حسن ،نرجن داس اور ہرنام سنگھ نامی اساتذہ کالج میں انگریزی ،فلاسفی ،عربی ،فارسی ،ریاضی ،کیمیا اور طبیعات کے مضامین کا درس دینے لگے۔پہلے سال یونیورسٹی امتحان میں گیارہ طلبہ شامل ہوئے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ۱۸۸۳ء میں پہلی بار کچی جماعت میں داخلہ لیا اور میٹرک میں کامیابی کے بعد اس کالج میں(جو بعد میں موجودہ جگہ پر منتقل ہوا)۵ مئی ۱۸۹۵ء میں فرسٹ ائیر میں داخلہ لیا اور ۲۷ اپریل کو انٹر میڈیٹ کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔(۱۲۲)

          دورانِ تعلیم ان کو مولوی میر حسن جیسے عظیم استاد و اتالیق میسر ہوئے جن کے فیضان نظر اور تعلیم کی کرامت نے محمد اقبال کو اقوام عالم کے سامنے عظیم بنا کر پیش کیا۔انھوں نے اپنے شاگرد رشید کی اس دانش گاہ ہی میں آبیاری کے باعث شمس العلما کا عظیم ترین خطاب حاصل کیا۔مولوی میر حسن نے سکاچ مشن میں ۱۸۶۳ء تا ۱۹۲۸ء ……۶۵ سال تدریس کے بعد مشن مذکورہ سے پنشن حاصل کی۔

          ۱۹۲۷ء میں جدید دور کے عظیم شاعر فیض احمد فیض نے علمی اکتساب و سر شاری کے لیے مرے کالج میں گیارھویں جماعت میں داخلہ لیا اور ۱۹۲۹ء میں انٹر میڈیٹ کے امتحان میں امتیاز کے ساتھ کامیاب ہوئے۔(۱۲۳)۱۹۳۹ء میں کالج کی جوبلی کا جشن ہو ا۔میگزین کی خصوصی اشاعت کا انعقاد کیا گیا ۔۱۹۴۳ ء میں مرے کالج کے ایک طالب علم محمداصغر سودائی نے پاکستان کے لیے ملی ترانہ تخلیق کیا:

پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اﷲ

          ۳۰ اپریل ۱۹۴۴ء کو مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی دعوت پر قائد اعظم محمد علی جناح مرے کالج تشریف لائے۔ (۱۲۴) کالک کے صدر دروازے پر پرنسپل جان گیرٹ او رکالج کے پروفیسر صاحبان نے قائد اعظم کا استقبال کیا۔قائد اعظم میر حسن ہال میں تشریف لے گئے اور طلبا سے خطاب کیا۔۱۹۴۷ء میں ڈاکٹر ڈی۔ایل سکاٹ نے پرنسپل کی حیثیت سے مرے کالج کو پاکستان عیسائی مشن کے حوالے کیا اور یوں پروفیسر آرسی تھامس کو پرنسپل بنا دیا گیا۔۱۹۶۰ء میں کالج کے قیام کی ڈائمنڈ جوبلی منائی گئی اور مرے کالج میگزین کا خصوصی نمبر شائع کیاگیا۔(۱۲۵)۱۹۶۴ء میں پروفیسر ایف ۔ایس خیر اﷲ نے پرنسپل(۱۹۶۴ء تا۱۹۷۲ء )کے فرائض سنبھال کر کالج کو نئے انداز سے ترقی کی راہوں پر گامزن کیا۔۱۹۷۲ء میں حکومت پاکستان کے حکم کے تحت مرے کالج کو قومی تحویل میں لے لیا گیا اور پروفیسر آسی ضیائی رامپوری نے عارضی طو رپر پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔بعدا زاں ڈاکٹر ونسنٹ داس کو پرنسپل (۱۹۷۲ء تا ۱۹۸۸ء) بنادیا گیا۔

          مرے کالج کے شعرا نے غزل گوئی کی روایت کو قائم رکھا ۔ان شعرا کی غزلوں میں قدیم شعرا کی طرح فارسی الفاظ کابھرپور استعمال ملتاہے۔معروف غزل گو شعرا کے نام تفصیل سے پیش کیے جاتے ہیں۔

