Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

امینِ حزیں
ARI Id

1688382102443_56116083

Access

Open/Free Access

Pages

100

امینِ حزیں (۱۸۸۲۔۱۹۶۸ء) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام خواجہ محمد مسیح پال ہے۔ سکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں انہیں مولوی میر حسن جیسے استاد سے اکتسابِ فیض کا موقع ملا۔ مولوی صاحب کی تربیت نے ان کے شعور کو اجاگر کیا۔ ان کی ملازمت کا بیشتر حصہ گلگت میں انڈین پولیٹیکل سروس میں گزرا۔ ۱۹۳۹ء میں خان بہادر کا خطاب پا کر ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور اپنے آبائی شہر سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی۔ (۲۰۹) ۱۹۰۲ء میں ان کی پہلی غزل لکھنو کے ’’پیامِ یار‘‘ رسالے میں چھپی اور اس کے بعد شعر و شاعری کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ ابتداء میں مولانا ظفر علی خاں اور مولانا جوہر کے رنگ سے متاثر تھے بعد ازاں حضرت علامہ اقبالؒ کو پسند کرنے لگے اور یہ رنگ ایسا بھایا کہ پھر کسی اور کا نقش نہ جم سکا۔ امینِ حزیں کا کلام بر صغیر پاک و ہند کے مختلف ادبی رسائل میں چھپتا رہا جن میں ’’پیامِ یار‘‘ ‘ ’’مخزن‘‘ ‘ ’’ساقی‘‘ اور ’’ہمایوں‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔(۲۱۰) امینِ حزیں کا پہلا شعری مجموعہ ’’گلبانگِ حیات‘‘ ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’نوائے سروش‘‘ الفیصل ناشران و تاجران ادارے نے شائع کیا۔

تیسرا مجموعۂ کلام ’’سرودِ سرمدی‘‘ بھی الفیصل ناشران و تاجران ادارے نے شائع کیا۔ امینِ حزیں کی شاعری کے آٹھ مسودے ابھی تک شائع نہیں ہو سکے۔

یہ آٹھوں مسودے ان کے عزیز و اقارب کے پاس موجود ہیں۔ امینِ حزیں کے ہزاروں کی تعداد میں مشاہیر کے نام خطوط بھی محفوظ ہیں۔ اردو ادب کے محققین کے لیے یہ شعری و نثری فن پارے قیمتی سرمایہ ہیں۔

امینِ حزیں ایک مشاق اور قادر الکلام سخن ور تھے۔ انہوں نے تقریباً ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ انہیں اردو‘ عربی‘ ہندی ‘ سنسکرت‘ انگریزی‘ پشتو اور دیگر علاقائی زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ان کے کلام کو گل و بلبل‘ لیلی و مجنوں‘ وامق و عذرا اور شبِ ہجراں کے افسانہ ہائے دراز سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ خدائے بزرگ و برتر کی عظمت اور رسولِؐ کی عقیدت کا ان کی زندگی اور شاعری پر گہرا اثر تھا۔ نظم میں اقبالؒ اور غزل میں غالب کے پیروکار تھے۔ امینِ حزیں کی شاعری میں جوشِ بیان‘ وحدتِ فکر اور رفعتِ تخیل کا عمدہ تناسب و توازن ملتا ہے۔ آپ نے زیادہ تر اخلاقی قومی اور ملی کے موضوعات کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حسن ‘ خودی‘ عقل و عشق‘ تصورِ ابلیس‘ عورت اور فلسفہ ایمان کو بھی اپنی شاعری میں موضوع بنایا ہے۔

اقبال کی طرح امینِ حزیں کے فلسفہ حیات اور کائنات میں تصورِ خودی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ آپ فقرو خودی کو انسانی معراج کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک عرفانِ ذات کا حصول خودی کے طفیل ہی ہے۔ اگر خودی مغلوب و مقہور ہو گئی توا نسانی تشخص ختم ہو جاتا ہے۔ ان کی ایک مکالماتی نظم ’’خودی خدائے خودی کے حضور میں‘‘ کے آخری بند میں خودی کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:

خودی وہ جذبہ بے اختیار ذاتی ہے                 ازل سے جس سے حفاظت ہے ذات کی مقصود              

غرور کہتے ہیں جس کو خودی کا ہے ہمزاد                        مگر وہ لغو سراپا یہ سر بسر محمود      

اخوت اور سلامت روی خودی کا شعار                           مثال مہر جہاں تاب اس کا ذوق نمود            

خودی نے جس کو نوازا وہ با کمال ہوا                              خودی سے قوموں کا اقبال لا زوال ہوا           (۲۱۱)

’’گلبانگِ حیات‘ میں ایک جگہ پر خودی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:

قدیم و قائم و قیوم و قادرِ مطلق                     تری جناب میں حاضر ہے فخر و ناز ترا            

وہی فرشتوں کی مسجود خود ہے سربہ سجود                       جسے ملا تھا سرو پائے علم الاسما       

نہیں ہے اہل ہی جب جبرئیل کیا جانے؟                      مرے خیال کی کاوش دماغ کا سودا

خودی کی اصل اگر تیرا نور ہے یا رب                            خودی بری ہو تو کس کا قصور ہے یا رب          (۲۱۲)

امینِ حزیں کا تصورِ عشق و عقل بھی اقبال سے ملتا جلتا ہے۔ ان کے نزدیک عقل زندگی کی راہ گزر پر انسان کے لیے روشنی فراہم کرتی ہے۔ آنکھوں کے لیے نور مہیا کر سکتی ہے لیکن دل کے اندر روشنی فراہم کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں بصیرت یا عشق ہر جگہ مشعل راہ ثابت ہوتا ہے۔ امین کے کلام میں عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی دونوں افکار کار فرما نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے نظم ’’عشق باقی باقی‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

موجود ہوتے ہوئے بے نشاں ہو                  ہر دل میں بستے ہوئے لا مکاں ہو

پردوں میں رہتے ہوئے دبستاں ہو                               ایسا بھی معشوق ہے غیر فانی

اور اس کے عشاق امین جاودانی (۲۱۳)

عشق کے حوالے سے نظم ’’آتش شوق‘‘ سے کچھ اشعار پیش کئے جاتے ہیں:

آتشِ شوق فرشتوں کی تمنائے عزیز                            شوق کی آگ نے ہی خاک کو بخشی ہے تمیز   

آتشِ شوق سے ہے جوہرِ ہستی کی نمود                          زندگی نام ہے جس کا ہے یہی چیز وہ چیز         

آتش شوق ہی در اصل ہے گلزارِ خلیل                         آتشِ شوق کو دیتا ہے ہوا جبرائیل               

آتشِ شوق کے قائل کی جزا جلوۂِ طور                           آتشِ شوق کے منکر کی سزا موجۂِ نیل           (۲۱۴)

حسن کی جھلک امینِ حزیں کے لیے باعثِ کشش ہے۔ چاہے وہ حسن عورت کا ہو یا مناظرِ فطرت کا۔ ان کی نگاہ حسن کے نظاروں کا جائزہ لیتی ہے اور ان سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ان کی نظم ’’نگاہِ شوق‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

شکست کھا نہیں سکتی نگاہ شوق کبھی                               ہزار پردوں میں مطلوب چھپ کے جا بیٹھے  

اسی کا نام امیں ہے کمال جذبۂ شوق                                کھنچا ہوا کوئی پہلو میں خود سے آ بیٹھے              (۲۱۵)

حسن کے حوالے سے ان کی نظم ’’جمال ہم نشیں‘‘ کے اشعار بھی قابلِ توجہ ہیں:

ہوں نئے کہ بت پرانے نہیں کچھ بگاڑ سکتے                     مرے غزنوی کا جب تک ہے دل و جگر حجازی               

یہ فروغ شمع محفل یہ اجالا مہر تاباں                               بخدا امیں ہے فیض عمل نفس گدازی           (۲۱۶)

ہر بڑے شاعر کی طرح امینِ حزیں بھی فطرت کے شائق ہیں۔ ان کی نظر قدرت کے مختلف مناظر کو پسند کرتی اور ان کے حسن سے متاثر ہوتی ہے۔حبیب کیفوی اس حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:

امینِ حزیں کی زندگی کی تینتیس بہاریں کشمیر اور گلگت کی گل بیزو گل ریزوادیوں میں بسر ہوئی تھیں۔ فطرت کے دلآویز مناظر ہر وقت ان کے سامنے رہے تھے اور وہ ان سے لطف اندوز بھی ہوتے رہے تھے ۔اس لئے یہ ممکن نہ تھا کہ رنگین نظاروں کی عکاسی نہ کرتے۔(۲۱۷)

ان کی بہت سی نظموں میں حسین مناظر کی دلکش تصویر کشی موجود ہے۔ ’’کوہستان قراقرم کی ایک وادی‘‘ ‘ ’’کشمیر کی صبح بہار‘‘ اور ’’حسن کی رت‘‘ داد طلب نظمیں ہیں۔ ان نظموں کے علاوہ ’’گلبانگ حیات‘‘ اور ’’سرود سرمدی‘‘ میں شامل ان کی متعدد نظمیں فطرت سے ان کے لگاؤ اور دل بستگی کی غماز ہیں۔ امینِ حزیں فطرت کو انسان کے مدِ مقابل سمجھتے ہوئے اسے مسخر کرنے پر زور دیتے ہیں۔ وہ کائنات کے رازوں کو جاننے کے متمنی ہیں۔ تسخیر فطرت کے حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

بیتابی نظر کو تلاش سکوں نہیں                      اِک جذبہ عمل کا محرک جنوں نہیں             

اِک جوہر لطیف ہے میری نگاہ میں                               میں جس کی تاک میں ہوں وہ صید زبوں نہیں              (۲۱۸)

امینِ حزیں نے اپنی شاعری میں جن بنیادی مسئلوں پر غور و فکر کیا ہے ان میں زمان و مکاں کے حوالے سے مختلف تنقیدی نظریات ملتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی نظم ’’دنیا بدلتی جائے گی‘‘ کے اشعار ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں:

آپ بدلیں یا نہ بدلیں یہ بدلتی جائے گی

دنیا بدلتی جائے گی

اپنے ہی بچوں کو یہ ناگن نگلتی جائے گی

زید و عمر و بکر کوئی ہو کسی کی بھی نہیں

دنیا امیں دنیا امیں

سب کی چھاتی پر یہ ظالم مونگ دلتی جائے گی

دنیا بدلتی جائے گی (۲۱۹)

تصورِ زمان و مکاں کے حوالے سے ان کی نظم ’’وقت اے وقت تجھ سے بھر پایا‘‘ بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

امینِ حزیں کی شاعری میں عموماً اور نظموں میں خصوصاً مردِ مومن اور انسان کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ کبھی وہ مقام مردِ مومن طے کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی انسان کا شاندار مستقبل دکھاتے ہیں۔ ’’مقام مردِ مومن‘‘ امینِ حزیں کی ایک شاہکار نظم ہے جس میں وہ مختلف استعاروں مثلاً رند‘ مے‘ جام اور عنقا جیسی تراکیب استعمال کرتے ہوئے مردِ مومن کا مقام متعین کر رہے ہیں:

مردِ مومن کا ہے مقام الگ                         مہر وحدت کا ہے نظام الگ         

اس ’’خدا مست رند‘‘ کی واﷲ                    مے الگ ہے خم الگ ہے جام الگ                (۲۲۰)

ایک جگہ پر نظم ’’مومن‘‘ میں مومن کے اوصاف بیان کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:

ایمان ہے مومن کا ایقان ہے مومن کا                         حق کیشی و حق کوشی حق بینی و حق گوئی        

اِک شانِ جمالی ہے اِک شان جلالی ہے                         تدبیر خدا مومن تقدیرِ خدا مومن              

پیتا ہے پلاتا ہے جیتا ہے جلاتا ہے                 مومن میں نہیں رکھی پرویزی و چنگیزی       

عالمِ کے لیے رحمت لا ریب وجود اس کا                          اعجاز ہیں مومن کے اندازِ دل آویزی           (۲۲۱)

امینِ حزیں نے مردِ مومن کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری میں انسانی عظمت کی بات بھی کی ہے اپنی نظم ’’انسان‘‘ میں انسانی عظمت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

