Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

سید صادقؔ حسین
ARI Id

1688382102443_56116085

Access

Open/Free Access

Pages

113

سید صادقؔ حسین (۱۸۹۸۔۱۹۸۹ء) نام اور صادقؔ تخلص کرتے تھے۔ آپ کھادڑ پاڑہ (کشمیر) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین نے کشمیر سے ہجرت کر کے شکر گڑھ (سیالکوٹ) میں سکونت اختیار کی۔ آپ کے والد صفدر کاظمی نے وفاقی سیکرٹری کے عہدے پر کام کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے ظفر وال سے وکالت کا آغاز کیا۔ آپ تحریکِ پاکستان میں کارکن کے طور پر کام کرتے رہے۔ ۱۹۳۶ء میں آپ صدر مسلم لیگ شکر گڑھ مقرر ہوئے۔ آپ کا واحد شعری مجموعہ ’’برگِ سبز‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ (۲۷۶)

صادق کو صرف ایک شعر کی وجہ سے اردو شاعر ی میں شہرت ملی۔ بعض حضرات اس شعر کو علامہ محمد اقبال سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ شعر ان کے شعری مجموعے ’’برگ سبز‘‘ کی ایک غزل میں موجود ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:

تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب                       یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے          (۲۷۷)

صادقؔ نظم اور غزل کے شاعر ہیں۔ نظم پر اقبال کے اثرات ہیں اور غزل میں روایت کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں قرآن مجید کے منظوم تراجم بھی موجود ہیں۔ انہیں اسلام سے سچی محبت ہے۔ اس محبت کا اظہار وہ خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثنا سے کرتے ہیں۔ وہ قرآن پاک کا ترجمہ کرتے ہوئے عام فہم اور سادہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب اتنا اچھا ہے کہ وہ ترجمہ معلوم نہیں ہوتا۔ سورت فاتحہ کی کچھ آیات کا منظوم ترجمہ ملاحظہ ہو:

خداوندِ جہاں تیرے لئے تعریف ہے ساری                 کہ ہے لطف و کرم تیرا ہر انس و جان پر جاری               

تو ہی ہے مالک و مختارِ کل روزِ قیامت کا                           ہر اک ہم میں سے دم بھرتا ہے تیری ہی عبادت کا       

تری ہی ذات سے ہوتے ہیں ہم امداد کے طالب                            تو ہی ہے جو ہمیں لے جائے راہِ راست کی جانب            

دکھا رستہ ہمیں انعام و نعمت پانے والوں کا                     ہدایت پانے والوں کا فضیلت پانے والوں کا  (۲۷۸)

عشقِ مصطفےؐ ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ صادق ؔبھی عاشق رسولؐ ہیں اور وہ اپنے اس عشق کا اظہار اپنی نعتیہ شاعری میں کرتے نظر آتے ہیں۔ ’’صحرا کا نبیؐ‘‘ ان کی ایک طویل نعتیہ نظم ہے۔ جس میں صادقؔ نے حضورؐ کی سیرت کی تصویر کشی کی ہے۔ انہوں نے آپؐ کے آباؤ اجداد‘ عرب کا ماحول‘ آپؐ کے بچپن‘ جوانی اور نبوت کے دور کی عکاسی حقیقت پسندانہ انداز میں کی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

نمونہ تھا وہ خود بھی پاکبازی کا شرافت کا                         دھیاں رہتا تھا اس کو رات دن حق کی عبادت کا             

خدا کی یاد میں اک غار میں مصروف رہتا تھا                   ہدایت کی توقع میں وہ ہر تکلیف سہتا تھا        

یونہی وہ کر رہا تھا ایک دن یادِ خداوندی                         کہ آیا اک فرشتہ لے کر ارشادِ خداوندی    

سنا اس نے نہایت غور سے جو کچھ کہا اس نے                 کیا یہ ذکر آ کر پھر چچا سے اور بیوی سے         