          محمدا قبال شیدائی،اعجاز احمد،لالہ گنپت رائے،ایم ڈی ثاقب،بشمبر داس گرما پانی پتی،شریف حسین حیدر نشتر،نذیر احمد،ساغرصہبائی،فیض احمد فیض ،شاہد،اختر آفندی،سردار محمد اختر ،شریف احمد شریف ،محمد خلیل الرحمان انور،جلیل جاوید،اصغر سودائی ،محمد اکرم ،ریاض ساغر،آسی ضیائی ،رئیس میرٹھی ،رشید خواجہ ،احسان اﷲ ثاقب ،منیر سوزی،خالد لطیف ، ظہیر احمد گیلانی ،یونس شہباز،دلشاد احمد دلشاد،زاہد گیلانی ،ریاض ابراہیم سحر،سید حسن عسکری،ساغر جعفری ،اطہر سلیمی ،ریاض حسین چودھری ،حفیظ الرحمان احسن،عاصم صہبائی ،مذکورہ بالا شعرا جو مرے کالج میں معلم اور متعلم رہے ہیں۔مرے کالج کے ادبی مجلے میں چھپتے رہے ہیں۔

          غزل گوئی کے ساتھ ساتھ مرے کالج کے شعرا نے نظم گوئی میں بھی اُردو نظم کی روایت کو زندہ رکھا اور حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے خوبصورت نظمیں تحریر کیں۱۹۴۷-ء قیام پاکستان ،۱۹۶۵ء کی جنگ ،۱۹۷۱ ء کی جنگ او رملک میں مارشل لاء کے نفاذ پر نظم گو شعرا نے بہت زیادہ موضوعاتی نظمیں تحریر کیں۔معروف نظم گو شعرا کے نام اور نظموں کے عنوانات کی تفصیل دی جاتی ہے۔

سب سے پہلے نظم گو شعرا کے نام دئیے جاتے ہیں:

          آثم فردوسی ،آسی ضیائی،آرزو،اثررعنائی،ابوالنصر نگار،ارشد طہرانی،ارشاد حسین کاظمی،اصغر سودائی ،اصغر علی سید،اطہر سلیمی،اقبال منہاس،اقبال کرشن،امریک سنگھ،اوم پرکاش،بشیر نیازی،جگن ناتھ،جلیل جاوید،حفیظ احسن،جیت سنگھ،حفیظ اثر،حفیظ صدیقی،حمیدہ رضوی ،خلیق حسین ممتاز ،رحمت اﷲ بیدل،ساغر صہبائی ،سجاد رضوی،سمندر سنگھ ،طاہر نظامی ،عابد علی عابد،عاصم صہبائی ،ایم اسلم ،محمد امجد ورک،محمد ریاض شاہد،نرجس خاتون،نذیر صوفی،وارث رضا،وارث میر اور یوسف نیر

          اب اہم نظموں کے نام پیش کیے جاتے ہیں:

          ایک ہوں،شاعر اور موت،ستاروں کے نیچے،الوداع ،مری کی شام ،راز زندگی ،کروٹیں ،شرارے ،کار امروز ، دنیا ئے حسن،وحدت وجود وحدت شہود،بیاد اقبال،حدیث دل،ماتم مصطفی کمال اتاترک،نئے سال کی پہلی رات،مغنیہ ، اے موت،فلسفہ محبت،آج کی شب،معیار محبت،سیالکوٹ ،پاکستان،نغمۂ عشق ،قبرا قبال پر،جنگ کی ایک رات،اقبال کے اشعار میں ،نوائے حزیں ،چاند نامہ ،آزادی نامہ ،بذکر قائد،عقل و جنوں ،آزادی کشمیر ،صدائے سروش ،آمد صبح،شہر اقبال سے،پیام شوق،خونِ شہیداں ،شہید عزیز ،اقبال کے نام ،مزدور ،آرزوئے دل،مجاہد وطن ،نشاط روح ،توا ور میں ،وطن ،شاعر ،میری خواہش،جامِ رعنائی،مرے کالج،صحرائے خیالی ،شاعر کی دنیا ،فلسفہ حسن،نوحہ مصطفی کمال اور مرجھائے ہوئے پھول۔(۱۲۶)

          مرے کالج نہ صرف ایک بہت بڑا تعلیمی ادارہ رہا ہے بلکہ مرے کالج ماضی میں ایک ادبی مرکز بھی رہا ہے ۔جس نے بڑے بڑے شاعر ،ادیب ،صحافی،اساتذہ ،افسانہ نگار اور سب سے بڑھ کر بڑے بڑے انسان پیدا کیے ہیں۔انھی عظیم لوگوں کی وجہ سے مرے کالج آج بھی تاریخ میں زندہ ہے۔

۵۔کرسچن ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ:

          ۱۸۸۰ء کے لگ بھگ انڈیا نہ کے آرچی بالڈ اسٹیوارٹ نے بور ڈ آف فارن مشن کو چالیس ہزار پونڈ کا عطیہ کر دیا کہ اس سے ہندوستان او ر مصر میں تبلیغی مشن کے لیے مراکز قائم کیے جائیں۔سیالکوٹ مشن نے اپنا حصہ علم الہایات کی تعلیم کے لیے مختص کر دیا۔امریکن مشن نے بارہ پتھر سیالکوٹ میں سکاچ مشن سے اراضی خرید کر کرسچن ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا۔۱۸۸۲ء میں یہاں مڈل درجہ تک تعلیم دی جانے لگی۔دنیاوی تعلیم کے علاوہ یہاں دین مسیحیت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔امریکی مشن اپنے مبلغوں کو یہاں دینی تعلیم دے کر تیار کرتا اور ان سے تبلیغی کام لیتا۔(۱۲۷)

۶۔سکول برائے یورپی طالبات:

          یہ ادارہ ۱۸۸۲ء میں سیالکوٹ چھاؤنی میں قائم ہوا۔ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین اس ادارے کے بارے میں اپنی کتاب’’اقبا ل کی ابتدائی زندگی‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:

سیالکوٹ چھاؤنی میں لڑکیوں کے لیے ایک پرائیوٹ سکول ۱۸۸۲ء میں موجود تھا۔اس میں یورپ اور یوریشیا کی ۳۰ سے زائد غیر ملکی لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔سیالکوٹ کے ایک مشنری ادارے کانونٹ آف جینرز میری نے اسے قائم کیا تھا اور یہاں کی نن ان کو تعلیم دیتی تھیں۔(۱۲۸)

۷۔سنگھ سبھا اینگلو ورینکلر اسکول:

          یہ سکول ۱۸۸۴ء میں سیالکوٹ شہر میں قائم ہوا۔ڈاکٹر سلطان محمود حسین اس ادارے کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:

۱۸۸۴ء میں سیالکوٹ شہر کے سکھوں نے ’’گرو سنگھ سبھا‘‘ کے نام سے اپنی ایک تنظیم قائم کی تھی۔اس سبھا کے تحت انھوں نے ایک اینگلو ور ینکلر سکول بھی قائم کیا۔سکول کے قیام میں سردار بدھ سنگھ کی کوششوں کو بڑا دخل حاصل تھا۔میونسپل کمیٹی سیالکوٹ نے ۱۸۸۷ء میں جدید سکول قائم کیا تواس سکول کو جدید سکول میں مدغم کر لیا۔(۱۲۹)

۸۔اقبال لائبریری سیالکوٹ:

          سیالکوٹ زمانہ قدیم سے ہی کتب خانوں کا مرکز تھا۔پنجاب پبلک لائبریری لاہور کے قیام کے دس سال بعد ۱۸۹۴ء میں سیالکوٹ میں اقبال لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔(۱۳۰) اس لائبریری کانام اس وقت کے ڈپٹٔی کمشنر منٹگمری کے نام پر رکھا گیا ۔اس لائبریری سے علامہ اقبال کے علاوہ متعدد دیگر مشاہیر علم کی روشنی حاصل کرتے رہے۔ شروع میں یہ لائبریری سیالکوٹ قلعہ پر واقع تھی۔۱۹۵۷ء میں اس لائبریری کی عمارت خستہ ہو گئی اور ۱۹۶۱ء تک یہ کتب خانہ بند رہا ۔ ۱۹۶۱ء میں گنڈا سنگھ گراؤنڈ میں اس کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا ۔اس ادارے کے سابق لائبریرین ریاست علی چودھری کے ۳۵ سالہ ملازمت کے دور میں یہاں ادبی محفلوں اور مشاعروں کا اہتمام ہوتا رہاہے۔سیالکوٹ اور بیرون سیالکوٹ کے شعرا و ادبا ان ادبی محفلوں اور مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔یہ لائبریری اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اقبالیات کی ماہر ڈاکٹر این میری شمل نے بھی اس جگہ ایک جلسہ سے خطاب کیا تھا۔علامہ اقبال سے منسوب ہونے کے ناطے یہاں اقبالیات کے نام سے ایک علیحدٰہ سیکشن موجود ہے۔جہاں تقریباً ایک ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔اس لائبریری کے رجسٹر ڈ ممبران کی تعداد ۴۱۸ ہے۔(۱۳۱)

 ۹۔انجمنِ اسلامیہ سیالکوٹ:

          انجمن ِاسلامیہ سیالکوٹ کا قیام ۱۹۱۱ء میں عمل میں لایا گیا ۔مولوی محمد شفیع مرحوم اس انجمن کے بانی تھے۔۱۹۱۲ء میں سید مولوی میر حسن انجمن کے صدر منتخب ہوئے۔ انجمن اسلامیہ کے بارے میں ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین اپنی کتاب’’اقبال کی ابتدائی زندگی‘‘ میں لکھتے ہیں:

شہرکے چند سر کردہ مسلمانوں نے مارچ ۱۸۹۰ء میں انجمن اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ اس کا ابتدائی اجلاس ۴ مارچ ۱۸۹۰ء کو ہوا۔انجمن کا مقصد مسلمانوں کی فلاح و بہبودتھا۔ ۱۸۹۴ء میں انجمن کے صدر میراں بخش تھے جو مہاراجہ جموں وکشمیر کے پرائیوٹ سیکرٹری رہ چکے تھے۔انجمن نے فروری۱۸۹۴ء میں سر سید احمد خان اور ڈپٹی نذیر احمد کی سیالکوٹ میں آمد کے انتظامات کیے تھے لیکن وہ کسی وجوہ کی بنا پر آ نہیں سکے تھے۔انجمن تائید اسلام ،انجمن مدرستہ الاسلام اور انجمن شعبان المسلمین کو یکجا کر کے ۲۱ نومبر ۱۹۱۱ء کو موجودہ انجمن (انجمن اسلامیہ) کی بنیاد رکھی گئی۔(۱۳۲)

۱۰۔جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ:

          یہ کالج انجمن اسلامیہ کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے ۲ مئی ۱۹۵۱ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔کالج کے بانی پرنسپل ماہر تعلیم خان بہادر محمد یوسف ہاشمی تھے۔ستمبر۱۹۷۲ء میں دیگر نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔۱۹۵۸ء میں اس کالج کے ہونہار طالب علم نے انٹر کے امتحان میں لاہور بورڈ میں اوّل پوزیشن حاصل کر کے کالج کی شہرت کو چار چاند لگا دئیے۔(۱۳۳)بعدازاں اسی کالج میں آسی ضیائی رامپوری (عظیم نعت گو شاعر،بلند پایہ ماہر اقبالیات اور ممتاز دینی اسکالر) کی بطور استا د تعیناتی ہوئی ۔وہ اس ادارے میں ادبی سر گرمیوں کے نگران رہے ۔بزم ِفاراں نامی ادبی تنظیم کے زیر سایہ اسلامیہ کالج کے ہال میں طویل عرصہ سے مشاعرے بھی ہورہے ہیں-اس بزم کے جنرل سیکرٹری پروفیسر خاور منصور ہیں جو خود ایک اچھے شاعر ہیں۔پروفیسر تجمل سلیمی جو آسی ضیائی کے شاعری میں شاگر د ہیں وہ اسلامیہ کالج میں مشاعرے کروانے اور کالج کے ادبی رسالے’’کاوش‘‘ کو خالصتاً ادبی رسالہ بنانے میں سر گرم رہے ہیں۔ڈاکٹر آفتاب نقوی نے بھی اس ادارے میں ادبی سر گرمیوں کو ترقی و ترویج دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

۱۱۔گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین:

          گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین کا افتتاح محترمہ فاطمہ جناح نے یکم دسمبر ۱۹۵۱ء میں کیا جو کہ پہلے گنڈا سنگھ ہائی سکول کے نام سے معروف تھا۔اس ادارے کی بانی پرنسپل ممتاز ماہر تعلیم محترمہ مس منعم الدین تھیں۔اس ادارے سے ادبی میگزین ’’اُفق ‘‘ نکلتا ہے۔جس میں اساتذہ او رطالبات کی شاعری اور دیگر ادبی تحریریں شامل ہوتی ہیں ۔یکم دسمبر ۲۰۰۱ء کوا س ادارے کو قائم ہوئے پچاس سال ہوئے لہذا ۹ فروری ۲۰۰۲ء سے ۱۵ فروری ۲۰۰۲ء تک گولڈن جوبلی تقریبات کا انعقاد کیا گیا جن کی انچارج ڈاکٹر خالدہ گیلانی تھیں۔(۱۳۴)گولڈن جوبلی تقریب میں ایک بہت بڑا مشاعرہ ہو اجس میں طالبات کے علاوہ سیالکوٹ کے نامور شعرا شامل ہوئے۔۲۰۱۴ء میں ڈگری کالج خواتین کو یونیورسٹی کا درجہ مل گیا ہے۔مختلف شعبہ جات میں ایم۔فل کی کلاسیں شروع ہو چکی ہیں۔دیگر شعبہ جات میں تحقیق کے ساتھ ساتھ شعبۂ اُردو میں اُردو زبان و ادب میں بھی ترقی کے امکانات موجود ہیں۔

۱۲۔سیرت سٹڈی سنٹر:

          ۲ جنوری ۱۹۸۲ء کو سیالکوٹ میں پہلی کل پاکستان قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر بین الاقوامی سیرت سٹڈی سنٹر کے قیام کا اعلان کیا گیا ۔جس کے لیے ضلع کونسل نے کمال عنایت سے ایک وسیع قطع اراضی خیابان اقبال چھاؤنی میں دیا۔۱۷ فروری ۱۹۸۷ء کو صدرِ پاکستان جنرل ضیاء الحق نے دوسری کل پاکستان قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر سنٹر کا سنگ بنیاد رکھا۔(۱۳۵)

          سیرت سٹڈی سنٹر میں بہت بڑی لائبریری موجو د ہے جس میں نہ صرف سیرت کے حوالے سے کتب ہیں بلکہ ادب،سائنس،اقبالیات ،اسلامیات ،نفسیات،معاشیات اورسیاسات پر وافر کتب کا ذخیرہ موجو د ہے۔جس سے طلبا و طالبات اور ریسرچ اسکالرز مستفید ہو رہے ہیں۔سیرت سٹڈی سنٹر میں دیگر علمی و ادبی پروگراموں کے ساتھ ساتھ مشاعرے بھی ہوتے رہتے ہیں ۔جس میں ملکی اور غیر ملکی نامور اسکالرز اور شعرا وادبا شرکت کرتے ہیں۔علم و ادب کی ترقی میں اس ادارے کا کردارقابل تحسین ہے۔

          پہلی اور دوسری کل پاکستان قومی سیرت کا نفرنس کے بعد دسمبر۱۹۹۳ء میں قومی سیرت سیمنیار منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر ایس ایم زمان چئیر مین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان اور ڈاکٹر امتیاز احمد سعید ڈائریکٹر جنرل ریسرچ وزارت مذہبی امور نے شرکت کی ۔میزبانی کے فرائض پروفیسر امین جاوید نے انجام دئیے۔سیرت سٹڈی سنٹر کی علمی و دینی سر گرمیوں کا آغاز سیرتِ طیبہ کے عنوان پر مشاہیر اسلامک اسکالرز کے باقاعدہ لیکچرز سے ہوا اور یہاں ملک اور بیرون ملک کے مایہ ناز علما و دانشور لیکچرز دے چکے ہیں۔اس ادارے کی موجودگی میں سیالکوٹ میں علم وادب کی ترقی کے امکانات موجود ہیں۔(۱۳۶)

حوالہ جات

۱؂     ’’اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘‘،دانش گاہ پنجاب ،لاہور ،طبع اول ،۱۹۷۵ء ،جلد ۱۱ ،ص :۴۸۸

۲؂     ’’انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا‘‘ ،کراچی ،طبع اول،اکتوبر ۱۹۹۸ء ص :۵۸۱

۳؂     ’’اردو دائرہ معارف اسلامیہ ‘‘ ،دانشگاہ پنجاب ،لاہور ،طبع اول، ۱۹۷۵ء ،جلد ۱۱ ص :۴۸۸

۴؂     اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،سیالکوٹ ،سیالکوٹ ایڈورٹائزر ،۲۰۰۹ء ،ص :۱۸۔۱۹

۵؂     ایضاً ،ص :۲۰

۶؂     ’’اردو جامع انسائیکلو پیڈیا‘‘ ،جلد اول ،۱۹۸۸ء ،ص :۸۰۶

 7: http:llen.wikipedid.org/wiki/history of Sailkot 25-09-2014

۸؂     آتش لدھیانوی ،’’سیالکوٹ انیسویں صدی میں ‘‘،مشمولہ ’’صحیفہ‘‘ شمارہ نمبر ۶۱ ،لاہور ،مجلس ترقی ادب ،۱۹۷۲ء ،ص ،۱۵۴

