Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

محمد الدین فوق
ARI Id

1688382102443_56116079

Access

Open/Free Access

Pages

87

محمد الدین فوق (۱۸۷۷ء) کوٹلی ہر نرائن سیالکوٹ پیدا ہوئے۔ فوقؔ تخلص کرتے تھے۔ فوق بڑے ذہین تھے۔ طالب علمی کے زمانہ میں نظیر اکبر آبادی کی ایک مشہور نظم ’’کیا خوب سودا نقد ہے‘ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے‘‘ کا فارسی نظم میں ترجمہ کیا۔ فوق فطری شاعر تھے اور بچپن سے ہی موزوں طبع تھے۔ فوق نے ۱۸۹۲ء میں شعر کہنے شروع کئے۔(۱۶۰)

ان کا ایک ایک شعر وطن(کشمیر) کی محبت اور اسلام کے درد میں ڈوبا ہوا ہے۔ فوق پہلے شاعر ہیں جنہوں نے مستقل طور پر مسلمانِ کشمیر کی ترجمانی کرتے ہوئے دنیا کو ان کی مظلومیت سے آگاہ کیا۔

آپ کی شاعری کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح بھی تھا۔ اقبال نے ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ نظمیں لکھی ہیں۔ فوق نے بھی اسی طرح ’’بڈ شاہ کی روح سے خطاب‘‘ نظم میں کشمیریوں کی زبوں حالی کا اسی لہجہ میں رونا رویا ہے۔ فوق غزل میں داغ دہلوی اور قومی نظموں میں علامہ اقبال سے متاثر تھے۔ فوق کا شعری کلام ہندوستان کے معروف رسائل میں چھپتا رہا۔آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’کلامِ فوق‘‘ کے نام سے ۱۹۰۹ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں ۱۸۹۵ء سے ۱۹۰۱ء تک کا کلام ہے اس حصے میں غزلیں زیادہ ہیں۔ دوسرا حصہ ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۹ء تک کے کلام پر محیط ہے۔ اس حصے میں نظموں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ کلامِ فوق کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۳۳ء میں شائع ہوا اس کی ضخامت ۱۴۰ صفحات سے بڑھ کر ۲۴۰ صفحات تک پہنچ گئی ہے۔ اس میں پروفیسر علم الدین کا مفصل دیباچہ بھی شامل ہے۔ فوق کا دوسرا شعری مجموعہ ’’نغمہ و گلزار‘‘ کے نام سے ۱۹۴۱ء میں شائع ہوا۔ اس کی ضخامت ۱۸۴ صفحات ہے اس کا دیباچہ مولانا عبد اﷲ قریشی نے لکھا ہے۔

اگر فوق کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو راکھ کے ڈھیروں میں جذبات و تخیلات کی چنگاریاں دبی نظر آتی ہیں۔ فوق کی شاعری دھوم دھڑکے کی شاعری نہیں۔ آتشِ چنار کی دھیمی آنچ والی شاعری ہے جس میں قومی درد مندی اور اخلاقی آرزو مندی کی تاثیر گھلی ہوئی ہے۔(۱۶۱) فوق سیاسی معاملات کو سماجی اور تاریخیپس منظر میں دیکھنے کے قائل تھے۔ فوری طور پر کسی واقعہ یا منظر سے متاثر ہو کر بھی شعر کہتے تھے مگر اس کے سیاق و سباق پر ان کی پوری نظر ہوتی تھی۔ موضوعات کی براہِ راست پیش کش کااسلوب ان کے ادبی اور شعری مزاج کا حصہ تھا۔ وہ جس موضوع پر چاہتے تھے لکھ لیتے تھے لیکن ان کے ہاں موضوعات کا تنوع نہیں کیونکہ انہوں نے خود کو کشمیر کیلئے وقف کر دیا تھا۔ انہوں نے ہر صنف سخن میں شاعری کی ہے۔ بحیثیت شاعر وہ اپنے آبائی وطن سے جس والہانہ پن کا مظاہرہ کرتے ہیں اس پر انہیں شاعرِ کشمیر کا خطاب دیا گیا۔ عبد اﷲ قریشی نے ’’شاعرِ کشمیر‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ لکھا ہے۔ علامہ سیماب اکبر آبادی نے ’’شاعرِ کشمیر‘‘ کے نام سے ایک نظم لکھی جو فوق کے شعری مجموعے ’’نغمہ و گلزار‘‘ کے صفحہ ۳۰ پر موجود ہے۔اس نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

