Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

اے ڈی اظہر
ARI Id

1688382102443_56116086

Access

Open/Free Access

Pages

119

اے۔ ڈی اظہر(۱۹۰۰۔۱۹۷۴ء) کا اصل نام احمد دین ہے۔ لیکن اے۔ ڈی اظہر کے نام سے ادب کی دنیا میں شہرت پائی۔ آپ سیالکوٹ کے ایک چھوٹے گاؤں ڈگرخورد میں پیدا ہوئے۔ آپ اردو کے ممتاز شاعر ‘ ادیب اور ماہرِ لسانیات تھے۔ آپ ملٹری اکاؤنٹس میں اعلی سرکاری افسر‘ سفارتکار‘ وزیر اقتصادیات‘ رکن قومی ترانہ انتخاب کمیٹی اور ہائی کمشنر آسٹریلیاجیسے عہدوں پر فائز رہے۔ اظہر کے والد ڈی۔ جی پاکستان ٹیلی ویژن رہے۔ اظہر شروع میں شاعری سے زیادہ صرف و نحو میں دلچسپی رکھتے تھے۔ عربی‘ فارسی اور کلاسیکی ادب پر اظہر کی وسیع نظر تھی۔ آپ اردو زبان سے دلی محبت‘ فکری مسائل و تحقیقی مہمات سے گہرا شغف اور پنجاب کی زندگی اور روایات سے والہانہ عشق رکھتے تھے۔ (۳۰۴)

اظہر کے تین شعری مجموعے ’’لذتِ آوارگی‘‘ ’’گریۂ پنہاں‘‘ اور ’’احوال واقعی‘‘ شائع ہو چکے ہیں لیکن انہیں ’’لذتِ آوارگی‘‘ کی وجہ سے شہرتِ دوام ملی ۔حفیظ جالندھری اظہر کے ادبی استاد اور دوست تھے۔ وہ ’’لذتِ آوارگی‘‘ پر منظوم تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

دیدہ ور اظہر بزورِ بازوئے نظارگی

 

7ہے بغلگیرِ عروس لذتِ آوارگی

 

عمر کے اس مرحلے میں جلوہ ھائے رنگ رنگ

 

فکرِ اظہر سے نظر آنے لگے یکبارگی

 

لذتِ آوارگی اس کو نہیں ملتی حفیظ

 

جس کے ہاتھوں پر لکھی ہو بندگی بے چارگی

(۳۰۵)

اظہر کی تخلیقات کا دامن خود ان کے ظرف کی کشادہ اور ان کی زندگی کی طرح متنوع ہے۔ ان کی تخلیقات جدید و قدیم کا حسین امتزاج ہیں۔ اظہر نے اپنے کلام کو اپنی علمیت کے بوجھ سے گراں بار نہیں کیا بلکہ تغزل کو قائم رکھا ہے۔ اپنے شگفتہ اور دل کش اسلوب کی وجہ سے موضوع کیسا ہی کیوں نہ ہو اسے سادہ اور آسان بنا دیتے ہیں:

آج کی رات تو جی بھر کے ملو

 

پھر تو ہم یاد نہ آئیں گے تمہیں

 

کیسے گزرے گی‘ تمہیں کیا معلوم؟

 

;پاس جب اپنے نہ پائیں گے تمہیں

 

1کبھی فرصت جو ملے‘ آ جانا

 

1قصۂ درد سنائیں گے تمہیں

 

>کاش! وہ بھی تو کہیں مجھ سے کبھی

 

;روٹھ جاؤ‘ تو منائیں گے تمہیں

(۳۰۶)

 

ہم کلام ایک زمانے سے میں گو ہو نہ سکا

 

پھر بھی امید سی قائم ترے پیغام سے ہے

 

حسن جس روپ میں ہو‘ دامنِ دل میں بھرلوں

 

مجھ کو اتنا ہی تعلق سحر و شام سے ہے

 

بن کے بیگانہ تمہیں اپنا بنانے کے لیے

 

ہاں‘ میں روٹھا تھا‘ مگر تم کو منانے کے لیے

 

میری دوری در حقیقت تھی حضوری کی طلب

 

کھو گیا تھا منزلِ مقصود پانے کے لیے

 

پھر امنڈتی آ رہی ہیں قلب کی گہرائیاں

 