نبیؐ ہونے کی دونوں نے‘ اسے فوراً بشارت دی                              بڑھایا حوصلہ اس کا‘ تسلی دی‘ اعانت کی    (۲۷۹)

صادق کی نعت نگاری کے حوالے سے ’’معراج رسولؐ‘‘ کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔ جن میں صادق کا اپنا منفرد اسلوب دیکھا جا سکتا ہے:

گر سرِ عرش بریں پہنچے مرے پیارے نبیؐ                      مدعی مت کر تعجب اس قدر حیراں نہ ہو      

رفعتِ اخلاق لے جائے تجھے بھی آن میں                     خواہشاتِ نفس سے آلودہ گرداماں نہ ہو      

مشکلیں پیدا ہوئیں تیرے خیالِ خام سے                       ورنہ کوئی بھی نہیں ہے کام جو آساں نہ ہو      (۲۸۰)

خودی اور خود داری اقبال کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔ صادق بھی اقبال کے ہم عصر اور پیرو کار ہیں۔ صادق کی نظم میں بھی ان موضوعات کی تکرار نظر آتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان نوجوان حقیقت میں مردِ مومن کا کردار ادا کریں‘ اپنے اندر بلند حوصلہ‘ جذبۂ ولولہ اور بلند ہمتی پیدا کریں۔ مسلمان نوجوان اپنی نگاہ بلند رکھے اور مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود پر پہنچنے کا عزم کرے۔ صادق کے نزدیک ایک نوجوان مسلمان کو دنیا میں بے نشان زندہ رہنے سے بہتر ہے کہ وہ موت کو قبول کرتے ہوئے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لے کیونکہ ایسی زندگی جس سے دنیا میں اس کی پہچان نہیں بے کار اور فضول ہے۔ اس حوالے سے ان کی نظم ’’خطاب بہ مسلم‘‘ کے کچھ اشعار ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں:

رہے گا تابکے مسلم! بھلا تو نیم جاں ہو کر                       نہ کھا یوں ٹھوکریں دنیا میں سنگِ آستاں ہو کر               

اگر سودائے ہستی ہے تو گرمِ تازہ کوشی ہو                      سمجھ لے موت سے بدتر ہے جینا بے نشاں ہو کر            

نہیں ہے خاکساری میں مزا کچھ زندگانی کا                      جہاں سے کوچ کر یارہ حریفِ آسماں ہو کر    

لکھی ہے قطرۂ نا چیز کی قسمت میں گمنامی                        مگر بہتر ہے مٹنا اس کا بحرِ بیکراں ہو کر            

پہنچ جا منزلِ مقصود تک اب دیکھتا کیا ہے                      مٹا مت خود کو مثل گردِ راہ کارواں ہو کر      

متاعِ زندگی تاراج ہوتا ہے خدارا اٹھ                           زمانے بھر کو کر بیتاب سر گرمِ فغاں ہو کر      (۲۸۱)

نظم کے ساتھ ساتھ صادق کی غزل میں بھی خودی‘ خود د اری ‘ عزم و ہمت اور جدوجہد کی گونج سنائی دیتی ہے۔ صادق کہتے ہیں کہ مردِ مومن کو پروانے سے رازِ حیات سیکھنا چاہیے جو بے خوف اپنی جان قربان کر دیتا ہے۔ اسے دوسروں پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے بازوؤں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اسے راستے کی مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہیے ۔یہ مشکلات در حقیقت اسے منزلِ مقصود پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں:

تو مصائب میں کبھی حیراں و سرگرداں نہ ہو

 

بازوئے اغیار سے امداد کا خواہاں نہ ہو

 

کس لئے تجھ کو تہہ دستی ہے وجہ اضطراب

 

چاہیے بے مائیگی بھی موجب حرماں نہ ہو

 

دور سمجھے ہے جسے وہ ہے ترے نزدیک تر

 

بے سبب بے مہریِٔ معشوق سے نالاں نہ ہو

 

زندگی تجھ کو ملی کچھ کر دکھانے کے لیے

 

جنبش سیماب پیدا کر تنِ بیجاں نہ ہو

 