فوق صاحب ہیں جو میرے خواجہ تاش                         خوش خیال و خوش مزاج و خوش معاش        

پیرو شاگرد داغ دہلوی                                زندہ اک تاریخ ہے کشمیر کی       

والہانہ عشق ہے کشمیر سے                           روح زخمی ہے وطن کے تیر سے  

حضرتِ اقبال کے ہیں ہم نشیں                    صاحب وجدان و عرفان و یقیں  

فوق صاحب کی ہے سب پر فوقیت                                درس و حکمت سے ہے ان کو اُنسیت             

ان کی نظمیں نسخۂ اکسیر ہیں                         وہ حقیقی شاعر کشمیر ہیں                (۱۶۲)

کشمیر کے علاوہ فوق نے اپنے دور کے بعض اہم واقعات کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ اپنے دور کے حالات سے متاثر ہو کر فوق نے ہنگامی نظمیں لکھی ہیں۔ ہنگامی اور سیاسی موضوعات پر لکھنے کے اعتبار سے مولانا حالی اور مولانا ظفر علی خاں ان کے پیش رو تھے فوق سیاسی اور ہنگامی شاعری کو دائمی قدر کی چیز نہ بنا سکے لیکن پھر بھی اس شاعری کی اپنی اہمیت و قدر موجود ہے۔ فوق کی نظم ’’اتحاد ثلاثہ اور دنیائے اسلام‘‘ ایسی شاعری کی ایک روشن مثال ہے۔۲۸ ستمبر ۱۹۱۱ء کو جب اٹلی نے ترکی کو اعلانِ جنگ دے کر دنیا کو متحیر و ششدر کر دیا تو ہندوستان کے مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ اسی اضطراب سے متاثر ہو کر عنوانِ بالا پر ایک نظم لکھی جس کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

چھائی ہیں کالی گھٹائیں عالمِ اسلام پر                              اس میں ایراں ہو‘ مراکو ہو کہ ترکستان ہو  

نوچ کھایا حرص یورپ نے ہمارے جسم کو                     کیوں نہ وقفِ کا ہش و اندوہ دل اور جان ہو   

اپنی کوتاہی سے پھر بڑھنے کو ہے دست دراز                  اب بھی مسلم بچ رہیں قائم اگر ایمان ہو      

جرمنی کو اے مثلث طاقت سچ سچ بتاؤ                            آدمی ہو یا بہ شکل آدمی شیطان ہو

کیا ہوئے حفظ مساوات و اخوت کے اصول                    کیا تمہیں آزادی و تہذیب کی پہچان ہو          (۱۶۳)

فوق ہمارے قومی شعرا میں سے ایک بڑے قومی شاعر ہیں۔ ان کے اسلوب اور فکر و اظہار میں مولانا حالی‘ اقبال‘ شبلی اور ظفر کا رنگ نظر آتا ہے۔ قومی شاعری کے حوالے سے فوق کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

اب کہاں قومی چمن میں وہ بہار                    اختلاف رنگ و بو نے کیا کیا        

اُدھر ہے جشن تاج کامیابی                          اِدھر تقدیر کو تو رو رہا ہے            

تجھے مردہ سمجھ کر کیوں نہ روئیں                    زمانہ جاگ اٹھا تو سو رہا ہے           (۱۶۴)

نظم کے ساتھ ساتھ فوق کے ہاں غزل میں بھی قومی اور ملی موضوعات بیان ہوئے ہیں۔ حالی اور اقبال نے بھی غزل میں اخلاقی اور قومی مضامین باندھے ہیں۔ فوق کی جدت یہ ہے کہ انہوں نے ایسی غزل کو باقاعدہ ’’قومی غزل‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ ان کی ایک قومی غزل کے چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں:

ہے پھٹے کپڑوں میں پوشیدہ پریشانیٔ قوم                         دل حیراں ہے آئینۂ حیرانیٔ قوم   

لاج ہے پردۂ ناموس کی ستار کے ہاتھ                            ننگ اسلام ہوئی جاتی ہے عریانیٔ قوم            

کچھ نہیں اپنے بھلے اور برے کی پروا                             کس قدر قابلِ افسوس ہے نادانیٔ قوم            (۱۶۵)

کوئی حساس شاعر اپنے سماج اور معاشرے سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ فوق کے یہاں سماجی اور معاشرتی مسائل جیسے موضوعات کی بڑی اہمیت ہے۔ انہوں نے کسانوں اور مزدوروں کیلئے متعدد نظمیں لکھی ہیں۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:

مزدور کو خوش رکھنے سے ملتی ہیں دعائیں                       ناخوش اسے رکھتا نہیں اچھا یہ قرینہ             

اے صاحب سرمایہ نہیں یاد تجھے کیا                             اس بارے میں کیا کہہ گئے سرکارِ مدینہ        

مزدور کی جو مزدوری ہے فوراً وہ ادا کر                           قبل اس کے کہ مزدور کا ہو خشک پسینہ         (۱۶۶)

مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ ساتھ فوق نے بد عنوانی اور رشوت کی علامت پٹواری کو بھی اپنے اشعار میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ فوق کے نزدیک رشوت لینا معاشرے کی رسم و رواج میں شامل ہے۔

پٹواری کے حوالے سے فوق کی نظم ’’منظوم رپورٹ‘‘ کے چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں:

یہ مسلم ہے کہ ایسا کوئی پٹواری نہیں!                           ’’ناس مشکہ‘ کی ازل سے جس کو بیماری نہیں               

اور بیماری بھی پھر ایسی کہ جو ہے لا علاج                        برص کی ممکن دوا ہے‘ کوڑھ کا کیا ہو علاج   

ان کی رشوت اب رواج و رسم کی صورت میں ہے                         بڑھ کے تنخواہوں سے ان کو آمدن رشوت میں ہے       (۱۶۷)

زمینداروں کے مسائل و معاملات پر بھی فوق کی گہری نظر تھی۔ وہ اپنی نظموں میں تعلیم بالغاں اور گاؤں کے پنچایتی نظام کی خوبیاں بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

جس گھڑی جائے گی یہ ناخواندگی                  دور ہو گی اس گھڑی درماندگی      

بالغوں کو کچھ پڑھانا چاہیے                           علم کچھ ان کو سکھانا چاہیے            (۱۶۸)

پنچایتی نظام کے فوائد کے حوالے سے ان کی نظم ’’پنچایتوں کے فوائد‘‘ کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

کیا اس نے خلقت پہ احساں بڑا                    رکھی جس نے پنچایتوں کی بنا       

خدا نے ہے گر کی عنایت سمجھ                     انہیں اپنے گھر کی حکومت سمجھ   

مقدمات میں ان سے گو ہے کمی                   بہت فائدے ان سے ہیں اور بھی (۱۶۹)

فوق کا کتابچہ ’’سکاؤٹوں کے گیت‘‘ بارہ گیتوں پر مشتمل ہے یہ گیت بچوں اور نوجوانوں میں احترامِ انسانیت اور حبِ وطن کے مقدس جذبات و احساسات پیدا کرتے ہیں۔ یہ گیت ۱۹۲۶ء میں لکھے گئے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

کوئی کرتا نہیں شفقت نہ سہی                       عیش دیتا نہیں دعوت نہ سہی      

اہلِ دنیا میں مروت نہ سہی                          نہ سہی ان کی عنایت نہ سہی        

آؤ ہم اپنی مدد آپ کریں                            کیوں پسند آئے ہمیں رسوائی      

ہم پہ کیوں ہو اثرِ خودرائی                             کیوں نہ قوت کی کریں یکجائی       

ہم سب آپس میں ہیں بھائی بھائی                  آؤ ہم اپنی مدد آپ کریں            (۱۷۰)

فوق کی منظریہ نظمیں ان کے گہرے مشاہدے کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی منظر نگاری قارئین کیلئے جاذب دل و نگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی شاعری کا ہر منظر متحرک اور متنفس ہو کر ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ اس حوالے سے ان کی نظم ’’کشمیر کے ایک جنگل کا نظارہ‘‘ سے کچھ اشعار ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں:

جنگل میں زندگی کا کیا لطف آ رہا ہے                              سبزہ ہر ایک جانب مخمل بچھارہا ہے             

اے سر زمین حمرا رونق ہو کیوں نہ تجھ میں                    خود باغبانِ قدرت تجھ کو سجا رہا ہے              

ہے کوہ پر الاؤ یا ژونگ کی جھلک ہے                              یا چرخ پر ستارہ یہ جھلملا رہا ہے     

کیا لطف دے رہی ہے ابرِ کرم کی بوندیں                      ہر برگ گل نکھر کر جوبن دکھا رہا ہے           (۱۷۱)

فوق نے اپنی اصلاحی شاعری میں طنزیہ و مزاحیہ انداز سے بھرپور کام لیا ہے۔ اپنے گردو نواح کے ماحول کی سماجی اور معاشرتی بے اعتدالیوں کو تنقید کا نشانہ بنایاہے۔ فوق کا معاشرہ ایک کربناک صورتِ حال سے دوچار تھا۔ انہوں نے اپنے دور کے انسان کی بد اعمالیوں‘ کوتاہیوں اور ناکامیوں کی نشاندہی بڑی خوبصورتی سے اپنی شاعری میں کی ہے۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:

ایک وہ ہیں کہ جو اجداد کو دیتے ہیں فروغ                     ایک ہم نام سلف کو جو مٹا دیتے ہیں              

ایک وہ کرتے ہیں تاریکی میں پیدا تنویر                         ایک ہم نور کو ظلمت میں چھپا دیتے ہیں         (۱۷۲)

فوق کی شاعری میں خالص مزاح کے نمونے بھی بکثرت ملتے ہیں

کہتے ہیں قصہ تراسنتے تو سنتے کس لئے                             وہ کوئی افسانہ آرائشِ محفل نہ تھا   (۱۷۳)

ایک عالم دیکھ کر حیران ہے                         حور کے پردے میں تو انسان ہے

فکرِ دنیا ‘ فکرِ دیں‘ فکرِ مآل                         کس مصیبت میں ہماری جان ہے 

بھاگتا پھرتا ہوں آبادی سے میں                  شاعری ہے یا کوئی خفقان ہے      (۱۷۴)

فوق کی شاعری میں اخلاقی مضامین بھی بکثرت دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسی شاعری ان کی مقصدیت نوازی کا پرتو ہے۔ لہو و لعب‘ شراب نوشی اور عیش و تساہل کے خلاف فوق کے ہاں بہت زیادہ اخلاق آموز اشعار دیکھے جا سکتے ہیں:

کہاں تک دختِ زر کی بڑھتی جائے گی یہ بد مستی                            کہ آخر ہو کے وہ رسوا تری محفل سے نکلے گی (۱۷۵)

بھلائی کر جو ہے مقصود نام کی خواہش                            کہ نیک کام ہی سے نیک نام ہوتا ہے            

کہیں سنا ہے ملا اوج پست ہمت کو                  کہیں رذیل بھی عالی مقام ہوتا ہے               

حلال کرتے ہیں سب کو وہ بے گنہ اے فوق                  نہ کیجیے غصہ کہ غصہ حرام ہوتا ہے               (۱۷۶)

فوق کی زبان اور فکر دونوں میں سادگی موجود ہے جو ان کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔ فوق سادہ اسلوب میں اپنے مافی الضمیر کو کامیابی سے قارئین تک پہنچاتے ہیں۔ ان کی فکری سادگی یہ ہے کہ وہ عام معاشرتی اور اخلاقی مضامین کو بیان کرتے چلے جاتے ہیں:

پہلے جو تھے زمیں پر اب آسمان پر ہیں                           یعنی مکان والے اب لا مکاں پر ہیں             

تیروکمان پر ہیں‘ تیغ و سنان پر ہیں                               قاتل تری نگاہیں اونچی اڑان پر ہیں             

اک میں کے میرا قصہ سنتا نہیں ہے کوئی                       اک تو کے تیرے چرچے سب کی زبان پر ہیں               (۱۷۷)

تغزل غزل کی بنیادی خوبی ہے۔ فوق کی غزلیہ شاعری میں تغزل کے نمونے بکثرت ملتے ہیں۔ فوق کی غزل میں فکرو خیال کے متعدد زاویے موجود ہیں اور انہوں نے ان زاویوں کو حسنِ اظہار کے متنوع اسالیب میں بیان کیا ہے اور تغزل کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹتا نظر نہیں آتا:

کہہ نہیں سکتے زور سے کچھ ہم                       بات مانو تو مہربانی ہے   (۱۷۸)

انسان ہوں خمیر میں ہے نسیان                    رسوا تو نہ کر اب خطا پوش           

آیا بھی گیا بھی دم زدن میں                         جھونکا تھا کہ تھا شباب کا جوش      

اے شرمِ گنہ نہ کر کنارہ                              اے رحمتِ خاص کھول آغوش    (۷۹

فوق کی غزل میں روایت بھی موجود ہے۔ موضوعات غزل میں اور اسالیب اظہار و بیان میں ان کے ہاں روایت کی چھاپ بہت گہری ہے روایت کے حوالے سے کچھ اشعار پیش کئے جاتے ہیں:

یہ مذاق درد یہ ذوقِِِ خلش حاصل نہ تھا                    تجھ سے جب الفت نہ تھی پہلو میں شاید دل نہ تھا          

کاش اپنا گھر سمجھ کر آپ جاتے کبھی                              دل جہانِ عیش تھا اجڑی ہوئی محفل نہ تھا      

کہتے ہیں قصہ ترا سنتے کس لئے                     وہ کوئی افسانہ آرائشِ محفل نہ تھا 

ہم بڑی مدت سے سنتے تھے کہ ہے دیندار فوق                              جب اسے پرکھا تو وہ دنیا کے بھی قابل نہ تھا   (۱۸۰)

ہر شاعر اپنے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ معاشرتی احساس ہی مقیاس فن اور معیارِ ہنر ہے۔ فوق کی غزل میں بھی گہرے معاشرتی احساس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے:

بتائے زورِ فہم و عقل سے راز نہاں تو نے                       خدائی کی دکھائی شان مشت استخواں تو نے   

کبھی سرمایہ داروں کو بھی کھینچ اپنے شکنجہ میں                 غریبوں پر زمیں کیوں تنگ کر دی آسماں تو نے              (۱۸۱)

چاند سورج بھی چھپے جاتے ہیں اے ابر محیط                   ہند پر کیسی نحوست کی گھٹا آئی ہے              

کام بے جا ہیں‘ عمل بد ہیں‘ خیالات خراب                جو وبا آئی ہے ہم پر وہ بجا آئی ہے 

آگے چل کر ابھی دیکھو گے جو ہیں فعل یہی                   دہرِ پر فتنہ میں آفت ابھی کیا آئی ہے            (۱۸۲)

فوق نے اپنی نظم کے ساتھ ساتھ اپنی غزل میں بھی داخلی اور ذاتی حالات تفصیلاً بیان کئے ہیں۔ فوق کے ذاتی حالات کی عکاسی زیادہ تر ان کے مقطعوں میں ہوئی ہے۔ ان اشعار سے ان کی زندگی کے کئی گوشے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

فوق پھر تیرا سخن مقبول عام کیوں نہ ہو                         فیض ہو تجھ پر اگر کچھ داغ سے استاد کا           (۱۸۳)

اے فوق شاعری کو ادب سے سلام کر                          صورت نکال جا کے کہیں روزگار کی             (۱۸۴)

انگلش زبان ہی سے جو آشنا ہو تم                  اے فوق پھر ایڈیٹر اخبار کیوں ہوئے           (۱۸۵)

نظم اقبال بھی بے چین تو کرتی ہے مگر                           تیرے اشعار بھی اے ذوق مزا دیتے ہیں     (۱۸۶)

غزل میں حمدیہ و نعتیہ اشعار کہنا اردو غزل کی مسلمہ روایت ہے۔ فوق کی بے شمار غزلوں میں حمدیہ و نعتیہ اشعار پائے جاتے ہیں:

باغ عالم میں عجب رنگ دکھایا تو نے                              درس عرفان ورق گل میں پڑھایا تو نے        

طور پر حضرت موسیؑ کو جو آیا تھا نظر                             مجھ کو ہر رنگ میں وہ جلوہ دکھایا تو نے           (۱۸۷)

یوسف مصر بھی گر آئے زلیخا ہو کر                               آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھوں ترا شیدا ہو کر        

مدد اے جلوہ نظارہ محبوبِ خدا                     آنکھیں بے کار ہوئی جاتی ہیں بینا ہو کر          (۱۸۸)

کوئی بڑا شاعر اپنے معاصر شعرا سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ وہ ان شعراء سے بعض اوقات متاثر ہوتا ہے اور بعض اوقات ان کے خلاف ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے۔ اپنے کلام میں فوق سب سے زیادہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے متاثر ہوئے۔ اقبال اور فوق کے ادبی اورنجی مراسم بھی تھے۔ اقبال کی ’’ضربِ کلیم‘‘ پہلی بار جولائی ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی۔ اس میں ایک نظم بعنوان ’’ایک بحری قزاق اور سکندر‘‘ ہے۔ اس میں قزاق‘ سکندر سے اسی طرح مخاطب ہوتا ہے۔

سکندر حیف تو اس کو جواں مردی سمجھتا ہے                   گوارا اس طرح کرتے ہیں ہم چشموں کی رسوائی

ترا پیشہ ہے سفاکی‘ مرا پیشہ ہے سفاکی                         کہ ہم قزاق ہیں دونوں تو میدانی میں صحرائی

اس زمین میں فوق نے اگست ۱۹۳۸ء میں پرتاب کالج سری نگر کشمیر کے ایک مشاعرہ میں جو بیادگار علامہ اقبال ہوا تھا‘ ایک نظم پڑھی۔ اس نظم سے فوق کی علامہ سے عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔

نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

گزر میرا ہوا جب دروازہ رُشنائی                    مزار حضرت اقبالؒ سے مجھ کو ندا آئی           

مرے پیغام کے عاشق مرے شعروں کے شیدائی                         عمل بھی کر کبھی ان پر نہ بن خالی تماشائی     

کہاں سطحی مضامین فوق کے بے کیف شعروں کے                        کہاں اقبال تیرے دل کے دریاؤں کی گہرائی (۱۸۹)

’’بانگِ درا‘ میں اقبال کی ایک نظم ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ ہے اس نظم کا ٹیپ کا مصرع یہ ہے:

میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

اس مصرع کو ٹیپ کا مصرع بنا کر فوق نے اپنے وطن کشمیر کے لیے ایک نظم لکھی۔ اس نظم کا ایک بند پیش کیا جاتا ہے:

گلمرگ دلدرد وانگت کی وادیاں جہاں ہیں                     فردوس کی فضا میں آبادیاں جہاں ہیں          

صحت فزا ہو کر آزادیاں جہاں ہیں                                میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے            (۱۹۰)

فوق کے چند اشعار جن میں علامہ اقبال کا کسی نہ کسی پہلو سے ذکر ہوا ہے:

حالِ دل ہم انہیں اس طرح جتا دیتے ہیں                      شعرِ اقبال کے دو چار سنا دیتے ہیں (۱۹۱)

کیا اے فوق چاک اقبال نے اسرار کا پردہ                     جو باقی رہ گئے تھے کر دیئے وہ بھی عیاں تو نے                (۱۹۲)

فوق کی شاعرانہ خوبیوں کا ذکر اقبال نے کئی بار خود بھی کیا۔۱۹۰۹ء میں پہلی بار جب ’’کلامِ فوق‘‘ شائع ہوا تو اقبال نے تاریخ نکالی اور یہ اشعار کہے:

جب چھپ گیا مطبع میں یہ مجموعہ اشعار                         معلوم ہوا مجھ کر حالِ نصر فوق     

شستہ ہے زبان جملہ مضامین ہیں عالی                             تعریف کے قابل ہے خیالِ نضرِ فوق           

تاریخ کی مجھ کو جو تمنا ہوئی اقبال                  ہاطف نے کہا لکھ دے کمالِ نضرِ فوق            ۱۳۲۷ہجری(۱۹۳)

فوق کی فکری شاعری میں فنی محاسن بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ان کا کلام عموماً صاف اور ہموار ہے جو ان کی قدرتِ کلام کا آئینہ دار ہے۔ وہ عموماً ردیف کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کی ردیفیں عموماً سادہ اور مروج ہوتی ہیں۔ وہ ردیفوں سے دلفریبی کا سامان پیدا کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں:

رفعتِ کہسار کی پروا نہ کر                           راہ ناہموار کی پروا نہ کر (۱۹۴)

فوق اظہارِ فکر کیلئے سادہ تشبیہات سے کام لیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں تلمیحات کا حسن بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ روزمرہ اور لطافت زبان سے بھی فوق نے اپنے کلام کو خوبصورت بنایا ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

پردہ برق میں رہ رہ کے چمکنے والے                                ابرِ باراں کی طرح مجھ کو رولایا تو نے              (۱۹۵)

یوسفِ مصر بھی گر آئے زلیخا ہو کر                               آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھوں ترا شیدا ہو کر         (۱۹۶)

ملتی نہیں ہے جس وفا کی طرح کہیں                              ’’اس عہد میں الہیٰ محبت کو کیا ہوا؟‘‘            

مے خانہ اور شیخ بہ ایں ریش وفش چہ پوش                     ہم تو بھلا تھے خیر یہ حضرت کو کیا ہوا؟          (۱۹۷)

کلامِ فوق کے فنی محاسن کے متعلق اکبر الہ آبادی نے جو رائے ظاہر کی تھی وہ مجموعی طور پر ان کے پورے کلام پر صادق آتی ہے۔ اکبر الہ آبادی کی فوق کے کلام کے بارے میں رائے یہ ہے:

کلامِ فوق بلاشبہ قابلِ داد ہے۔ جب خیالات اچھے ہیں تو کلام کیوں نہ اچھا ہو۔ کلامِ فوق میں فطری آرزوئیں بھی ہیں۔ شوخی کا اظہار بھی ہے۔ قافیے برجستہ ہیں۔ بغیر تکلف کے کلام کا اکثر حصہ ہے اور اثر پیدا کرنا ایسے ہی کلام کا کام ہے۔ بعض اشعار سے دلچسپ رندانہ رنگ قطرہ ہائے مئے کی طرح ٹپک رہا ہے۔ کئی اشعار گنجینۂ معانی ہیں اخلاقی و ہمت افزا اشعار کی بھی کمی نہیں۔ نیچرل کیفیتوں کے اظہار اور کشمیر کے نظاروں میں خوب جوش دکھایا ہے۔

نظموں اور غزلوں کی شان نزول نے آپ کی جدت آفرینی کا رتبہ بہت بلند کر دیاہے۔(۱۹۸)

محمد دین فوق نے اپنے آپ کو علم و ادب کے کئی شعبوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ وہ دوسری ادبی مصروفیات کے پیشِ نظر شاعری پر پوری توجہ نہ دے سکے اس کے باوجود ان کی شاعری اپنے عہد کے حوالے سے ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔

۱۶۰۔         فرحت اقبال، ’’محمد الدین فوق‘‘ ،مقالہ برائے ایم۔ اے اردو،لاہور، پنجاب یونیورسٹی، ۱۹۶۸ء ص: ۱۰۱

۱۶۱۔ ’’شیرازہ‘‘ سری نگر‘ ص:۴۵

۱۶۲۔ محمد دین فوق،’’نغمہ و گلزار‘‘ ،لاہور،ظفر برادرس تاجران کتب، ۱۹۴۱ء ص:۳۰

۱۶۳۔ محمد دین فوق،’’کلامِ فوق‘‘،لاہور، ۱۹۳۳ء ، ظفر برادرس تاجران کتب ،ص:۱۵۲

۱۶۴۔ محمد دین فوق،’’نغمہ و گلزار‘‘ ،ص:۸۹، ۹۱

۱۶۵۔ محمد دین فوق، ’’کلامِ فوق‘‘، ص:۱۳۴

۱۶۶۔ محمد دین فوق،’’نغمہ و گلزار‘‘، ص:۱۲۶

۱۶۷۔ ایضاً ،ص: ۱۴۶

۱۶۸۔ محمد دین فوق ،’’کلامِ فوق‘‘، ص:۱۷۰

۱۶۹۔         ایضاً،ص: ۱۷۵

۱۷۰۔ محمد دین فوق،’’نغمہ و گلزار‘‘،ص: ۱۸۲

۱۷۱۔         محمد دین فوق ،’’کلامِ فوق‘‘ ، ص:۱۰۷

۱۷۲۔ ایضاً ،ص: ۲۴۔ ۱۲۳

۱۷۳۔ ایضاً ،ص: ۲۲۹

۱۷۴۔ محمد دین فوق ،’’نغمہ و گلزار‘‘ ،ص:۱۷۵

۱۷۵۔ ایضاً،ص: ۱۵۵

۱۷۷۔ ایضاً،ص: ۱۲۰

۱۷۸۔ ایضاً،ص: ۱۲۰

۱۷۹۔ ایضاً ،ص: ۱۲۴

۱۸۰۔ ایضاً ،ص: ۲۲۹۔۲۳۰

۱۸۱۔         محمد دین فوق،’’نغمہ و گلزار‘‘ ،ص: ۶۹

۱۸۲۔ محمد دین فوق،’’کلامِ فوق‘‘ ،ص:۱۰۳

۱۸۳۔ ایضاً ،ص: ۱۱

۱۸۴۔ ایضاً ،ص: ۲۳

۱۸۵۔ ایضاً ،ص: ۶۰

۱۸۶۔ ایضاً،ص: ۶۳

۱۸۷۔ ایضاً،ص: ۱۲۳

۱۸۸۔ ایضاً،ص: ۱۳۵

۱۸۹۔ محمد دین فوق، ’’نغمہ و گلزار‘‘ ،ص:۷۳۔۷۴

۱۹۰۔         ایضاً،ص:۷۵

۱۹۱۔          محمد دین فوق،’’کلامِ فوق‘‘ ،ص:۶۲

۱۹۲۔         محمد دین فوق،’’نغمہ و گلزار‘‘، ص:۷۰

۱۹۳۔ عبد اﷲ قریشی،’’حیاتِ اقبال کی گمشدہ کڑیاں‘‘،لاہور ‘ بزمِ اقبال،طبع اول،۱۹۸۲ء،ص ۲۶۱

۱۹۴۔ محمد دین فوق،’’نغمہ و گلزار‘‘ ،ص: ۱۲۱

۱۹۵۔ محمد دین فوق،’’کلامِ فوق‘‘ ،ص:۱۲۳

۱۹۶۔         ایضاً ،ص: ۱۲۵

۱۹۷۔ ایضاً،ص: ۹۹

۱۹۸۔ بحوالہ ’’نغمہ و گلزار‘‘ ،(دیباچہ) ص:۱۵

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...