Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > تاریخ ادبیات سیالکوٹ > ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ
ARI Id

1688382102443_56116080

Access

Open/Free Access

Pages

93

ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ (۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۳۸ء) سیالکوٹ کے محلہ چوڑی گراں میں پیدا ہوئے۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ علامہ کی پہلی شعری تصنیف ہے جو ۱۲ ستمبر ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب فارسی زبان میں فلسفہ خودی کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر نکلسن نے اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ دوسری کتاب رموز بے خودی ۱۰ اپریل ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب اسرارِ خودی ہی کی توسیع تھی اور تسلسلِ خیال۔ علامہ نے اسے اسرارِ خودی خودی کا حصہ دوم قرار دیا۔(۱۹۹) ’’پیامِ مشرق‘‘ علامہ اقبال کی تیسری تصنیف ہے۔ یہ شعری مجموعہ فارسی زبان میں ہے جو ۹ مئی ۱۹۲۳ء میں شائع ہوا۔ جرمنی کے شہرت یافتہ مستشرق ڈاکٹر ہانسی مائنکے نے اس شعری مجموعے کا جرمنی زبان میں ترجمہ کیا۔ اقبال کا چوتھا شعری مجموعہ ’’بانگ درا‘‘ اردو زبان میں ۳ ستمبر ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔ ’’بانگِ درا‘‘ میں اقبال کا ابتدائی اردو کلام ہے۔ پہلے حصے میں ابتداء سے ۱۹۰۵ء تک کا کلام اور دوسرے حصے میں ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کا کلام ہے۔ ’’زبورِ عجم‘‘ اقبال کا پانچواں شعری مجموعہ ہے جو جون ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ فارسی زبان میں ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ اقبال کا چھٹا فارسی شعری مجموعہ ہے جو فروری ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا۔ ’’مسافر‘‘ (مثنوی) کا آغاز اقبال کے سفرِ افغانستان سے واپسی پر ہوا۔ اس کی اشاعت ۱۹۳۴ء میں ہوئی۔ ’’بالِ جبریل‘‘ اقبال کا ساتواں اردو شعری مجموعہ ہے جو جنوری ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ غزلیات اور مختلف عنوانات پر نظموں پر مشتمل ہے۔ اقبال کا آٹھواں شعری مجموعہ ’’ضربِ کلیم‘‘ جولائی ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ مختلف عنوانات پر نظموں پر مشتمل ہے۔

نواں مجموعہ مثنوی ’’پس چہ باید کرداے اقوامِ مشرق‘‘ ہے جس کی اشاعت اکتوبر ۱۹۳۲ء کو ہوئی۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ اقبال کا دسواں شعری مجموعہ جو فارسی اور اردو کلام پر مشتمل ہے۔ اس کی اشاعت نومبر ۱۹۳۸ء میں ہوئی۔

اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی میں سیالکوٹ کے ادبی ماحول میں کیا۔ شروع میں داغ دہلوی کے اسلوب کو اختیار کیا اور ان کی شاگردی میں طبع آزمائی کی۔ اقبال کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ابتدائی دور ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۵ء تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں اقبال نے انجمنِ حمایت اسلام کے جلسوں کے لیے نظمیں لکھیں۔ شیخ عبد القادر کے ایماء پر مشہور ادبی رسالہ ’’مخزن‘‘ کے لیے ہمالہ‘ ایک آرزو‘ ترانۂ ہندی‘ تصویر درد جیسی لا زوال قومی و وطنی نظمیں لکھیں۔ اس دور کی بیشتر نظمیں فطرت کے شوخ مرقعوں پر مشتمل ہیں اور غزلیں عشقِ مجازی کی ترجمانی کرتی ہیں۔

دوسرا دور ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کا ہے۔ یہ دور قیامِ یورپ پر مشتمل ہے۔ یورپ کے ماحول‘ مشاہدات اور ذاتی تجربات نے اقبال کے نقطۂ نظر میں انقلاب پیدا کر دیا۔ اس دور میں اقبال کی زندگی میں ایک نیا موڑ آتا ہے۔ یہ اقبال کی اردو شاعری کا دورِ زریں ہے۔ اس میں پچھلے ادوار کی وہ پریشانیاں نہیں‘ وہ ناکام جستجو نہیں‘ تصوف کی وہ خیالی نکتہ آفرینیاں نہیں اور حکمت کی وہ پھیکی بزم آرائیاں بھی نہیں۔ تیسرے دور میں ملی جذبات کے ہنگامے اور قوم کی شانِ جمالی کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ دور آغاز سے اختتام تک تعمیری کام میں مہنمک ہے۔ اقبال کا ایمان ہے کہ مسلمان سے دنیا کی امامت کا کام لیا جانا ہے۔ وہ مسلمان کو باعمل مسلمان بنانا چاہتے ہیں۔ اس دور کی شاعری سرتاپا تعلیم و تلقین سے بھری پڑی ہے۔ اقبال کی شاعری کا تیسرا دور طویل نظموں اور بہترین نظموں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ’’ شکوہ‘‘ ‘ ’’ شمع و شاعر‘‘ ‘ ’’ خضرِراہ‘‘ اور ’’ طلوع اسلام‘‘ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس کیلئے لکھی گئی تھیں۔