سیکھ لے پروانہِ جانباز سے رازِ حیات

 

شمع کی مانند صادقؔ رات بھر گریاں نہ ہو

(۲۸۲)

سخت مشکل میں بھی ہرگز نہ پریشاں ہونا

 

تم کو منظور ہے گر کام کا آساں ہونا

 

اے مسیحا! نہ مکرر مجھے زندہ کرنا

 

کم نہیں موت سے منت کشِ احساں ہونا

(۲۸۳)

کامیابی کی ہوا کرتی ہے ناکامی دلیل

 

رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے

 

تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب !

 

نہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

(۲۸۴)

صادقؔ اقبال کی طرح مسلمان قوم کو عمل کی تلقین کرتے ہیں اور خوابِ غفلت میں سوئی ہوئی امتِ مسلمہ کو بیدار ہونے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ان کی نظمیں اور غزلیں مسلمان قوم کے لیے پیغامِ عمل سے بھری پڑی ہیں۔

صادق امتِ مسلمہ کو ساکت و جامد حالت میں نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ وہ ان کی زندگی میں حرکت و عمل جیسی خوبی پسند کرتے ہیں:

صرفِ تعمیر عمل ہو ما حضر گر ہم نشیں

 

غیر ممکن ہے علاجِ تنگیٔ داماں نہ ہو

 

زنگِ ناکامی سے ہے تلوار بے جوہر تری

 

یا جلا ہو یا مصافِ دہر میں عریاں نہ ہو

 

زندگی اک کشمکش ہے جوش ہے ہنگامہ ہے

 

جلوہ آرائے جہاں ہو آنکھ سے پنہاں نہ ہو

 

مستعد ہو کر نئے گلشن کی پھر تعمیر کر

 

دہر میں جورِ خزاں کے ہاتھ سے نالاں نہ ہو

 

سر بسر جو عزم و ہمت ہو وہ دل حاصل نہیں

 

ورنہ دنیا میں حصولِ مدعا مشکل نہیں

(۲۸۵)

صادقؔ قومی اور ملی شاعر ہیں۔ وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک قوم تصور کرتے ہیں۔ وہ جغرافیائی لحاظ سے قوم کا تعین نہیں کرتے بلکہ اقبال کی طرح مذہب کی بنیاد پر قوم کا تعین کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے انہیں مسلمانوں کے تابناک ماضی اور تاریک حال کا موازنہ کرتے ہوئے انہیں جھنجھوڑنے اور متحرک کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انہیں محنت و مشقت کی اہمیت سے آگاہ کیا اور سستی و کاہلی دور کرنے کی ہدایت کی۔ انہیں وقت کی قدر کرنے کی آگاہی دی کیونکہ جو قومیں وقت کی قدر نہیں کرتیں ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ اپنی نظم ’’درسِ عمل‘‘ میں صادقؔ حالی کے اسلوب میں اس طرح فریاد کناں ہیں:

اٹھو خوابِ غفلت سے اے سونے والو

 

سنبھالو ذرا ہوش اپنے سنبھالو

 

پس و پیش اپنے ذرا دیکھ بھالو

 

ابھی وقت ہے اپنی بگڑی بنا لو

 

کہ ہے وقتِ فرصت گزر جانے والا

 

گزر کر یہ واپس نہیں آنے والا

 

یہ ہے قاعدہ رزمِ گاہِ جہاں کا

 

ٹھکانہ نہیں یاں کسی ناتواں کا

 

یہاں کام ہے تیغ و تیر و سناں کا

 

یہ میدان ہے بس کوششِ جاوداں کا

 

خدارا نہ ہو جاؤ یوں سست و کاہل

 

کہ گر کر سنبھلنا نہایت ہے مشکل

 

خبر ہے ہمیں بیش قیمت گہر تھے

 

ہمیں مایۂِ افتخارِ بشر تھے

 

ہمیں ہفت اقلیم میں جلوہ گر تھے

 

ہمیں صاحبِ ملک و اورنگ و زر تھے

 

ہماری غلامی میں علم و ہنر تھا

 

ہمارے ہی قبضے میں ہر دشت و در تھا

 

مگر اب تو ہے قابلِ رحم حالت

 

کہ وہ جاہ و حشمت نہ وہ علم و حکمت

 

;بزرگوں کا رستہ صد افسوس چھوڑا

 

نبیؐ کی شریعت سے منہ ہم نے موڑا

 

محبت مروت کے رشتے کو توڑا

 

;خدا سے رہے ہم نہ خلقت سے جوڑا

(۲۸۶)

مغربی استعمار جب اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے ذریعے سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے تواس سے خلافتِ عثمانیہ کاخاتمہ ہو جاتا ہے۔ مولانا ظفر علی خاں اور مولانا جوہر کی طرح صادقؔ بھی خلافت کو بچانے کے لیے میدانِ عمل میں آتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے امتِ مسلمہ میں شعور پیدا کرتے ہیں کہ انہیں خلافت کے استحکام کے لیے اپنی توانائیاں استعمال کرنی چاہیے:

نیم جاں ہے کس لئے حالِ خلافت دیکھ کر

 

ڈھونڈے کوئی دوا اس کو بچانے کے لیے

 

چین سے رہنے نہ دیان کو نہ خود آرام کر

 

فکر میں جو ہیں ’’خلافت‘‘ کو مٹانے کے لیے

 

استقامت سے اٹھا وہ نالہ آہ و فغاں

 

جو کہ کافی ہو درِ لنڈن ہلانے کے لیے

 

آتشِ نمرود گر بھڑکی تو کچھ پرواہ نہیں

 

وقت ہے شانِ براہیمیؑ دکھانے کے لیے

 

مانگنا کیسا؟ کہ تو خود مالک و مختار ہے

 

ہاتھ پھیلاتا ہے کیوں اپنے خزانے کے لیے

(۲۸۷)

¤صادق کی شاعری رجائیت اور امید کی شاعری ہے۔ ان کی غزل اور نظم میں کہیں بھی یاسیت کے عناصر نظر نہیں آتے۔ وہ اقبال کی طرح رجائی شاعر ہیں اور اپنے مستقبل کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

ہم نے دیکھا ہے خزاں کے بعد آتی ہے بہار

 

کلفتیں سب دور ہو جاتی ہیں گل بنتے ہیں خار

 

حد سے بڑھ جاتی جب گرمی شعاع مہر کی

 

تب زمینِ خشک لب پر ابر ہوتا ہے نثار

 

رکھ نشان قائم کہ ہو جائے گا پھر پیدا اثر

 

پھر بھڑک اٹھتی ہے آتش ہوں اگر باقی شرار

 

Jآیۂ لا تفنطو! ہاں آج پھر ڈھارس بندھا

 

امتِ پیغمبرؐ آخر زماں ہے بے قرار

(۲۸۸)

اخلاقیات عالمی شاعری کاایک اہم موضوع ہے۔ اچھا اخلاق قوموں کے عروج میں اہم کردار ادا کرتا ہے جب کہ بد اخلاقی قوموں کے زوال اور تباہی کا سبب بنتی ہے۔ صادقؔ بھی اپنی شاعری میں اخلاقیات کے موضوع کو اصلاحی فکر کے ساتھ پیش کرتے ہیں:

رفعتِ اخلاق لے جائے تجھے افلاک پر

 

خواہشاتِ نفس سے آلودہ گرداماں نہ ہو

(۲۸۹)

 

تاک میں گو ہے زلیخائے زمانہ کی ہوس

 

پاک دامن صفتِ یوسفِ کنعاں ہونا

 

ناتوانوں کی ضعیفوں کی دعائیں لینا

 

درد مندوں کے لیے درد کا درماں ہونا

 

مال و دولت ہو تو اسراف سے رہنا بچ کر

 

گنج پر بارِ صفت بھی نہ نگہباں ہونا

(۲۹۰)

 