فرشتے شوق سے لینے لگے ہیں نام ترا                             اب ان کی آنکھ سے اوجھل نہیں مقام ترا    

مجال کس کی ہے اتنی کہ تیرے منہ آئے                      بلا سکوت‘ قیامت بکف کلام ترا 

تری نمود کی فطرت بھی ہو گئی قائل                             تو ہی امام ہے کوئی نہیں امام ترا     (۲۲۲)

امینِ حزیں انسانی زندگی میں یقین کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے بلکہ اگر کہا جائے کہ وہ ایقان کے مبلغ ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ نظریۂ ایقان کی وہ اپنی شاعری میں جگہ جگہ تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنی نظم ’’یقین‘‘ میں بھی وہ اسی نکتے کی وضاحت کرتے نظر آتے ہیں:

طلسم شاہد و شہود۔ فروغِ حسن کی نمود۔ سرِ نیاز کے سجود

یقین کا ظہور ہیں ظہور ہیں یقین کا

جمال کیا جمیل کیا۔ کلیم کیا خلیل کیا۔ بیان کیا دلیل کیا

یقین کا سرور ہیں سرور ہیں یقین کا

یقین مکان و لا مکاں یقین روحِ انساں و جاںِ یقین حیات جاوداں

یقین مۓ طہور ہے مۓ طہور ہے یقیں (۲۲۳)

اقبال کی طرح امینِ حزیں کے نزدیک بھی بدی یا شر انسانی فطرت کا ایک جزو لاینفک ہے۔ یہ ایک ایسی محرک قوت ہے جو انسان کو جہدِ حیات میں عمل پر اکساتی ہے۔ دنیا میں شر کی نمائندگی ابلیس کرتا ہے۔ ابلیس امینِ حزیں کی نظموں کا ایک متحرک کردار ہے۔ ’’شکوہ شیطان‘‘ امینِ حزیں کی ایک مکالماتی نظم ہے جس میں شیطان اﷲ تعالی کے حضور عرض کرتا ہے:

جو اپنے ذمہ لیا تھا میں نے وہ کام انجام پا چکا ہے                              ترا ’’خلیفہ‘‘ تجھے ہی پروردگار دل سے بھلا چکا ہے        

مرا تو کیا ذکر خود تری ذات پاک ہی کا ہوا ہے منکر                          جسے تو کہتا ہے اپنا بندہ وہ ہاتھ سے تیرے جا چکا ہے        

یہ تیرے خاکی الہیٰ تو بہ غضب کے بے باک ہو گئے ہیں                  جو میرا فن تھا یہ اس میں مجھ سے بھی بڑھ کر چالاک ہو گئے ہیں       (۲۲۴)

اقبال کی طرح امینِ حزیں سیالکوٹی مغربی تہذیب کے مخالف تھے۔ وہ چاہتے تھے امتِ مسلمہ اسلامی تہذیب و تمدن کی پیروی کرے تاکہ دین و دنیا میں کامیاب و کامران ہو۔ امینِ حزیں اپنی شاعری میں جگہ جگہ تہذیبِ مغرب کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں:

تہذیبِ فرنگ ہے سکوں سوز                      اﷲ اس آگ سے بچائے !          

بد بخت بلا کی ہے بد آموز                             اس کا نہ کوئی فریب کھائے !       

ہر لمحہ عزیز اپنا ہی سود!                                ہر لحظہ مفادِ خویش در پیش!         

ہر وقت زباں پہ مدح اپنی                            تہذیبِ فرنگ ہے ’’عدو کیش‘‘  

بد بخت ہے خود غرض بلا کی                         اسلام ہدف ہے ’’ناسزا‘‘ کا       

یہ چاہتی ہے۔ یہی نعوذ باﷲ                         مٹ جائے جہاں سے گھر خدا کا    (۲۲۵)

امینِ حزیں مذہبی آدمی ہیں۔ انہیں مذہب سے بہت محبت ہے۔ اپنی شاعری سے وہ رشد و ہدایت کا کام بھی لیتے ہیں۔ انہیں برائی سے نفرت ہے اور نیکی سے پیار ہے۔ وہ اپنی شاعری میں جگہ جگہ خدائے بزرگ و برتر سے ڈرنے کی ہدایت کرتے نظر آتے ہیں۔ انہیں یقین کامل ہے کہ خوفِ خدا سے انسان راہ راست پر آ سکتا ہے:

کج کلاہی جہاں نہیں چلتی !                            شانِ شاہی جہاں نہیں چلتی!