اقبال کا کلام خودی‘ خود داری اور خود افزائی کی تعلیم دیتا ہے۔ اقبال دیکھتا ہے کہ مسلمان رسوائی اور ذلت سے دو چار ہے۔ ایسا مسلمانوں کے سکوت‘ جمود اور سکون کی وجہ سے ہے۔ کم ہمتی کے خیال نے بھی ایسے حالات پیدا کئے ہیں۔ اقبال کو یقین کامل ہے کہ مسلمان کا مستقبل شاندار ہے اقبال کے نزدیک شاندار مستقبل کے حصول کیلئے مسلمان کو اپنی حیثیت کا شعور ہو‘ وہ کیا کچھ ہے‘ کیا کچھ کر سکتا ہے ‘ اور اسے کیا کچھ کرنا ہے۔ مسلمان کو کمر ہمت باندھ کر سلف صالحین کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے خلافت الہیہ کے فرائض ادا کرنے کیلئے تیار ہونا چاہئے۔ اقبال کے نزدیک مسلمان کی خود داری دوسروں کی د ست نگر نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی اغیار کے استکبار اور تفاخر کی خدمت گزار ہونی چاہئے۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

نہیں یہ شان خودداری چمن سے توڑ کر تجھ کو                 کوئی دستار میں رکھ لے‘ کوئی زیب گلو کر لے

تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا                                خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا

خودی میں ڈوب جا غافل یہ سترِ زندگانی ہے                   نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا

                خودی اور خود داری کے ساتھ ساتھ کلام اقبال میں خود افزائی کی تعلیم و تدریس بھی ملتی ہے۔ مسلمان کو اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے                یقیں پیدا کراے غافل کو مغلوب گماں تو ہے

پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی                                ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے

مکاں فانی مکیں آنی ازل تیرا ابد تیرا                             خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو ہے

حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا                              تری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے

تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی                       جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحان تو ہے

جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر                         نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے

یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا                        کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا                 لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اقبال نے غم و الم‘ یاس و نومیدی کو امید کی جھلک دکھا کر قوم کا دل بڑھایا اور سکون و جمود کی بجائے عمل کی تلقین کی ہے۔ غفلت کی نیند کے ماتوں کو بیدار ہونے کیلئے ہدایت کی ہے۔ اقبال کی نظمیں ’’ تصویر درد‘‘ ‘ خضر راہ‘‘ ‘ ’’جواب شکوہ‘‘ اور ’’ طلوع اسلام‘‘ پیغام عمل سے بھری پڑی ہیں۔ اقبال نے خدائی آواز میں یہ پیغام تمام مسلمانوں تک پہنچایا ہے۔ اس حوالے سے کچھ اشعار پیش کئے جاتے ہیں:

مس بو قید ہے غنچے میں پریشان ہو جا                             رفت بردوش ہوائے چمنستان ہو جا

ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا                           نغمۂ موج سے ہنگامہء طوفاں ہو جا

قوت عشق ہے ہر پست کو بالا کر دے                           دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے

اقبال کے عہد میں مسلمانوں کے دل الحاد سے خوگر ہو رہے تھے۔ عجمیت کے گرویدہ کفر کے بندے‘ شعار اغیار کے شیدائی اور طرز سلف سے بیزار تھے۔ مے مغرب نے مسلمانوں کے دلوں میں اسلامی جذبات کے ہنگامے خموش کر ڈالے تھے۔ کہیں فرقہ بندیوں کی چھیڑ اور کہیں ذاتوں کی آویزش تھی۔ مسلمان اسلام کے نام لیوا تو تھے مگر قرآن سے انہیں رغبت نہیں تھی۔ تہذیب مغرب نے مسلمانوں کو مذہب اسلام سے دور کر دیا تھا:

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی                    برقِ طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذاں روح بلالیؓ نہ رہی                   فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے                     یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

اقبال کے دور کے مسلمان شرعی احکامات سے گھبراتے تھے۔ اسلام کی سادہ زندگی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مسلمان تہذیب نو کے عاشق تھے۔ اقبال نے مذہب اسلام پر تہذیب مغرب کے اثرات کو پر درد انداز میں اس طرح بیان کیا ہے:

خوش تو ہیں ہم جوانوں کی ترقی سے مگر                          لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراعت تعلیم                         کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما                        لے کے آئی ہے مگر تیشہء فرہاد بھی ساتھ

مسلمان کے قیام و دوام کے لیے اقبال نے اپنی شاعری میں ذوق یقین پیدا کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ کیونکہ ایمان کی پختگی سے ایک مسلمان نا ممکن کاموں کو ممکن کر سکتا ہے:

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں                جوہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا                       نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

ولایت‘ بادشاہی‘ علم اشیاء کی جہانگیریں                    یہ سب کیا ہیں فقط اک نقطہ ایمان کی تفسیریں

اقبال نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ مسلمانوں کو مذہب کی اہمیت سے آگاہ کیا ہے اور اسلامی جمعیت کا اقوام مغرب کی ترکیب سے مقابلہ کر کے نوجوانان اسلام کو اس کے اصول سے آگاہ کیا ہے۔اس حوالے سے کچھ اشعار پیش کئے جاتے ہیں:

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر                       خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار                       قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں                       اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

اقبال اسلام کا سچا پیروکار ہے۔ اس کی سیاست اسلام کے تابع ہے۔ اقبال کے نزدیک محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑے ہونا چاہئے۔اقبال اخوت و مساوات کے حقیقی معنوں میں قائل ہیں :

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے                          تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

جو کرے گا امتیاز رنگ و خون مٹ جائے گا                   ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر

نسل اگرمسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی                         اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگزر

اقبال توحید اور اخوت کا علم بردار ہے۔ وہ ساری دنیا کو بلا امتیاز رنگ و خون رشتہ اخوت میں وابستہ دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ اقبال کو مغرب کے جمہوری نظام میں قیصریت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ عام آزادی کے عالی شان نمونے نہ سلف اسلام کی تاریخ میں نظر آتے ہیں۔ اقبال کو دیگر مذاہب کی تاریخ میں دکھائی نہیں دیتے۔ اقبال کے نزدیک مغرب کی سیاست میں آزادی‘ اخوت اور مساوات کے دعوے محض دھوکہ ہے۔ اقبال اقتصادیات کے پروردہ نظام اور تمدن کا قائل نہیں۔ وہ تو نوع انسان کی باہمی اخوت اور اقوام عالم کی سچی آزادی کا قائل ہے:

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا                      جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے

عالمِ حیرت کا دیکھا تھا جو خواب اسلام نے                      اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ

آزادی کا نظریہ جو اقبال کے سامنے ہے وہ اپنی شاعری میں اس طرح بیان کرتے ہیں:

جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں                        غلامی ہے اسیر امتیاز ماو تو رہنا

شراب روح پرور ہے محبت نوعِ انساں کی                      سکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام و سبو رہنا

محبت سے ہی پائی ہے شفا بیمار قوموں نے                       کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے

کلامِ اقبال میں تصوف بھی ایک نمایاں موضوع ہے۔ اقبال اپنے صوفیانہ انداز پر بہت نازاں ہیں۔ انہوں نے تصوف کے آغوش میں پرورش پائی اور فلسفے کی صحبت میں تربیت حاصل کی۔ تصوف اور حکمت کے امتزاج نے اقبال کے اشعار میں وہ معجزہ بیانی اور مضمون آفرینی پیدا کی جو اردو ادب میں کسی اور شاعر کے ہاں کمیاب ہے۔ ان کے اندازِ بیان میں بے اندازہ لطافت اور رنگینی پائی جاتی ہے:

رند کہتا ہے ولی مجھ کو ولی رند مجھے                  سن کے ان دونوں کی تقریر کو حیراں ہوں میں

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا                      اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں

کوئی کہتا ہے کہ اقبال ہے صوفی مشرب                         کوئی سمجھتا ہے کہ شیدائے حسیناں ہوں میں

دیکھ اے چشمِ عدو مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ                   جس پر خالق کو بھی ہو ناز وہ انساں ہوں میں

مزرعِ سوختۂ عشق ہے حاصل میرا                               درد قربان ہو جس دل پہ وہ ہے دل میرا