آدمیت کا ہے جو ہر انکساری میں نہاں

 

دیکھ اے صادق! حقارت سے نہ مجھ کو دیکھنا

 

فرض اپنا جو کرے پورا وہی انسان ہے

 

نام کا ہے آدمی ورنہ حقیقت میں گدھا

 

مجھ سے بڑھ کر کس نے خدمت کو بنایا ہے شعار

 

راز سرداری کا کہتے ہیں اِسی میں ہے چھپا

(۲۹۱)

 

اچھی سیرت کی مجھے پروا ہے صورت ہو نہ ہو

 

کر نہیں سکتی مجھے مایوس شکل ظاہری

(۲۹۲)

صادق ؔباقاعدہ مفکر اور فلاسفر تو نہیں لیکن ان کی شاعری میں ان کے ذاتی تجربات اور فکر و فلسفہ کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ اقبال کے پیرو کار ہیں اور ان کے ہاں اقبال کی مفکرانہ اور فلسفیانہ سوچ کا رنگ بھی ملتا ہے۔ اقبال کی پیروی کے باوجود مظاہرفطرت اور دیگر موضوعات پر ان کا ذاتی فکر و فلسفہ بھی ان کے شعری کلام کو فکر انگیز بناتا ہے۔ زندگی اور موت کے حوالے سے ان کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

زندگی تری نہیں چرخِ کہن کی زندگی

 

ختم ہو جائے گی یہ رنج و محن کی زندگی

 

ہے بہار آئینہ دارِ آمدِ فضل خزاں

 

چشمِ عبرت دیکھ گل کی‘ چمن کی زندگی

 

جانِ شیریں کو بھی کر تکمیلِ مقصد کی نظر

 

ہم نشیں!پیشِ نظر رکھ کوہکن کی زندگی

(۲۹۳)

 

اے اجل! دریائے ہستی میں ہے طوفاں خیز تو

 

سب سے بڑھ کر ہے زمانے میں بلا انگیز تو

 

گلشنِ ہستی ہے تیرے ہاتھ سے وقفِ خزاں

 

چند دن کی میہماں ہے یہ بہارِ بوستاں

 

اک نئی دنیا کا تیرے واسطے پیغام ہوں

 

میں نویدِ صبح لاتی ہوں اگرچہ شام ہوں

(۲۹۴)

صادقؔ کی عملی زندگی سے عشق و محبت کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن روایت کی پاسداری کرتے ہوئے انہوں نے عشق و جنوں‘ محبوب کی بے اعتنائی‘ ناز و ادا‘ رشک‘ یادِ محبوب‘ محبوب کی شرم و حیا‘ محبوب کا ظلم و ستم‘ یاسیت اور رومانیت جیسے موضوعات روایتی شعراکے رنگ میں بیان کئے ہیں۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:

ہمیں جو کھینچ لے آتی ہے وہ تیری محبت ہے

 

وگرنہ صاف ظاہر ہے یہاں جو اپنی عزت ہے

 

تعجب ہے کہ کس منہ سے ستمگر تجھ کو ٹھہراؤں

 

کہ تو نہ مہرباں بھی ہو تو یہ بھی اک عنایت ہے

(۶۹۵)

 

دل کو تو پہلے روز ہی سے کر چکے نثار

 

باقی ہے نقد جاں‘ سو اسے بھی لٹائیں گے

 

سوزِ درونِ عشق کی شدت سے دیکھنا

 

گر آپ جل چکے تو انہیں بھی جلائیں گے

 

مقتل میں میرے شوقِ شہادت کو دیکھ کر

 

کہنے لگے وہ ہنس کے کہ پھر آزمائیں گے

 

شکوؤں کو کچھ ملا‘ نہ ملے گا کبھی جواب

 

ہم داستانِ درد کو کب تک سنائیں

 

جائیں بھی گر وہاں تو بھلا کیا سنائیں گے

 

دستک بھی در پہ دیں تو وہ باہر نہ آئیں گے

 

مل جائیں بھول کر بھی سرِ راہ گر کہیں

 

شرم و حیا سے آنکھ نہ ہم سے ملائیں گے

(۲۹۶)

 

وہ تو اک ناز نیا روز دکھا جاتے ہیں

 

خاک میں سوختہ ساماں کو ملا جاتے ہیں

(۲۹۷)

 

بولے غضب سے وہ تو مرا دل دہل گیا

 

کی رحم کی نظر تو ذرا جی بہل گیا

 

تیر نگاہِ یار اٹکتا تو خوب تھا

 

اک دم میں حیف! پار جگر سے نکل گیا

 

لیلی بغیر گھر بھی تو جنگل سے کم نہ تھا

 

کیوں آج قیس جانبِ صحرا نکل گیا

(۲۹۸)

عادت ہے انہیں ظلم کی ہم درد کے خوگر

 

وہ ان کی جفائیں ہیں تو یہ اپنی وفائیں

 

منظورِ نظر جب سے ہوا وہ ستم ایجاد

 

ہر روز نئی ملتی ہیں صادقؔ کو سزائیں

(۲۹۹)

 

چلے وہ بادلِ نا خواستہ محمل نشیں ہو کر

 

تو آنسو ہو گئے آنکھوں سے جاری سرمگیں ہو کر

 

لباس ماتمی پہنا ہے تو نے کس لئے جاناں؟

 

تو جانِ خرّمی ہے‘ جا رہا ہے کیوں حزیں ہو کر

 

غبارِ راہ کی قسمت ہوئی مجھ سے کہیں بہتر

 

وہ فورِ شوق سے جاتا ہے جو ان کے قریں ہو کر

(۳۰۰)

صادقؔ کشمیر میں پیدا ہوئے۔ بعد میں ہجرت کر کے سیالکوٹ آباد ہوئے۔ مادرِ وطن سے محبت فطری بات ہے۔ صادقؔ کشمیر سے سچی محبت کرتے ہیں۔ کشمیر میں گزری ہوئی خوشگوار یادیں انہیں نغمہ سرائی اور کشمیر کی وادیوں کی منظر نگاری پر اکساتی رہتی ہیں۔ ان کی شاعری کا کچھ حصہ کشمیریات پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے جنتِ نظیر وادیوں کی لفظی تصویر کشی اور منظر کشی کی ہے۔ اس حوالے سے ان کی نظم ’’یادِ کشمیر‘‘ کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

کشمیر خطہ تیرا بالاتراز جہاں ہے

 

باغِ ارم کا نقشہ کھینچا ہوا یہاں ہے

 

چاروں طرف کھینچی ہے دیوارِ کوہ تیرے

 

آبِ رواں کا نقشہ ہر اک طرف رواں ہے

 

سب خوبیاں وہاں کی ہیں یاد تجھ کو صادقؔ

 

عمرِ عزیز تیری بھی کچھ کٹی وہاں ہے

(۳۰۱)

صادقؔ کی شاعری میں پاکستانیت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ وہ ہندو قوم اور ان کی سیاسی جماعت کانگریس کے سخت مخالف تھے۔ وہ نظریاتی طور پر نہ صرف ہندوؤں بلکہ سکھوں اور انگریزوں سے بھی نفرت کرتے تھے کیونکہ سکھ اور انگریز بھی مسلمانوں کے سخت مخالف تھے۔ یہ سب مل کر مسلمانوں کو آزاد وطن پاکستان سے محروم کرنا چاہتے تھے۔ صادقؔ سچے اور کھرے پاکستانی مسلمان اور قائد اعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ کے بہادر کارکن تھے۔ وہ اپنی شاعری میں مولانا ظفر علی خاں کی طرح ہندوؤں اور انگریزوں کو للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس حوالے سے اُن کے ہاں مزاحمتی عناصر موجود ہیں:

دیکھتی ہے خواب ہندو راج ہی کے کانگریس

 

خاک میں اس کے ارادوں کو ملایا جائے گا

 

سنگدل انگریزبھی سن لے یہ گوشِ ہوش سے

 

راہ میں پتھر جو آئے گا ہٹایا جائے گا

 

باز آ جا اپنی ہٹ دھرمی سے اے بلدیو سنگھ

 

ورنہ لاشوں پر ہی پاکستان بنایا جائے گا

 

ظالموں باطل پرستوں کی اڑیں گی دھجیاں

 

نام ہر غدار کا یکسر مٹایا جائے گا

 

راہِ حق میں ہم لٹا دیں گے جو اپنے پاس ہے

 

اور ہر قیمت پہ پاکستان بنایا جائے گا

(۳۰۲)

Œجلیانوالہ باغ کے سانحے نے ہندی مسلمانوں کے دلوں میں انگریزی حکومت کے خلاف سخت نفرت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس خونی واقعہ نے مسلمانوں کو ہندوستان میں سیاسی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کاایک اہم موقع فراہم کیا۔مولانا ظفر علی خان کی طرح صادق بھی اس درد ناک حادثے کا ذکر اپنی شاعری میں کیا۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

اے مرے انگریز حاکم! ہوش میں ہو یا نہیں

 

فعلِ ڈائرؔ کو جو بتلاتے ہو ’’معمارانہ‘‘ ہے

 

گر یہی تعمیر ہے تو ہو مبارک آپ کو

 

بے نیاز اس سے مگر پنجاب کا کاشانہ ہے

 

آپ کی مرضی ہے اس کو عقل پہ مبنی کریں

 

میں سمجھتا ہوں کہ یہ اک فعل مجنونانہ ہے

 

صاف کہتا ہوں کہ یہ ہے بزدلی کا اک نشاں

 

آپ کے نزدیک گو اندازِ بے باکانہ ہے

 

ظلم کی ظالم سزا پا کے رہیں گے ایک دن

 

یہ نوائے بیکساں ہے آہِ مظلومانہ ہے

(۳۰۳)

 

۲۷۶۔ رخشہ نسیم،’’سیالکوٹ میں اردو شاعری‘‘ ،مقالہ برائے ایم۔ اے اردو،غیر مطبوعہ، لاہور،پنجاب یونیورسٹی، ۱۹۷۹ء، ص:۳۸

۲۷۷۔صادق حسین ، ’’برگ سیز‘‘،لاہور ،۱۹۷۷ء ص:۶۴

۲۷۸۔ ایضاً ، ص:۷

۲۷۹۔ ایضاً،ص: ۱۱، ۱۲

۲۸۰۔ ایضاً ،ص:۸

۲۸۱۔       ایضاً ،ص: ۲۱،۲۲

۲۸۲۔ ایضاً ، ص:۶۰

۲۸۳۔ ایضاً،ص:۶۲

۲۸۴۔ ایضاً ،ص:۶۴

۲۸۵۔ ایضاً،ص:۶۶، ۶۷

۲۸۶۔ ایضاً ،ص:۴۵، ۴۶،۴۷

۲۸۷۔ ایضاً،ص:۶۴، ۶۵

۲۸۸۔ ایضاً،ص:۶۸، ۶۵

۲۸۹۔ ایضاً،ص: ۶۲، ۶۳

۲۹۰۔ ایضاً،ص: ۶۰

۲۹۱۔         ایضاً ، ص:۴۴

۲۹۲۔ ایضاً، ص: ۴۱

۲۹۳۔ ایضاً ،ص: ۸۰

۲۹۴۔ ایضاً،ص: ۳۷

۲۹۵۔ ایضاً ،ص:۷۸

۲۹۶۔ ایضاً ، ص:۷۰، ۷۱

۲۰۷۔ ایضاً،ص: ۷۴

۲۹۸۔ ایضاً،ص:۷۵

۲۹۹۔ ایضاً،ص:۷۶

۳۰۰۔ ایضاً ،ص: ۷۶

۳۰۱۔       ایضاً ،ص: ۲۴

۳۰۲۔ ایضاً ،ص: ۱۶

۳۰۳۔ ایضاً ، ص: ۱۹

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...