عذر خواہی جہاں نہیں چلتی                          ایسی سرکار کے غضب سے ڈرو!

ذاتِ جبار کے غضب سے ڈرو!                     گلشن ہست و بود کے لالے !

عیش و عشرت کی گود کے پالے!                   تیرے سینے کے داغ ہیں

دھو انہیں آنسوؤں کی شبنم سے‘ چاہتا ہے نجات اگر غم سے

سب کی منزل لحد ہے تربت ہے کیا خبر کب کس کی نوبت ہے؟ آج فرصت ہے آج فرصت ہے!

رات دن ڈینگ مارنے والو!                         ذاتِ جبار کے غضب سے ڈرو!     (۲۲۶)

امینِ حزیں کی شاعری وجدان جیسے موضوع سے بھری پڑی ہے۔ ان کے نزدیک دنیا میں روشنی صرف اور صرف وجدان کی وجہ سے ہے اور وجدان کا انسانی عظمت میں اہم کردار ہے۔ وجدان کے حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

دیکھا ہے تصور میں اِک مست تغافل کو                        کونپل میں نظر آیا گلشن دلِ بلبل کو             

اِک پل میں پہنچتا ہوں میں عرشِ حقیقت تک                               جب ایڑہ بتاتا ہوں وجدان کے دلدل کو      

وجدان کے شعلے سے دنیا میں اجالا ہے                         نام آدمِ خاکی کا اس نے اچھالا ہے

تصویر مکمل ہے وجدان کی رفعت کی                             کہتے ہیں نبی جس کو وجدان کا ہمالہ ہے           (۲۲۷)

خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثنا کرنا ہر سچے مسلمان کی فطرت ہے۔ امینِ حزیں ایک سچے اور کھرے مسلمان ہیں وہ اﷲ تعالی کی حمد و ثنا بھی کرتے ہیں۔ مشکل وقت میں اس کے سامنے التجا بھی کرتے ہیں وہ اﷲ تعالی کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی اور ذات حاجت روائی نہیں کر سکتی اس لئے امینِ حزیں فقط اسی ذات کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں:

سر بہ سجدہ درِ حضور پہ ہوں                         ارمغانِ عبودیت لے کر            

اے غفور الرحیم حاضر ہوں                        لب پہ اقرارِ معصیت لے کر      

ایک پتلا خطا و نسیاں کاق                             عفو کی بھیک رو کے مانگتا ہے        

اپنے خونِ جگر کے زمزم سے                      نطق کو خوب دھو کے مانگتا ہے     (۲۲۸)

تیری رحمت ہی وہ سہارا ہے                        بحرِ ہستی کا جو کنارا ہے 

مثل خس بہہ نہ جاؤں طوفاں میں                لہریں بے مہر‘ تیز دھارا ہے       (۲۲۹)

بے نیازی تری ہے ناز ترا!                           وحدتِ ذات امتیاز ترا

تو ازل سے ہے رازِ سربستہ                           ہو نہیں سکتا فاش راز ترا              (۲۳۰)

عشقِ مصطفے ہر مومن کے ایمان کا حصہ ہے۔ اقبال کی طرح امینِ حزیں بھی ایک سچے عاشق رسولؐ ہیں۔ ان کی غزلیات اور نظموں میں نعتیہ رنگ دیکھا جا سکتا ہے:

دو عالم سے بالا ہے شانِ محمدؐ                          بہ روح محمدؐ بہ جانِ محمدؐ

کلامِ خدا تو ہے وحدت کا دریا                        مگر رہگذر ہے زبانِ محمدؐ               

وہی شاخِ طوبیٰ پہ ہیں چہچہاتے                      جو بلبل کہ ہیں مدح خوانِ محمدؐ      

امین کو ہے ’’نور علیٰ نور مشعل‘‘                   کلامِ خدا و بیانِ محمدؐ       (۲۳۱)

امینِ حزیں کی نظموں میں ایسی بے شمار نظمیں بھی موجود ہیں جو قومی و ملی نظموں کے زمرے میں شامل ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید اس حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:

اقبال کی نظموں کی مقبولیت سے متاثر ہو کر متعدد شعراء نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم نگاری کی طرف توجہ دی۔ شوق قدوائی‘ بے نظیر‘ شاہ وارثی‘ امجد حیدر آبادی‘ تاجور نجیب آبادی‘ ہری چند اختر‘ اثر صہبائی‘ طالب بنارسی‘ اوج گیاوی چند اور امین حزیں ایسے شاعر ہیں جنہوں نے مناظرِ فطرت‘ تہذیبی زندگی اور قومی مسائل پر اچھی نظمیں پیش کیں۔(۲۳۲)

امینِ حزیں نے اپنی شاعری میں اپنے مفکرانہ انداز کے ساتھ تغزل کو بھی قائم رکھاہے ۔انھوں نے اپنی شاعرانہ معنی آفرینیوں سے تقریباً تمام علامات اور شعری روایات کے مفہوم کو بدل دیا ہے۔ ان کے یہاں گل و بلبل‘ زلف و رخسار‘ جام و ساقی‘ عشق و محبت کا شاعرانہ تصور اور ان کی جذباتی کیفیات بالکل مختلف ہیں۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:

دل کی بیتابیوں کے عالم کا                             زندگی نام رکھ دیا کس نے            (۲۳۳)

جن نگاہوں میں ہے سرور جہاں                   ہیچ ہے ان کے آگے میخانہ           (۲۳۴)

پیار ہوتا ہے جس سے اے پیارے                              اس کو ہی بار بار دیکھتے ہیں            (۲۳۵)

کیا یہی دل ہے؟ جس کو پہلو میں                   ہم امیں بے قرار دیکھتے ہیں         (۲۳۶)

 

حسن کی مٹھی میں دل ہو تو غزل ہوتی ہے                      سوز سے موم یہ سل ہو تو غزل ہوتی ہے        (۲۳۷)

امینِ حزیں کو غزل کے فن پر عبور ہے۔ وہ شعریت اور ادبیت کو اپنے مقصد پر قربان نہیں کرتے۔ جذبات کی فراوانی‘ تخیل کی بلند پروازی‘ وارداتِ قلبی کی اثر انگیزی اور اندازِ بیان کی کرشمہ سازی امین کے اشعار میں بدرجہ اتم موجود ہے:

نفس کے سوزِ دروں سے شرار پیدا کر                           جگر کی آگ سے بلبلِ بہار پیدا کر

تری نوا میں تڑپ بجلیوں کی لہرائے                              نگاہِ شوق دلِ بیقرار پیدا کر           (۲۳۸)

وہ چشمِ مست سے کیا مسکرائے جاتے ہیں                      مۓ حیات کے ساغر پلائے جاتے ہیں          

وہ ڈال کر مری آنکھوں میں آنکھیں کہتے ہیں                               دلوں کے ساز کے یوں سر ملائے جاتے ہیں   (۲۳۹)

تحیر فزا پردۂِ رنگ و بو ہے!                           ادھر میں ہی میں ہوں ادھر تو ہی تو ہے!      

مجھے دیکھتا ہے تو کیا میں نہ دیکھوں                 ترے دیکھنے کی بڑی آرزو ہے      

تری ہی قسم ذرے ذرے کے لب پر                            ترا تذکرہ ہے تیری گفتگو ہے      

پھڑک جائیں گے جس کو سن کر فرشتے                          ابھی میرا وہ نغمہ زیرِ گلو ہے          (۲۴۰)

امینِ حزیں کی شاعری میں پابند نظم‘ قطعات ‘ رباعیات‘ غزلیات کے ساتھ ساتھ گیت نگاری کے عناصر بھی موجود ہیں۔ ان کی بعض نظمیں موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے گیت معلوم ہوتے ہیں۔ بعض نظموں کا عنوان ہی گیت کے نام سے دیا گیا ہے جیسے ’’سرودِ سرمدی‘‘ شعری مجموعے کی ایک نظم کا عنوان ’’ماورائی نگاہ کا ایک اچھوتا گیت‘‘ ہے۔

امینِ حزیں کے گیتوں کی موسقیت اور ہندی الفاظ کی مٹھاس قارئین کے دلوں پر جادو جیسا اثر رکھتی ہیں:

’’بے کاجل کے نین رسیلے‘                       ہیں تیری دبدا میں گیلے

تیری ہی کارن تو راہی                 ان کے سندر گال ہیں پیلے

تو سکھ پائے یہ دکھ جھیلیں                            تو بن کر اگنی سے کھیلیں

اس جوتی کا دیپ ہے تو ہی                           اس موتی کا سیپ ہے تو ہی

فطرت کے او ’’نورالعین‘‘

’’او پگلے اور بھولے راہی

جاگ رہے ہیں تیرے کارن                        سکھ ہی سکھ ہیں ان کے درشن

تو کیا جانے جاگ رہے ہیں                           من موہن کے سندر نین

’’اوپگلے اور بھولے راہی(۲۴۱)

امینِ حزیں نے اردو شاعری کا مطالعہ اقبال اور غالب کے کلام سے شروع کیا اور وہ ان دونوں بزرگوں سے عقیدت رکھتے تھے۔ ان کا کلام شوق سے پڑھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں جہاں اقبال کا اثر ملتا ہے وہاں غالب کے رنگِ سخن کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔غالب کے رنگ کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

ہم نشیں تم ہی کہو کس سے خفا ہو جائیے؟                      اپنے ہاتھوں آپ کیوں وقفِ بلا ہو جائیے؟  

بیت جائے کچھ بھی عاشق پر وہ کہہ سکتا نہیں                  جائیے ہو جائیے مجھ سے خفا ہو جائیے             (۲۴۲)

 

محمل کی اوٹ میں لبِ لیلیٰ شفق فروش                          دشتِ جنوں میں قیس ہے غوغا لیے ہوئے   

اِک توکہ بے حجاب نہ ہونا تری ادا                اِک میں کہ شوقِ دید کی دنیا لیے ہوئے        

اِک تو کہ اپنے حسن کی ہے آپ ہی دلیل                      اِک میں کہ تیرے عشق کا دعویٰ لئے ہوئے

اِک تو کہ تیری مست نگاہوں میں میکدے                   اِک میں کہ لب پہ حسرتِ صہبا لئے ہوئے    (۲۴۳)

امینِ حزیں اپنی ساری زندگی اپنے آپ کو اقبال کے معنوی شاگرد کہتے رہے۔ یہ شاگردی کی ہی وجہ ہے کہ امینِ حزیں کے موضوعات اور رنگِ سخن پر اقبال کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ اقبال کے انداز کی جھلک چند اشعار میں ملاحظہ ہو :

پیتا ہے پلاتا ہے جیتا ہے جلاتا ہے                 مومن میں نہیں رکھی پرویزی و چنگیزی       

عالم کے لیے رحمت لا ریب وجود اس کا                         اعجاز ہیں مومن کے اندازِ دل آویزی           (۲۴۴)

نہ دے خوشی سے میری عرض کا جواب نہ دے                            یہ ’’بے رخی‘‘ کا مگر بزم میں عذاب نہ دے

الہیٰ! ذوق سماعت کی آبرو رکھنا                     جواب دے تو کوئی ہو کے بے نقاب نہ دے  (۲۴۵)

امینِ حزیں کی طبیعت پر غالب رنگ اقبال کا تھا مگر اس کے باوجود امینِ حزیں نے بعد میں اپنے لئے اقلیم سخن میں نئی راہیں بھی تلاش کیں اور نئے افکار سے اپنے اشعار کو مزین کیا جس سے ان کے شاعرانہ کمال اور ناموری میں اضافہ ہوا۔ امینِ حزیں سیالکوٹی نے اردو شاعری کے دامن میں وسعت پیدا کی۔ ان کی غزلیات ‘ منظومات‘ قطعات‘ رباعیات‘ گیت اور دیگر اصنافِ سخن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور یہ تعداد معیار کے لحاظ سے بھی کسی طور پر کم نہیں۔ ان کی شاعری کا اپنا بھی ایک الگ اندازِ سخن ہے جو اپنی پہچان رکھتا ہے۔ امینِ حزیں سیالکوٹی کو ناقدینِ ادب نے نظر انداز کیا وہ گمنامی کے پردوں میں مستور ضرور ہیں لیکن ان کا شعری سرمایہ آج بھی ان کی شناخت کو بر قرار رکھے ہوئے ہے۔

۲۰۹۔ ندیم احمد خان، ’’سرگزشت‘‘ مشمولہ ’’نوائے سروش‘‘ از امینِ حزیں، لاہور، الفیصل ناشران و تاجران،۲۰۰۰ء، ص:۵

۲۱۰۔         ایضاً ، ص: ۶،۷

۲۱۱۔         امینِ حزیں، ’’گلبانگِ حیات‘‘، لاہور‘ الفیصل ناشران و تاجران،۲۰۰۶ء،ص:۸۱

۲۱۲۔         ایضاً ،ص: ۸۰

۲۱۳۔ ایضاً ،ص: ۱۱۷

۲۱۴۔ ایضاً،ص: ۱۲۶

۲۱۵۔ ایضاً،ص: ۱۰۱

۲۱۶۔         امینِ حزیں،’’سرور سرمدی‘‘،لاہور ،الفیصل ناشران و تاجران، ۲۰۰۶ء ص:۱۵

۲۱۷۔ حبیب کیفوی،’’امینِ حزیں۔ عبد المسیح پال‘‘ مشمولہ ’’اقبال ریویو‘‘ ، ص:۷۰

۲۱۸۔ امینِ حزیں،’’سرودِ سرمدی‘‘،ص:۳۲

۲۱۹۔         زمینِ حزیں،’’گلبانگِ حیات‘‘، ص:۶۹

۲۲۰۔ ایضاً، ص: ۱۹۹

۲۲۱۔         ایضاً،ص: ۱۲۵

۲۲۲۔ ایضاً ،ص: ۱۲۰

۲۲۳۔ ایضاً،ص:۱۲۰

۲۲۴۔ ایضاً،ص: ۱۵۱

۲۲۵۔ امینِ حزیں،’’سرودِ سرمدی‘‘، ص:۲۳

۲۲۶۔ ایضاً ،ص: ۱۵

۲۲۷۔ امینِ حزیں،’’گلبانگِ حیات‘‘ ، ص:۱۳۴

۲۲۸۔ امینِ حزیں،’’سرودِ سرمدی‘‘ ، ص:۴۴

۲۲۹۔ ایضاً ،ص: ۴۷

۲۳۰۔ ایضاً،ص: ۴۸

۲۳۱۔ ایضاً،ص: ۳۲

۲۳۲۔ ڈاکٹر انور سدید،’’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘،لاہور، ایچ پبلشرز، اپریل ۱۹۹۶ء،ص:۳۳۷

۲۳۳۔ امینِ حزیں، ’’گلبانگِِ حیات‘‘ ،ص:۱۸۱

۲۳۴۔ ایضاً ، ص: ۲۸

۲۳۵۔ ایضاً،ص: ۱۹۷

۲۳۶۔ ایضاً ،ص: ۱۹۷

۲۳۷۔ امینِ حزیں،’’سرودِ سرمدی‘‘، ص: ۳۹

۲۳۸۔ امینِ حزیں،’’نوائے سروش‘‘ ،ص:۹۶

۲۳۹۔ ایضاً ،ص: ۹۸

۲۴۰۔ امینِ حزیں،’’گلبانگِ حیات‘‘ ، ص:۱۸۸

۲۴۱۔        امینِ حزیں ،’’سرودِ سرمدی‘‘ ،ص:۸۷

۲۴۲۔ ایضاً،ص: ۴۹

۲۴۳۔ امینِ حزیں،’’گلبانگِ حیات‘‘، ص:۲۰۲

۲۴۴۔ ایضاً،ص: ۱۲۵

۲۴۵۔ امینِ حزیں،’’سرودِ سرمدی‘‘ ، ص:۹۲

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...