مستیِ احساسِ غم میں ڈوب جانے کے لیے

(۳۰۷)

;اظہر کے تغزل میں شگفتگی‘ موسیقی‘ محبت‘ مسرت اور لذت کا احساس ہوتا ہے۔ سید ضمیر جعفری اپنے تنقیدی مضمون ’’جمال شخص‘‘ میں اظہر کے تغزل کے بارے میں رقمطراز ہیں:

ان کے تغزل میں بعض دوسرے سائے بھی کہیں کہیں جھلک اٹھتے ہیں‘ مگر میں سمجھتا ہوں کہ تاثر میں گندھی ہوئی ایک دل آویز شگفتگی اور موسیقی میں بہتی ہوئی ایک جاں نواز لذت وہ بنیادی عناصر ہیں‘ جن سے اظہر کے تغزل کا مزاج ترکیب پاتا ہے۔ ایک جملے میں یوں کہنا چاہیے کہ اظہر کے لیے اس نے میٹھے چشموں کا وہ راستہ بھی دریافت کیا ہے جو عشق کی ملامت و رسوائی کے روشن مرحلوں میں حسرت موہانی کی نشتریت سے جا ملتا ہے۔ (۳۰۸)

اظہر کے ہاں غزل‘ نظم‘ قطعہ‘ رباعی سے لے کر نظم آزاد تک ہر صنفِ سخن موجود ہے اور جملہ اصنافِ سخن میں ان کی طباعی اور قدرت کا بنیادی جوہر نمایاں نظر آتا ہے۔ فن اور اسلوب کے معاملے میں ان کا شعور سراسر کلاسیکی ہے۔ وہ فن کی ’’عصمت‘‘ اور روایت کی ’’طہارت‘‘ کے سختی سے پابند ہیں:

تو جو نہیں‘ تو زندگی موت ہے ‘ زندگی کہاں!

 

Rموت بھی ایک بات ہے‘ اصل میں موت بھی کہاں!

 

اک تری بے رخی سے‘ دوست‘ کتنے چراغ بجھ گئے

 

Zپھول میں رنگ و بو کہاں‘ چاند میں چاندنی کہاں!

 

دل میں تمہارے ہیں بہم سارے جہاں کے دردوغم

 

\اس میں اگر نہیں ‘ تو ہم‘ ہم میں وہ دلکشی کہاں!

 

مالکِ حشر سے کیا سالکِ عشق نے گلا

 

غم کی سزا تو مل گئی‘ غم کی جزا گئی کہاں؟

 

حسن کی ساکھ عارض و زلف ہی سے یہاں نہیں

 

لاکھ حسیں جہاں میں ہوں‘ تیری سے دلبری کہاں

 

منزلِ یار سامنے آ بھی گئی‘ تو پاس سے

 

پاس نے کان میں کہا: منزلِ یار ابھی کہاں

 

تم نے تو جیسے عمر ہی ہجر کی شب میں ڈھال دی

 

Pمیری کبھی سنی کہاں‘ اپنی کبھی کہی کہاں !

(۳۰۹)

jروایتی رنگ میں ایک مسلسل غزل کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

میرے جی کو لبھا گئی ہے تو

 

5میری ہستی پہ چھا گئی ہے تو

 

5ہے رگوں میں شراب‘ خون نہیں

 

5جب سے دل میں سما گئی ہے تو

 

/دیر کی خُفتہ آرزوؤں کو

 

/دفعۃً پھر جگا گئی ہے تو

 

/زندگی کی سحر ہوئی بیدار

 

-جس طرف مسکرا گئی ہے تو

 

1خانۂ دل میں روشنی سی ہے

 

9جب سے اس گھر میں آ گئی ہے تو

 

9جان و دل جل رہے ہیں شمع صفت

 

+آگ ایسی لگا گئی ہے تو

(۳۱۰)

حسن پرستی اور حسن و عشق اردو کلاسیکی اور روایتی شاعری کا ایک ہم موضوع رہا ہے۔ حسن و عشق کے حوالے سے اظہر کی شاعری صرف روایتی ہی نہیں بلکہ ان کی زندگی اور ان کی شخصیت کے رنگ اوررس سے لبریزہے۔ اظہر کی غزل اور نظم میں مذکورہ بالا موضوعات پر متعدد اشعار دیکھے جا سکتے ہیں:

حسن جس روپ میں ہو‘ دامنِ دل میں بھر لوں

 

مجھ کو اتنا ہی تعلق سحر و شام سے ہے

 

ہے محبت بھی عجب کھیل کہ اس بازی میں

 

لطف سے ہے کبھی لذت‘ کبھی دشنام سے ہے

 

راہِ الفت میں اک ایسا بھی مقام آتا ہے

 

کہ جہاں کام نہ آغاز‘ نہ انجام سے ہے

 

میں رہِ عشق میں پہنچا ہوں وہاں اب کہ جہاں

 

حاجتِ راز خود اپنے دلِ ناکام سے ہے

(۳۱۱)

 

ایک بجلی نظر میں کوند گئی

 

7ان کو دیکھا‘ مگر نہیں دیکھا

 

7ان کے جوبن کو دیکھ لے جس نے

 

/سرو کو بارور نہیں دیکھا

(۳۱۲)

 

میں اپنے دعویٔ الفت سے آج باز آیا

 

گزر گئی ہے‘ مگر شرمسار گزری ہے

(۳۱۳)

داستانِ دوست ہے ہر آن میرے رو برو

 

آنِ الفت پر بھی ہے یہ آنِ الفت کا مزاج

درمیانِ بزم انہیں کی گفتگو رکھتا ہوں میں

 

پھر دیارِ یار میں جانے کو ہوں میں بے قرار

پھر رگوں میں گرم الفت کا لہو رکھتا ہوں میں (۳۱۴)

یہ حسابِ عشق کی بات ہے‘ نہیں ناپنے کے یہ فاصلے

 

کبھی پاس رہ کے ہے دور تو‘ کبھی دور رہ کے قریب ہے

(۳۱۵)

 

تم حسن میں لا ثانی ہو‘ تو کیا سب ہیچ ہے‘ جب تک عشق نہیں

 

جس حسن کی شان دکھاتے ہو اس حسن کی آن تو ہم سے ہے

 

 (۳۱۶)

 

کوئی راگ جیسے دھڑک اٹھے‘ کوئی آگ جیسے بھڑک اٹھے

 

یہ ترے خیال کی نغمگی‘ یہ ترے جمال کی چاندنی

 

یہ ہیں عشق ہی کی کرامتیں کہ سہی ہیں میں نے ملامتیں

 

_ہیں عجیب شے یہ ندامتیں کہ انہیں سے ہے مری زندگی

(۳۱۷)

ماضی انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے جسے انسانی زندگی سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اظہر کی شاعری میں بھی ماضی کی یادوں کا ذکر خوبصورت انداز میں ملتا ہے۔ محبوب کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات ان کے دل و دماغ میں جگہ بنا چکے ہیں۔ وہ ان لمحات کو کسی صورت بھی بھلا نہیں سکتے۔ اظہر کو ان کا ماضی حسین نظر آتا ہے۔ انہیں جب بھی غمِ زمانہ سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو وہ اپنے محبوب کی یاد کے ذریعے غم سے نجات حاصل کر لیتے ہیں:

تری یاد اک نشہ تو ہے ‘ مجھے اسے کچھ تو قرار ہے

 

ترے ذکر سے مری زندگی کے چمن میں کچھ تو بہار ہے

(۳۱۸)

 

مرا ماضی نظر آیا مجھے حالِ حسیں ہو کر

 

جو ان کے ساتھ دیکھے تھے‘ وہ منظر یاد آتے ہیں

 

میں گلچیں تھا بہارِ زندگی کے گلستانوں کا

 

جو دن پھولوں میں بیتے تھے‘ وہ اکثر یاد آتے ہیں

 

بس اب رہنے دے‘ سب بے نیازی دیکھ لی تیری

 

تجھے تو اب وہ ہر مظہر میں‘ اظہرؔ یاد آتے ہیں

 

ہمیں دعویٰ تھا ‘ دیکھیں گے‘ وہ کیونکر یاد آتے ہیں

 

رگِ جاں بن گئے ہیں‘ اب فزوں تر یاد آتے ہیں

(۳۱۹)

