1688382102443_56116087
Open/Free Access
125
عارف میرٹھی (۱۹۰۰۔۱۹۷۵) کا اصل نام سید محمد عسکری حسن تھا۔ آپ میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا زیادہ تر حصہ سیالکوٹ میں گزارا۔ نور میرٹھی سے اصلاح لیتے تھے۔ ہر صنفِ سخن میں مہارت رکھتے تھے لیکن رباعی اور غزل زیادہ کہتے تھے۔ ۱۹۲۳ء میں میرٹھ کے مشاعرے میں بہترین شاعر قرار پائے۔ اس مشاعرے سے اشعر الشعرا کا خطاب اور طلائی تمغہ ملا۔ آپ کو صنفِ تاریخ گوئی میں کمال حاصل تھا۔ آپ نے سیالکوٹ‘ ڈسکہ اور گوجرانوالہ میں اپنے تلامذہ کی ادبی تربیت بھی کی۔ قومی سطح کے مشہور شاعر اکبر حمیدی‘ ناصر نقوی‘ فیض محمد گوہر‘ پروفیسر صادق علی اور ممتاز دانشور سید غلام عباس کو آپ سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔(۳۳۹)
عارف میرٹھی کی شاعری میں کوئی جدت نہیں بلکہ روایتی رنگ کی شاعری ہے۔ عشق و جنون‘ عشقِ حقیقی اور تقدیر عارف کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:
جوہرِ برق تپاں کو کیا کہیے
-قسمت آشیاں کو کیا کہیے
5مانگتا ہوں بلائیں گردوں سے
1حسرتِ امتحان کو کیا کہیے
+لٹ گیا باغِ آرزو اپنا
/دستبرد خزاں کو کیا کہیے
1تھی یہ قسمت ہی آشیانے کی
+ستم آسماں کو کیا کہیے
(۳۴۰)
بے خودی میں کر رہا تھا دوسرے عالم کی سیر
پھبتیاں کستی تھی دنیا مجھ کو غافل دیکھ کر
جوش وحشت میں جنوں کی جب کوئی حد ہی نہیں
اہلِ دل گھبرائیں پھر کیوں بُعد منزل دیکھ کر
(۳۴۱)
ان کی نظریں دیکھ کر ان کی طرف دل ہو گیا
خود مرے پہلو میں پیدا میرا قاتل ہو گیا
بے کسی میں کون ہوتا ہے کسی کا غم گسار
خود میرے قابو سے باہر اب میرا دل ہو گیا
(۳۴۲)
نورِ عرفاں جو میرے چشم کو بینا کر دے
ذرہ ذرہ سے عیاں طور کا جلوہ کر دے
تو اگر چشمِ عنایت کا اشارہ کر دے
کاہ کو کوہ کرے‘ قطرہ کو دریا کر دے
9کششِ عشق جو جذبات مہیا کر دے
قوتِ ضبط کو منصور کا دعویٰ کر دے
(۳۴۳)
۳۳۹۔ پروفیسر مضخر عالم، ’’عارف میرٹھی‘‘ مشمولہ، ’’الابصار‘‘، ۲۰۰۳ء، ڈسکہ،گورنمنٹ ڈگری کالج، ص:۲۸۶،۲۸۷
۳۴۰۔ ’’الابصار‘‘ خصوصی اشاعت دوم،گورنمنٹ ڈگری کالج،ڈسکہ، ۲۰۰۳ء ص:۲۸۷
۳۴۱۔ ایضاً،ص:۲۸۸
۳۴۲۔ایضاً ، ص:۲۸۹
۳۴۳۔ ایضاً، ص:۲۹۱
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |