Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > حکیم عبد النبی شجرطہرانی

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

حکیم عبد النبی شجرطہرانی
ARI Id

1688382102443_56116076

Access

Open/Free Access

Pages

72

حکیم عبد النبی شجرطہرانی(۱۹۶۸۔۱۸۷۲) ہمیر پور جموں میں پیدا ہوئے۔ اصل نام عبد النبی اور شجر تخلص کرتے تھے۔ آپ کے والد دہلی میں طبیب تھے۔۱۹۰۲ء میں آپ نے میڈیکل کالج لکھنؤ سے طب کی سند حاصل کی۔(۶۲) ۱۹۲۰ء میں آپ نے والدین سمیت جموں سے ہجرت کی اور سیالکوٹ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ (۶۳) جب شجر میڈیکل کالج لکھنؤ میں طالب علم تھے تو اسی دور میں آپ کو حضرت داغ دہلوی سے تلمذ ہوا۔ اس دور میں شجر اپنا کلام داغ دہلوی کو دکھایا کرتے تھے۔(۶۴) شجر سند یافتہ طبیب تھے۔ آپ فوجی ڈاکٹر کی حیثیت سے برطانوی فوج میں شامل ہوئے۔ مولانا جوہر اور مولانا شوکت علی کے ساتھ تحریکِ خلافت کے دوران متعدد جلسوں میں حصہ لیا۔۱۹۲۰ء میں آپ نے کانگریس کی رکنیت اختیار کی۔ بعد ازاں کانگریس چھوڑ کر مجلسِ احرار میں شامل ہو گئے۔(۶۵) شجر کے عطاء اﷲ شاہ بخاری سے گہرے مراسم تھے جب وہ سیالکوٹ آتے تو شجر کی قیام گاہ پر قیام کرتے۔ شجر نے ۸۰ سال متحرک ادبی زندگی گزاری اور تقریباً ایک لاکھ شعر کہے۔ ان کی باقیات کے پاس ان کے بائیس شعری مسودات محفوظ ہیں لیکن ان کے اکثر مسودے نایاب ہیں اور گم ہو گئے ہیں۔(۶۶) شجر کی زندگی میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’صبرِ جمیل‘‘ ۱۸ اگست ۱۹۲۸ء کو شائع ہوا۔ اس کا مکمل نام مثنوی سرگزشت یتیم المعروف صبرِ جمیل ہے۔ شجر نے اس میں ایک یتیم کی سرگزشت کو اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔ اس میں صبر‘ استقلال و صداقت‘ تقویٰ و ذہانت‘ عصمت دنیاوی‘ انقلابات اور عروج و زوال جیسے مضامین نہایت خوبی سے نبھائے گئے ہیں۔ دوسراشعری مجموعہ ’’زبانِ فطرت‘‘ جو نظموں پر مشتمل ہے، ۱۹۲۹ء کو مقبول عام پریس لاہور سے منشی غلام احمد نے شائع کیا۔ اس مجموعے میں خارو گل‘ نسیم و بہار‘ شام و سحر‘ روز و شب اور نورو ظلمات کے تعلق اور الفاظ سے واقعات عالمِ فنا و بقا کے مسائل دلچسپی اور دلآویز پیرائے میں حل کیے ہیں۔ ’’جہاں گرد‘‘ شجر کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جو ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ پانچ سو بیالیس قطعات کے انتخاب پر مشتمل ہے۔ یہ انتخاب اکبر لاہوری اور سرور انبالوی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس انتخاب کو بزمِ افکار سیالکوٹ نے شائع کیا۔ قطعات کو توحید و رسالت‘ اخلاقیات‘ نفسیات‘ شخصیات‘ تجلیات‘ اعمال‘ وطنیت اور عید جیسے موضوعات کے تحت ترتیب دیا گیا ہے۔

شجر محبت سے بھرپور دل کے مالک تھے وہ احترامِ انسانیت کے قائل تھے۔ ان کی شاعری میں انسانی محبت کے نمونے بکھرے پڑے ہیں۔ پروفیسر یوسف نیر ان کی انسان نوازی اور محبت کے بارے میں کہتے ہیں:

ان کا خلوص اور انسانیت کا مہمان منصب ان کی شاعری کی جان ہے۔ اونچا فنکار نفیس انسان ہوتا ہے۔ اس کی چھاتی میں انسانیت کا دودھ رواں دواں ہوتا ہے۔ شجر اعلی فنکار ہیں وہ انسانیت کی قدروں کو عام کرنا چاہتے ہیں۔(۶۷)

حُبِ رسولؐ کے ساتھ ساتھ خدائے واحد کے حضور بھی شجرنے متعدد بار نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے۔ ’’جہاں گرد‘‘ شعری مجموعے کو شجر نے نو عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔ توحید و رسالت کے عنوان کے تحت متعدد قطعات ’’جہاں گرد‘‘ میں موجود ہیں۔ توحید کے حوالے سے ایک قطعہ ملاحظہ ہو:

ورد زباں ہے ذکر ترا گفتگو تری                    تسکینِ قلب یاد آرزو تری          

مقصود چشم تیرا تصور‘ ترا جمال                  پیش نظر ہے راہ تیری جستجو تیری ’’تری جستجو‘‘(۶۸)

 

شجر کے آباؤ اجداد 1857ء کے بعد لاہور اور گجرات میں رہنے کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ کے ساتھ بحیثیت شاہی طبیب جموں و کشمیر میں جا کر آباد ہو گئے۔1920ء تک شجر جموں و کشمیر کی رعنائیوں اور خوبصورتیوں کو اپنے دل و دماغ میں سموتے رہے۔ جموں و کشمیر سے جدائی کے اسباب کا ذکر ان کی شاعری میں تفصیلاً موجود ہے۔ سیالکوٹ میں بیٹھ کر وہ کشمیر سے دور نہیں ہوئے۔ کشمیر کی یاد انہیں لمحہ بہ لمحہ ستاتی رہی اور وہ اس کی بد حالی اور غلامی پر کڑھتے رہے:

میں تو سمجھا تھا بلا بھیجا ہے آج                       چرخ نے ٹوٹے ہوئے تاروں کو پھر             

وادیٔ کشمیر میں پہنچا دیا                گر کہیں ہم بخت کے ماروں کو پھر ’’کشمیر‘‘(۶۹)

شجر مشرقیت کے دلدادہ تھے۔ ان کا رہن سہن‘ لباس اور طرزِ معاشرت مشرقی تھی۔ وہ اسلامی شعار اپنائے ہوئے تھے۔ دین اور قوم کے خلاف باتوں پر غصے میں آ جاتے تھے۔ شجر نئی تہذیب کی بد عتوں اور نئی طرزِ لباس کے خلاف تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس سے عریانی ہوتی ہے۔ شجر نے اپنی نظم ’’آج کی تہذیب کا ہے کس قدر موزوں لباس‘‘ میں عورتوں کے لباس کی تراش خراش پر تنقید کی ہے۔ ان کے خیال میں برقعہ پردے کیلئے نہیں بلکہ نمودو نمائش کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کے مروج لباس میں خلوت اور جلوت کی ساری آسانیاں بہم ہیں۔ اس حوالے سے شجر کا کلام ملاحظہ ہو:

اس کی نسبت ہم سے مت کچھ پوچھئے احباب                 آج جو مروج ہے لباس اس وقت مستورات میں

خلوت و جلوت کی حامل ہیں سبھی آسانیاں                     شب کی شب کو‘ دن کی دن کو‘ گویا ہر ایک بات میں

آج کی تہذیب کا ہے کس قدر موزوں لباس (۷۰)

شجر بے پردگی کے سلسلے میں عورتوں اور مردوں دونوں کے خلاف ہیں۔ ان کی مکالماتی نظم ’’مکڑ اور مکڑی‘‘ میں نئی تہذیب اور نئی طرز کے لباس کو حرفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:

شاعرانِ وطن معاف کریں                         ان سے پوچھوں اگر میں اتنی بات               

آپ کس مصلحت سے لکھتے ہیں                    اب بھی سب عورتوں کو مستورات              ’’مستورات‘‘ (۷۱)

شجر ایک صوفی شاعر نہیں ہیں تصوف ان کے ہاں اجنبیت اور بیگانگی کے ساتھ نہیں آتا۔ ان کی شخصیت میں استغنا اور دنیاوی شان و شوکت اور دولت سے اجتناب اور بے پرواہی کی وجہ سے صوفیانہ کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ ان کے خیالات صوفیانہ تھے۔ شجر کے ہاں فنا و اجر کے عقیدے‘ عزتِ نفس اور استغنا جیسے خیالات بکثرت ملتے ہیں۔ انہیں ذرے ذرے میں خدا کا حسن نظر آتا ہے۔ شجر کی شاعری میں دنیا اور دردو غم سے بیزاری کا احساس ہوتا ہے۔ شجر نے حیات کی ناپائیداری‘ زندگی کے غم فقرو استغنا اور وحدت الوجود کے مضامین جگہ جگہ اپنے اشعار میں پیش کئے ہیں:

تو ہے کہ تیرا حسن ہے دیکھا جدھر جدھر                      اور ڈھونڈتے ہیں لوگ نہ جانیں کدھر کدھر               

جہاں حیرت کدہ بھی ہے تیرا آئینہ خانہ بھی                  نہ عاقل ہیں یہاں نہ دیوانے ہیں دیوانے     

ہر اِک تری رہ تری رہ ہر نقش پا ہے نقش پا تیرا                              کیا طوافِ حرم ہم نے تیری منزل کے دھوکے میں       (۷۲)

شجر کی شاعری میں خمریات ایک خاص موضوع ہے۔ خمریات کے بارے میں متعدد قطعات اور رباعیات شجر کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مجموعوں میں شامل ہیں۔ خمریات اور اس کی جزویات شجر کی شاعری میں تفصیل سے ملتی ہیں۔ خمریات کے موضوع سے شجر کی دلچسپی اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ شجر نے عمر خیام کی متعدد رباعیات کو اردو نظم میں ڈھالا ہے۔

خمریات کے حوالے سے کچھ اشعار پیش کئے جاتے ہیں:

ملی ہے زندگی سب کو ولیک رندوں کو                           شعور زندگی بخشا ہے کیف صہبا نے             

چند لمحے بیٹھ کر مسجد میں کر لیں انتظار                           شیخ صاحب جب تلک باب خمستاں بند ہے   (۷۳)

شجر کے ہاں زندگی موت کا دوسرا نام ہے۔ وہ زندگی اور موت کو دو جڑواں نہیں سمجھتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں ان کا نظریہ قنوطی ہے۔ شجر زندگی کی تلخی کے بارے میں اپنی نظم ’’راہِ حیات‘‘ میں کہتے ہیں:

راہگزار و زندگانی کا سفر                صورت دشتِ بیاں ہے کٹھن     

ہر قدم دنیا ہے مرقد کا سراغ                      ہر بگولہ پیش کرتا ہے کفن            (۷۴)

ایک جگہ اپنی نظم ’’زندگی‘‘ میں زندگی کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:

جان‘ جانا ہے تجھے تو‘ جاخوشی سے جا‘ مگر                  خستہ و ناچار تن کر یوں کھپا کہ تو نے جا           

جا تو‘ باقی چھوڑتی جا پھر کبھی ملنے کی آس                      عمر کی رکھی رکھائی یوں چکا کر تو نہ جا              (۷۵)

شجر نے زندگی کی تلخیوں کی بڑی حقیقت پسندانہ ترجمانی کی ہے۔ ان کی شاعری میں ایک فریاد اور احتجاج کا تاثر بھی ملتا ہے:

مارتی ‘ کھاتی‘ ستاتی ہی رہی                        زندگی کو زندگی بھر زندگی          

راس بھی مثل قبائے مستعار                        آئے ہر قامت پہ کیوں کر زندگی (۷۶)

شجر کے ہاں زندگی بے ثبات ہے۔ ان کے نزدیک زندگی کے خواب جھوٹے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی ابد سے موت کو اپنے ساتھ ساتھ لئے پھر رہی ہے۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:

زندگانی ازل سے اپنے ساتھ                        مرگ پنہاں کی پھانسی لائی ہے    

لے کے آئی ہے بے شمار آلام                     اور گنتی کے سانس لائی ہے           ’’موت‘‘ ( ۷۷)

ماضی سے زیادہ انسان اور کسی قوم کے لیے اس کا حال اہم ہوتا ہے ۔مستقبل کی بنیاد حال ہوتا ہے۔ شجر قوم کے ’’آج‘‘ سے مطمئن نہیں تھے کیونکہ ان کے خیال میں قوم کا ’’آج‘‘ روشن نہیں۔ شجر اس حوالے سے قوم کے ہر فرد سے یوں مخاطب ہیں:

آج کو ضائع نہ کر پچھتائے گا                        آج سب تیرے ہیں کل کوئی نہیں              

سچ تو ہے بس گردشِ دوراں کے پاس                            آج کا نعم البدل کوئی نہیں           ’’آج‘‘ (۷۸)

نظم کی طرح شجر کی غزل اپنے دور کے تمام رجحانات و موضوعات سے مزین ہے۔ شجر نے غزل کی جس فضا میں آنکھ کھولی اس میں غالب کا تفکر‘ مومن کی نفسیاتی معاملہ بندی‘ ذوق کا صاف ستھرا انسانی ذوق‘ حالی کی جدتِ فکر‘ داغ کی زبان اور عشق بازیاں موجود تھیں۔ شجر کی غزل صرف روایتی غزل نہیں بلکہ طرزِ بیان کی جدت و ندرت نے اس میں ایک نیا پن پیدا کر دیا ہے۔

شجر محبوب کے لب و رخسارتِل ‘ پیرہن‘ غنچہ‘ دہن ‘ گیسو اور اعضائے جسمانی کے حسن کے ذکر سے اپنے غزلیہ اشعار کومزین کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ شعر ملاحظہ ہوں:

آئینہ اور آئینہ وش اس طرح ہیں رو برو                        اِک مجسم نور ہے اِک نور کی تصویر ہے         (۷۹)

یہ شام و سحر اور شب و روز کیا ہیں                 تری زلف کی تیرے آنچل کی باتیں             (۸۰)

مثال لعل و گہرہیں ترے لب و دنداں                          نظر نے لعل کو دل نے گہر کو چوم لیا             (۸۱)

خال و زلف و جبین و عارض میں                    زندگی کا نصاب دیکھا ہے            (۸۲)

گل کی صورت ہے پیرہن اپنا                      غنچہ تیری قبا کی صورت ہے        (۸۳)

شجر کی غزل میں جمالیاتی پہلو اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہ جمال ہیئت ‘ معانی اور صورت کی رعنائیوں سے اجاگر ہوتا ہے۔ شجر کی غزل موضوع‘ مواد‘ ہیئت اور جمالیاتی مفتضیات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

کلیاں قبا دریدہ ہیں‘ گل چاک پیر ہن                          لاتا ہے رنگ جوشِ بہاراں نئے نئے             (۸۴)

تم حسن ہو یا حسن کے انداز کا اعجاز

 

سو سحر کا اِک سحر ہے اعجاز کا اعجاز

                (۸۵)

pآنکھ میں اشک نظر میں عارض                  خون کے موتی‘ پھول کا دامن   (۸۶)

ابہام اور اجمال شجر کی غزل کی جان ہیں۔ شجر کی غزل میں ایمائیت و ابہام کی متعدد مثالیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

ہر کسی کو موت پر ہنس ہنس کے کہتی ہے قضا                  ہر حقیقت نے کیا آغاز افسانے کے بعد         (۸۷)

بکتے بازار میں گہر دیکھے                               اشک پھر چشم تر میں لوٹ آیا       (۸۸)

جدید شعرا کی اکثریت شعر کو ابہام اور جدیدیت کی چاہ میں مبہم اور پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ شجر کا تعلق اس گروہ سے ہے جو شعر کو معمہ اور چیستاں نہیں بناتے بلکہ وہ اپنی قلبی واردات کا انکشاف سیدھے سادے لفظوں اور اسلوب سے کرتے ہیں۔ شجر کی غزل میں بے ساختگی اور سادگی پائی جاتی ہے۔ اسی ہنر کی وجہ سے ان کی شاعری میں سہل ممتنع کی خوبی پیدا ہوئی ہے۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:

آپ ہم سے ملا نہیں کرتے                          ہم تو اس کا گلہ نہیں کرتے           (۸۹)

تم کتنے بے وفا ہو تم کتنے دلربا ہو                   کچھ آپ اپنے دل سے کچھ میرے جی سے پوچھو             (۹۰)

پکار اٹھے گا ہر قطرہ لہو کا                               مگر زخمی تمہارے لب رہیں گے   (۹۱)

ساری دنیا کے الجھاؤ                   اِک تمہاری زلف کی الجھن         (۹۲)

اداس غنچے‘ پریشان پھول‘ بلبلیں نالاں                    عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے        (۹۳)

شجر کو زندگی میں پے در پے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے ہر حال میں رجائیت اور امید پرستی کا دامن تھامے رکھا۔ وہ شام سے مایوس نہیں ہوتے کیونکہ انہیں یہ امید ہے کہ ہر شام کے بعد ایک سحر بھی آتی ہے۔ شجر کی غزل میں رجائیت کا عنصر ان کے حوصلے اور عزم کی دلیل ہے۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں۔

گر جلایا کہیں نشیمن پر نشیمن بجلیاں                               ہم بناتے ہی رہے کاشانہ‘ کاشانے کے بعد   (۹۴)

ایک تغیرِ مسلسل ہے نظامِ زندگی                 شام آتی ہے تو آئے کہ سحر بھی ہو گی           (۹۵)

چشمِ خونبار کو ہے گریۂ پیہم سے یقیں                             اشکِ نیساں میں کوئی بوند گہر بھی ہو گی        (۹۶)

شجر کے شعر میں غنائی لہجہ بھی موجود ہے۔ ان کی غزل میں الفاظ کے علاوہ موسیقیت اور غنائیت کا احساس کثرت سے ہوتا ہے۔ شجر نے غنائی الفاظ لمبی بحروں اور متناسب و مترنم ردیفوں اور مصرعوں کے متناسب ٹکڑوں سے غنائیت پیدا کی ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

یہ بھوک بھی‘ پیاس بھی‘ یہ اضطراب و بے کلی                           بہرِ خدا پئے رضا صبح سے لے کے شام تک   

غنچہ و گل ہیں خشک لب‘ باغ و فضائے باغ سب                          تھکی تھکی ہوئی ہوا‘ صبح سے لے کے شام تک               (۹۷)

شجر نے اپنی طویل عمر میں متعدد انقلابات دیکھے۔ اجڑے لوگوں کو بستے اور ہنستے بستے لوگوں کو روتے اور ویران ہوتے دیکھا۔ حالات کے بدلتے تیوروں نے دنیا اور زندگی پر سے ان کا اعتماد متزلزل بنا دیا تھا۔ ان کی غزل میں زندگی سے کسی قدر بیزاری اور دنیا کی بے ثباتی کا احساس بھی ملتا ہے بے ثباتی کے حوالے سے شجر یوں رقمطراز ہیں:

آسماں سے کر نہ باتیں‘ سربلندی پر نہ پھول                 خاک ہونا ہے شجر سب کچھ ابھر کر خاک سے                (۹۸)

رات کی رات ہے اور زندگی بھر کے ارماں                   کیسے نپٹے گا قیامت کا سفر رات کی رات         (۹۹)

آسماں ‘ آسماں نہیں ہوگا                           اور نہ ہوگی زمیں ‘ زمیں کل تک (۱۰۰)

شجر غزل میں تغزل کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ شجر کی شاعری میں تغزل کے سبھی رنگ‘ انداز اور مضامین پائے جاتے ہیں۔ تغزل کے حوالے سے شجر کے مسودات میں سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

رات کو تارے مرے حال پہ روئیں‘ دن کو                 چشم خورشید میں نم ہو تو غزل کہتا ہوں           (۱۰۱)

دل کے ہر ذرے میں ہے برقِ تمنا بے تاب                  قلب معمورِ شرر ہو تو غزل ہوتی ہے             (۱۰۲)

غزل رنگ میں ہے لالائے صحرا                  غزل گنگا کاجل کومل کنول ہے     (۱۰۳)

وسعتِ ذوق طلب اندازہ کر                       چرخ میری تنگ دامانی نہ دیکھ      

چاند کی اپنی قبا ہے داغدار                            چاندنی کی پاک دامانی نہ دیکھ        

حسن پر حسنِ نظر اندازہ کر                         آئینے کی اپنی حیرانی نہ دیکھ           (۱۰۴)

شجر کو 1923ء میں مسلمانوں کے حق میں سیاست میں حصہ لینے پر کشمیر و جموں سے جلا وطن کر دیا گیا۔ ان سے سب کچھ چھین لیا گیا اور وہ بے سرو سامانی کے عالم میں سیالکوٹ پہنچے۔ شجر کو زمانے سے شکایت ہے کہ وہ اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے بے سکونی کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ شکایتِ زمانہ کے حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

گھر سے نکلے ہیں سیر گلشن کو                        اور چلنا پڑا ہے خاروں پر             (۱۰۵)

پنپنے نہ دے ہے زمیں عزم کوئی                   پنپ جائے تو سرپر ہائے فلک ہے (۱۰۶)

اگر دل بھی ملا ہے تو ملا ہے بے سکوں ہم کو                    جو دل سے درد پایا ہے تو درد لادوا پایا              (۱۰۷)

آشیاں محفوظ ہے بلبل نہ شاخ آشیاں                            بجلیوں کی زد میں اب گلزار کا گلزار ہے         (۱۰۸)

شجر نے اپنی غزل میں فنی محاسن سے بھی کام لیا ہے۔ صنائع بدائع اور تشبیہ و استعارات کے استعمال نے غزل کے معنوی اور صوری حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ شجر کی تشبیہ زندگی سے مربوط ہے اور استعارے بھی ہمارے سامنے کے ہیں۔ شجر کی شاعری میں ضرب المثل ‘ تلمیحات اور محاورات کا بھرپور استعمال ملتا ہے۔ کچھ شعری مثالیں دیکھئے:

آنکھ کی کشتی میں‘ نظارہ دریا بھی کر                             دیدنی ہے سیلِ اشک اب تو امڈ آنے کے بعد (۱۰۹)

جنوں کی داستاں کیسے سناؤں                         بگولے مانگ کر صحرا سے لاؤں     (۱۱۰)

اندھیرے میں اڑا جگنو کہ آنسو آنکھ سے پھوٹا                                کہ ٹوٹا آسماں سے کوئی تارا غور سے دیکھو      (۱۱۱)

کوئی تیل اور تیل کی دھار دیکھے                   کہ بہتے لہو کا ہے دھارا زمانہ          (۱۱۲)

گڑ کھا کر جو مرے ہے اسے سنکھیانہ دے                     ہو مارنا تو مارئیے کتے کو گھی کے ساتھ              (۱۱۳)

تمام رات جو آنسو بہاتے رہتے ہیں                               تمہاری یاد کی شمعیں جلاتے رہتے ہیں           (۱۱۴)

شجر نے ہندی فارسی تہذیب میں زندگی گزاری ان کی غزل پر ہندی تہذیب اور زبان کے گہرے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں:

موہن کے مدھ ماتے نیناں تیکھے بان چلائیں                   پریم کے لو بھی‘ مورکھ پنچھی تن من بھینٹ چڑھائیں  

پھول تیرے نینوں کی مدھرتا‘ ہونٹوں کا رس پائیں                      پریم کی لے میں ایسے جھومیں‘ کانٹوں پر سو جائیں         (۱۱۵)

شجر اپنے پیش روؤں اور ہم عصر شعرا خصوصاً غالب‘ داغ اور اقبال سے بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ اقبال کا اثر شجر کی غزل اور نظم پر زیادہ ہے۔ شجر داغ سے براہِ راست اور غالب سے بالواسطہ متاثر ہیں۔ غالب کے مختلف شعروں کے مفاہیم شجر کی شاعری میں واضح نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

چاہیے انسان تو ملتا ہے کوئی ڈھونڈے سے                     یوں تو سب آدمی انسان نظر آتے ہیں          (۱۱۶)

اسے صدف حاصلِِِ اولاد شکم چاکی ہے                   تجھ پہ کھل جائے گا قطرے کے گہر ہونے تک               (۱۱۷)

اِک بار نکلے خلد سے پر تیری بزم سے                           ہم سے تو یہ سلوک مگر بارہا ہوا     (۱۱۸)

غالب‘ مومن اور ذوق کے بعد دبستانِ دہلی کے جس شاعر نے اپنے معاصرین اور بعد میں آنے والے شعرا کی ایک بڑی تعداد کو اپنے فن اور شاعری سے متاثر کیا ہے وہ مرزا نواب داغ دہلوی ہے۔ شجر کی حضرت داغ تک بالمشافہ رسائی تھی اور اس نے داغ کے سامنے حاضر ہو کر زانوے تلمذتہہ کیا۔ شجر کی شاعری پر داغ دہلوی کے رنگِ تغزل اور اسلوب کے گہرے اثرات کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ شجر کی متعدد غزلیں اپنے استاد کے رنگ میں ان کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام میں موجود ہیں۔ شجر نے داغ کی زمینوں میں غزلیں بھی لکھی ہیں۔اِن غزلوں کا لب و لہجہ اور زبان داغ کی زبان سے لگا کھاتی ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

بچپن بدل رہا ہے کسی کے شباب میں                             کتنوں پہ بن گئی ہے اس انقلاب میں            

احساس امتیاز ہی باقی نہیں رہا                        دل میں ہے اضطراب کہ دل اضطراب میں  (۱۱۹)

بیدار کیا جس نے مجھے خوابِ عدم سے                          اِک نغمہ تھا یا نغمے کی آواز کا اعجاز  

خوش طرفی و دمسازی و بے باکی و اخلاص                      انگور کی اک دختر طناز کا اعجاز        (۱۲۰)

کلیاں قبا دریدہ ہیں‘ گل چاک پیرہن                          لاتی ہے رنگ جوشِ بہاراں نئے نئے             (۱۲۱)

مجھ کو دکھا گئے ہیں وہ زلفیں بکھیر کر                             فرما گئے ہیں گویا پریشان رہا کرو     (۱۲۲)

تم آوارہ پھرتی ہو ہر سو نگاہو                        رخِ یار سے لوٹ آؤ تو جانوں        (۱۲۳)

یہ محبت مری آزمائی ہوئی ہے                      اسے آزمانے کی کوشش نہ کرنا    (۱۲۴)

آپ کو بے نقاب دیکھا ہے                          چاند دیکھا ہے سحاب دیکھا ہے     (۱۲۵)

اقبال اور شجر طہرانی ہم عصر تھے۔ دونوں کے آباؤ اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا۔ اقبال کے آباؤ اجداد ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے جبکہ شجر کو 1923ء میں مہاراجہ کے حکم پر جبراً ریاست بدر کیا گیا۔ آپ زندگی کے آخری ایام تک سیالکوٹ میں مقیم رہے۔ اقبال اگرچہ لاہور رہتے تھے لیکن ان کا رابطہ سیالکوٹ سے بر قرار رہا اور وقتاً فوقتاً سیالکوٹ آتے رہے۔ ان دنوں سیالکوٹ میں خواجہ مسیح پال امینِ حزیں سیالکوٹی شعر و سخن کے میدان میں سرگرمِ عمل تھے۔ میراں بخش جلوہ سیالکوٹی سنیئر شاعر تھے۔ جناب شجر طہرانی ان شعر و سخن کی محفلوں کی جان تھے۔ ان محفلوں میں کبھی کبھی حضرت اقبال بھی تشریف لے آتے۔(۱۲۶)

شجر کے اقبال سے گہرے روابط تھے۔ شجر طہرانی کے پوتے مرزا محمد افضل نے پروفیسر یوسف نیر سے ایک ملاقات میں بتایا کہ شجر جب لاہور جاتے تھے تو اقبال سے ضرور ملتے تھے۔(۱۲۷)

شجر اور اقبال میں روابط نہ بھی ہوتے تو شجر کے ذہن اور مذہبی رجحانات اور خیالات ایسے تھے جو شجر کو اقبال سے متاثر ہونے پر مجبور کر دیتے۔ غالب اور داغ کے اثرات کے بعد اقبال کے شجر پر اثرات کو شعری مثالوں کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے:

زرو مال و سامان تک لے گیا ہے                   وطن کی عرض جان تک لے گیا ہے            

حیا سوز تہذیب دے کر فرنگی                      رئیسوں کا ایمان تک لے گیا ہے (۱۲۸)

اس کا اندام حسن پیکر ہر دوکان کی ہے زینت                 اس کو چشم ہوس کی راہ میں بچھا رہا ہے نیا زمانہ (۱۲۹)

آج کو سب کچھ سمجھ کل کی بلا کس کو خبر                        اپنے فردا کا تو ہے امروز پر دارومدار             (۱۳۰)

میرا ہی دل تجلی زار برق طور ٹھہرا تھا                            کھلا جا کر جو سدریٰ پر وہ راز کن فکاں ہوں میں               (۱۳۱)

نہ مجھ کو بے ثباتی کر سکی مایوس جینے سے                         دم آخر شرارے کی طرح خندہ دہاں ہوں میں               (۱۳۲)

وسعتِ قلب و نظر میں کھیلنا پرواز ہے                         بال و پر کو آزمانا‘ بال و پر سے کھیلنا               (۱۳۳)

شجر اور اقبال کی شاعری میں متعدد مماثلتیں موجود ہیں۔ شجر نے غزلوں میں بھی اقبال کے اثرات قبول کئے ہیں۔ یہ اثرات تراکیب‘ تشبیہات و استعارات اور علامتوں کے ساتھ ساتھ فکری سطح پر بھی شجر کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔

 

 

 

۶۲۔         نوحی بریلوی بحوالہ ’’یوسف رحمت‘‘ ،’’عبد النبی شجر طہرانی۔ شخصیت اور شاعری‘‘ ،ص: ۶

۶۳۔        ایضاً،ص: ۷

۶۴۔        یوسف رحمت،’’عبد النبی شجر طہرانی۔ شخصیت اور شاعری‘‘ ‘ مقالہ برائے ایم۔ فِل اردو (غیر مطبوعہ)،اسلام آباد، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ۱۹۹۳ء ص :۲۶

۶۵۔         ایضاً،ص: ۲۷

۶۶۔         ایضاً ، ص: ۲۸

۶۷۔        ایضاً ،ص: ۲۹

۶۸۔        شجر طہرانی،’’جہاں گرد‘‘ سیالکوٹ، مکتبہ بزمِ افکار،۱۹۶۳ ء، ص :۳۱

۶۹۔         ایضاً ،ص: ۶۵

۷۰۔        ایضاً،ص: ۴۵

۷۱۔         ایضاً ، ص:۷۰

۷۶۔        شجر طہرانی،’’زبانِ فطرت‘‘ ، لاہور، مقبول عام پریس، ۱۹۲۹ء ،ص:۵۰

۷۳۔ ایضاً ،ص: ۶۴

۷۴۔ شجر طہرانی، ’’جہاں گرد‘‘،ص: ۲۵

۷۵۔ ایضاً ،ص: ۲۲

۷۶۔        ایضاً،ص: ۳۵

۷۷۔ ایضاً،ص: ۴۰

۷۸۔ ایضاً ،ص: ۴۹

۷۹۔         شجر طہرانی ،’’ نوائے سروش‘‘(مسودہ) ، ص: ۲۰

۸۰۔        ایضاً ،ص: ۳۰

۸۱۔         ایضاً ،ص: ۴۰

۸۲۔        ایضاً ،ص: ۴۵

۸۳۔ ایضاً ،ص: ۵۰

۸۴۔ ایضاً،ص: ۵۳

۸۵۔        ایضاً،ص: ۵۵

۸۶۔        ایضاً ،ص: ۴۲

۸۷۔ ایضاً ،ص:۶۰

۸۸۔ ایضاً ،ص: ۶۳

۸۹۔         ایضاً ،ص: ۶۸

۹۰۔         ایضاً،ص:۷۰

۹۱۔          ایضاً ،ص: ۷۲

۹۲۔         ایضاً ،ص: ۵۸

۹۳۔         ایضاً،ص: ۶۳

۹۴۔         شجر طہرانی،’’ مسودہ نمبر۱‘‘ ، ص:۱۵

۹۵۔         ایضاً ،ص: ۱۸

۹۶۔         ایضاً ،ص: ۲۰

۹۷۔         ایضاً ،ص: ۲۵

۹۸۔         ایضاً ، ص:۳۰

۹۹۔          ایضاً،ص: ۲۷

۱۰۰۔        ایضاً ،ص: ۱۰

۱۰۱۔         شجر طہرانی، ’’مسودہ نمبر۱۱‘‘، ص:۲۰

۱۰۲۔        ایضاً،ص: ۲۵

۱۰۳۔ ایضاً،ص: ۳۵

۱۰۴۔ شجر طہرانی،’’ مسودہ نمبر ۱۸،‘‘ ص :۲۶

۱۰۵۔ شجر طہرانی،’’ مسودہ نمبر ۱۲‘‘، ص:۱۵

۱۰۶۔        ایضاً ،ص:۴۰

۱۰۷۔ ایضاً ،ص: ۴۵

۱۰۸۔       ایضاً ،ص: ۱۸

۱۰۹۔        شجر طہرانی، ’’مسودہ نمبر ۲۴‘ ‘ ،ص :۴۵

۱۱۰۔         ایضاً،ص: ۱۵

۱۱۱۔          ایضاً،ص: ۷۵

۱۱۲۔         ایضاً،ص: ۵۰

۱۱۳۔        ایضاً،ص: ۳۵

۱۱۴۔        ایضاً ،ص: ۲۰

۱۱۵۔        ایضاً ،ص: ۶۰

۱۱۶۔         شجر طہرانی،’’ مسودہ نمبر ۱۱ ‘‘، ص:۲۷

۱۱۷۔         ایضاً ،ص: ۴۰

۱۱۸۔         ایضاً،ص: ۵۰

۱۱۹۔          ایضاً،ص: ۴۲

۱۲۰۔         ایضاً ،ص: ۴۷

۱۲۱۔          ایضاً ،ص: ۱۴

۱۲۲۔         شجر طہرانی‘’’ افکار درخشاں‘‘(مسودہ)،ص :۱۸

۱۲۳۔ ایضاً ،ص: ۳۰

۱۲۴۔ ایضاً ،ص: ۴۴

۱۲۵۔        ابو طالب نظامی،’’ بہارِ شجر،‘ ص :۳

۱۲۶۔ یوسف نیر، ’’حکیم عبد النبی شجر طہرانی شخصیت اور شاعری‘‘، ص :۲۸۶

۱۲۷۔        شجر طہرانی،’’تہذیب کے اثرات اردو نظمیں جلد اول‘‘ (مسودہ) ، ص:۵۶

۱۲۸۔        شجر طہرانی،’’ قلب و نگاہ‘‘(مسودہ)،ص :۱۱۰

۱۲۹۔         شجر طہرانی،’’ میں کون ہوں‘‘(مسودہ)، ص:۲۰۰

۱۳۰۔        ایضاً ،ص: ۲۰۶

۱۳۱۔         ایضاً،ص: ۲۱۸

۱۳۲۔ ایضاً ،ص: ۲۲۵

۱۳۳۔ ایضاً ،ص: ۲۲۷

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...