Œاظہرؔ حفیظ جالندھری کے شاگرد اور دوست تھے۔ اور یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اظہرؔ کی شاعری حفیظ کے زیرِ سایہ نہ ہوتی۔ اظہر ؔکی شاعری پر حفیظ کے رومانی اثرات ان کی غزلوں اور رومانی نظموں میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ اظہرؔ باقاعدہ رومانویت کے نمائندے تو نہیں تھے لیکن ان کی شاعری کا کافی حصہ رومانیت اور کیف و سرور و مستی سے لبریز ہے:

تری نگاہ میں بھی تو ہیں چاہ کے آثار

 

نظر نظر سے ملا کر ذرا جواب تو دے

 

غمِ زمانہ نہ بڑھ جائے حد سے اے ساقی

 

ذرا مجھے میرا پیمانۂ شراب تو دے

(۳۲۰)

 

نشہ اترا‘ مگر اب بھی تمہاری مست آنکھوں سے

 

پیے تھے جو مئے الفت کے ساغر‘ یاد آتے ہیں

(۳۲۱)

 

میری مستی عام میخانوں کی مستی سے الگ

 

ایک دنیا سے جدا جام و سبو رکھتا ہوں میں

 

کن فضاؤں میں ہوں اظہر‘ آج میں کھویا ہوا

 

وہ ستارے کیا ہیں‘ جن کی جستجو رکھتا ہوں میں

 

ان کی زلفوں کی مہک پھر آج لے آئی نسیم

 

آج پھر دل میں ہجومِ آرزو رکھتا ہوں میں

 

زندگی کیا ہے؟ بس اک عکسِ جمال روئے دوست

 

بس یہی آئینہ ہر دم روبرو رکھتا ہوں میں

(۳۲۲)

 

ترے تبسم رنگیں سے تھی بہار مری

 

تری ہی پریت کے میں گیت گایا کرتا تھا

 

ترے ہی حسن سے دنیا حسین تھی میری

 

تری ہی دید کی عیدیں منایا کرتا تھا

 

ترے جمال کی دولت سے شاد کام تھا دل

 

ترے خیال کی دنیا بسایا کرتا تھا

(۳۲۳)

¼اظہر نے بیورو کریٹ کے طور پر خوشگوار زندگی گزاری۔ ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا جن سے ان کے بڑے گہرے مراسم تھے۔ زندگی میں وہ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز رہے اور ساری دنیا کی سیر و سیاحت کی۔ ناکامی نام کی چیز ان کی زندگی کے صفحات میں کہیں نظر نہیں آتی۔ شاید خوشحالی کی وجہ سے ہی ان کی شاعری رجائیت پر مبنی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں کہیں بھی نا امید اور مایوس نظر نہیں آتے بلکہ امید اور مضبوط عزم زندگی سے لڑنے کے لیے ان کے پاس ہتھیار ہیں جو برے حالات میں بھی انہیں حوصلہ دیتے ہیں:

اس انتظار میں ہمیں بیتی تمام عمر

 

اک دن تو آ ہی جائیں گے دن دیدِ یار کے

(۳۲۴)

دل جراحت کیش ہے اور مجھ کو راحت کی تلاش

 

وادیٔ غم میں خوشی کی جستجو رکھتا ہوں میں

(۳۲۵)

ہم کلام ایک زمانے سے گو ہو نہ سکا

 

پھر بھی امید سی قائم ترے پیغام سے ہے

(۳۲۶)

مری زندگی کی بساط تو‘ شبِ تار غم میں نشاط تو

 

تو نہیں‘ تو یاد سہی تری‘ کوئی روشنی تو قریب ہے

(۳۲۷)

,اظہرؔ روایتی شاعری کے مقلد تھے۔ روایت کی تقلید میں انہوں نے جہاں رجائیت پر مبنی اشعار کہے ہیں وہاں کہیں کہیں یاسیت کے عناصرکی جھلک بھی ان کی شاعری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ حقیقت میں ان کی زندگی میں یاس و نا امیدی نظر نہیں آتی۔ صرف روایتی رسم نبھانے کے لیے اس رنگ میں کچھ اشعار کہے:

مرا دل جو یاس سے بھر گیا‘ تو میں دل کی حد سے گزر گیا

 

_وہی دل جو تھا کبھی راز داں‘ وہی آج میرا رقیب ہے

(۳۲۸)

جہاں میں آج اندھیرا ہے‘ مہر و ماہ سے بھی

 

مرے دیار میں جب‘ مہرِ یار‘ تو نہ رہی

(۳۲۹)

منزلِ یار سامنے آ بھی گئی‘ تو پاس سے

 

یاس نے کان میں کہا:منزلِ یار ابھی کہاں!