تصوف سے بھرپور ایک مناجات کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جو غزل کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ اس مناجات کے پڑھنے میں جو لطف ہے وہ اسلامی دل کا ہی حصہ ہے:

کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں                  کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

طرب آشنائے فروش ہو تو نوائے محرم گوش ہو                             وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوتِ پردہ ساز میں

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ                 کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی                               مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں

اقبال کی اکثر نظمیں فلسفیانہ خیالات سے مزین ہیں۔ انسان کہاں سے آیا ہے۔ اس کی پیدائش کے کیا معنی ہیں‘ یہ دنیا کیا ہے‘ اور یہاں انسان کی زندگی کی کیا حقیقت ہے۔ موت کیا ہے اور اس میں کیا اسرار مضمر ہیں۔ چند سوالات ہیں جو ہمارے فلسفی شاعر نے اپنے انداز میں کہے ہیں:

صبح ازل جو حسن ہوا دبستانِ عشق                 آواز کن ہوئی تپش آموز جانِ عشق

یہ حکم تھا کہ گلشن کن کی بہار دیکھ                 ایک آنکھ لے کے خوابِ پریشاں ہزار دیکھ

مجھ سے خبر نہ پوچھ حجابِ وجود کی                  شام فراق صبح تھی میری نمود کی

وہ دن گئے کہ قید سے میں آشنا نہ تھا                              زیب درخت طور مرا آشیانہ تھا

اقبال کے نزدیک زندگی سود و زیاں کے اندیشہ سے بالا تر ہے۔ جان کا جسم میں ہونا یا نہ ہونا زندگی کی دلیل نہیں۔ کبھی جان دے دینے اور جان محفوظ رکھنے میں بھی زندگی ہے۔ زندگی زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ زندگی نام ہے کشاکش اور سعی پیہم کا:

برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی                              ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی

تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے ناپ                جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی

زندگی کی حقیقت کو ہکن کے دل سے پوچھ                     جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی

اقبال وطنیت کا قائل نہیں۔ ان کے نزدیک وطن پرستی بت پرستی کے مترادف ہے۔ اقبال کا عقیدہ ہے کہ وطن منافی تلقین مذہب اسلام ہے۔ یہ تہذیبِ نو کا تراشا ہوا بت ہے اس کے ذریعے تجارت کو تسخیر کرنا مقصود ہے۔ وطنیت اخوت جیسے اسلامی اصول کی تلقین کے متضاد ہے۔ اسلام اپنے پیرووں کے درمیان بلا تمیز مقامی بلا امتیاز نسل و رنگ‘ اخوت کا سلسلہ قائم کرتا ہے۔ قومیت اسلام کا دامن گردِ وطن سے پاک ہے:

نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا                   بنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں

اسی وجہ سے اقبال امتِ مسلمہ کو اس طرح تلقین کرتے ہیں:

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر                       خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمیؐ

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار                       قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

 

دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں                       اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی                        رہِ بحر میں آزاد وطن صورتِ ماہی

جہے ترکِ وطن سنتِ محبوبِ الہی                 گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ

اقبال مسلمانوں کے قیام و دوام کا راز حجازی آئین اور خالص اسلامی روایات و شعائر میں دیکھتا ہے۔ وہ اپنی نغمہ سرائیوں میں عربی نوا کا دلدادہ ہے۔ اقبال مسلمان کی خاک کے ذریعے ذرے کو تعمیرِ حرم میں لگا دینا چاہتا ہے۔ اس نے انسان کے ارتقائے روحانی کا نسخہ تلقینِ اسلام میں دیکھا ہے۔ اس کے نزدیک اسلام عظیم الشان اور بے عدیل نظام ہے جس کی ترکیب و ترتیب میں اعلائے کلمتہ اﷲ کی قیادت سے عالمگیر تحریکیں حضرتِ انسان کی روحانی طاقتوں کا سکہ مشرق و مغرب میں جما رہی ہیں۔ اقبال نے انسانی ترقی‘ روحانی نشوونما‘ انسانی احسن تقویم کا خلافت الہیہٰ کی شان و شوکت میں‘ کسی مادی آلودگی کے بغیر‘ دنیا میں جلوہ افروز ہونے کا واحد ذریعہ اسلام ہی کو پایا ہے۔ اقبال کا ایمان ہے کہ رسولِ عربیؐ کی تعلیم و تلقین نے انسان کو اس اصلی حیثیت میں منازلِ زندگی طے کرنے کے اصول بتائے ہیں۔

 

۱۹۹۔         ’’صحیفہ‘‘، اقبال نمبر،۱۹۷۳ء، ص:۱۵۳

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...