۹؂     اشفاق نیاز ،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص ۱۵۸

۱۰؂   ایضاً ،ص :۱۵۰

۱۱؂   ایضاً ،ص :۱۵۱

۱۲؂   ایضاً ،ص :۱۵۲

۱۳؂   ایضاً ،ص :۱۵۲

۱۴؂   ایضاً ،ص :۱۵۳

۱۵؂   ایضاً ،ص :۱۶۰

۱۶؂   اختر نواز صوفی،’’سیالکوٹ مختلف ادوار میں ‘‘مشمولہ ،’’مفکر‘‘ ،سیالکوٹ مرے کالج ،۱۹۹۳ء ،ص :۲۳۔۲۴

۱۷؂   ایضاً ،ص :۳۳

۱۸؂   ایضاً ،ص :۲۴

۱۹؂   ایضاً ،ص :۲۵

۲۰؂   اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص ۷۱۸

۲۱؂   ایضاً ،ص :۷۳۹

۲۲؂   ایضاً ،ص :۷۳۹،۷۴۰

۲۳؂   ایضاً ،ص :۷۴۲،۷۴۳

۲۴؂   اطہر سلیمی ،’’سیالکوٹ کے قدیم فارسی گو شعرا ‘‘ ،مشمولہ ’’ماہنامہ محفل‘‘ ،شمارہ نمبر۳۳ جلد نمبر ۳۷ ،لاہور ،حیدری پریس ،مارچ ۱۹۹۱ء ص:۲۷

۲۵؂   اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘ ،ص ۲۵

۲۶؂   آتش لدھیانوی ،’’سیالکوٹ انیسویں صدی میں ‘‘،ص ۱۴۹

۲۷؂   محمد الدین فوق،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘ ،لاہور ،خادم التعلیم برقی پریس ،۱۹۲۴ء ص :۹۴،۹۵

۲۸؂   ایضاً ،ص: ۹۵

۲۹؂   عبدالصمد غلام محمد ،تواریخ سیالکوٹ ،سیالکوٹ ،در مطبع صمدی رنگپورہ ،۱۸۸۷ء ،ص :۱۷

۳۰؂   محمد مقیم بن رحمت اﷲ،’’وقائع سیالکوٹ‘‘ ،مرتبہ ڈاکٹر محمد عبداﷲ چغتائی ،لاہور ،کتاب خانہ نورس ۱۹۷۲ء ، ص :۴

۳۱؂   اسلم ملک’’مطالعات اقبال‘‘ ،سیالکوٹ،اردو ادب اکیڈمی،اپریل ۱۹۶۹ء ،ص :۱۸۱

۳۲؂ Ahmad Nabi Khan ,"An ancient city of Pakistan,Sailkot",Lahore,The pungabi adbi academy,1964,page.7

۳۳؂ "Gazetteer of the Sialkot district (1920)",Lahoer ,Sang-e-meel publication,2005,page:14

۳۴؂ http:ll.en,wikipedia.org/wiki/history of Sialkot9-09-2014

۳۵؂ http:ll.en,wikipedia.org/wiki/history of Sialkot9-09-2014    

۳۶؂   اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص :۲۰

۳۷؂   ایضاً ،ص:۲۰

۳۸؂   ایضاً ،ص :۲۱

۳۹؂   ایضاً ،ص :۲۴

۴۰؂   ایضاً ،ص :۲۱

۴۱؂   ایضاً ،ص :۱۴۵

۴۲؂   ایضاً ،ص :۱۴۵

۴۳؂   ایضاً ،ص :۱۴۶

۴۴؂   آتش لدھیانوی ،’’سیالکوٹ انیسویں صدی میں‘‘،ص ۱۵۵

۴۵؂   ایضاً ،ص :۱۵۸

۴۶؂   ایضاً ،ص :۱۵۱

۴۷؂   اختر نواز صوفی،انٹر ویو ،از راقم الحروف ،بمقام سیالکوٹ ۵ اپریل ۲۰۱۱ء

۴۸؂   اشفاق نیاز ،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص:۷۶۵،۷۶۶

۴۹؂   ایضاً ،ص :۷۶۶

۵۰؂   ایضاً ،ص :۷۶۸

۵۱؂   ایضاً ،ص :۷۶۷

۵۲؂   ایضاً ،ص :۶۵۱

۵۳؂   ایضاً ،ص :۶۵۴

۵۴؂   ایضاً ،ص :۶۵۶

۵۵؂   ایضاً ،ص :۶۵۸

۵۶؂   ایضاً ،ص :۶۶۱

۵۷؂   ایضاً ،ص :۶۷۱

۵۸؂   ایضاً ،ص :۴۶۸

۵۹؂   اطہر سلیمی ،’’سیالکوٹ کے قدیم فارسی شعرا‘‘ ،ص :۲۷

۶۰؂   ’’اردو دائرہ معارف اسلامیہ ‘‘،دانشگاہ پنجاب،ص :۴۸۹

۶۱؂   محمد الدین فوق،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص :۱۳۷

۶۲؂   رشید نیاز،’’اولیائے سیالکوٹ‘‘ ،سیالکوٹ ،نیاز اکیڈمی ،طبع اول ،۱۹۹۲ء ،ص :۵۸

۶۳؂   محمدا لدین فوق،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص :۷

۶۴؂   اعجاز الحق قدوسی(مترجم) ،’’توزک جہانگیری‘‘،لاہور ،جلد اول ،مجلس ترقی ادب ،۱۹۶۷ء ،ص:۳۵