(۳۳۰)

Âروایت کی پاسداری میں اظہر ؔنے اپنی شاعری میں محبوب کا سراپا بھی پیش کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

صبحِ رخ عذرا دیکھی ہے‘ شامِ سرِ لیلیٰ دیکھی ہے

 

دنیائے حسین و دلکش میں اک حسن کی دنیا دیکھی ہے

 

یہ حسن و شباب‘ یہ ناز و ادا‘ یہ سادگی اور یہ پرکاری

 

شانِ محبوب کی گویا اک بزمِ دل آرا دیکھی ہے

 

سینے کا ابھر‘ کمر کی لچک‘ وہ جسم ہے جان تناسب کا

 

سچ مچ کی قیامت اس قد سے‘ ان آنکھوں نے برپا دیکھی ہے

(۳۳۱)

œاظہر ؔکلاسیکیت اور روایتی شاعری کے اس قدر معتقد تھے کہ وہ جدید اور نئی شاعری کو نا پسند کرتے تھے۔ اظہرؔ نظریاتی طور پر بے بحر اور بے قافیہ شاعری کے ساتھ ساتھ ترقی پسندوں کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ وہ اپنی نظم ’’نئی شاعری‘‘ میں نئی شاعری کے پیرو کاروں اور ترقی پسند تحریک کے معتقدوں کو حرفِ تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں:

کل اک بزمِ شعرو سخن میں بہم تھے کچھ ایسے بھی اﷲ کے نیک بندے

 

rجو حیرت سے کہتے تھے اک دوسرے سے:یہ کیا کہہ رہے ترقی پسندے

 

نہیں ان کے شعروں میں شیرینیاں کیوں؟ نہیں دل میں کیوں بات ان کی اترتی

 

ہے کیوں ان کو پاکیزہ معنوں سے نفرت؟ یہ کیوں باندھتے ہیں مضامین گندے

 

ƒوہ بنتے تو ہیں عامیوں ہی کے حامی‘ مگر عامیوں سے ہیں کیوں دور اتنے

 

یہ بے بحر‘ بے قافیہ‘ شعران کے‘ یہ ان کی نئی شاعری کے پلندے

 

~کہا میں نے:مجھ سے سنو‘ دوستو‘ کیوں گھلاوٹ نہیں ان کی کاریگری میں

 

{اتر آئے ہیں یہ ہتھوڑے درانتی پہ‘ رکھ کر کہیں طاق پر اپنے رندے

(۳۳۲)

hاظہرؔ قومی و ملی شاعر ہیں۔ انہیں مسلمان قوم کی تنزلی و بد حالی کا گہرا احساس ہے۔ وہ اپنی قوم میں حالی کی طرح فکر و عمل کی تحریک پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں وطن کے ذرے ذرے سے محبت ہے اور مسلمان ہیروز سے دلی طور پر عقیدت ہے۔ وہ اپنی شاعری میں مسلمانوں کو ان کی تنزلی کا سبببتاتے ہیں اور اس نجات کا درس دیتے ہیں:

وہ بطلِ حریت سلطان سراج الدولہ‘ غازی

 

غلامی سے جسے نفرت تھی آزادی سے دمسازی

 

سکھائی جس نے بنگالی مسلمانوں کو شہبازی

 

وہ شیرِ حریت ان ہی ینستانوں سے اٹھا تھا

 

وہ احمدؒ اور اسماعیلؒ کی تحریک آزادی

 

تھی جس کے دم قدم سے ملتِ بیضا کی آبادی

 

صدا سے جس کی گونج اٹھی تھی بالا کوٹ کی وادی

 

صدا‘ جس نے فضا تکبیر کے نعروں سے لرزا دی

 

جہادِ فی سبیل اﷲ کا سودا لیے سر میں

 

اسی بنگال سے جاتے تھے غازی اس کے لشکر میں

(۳۳۳)

مسلمان ہیروز کی بہادری اور شجاعت بیان کرنے کے بعد اظہرؔ مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا سبب اور اس سے نجات کا طریقہ یوں پیش کرتے ہیں:

مسلمانوں کے اس ادبار کا مجھ سے سب سن لو

 

فلک نے ان نہتوں پر جو ڈھائے ہیں غضب سن لو

 

جو تھے اعدائے دیں ان کے ذرا نام و نسب سن لو

 

تفکر گر نہیں تم نے کیا پہلے‘ تو اب سن لو

 

نہ تھا ادبار یہ‘ غاصب کا حق سے بیر تھا گویا

 

فدایانِ حرم سے انتقام دیر تھا گویا

 

جو حاکم تھے انہیں محکوم بن جانا پڑا آخر

 

تمدن غیر کا بالجبر اپنانا پڑا آخر

 

مسلماں نے جہاں بھی اس جہاں میں گھر بنایا ہے

 

تمدن اور زباں کا اک نیا سکہ چلایا ہے

 

بتاؤ تو کہاں دنیا میں ہم نے مانگ کھایا ہے

 

کہاں اغیار کا ہم کو تمدن راس آیا ہے

 

اٹھو‘ اپنے میں پھر خود داری ساحل کرو پیدا

 

اٹھو‘ خاکسترِ جاں سے شرارِ دل کرو پیدا

 

تمہارے قلب پر دشمن نے جو شب خون مارا ہے

 

تمہارے واسطے اس میں بہت عریاں اشارا ہے

 

بہانے سے تمہیں قدرت نے غیرت پر ابھارا ہے

 

یہ موقع ہاتھ سے جانے نہ دو‘ گر تم میں یاراہے

 

یہ پیغاماتِ غیبی روز روز آیا نہیں کرتے

 

بصیرت مند دشواری سے گھبرایا نہیں کرتے

(۳۳۴)

-تاریخِ ادب میں بہت کم لوگ گزرے ہیں جو سنجیدہ شاعری کے پہلو بہ پہلو ظریفانہ شاعری میں بڑی سنجیدگی سے کرتے ہوں۔ اظہر ؔکو یہ امتیاز بھی حاصل ہے۔ غزل ان کی شاعری کا ایک اہم اور قابلِ توجہ رخ ہے‘ لیکن فکاہی شاعری جس میں وہ اپنی طرزِ خاص کے خالق ہیں ان کی جولانیٔ طبع کا اصل میدان ہے۔

ضمیر ؔجعفری اظہرؔ کی ظریفانہ شاعری کے حوالے سے رقمطراز ہیں:

ایک امنڈتی ہوئی شوخی‘ ایک بے ساختہ شگفتگی اور لطیف و بلیغ نکتہ آفرینی ان کے ظریفانہ کلام کے چند خاص اوصاف ہیں۔ ان کی ظرافت کا تانا بانا خاصا وسیع ہے کہ وہ لفظ و خیال دونوں کے بطن سے کوئی نہ کوئی دلچسپ و نادر زاویہ پیدا کر لینے میں کمال رکھتے ہیں۔ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات سے خود بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی مسرت میں شامل کرلیتے ہیں۔ پھر جس مزے سے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے مسئلوں کا قلب روشن کرتے ہیں وہ کچھ انہیں کا شیوہ ہے۔ ان کے طنز کی کاٹ تیز ہوتی ہے‘ تلخ نہیں ہوتی۔ (۳۳۵)

اظہرؔ کی ظریفانہ شاعری خود اظہرؔ کی شخصیت ہے۔ ہنس مکھ‘ سدا بہار‘ ہنس مذاق‘ ٹھٹھہ‘ قہقہ…… لطیفوں میں بصیرتیں اور بصیرتوں میں لطیفے…… زندگی کی روشنیوں اور مسرتوں کا آبشار…… اظہرؔ کا یہ رنگِ دل پذیر اپنی لطافت و افادیت کی وجہ سے ملک گیر وسیع مقبولیت رکھتا ہے۔ ظریفانہ و مزاحیہ شاعری کے حوالے سے اظہر کی شاعری سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

قدرتِ ایجاد ادھر ہے‘ کثرتِ اولاد ادھر

 

ہم نے یورپ سے حساب اپنا برابر کر دیا

 

دین ہو‘ اولاد ہو‘ ہم ہیں دھنی تعداد کے

 

اس کو درجن کر دیا‘ اس کو بہتر کر دیا

 

آدم و حوا نے رضواں سے لیا یوں انتقام

 

کم کیا گندم کو اور مردم کو وافر کر دیا

(۳۳۶)

 

کراچی میں کمر باندھے ہوئے سب یار بیٹھے ہیں

 

جو بیاہے جا چکے اک بار‘ پھر تیار بیٹھے ہیں

 

جسے دیکھو‘ وہی ہے دوسری بیوی کے چکر میں

 

غنیمت ہے‘ موجد جو جہاں دو چار بیٹھے ہیں

 

نہ چھیڑ‘ اے شیخ‘ ہم یونہی بھلے‘ چل راہ لگ اپنی

 

تجھے تو بیویاں سوجھی ہیں‘ ہم بیزار بیٹھے ہیں

 

نہ کر لیں چار جب تک شیخ جی‘ کیوں دم لگے لینے

 

وہ دو کر کے بھی کہتے ہیں کہ ہم بیکار بیٹھے ہیں

(۳۳۷)

 

کراچی اور کرائے میں رشتہ داری ہے

 

کہ ساتھ ساتھ کراچی کرائے جاتے ہیں

 

وہ مسجدوں کو تو تھا ہی شرف‘ مگر اب تو

 

مشاعروں میں جوتے چرائے جاتے ہیں

(۳۳۸)

۳۰۴۔ضمیر جعفری(مقدمہ) ، لذتِ آوارگی‘‘ از اے۔ ڈی اظہر، لاہور، مکتبۂ جدید،ا۱۹۶ء

۳۰۵۔ حفیظ جالندھری(تبصرہ) ،’’لذتِ آوارگی ‘‘ از اے۔ ڈی اظہر، لاہور،مکتبۂ جدید، ۱۹۶۱ء

۳۰۶۔ اے۔ ڈی اظہر، ’’لذتِ آوارگی‘‘، لاہور، مکتبۂ جدید، ۱۹۶۱ء ص:۴۵

۳۰۷۔ ایضاً ، ص: ۲۹

۳۰۸۔ ضمیر جعفری، ’’جمال شخص‘‘،مشمولہ ’’لذتِ آوارگی‘‘ از اے ۔ ڈی اظہر

۳۰۹۔اے۔ ڈی اظہر، ’’لذتِ آوارگی‘‘ ، ص: ۴۳

۳۱۰۔ ایضاً ،ص: ۴۸

۳۱۱۔        ایضاً ،ص:۴۹، ۵۰

۳۱۲۔ ایضاً ،ص:۶۱

۳۱۳۔ ایضاً ،ص:۶۵

۳۱۴۔ ایضاً ،ص:۷۰، ۷۱

۳۱۵۔ ایضاً ،ص: ۷۲

۳۱۶۔ ایضاً ، ص: ۷۳

۳۱۷۔ایضاً،ص:۵۱

۳۱۸۔ ایضاً،ص: ۴۷

۳۱۹۔ ایضاً،ص:۶۸

۳۲۰۔ ایضاً ،ص:۶۰

۳۲۱۔ ایضاً ،ص:۶۸

۳۲۲۔ایضاً،ص:۷۰۔ ۷۱

۳۲۳۔ ایضاً،ص:۸۰

۳۲۴۔ ایضاً، ص:۶۲

۳۲۵۔ ایضاً، ص:۷۰

۳۲۶۔ ایضاً،ص:۴۹

۳۲۷۔ ایضاً،ص: ۷۲

۳۲۸۔ ایضاً، ص:۷۲

۳۲۹۔ ایضاً ،ص: ۵۸

۳۳۰۔ایضاً ،ص: ۴۳

۳۳۱۔ ایضاً ،ص: ۸۷

۳۳۲۔ایضاً ،ص: ۱۶۶

۳۳۳۔ ایضاً ،ص: ۹۴، ۹۵

۳۳۴۔ ایضاً، ص: ۹۵،۹۶،۹۷

۳۳۵۔ ضمیر جعفری ،’’جمال شخص‘‘، ص:۳۱

۳۳۶۔ اے۔ ڈی اظہر، ’’لذتِ آوارگی‘‘، ص:۲۱۲

۳۳۷۔ ایضاً،ص: ۱۷۹

۳۳۸۔ ایضاً، ص:۱۹۷

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...