۶۵؂   بنی احمد،’’خالد نذیر صوفی……ایک اقبال شناس‘‘،مقالہ برائے ایم۔اے اردو (غیر مطبوعہ) لاہور ،پنجاب یونیورسٹی ،۲۰۰۵ء ،ص: ۱۴

۶۶؂   ایضاً ،ص:۱۴

۶۷؂   ایضاً ،ص:۱۵

۶۸؂   ڈاکٹر امین اﷲ وثیر (مرتب و مترجم) ،’’الرسالتہ الخاقانیۃ‘‘،مولفٔ ملا عبدالحکیم سیالکوٹی،سیالکوٹ،سیرت سٹڈی سنٹر،۲۰۱۰ء ،ص ۱۵

۶۹؂   ایضاً ،ص ۱۵،۱۶

۷۰؂   ایضاً،ص:۱۶

۷۱؂   ایضاً،ص:۱۸

۷۲؂   ایضاً،ص:۱۸

۷۳؂   محمد وقار چیمہ،’’علامہ محمد اقبال اور شیخ عطا محمد کے روابط‘‘،مقالہ برائے ایم فل اقبالیات (غیر مطبوعہ) ،اسلام آباد ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،۲۰۰۵ء ،ص:۱۷

۷۴؂   ڈاکٹر سلطان محمود حسین،’’اقبال کی ابتدائی زندگی‘‘،لاہور،اقبال اکادمی :۱۹۸۶ء ص:۲۶۰

۷۵؂   ایضاً،ص:۲۵۴

۷۶؂   ایضاً،ص:۲۸۰

۷۷؂   ڈاکٹر عبدالوحید،’’جدید شعرائے اردو ‘‘،لاہور ،فیروز سنز لمیٹڈ،۱۹۶۷ء ،ص :۴۸۸

۷۸؂   ناہید سلطانہ،’’مرے کالج کے ادبی مجلے کا تنقیدی جائزہ‘‘،مقالہ برائے ایم۔اے اردو (غیر مطبوعہ ) ،لاہور پنجاب یونیورسٹی ،۱۹۹۰ء ،ص :۲۸

۷۹؂   ایضاً،ص:۳۰

۸۰؂   ایضاً،ص:۳۰

۸۱؂   ایضاً،ص:۳۳

۸۲؂   ایضاً،ص:۳۴

۸۳؂   ڈاکٹر انور سدید،’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ ‘‘،اسلام آباد ،اکادمی ادبیات پاکستان،جنوری ۱۹۹۲ء ،ص ۳۳۷

۸۴؂   اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص :۴۶۶

۸۵؂   ایضاً،ص:۴۵۹

۸۶؂   ایضاً،ص:۳۴۲

۸۷؂   ڈاکٹر انور سدید’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ ‘‘،ص :۲۷۹

۸۸؂   ایضاً،ص:۲۷۹

۸۹؂   ایضاً ،ص :۳۱۷

۹۰؂   ایضاً،ص:۲۸۱

۹۱؂   ایضاً،ص:۲۸۲

۹۲؂   مکتوب محسن بھوپالی بنام تاب اسلم ،مشمولہ ’’ید بیضا‘‘ ،سیالکوٹ ،مارچ ،اپریل ،۱۹۹۸ء ،ص :۱۰

۹۳؂   اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص ۴۶۲

۹۴؂   ایضاً،ص:۴۲۳

۹۵؂   پروفیسر اکرام سانبوی ،انٹر ویو ،از راقم الحروف،بمقام سیالکوٹ،۱۰ نومبر ۲۰۱۱ء

۹۶؂   شگفتہ نقوی،انٹر ویو،از راقم الحروف ،بمقام سیالکوٹ،۲ اگست۲۰۱۱ء

۹۷؂   اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص :۴۶۴

۹۸؂   ایضاً،ص:۴۵۸،۴۵۹،۴۶۰

۹۹؂   رشید نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،سیالکوٹ ،مکتبۂ نیاز ،۹۸=۱۹۵ء ص:۰۲۰

۱۰۰؂ اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص :۳۹۰،۳۹۱

۱۰۱؂ یوسف رحمت،’’حکیم عبدالبنی شجر طہرانی ،شخصیت اور شاعری ‘‘،مقالہ ایم فل اردو (غیر مطبوعہ) ،اسلام آباد ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ۱۹۹۵ء ،ص :۴۲

۱۰۲؂ زوبیہ چودھری ،’’تاب اسلم شخصیت اور شاعری ‘‘،’’مقالہ برائے ایم ۔اے اردو ،لاہور پنجاب یونیورسٹی ،۲۰۰۴ء ص :۱۴۳

۱۰۳؂ یوسف رحمت،’’حکیم عبدالنبی شجر طہرانی‘‘،شخصیت و شاعری‘‘،ص :۴۶

۱۰۴؂ اشفاق نیاز ،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص :۳۹۱

۱۰۵؂ یوسف رحمت،’’حکیم عبدالنبی شجر طہرانی۔شخصیت و شاعری‘‘،ص: ۴۶

۱۰۶؂ اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص :۳۹۲

۱۰۷؂ ایضاً ،ص :۳۹۲،۳۹۳

۱۰۸؂ ایضاً،ص:۳۹۳

۱۰۹؂ ایضاً،ص:۳۹۴

۱۱۰؂ یوسف نیر،’’حکیم عبدالنبی شجر طہرانی۔شخصیت و شاعری ،‘‘ ص :۴۲

۱۱۱؂ ایضاً،ص:۴۳

۱۱۲؂ زوبیہ چودھری ،’’تاب اسلم ۔شخصیت و شاعری،‘‘ص :۱۴۱

۱۱۳؂ اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص :۳۹۷

۱۱۴؂ زوبیہ چودھری،’’تاب اسلم۔شخضیت اور شاعری ‘‘،ص :۱۴۰

۱۱۵؂ توقیر احمد قریشی ،’’سیالکوٹ کی ادبی تنظیموں کا جائزہ‘‘،مشمولہ ’’روزنامہ وفاق‘‘،لاہور ،۲۶ ماردچ ۱۹۸ء ص :۴

۱۱۶؂ ایضاً،ص:۳

۱۱۷؂ ڈاکٹر سلطان محمود حسین،’’اقبال کی ابتدائی زندگی‘‘،ص :۴۷،۴۸

۱۱۸؂ ایضاً،ص:۳۶،۳۷

۱۱۹؂ اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘ ،ص ۸۴۹

۱۲۰؂ ناہید سلطانہ،’’مرے کالج کی ادبی مجلے کا تنقیدی جائزہ ،ص :۱۲

۱۲۱؂ ایضاً،ص:۱۳

۱۲۲؂ ایضاً،ص:۱۳

۱۲۳؂ ایضاً،ص:۱۵

۱۲۴؂ ایضاً،ص:۱۷

۱۲۵؂ ایضاً،ص:۱۹

۱۲۶؂ راقم الحروف نے غزل گو،نظم گو شعرا اور نظموں کے بارے میں مذکورہ بالا معلومات ناہید سلطانہ کے ایم ۔اے اردو کے مقالے ’’مرے کالج کے ادبی مجلے کا تنقید ی جائزہ‘‘سے اخذ کی ہیں۔

۱۲۷؂ ڈاکٹر سلطان محمود حسین،’’اقبال کی ابتدائی زندگی‘‘،ص :۴۷،۴۸

۱۲۸؂ ایضاً،ص:۴۱

۱۲۹؂ ایضاً،ص:۳۸

۱۳۰؂ اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص: ۷۲۰

۱۳۱؂ ایضاً،ص:۷۲۰

۱۳۲؂ ڈاکٹر سلطان محمودحسین،’’اقبال کی ابتدائی زندگی‘‘،ص :۴۷،۴۸

۱۳۳؂ اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص :۸۴۱

۱۳۴؂ ڈاکٹر خالدہ گیلانی،’’گولڈن جوبلی تقریب‘‘مشمولہ افق گولڈن جوبلی نمبر سیالکوٹ ،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین ،فروری ۲۰۰۴ء ،ص :۶،۷

۱۳۵؂ اشفاق نیاز،’’تاریخ سیالکوٹ‘‘،ص :۷۲۹

۱۳۶؂؂         ایضاً،ص:۷۲۹،۷۳۰

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...