Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

اثر صہبائی
ARI Id

1688382102443_56116090

Access

Open/Free Access

Pages

127

اثرؔ صہبائی (۱۹۰۱۔۱۹۶۱ء) کا اصل نام خواجہ عبد السمیع پال تھا۔ اثر ؔسیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ اثرؔ کے بزرگوں نے کشمیر سے ہجرت کی تھی اور سیالکوٹ میں آباد ہوئے تھے۔ آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔ اے فلسفہ اور ایل ایل بی کیا۔ ۱۹۳۱ء میں ان کی رفیقہ حیات ان سے جدا ہو گئیں تو افسردگی ‘ تاریکی اور مایوسی کے بادل ان کی زندگی پر چھا گئے۔ ۱۹۳۴ء میں آپ اس غم و اندوہ کی یورش سے گھبرا کر سری نگر کشمیر چلے گئے۔ کشمیر میں ان دنوں ادبی مجلسیں اور ادبی نشستیں ہو رہی تھیں جن میں ڈاکٹر عبد الحکیم‘ نواب جعفر خان اثر لکھنوی‘ ڈاکٹر تاثیر اور پنڈت برج موہن دتاتر یہ کیفی دہلوی جیسے شعراء و ادبا شرکت کرتے تھے۔ اثر ان ادبی محفلوں کے روح رواں ہوتے تھے۔ آپ نے کشمیر ہائی کورٹ میں قائد اعظم کے ساتھ جونیئر وکیل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ قائد اعظم نے مقدمہ جیتنے کے بعد صہبائی کی محنت کو سراہا۔ (۳۵۰)

اثرؔ صہبائی کی پہلی تصنیف ’’جامِ صہبائی‘‘ ہے۔ قطعات و رباعیات پر مشتمل یہ شعری مجموعہ ۱۹۲۸ء میں دارالتالیف بیڈن روڈ لاہور سے طبع ہوا۔

’’خمستان‘ اثر کا دوسرا مجموعہ کلام ہے جو غزلوں‘ نظموں‘ قطعات و رباعیات اور متفرق اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۳۳ء میں آزاد بک ڈپو سیالکوٹ سے شائع ہوا۔ اثر ؔکا تیسرا شعری مجموعہ ’’جامِ طہور‘‘ ۱۹۳۷ء کو تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور نے طبع کیا۔ اس مجموعے میں رباعیات اور قطعات ہیں۔ ’’راحت کدہ‘‘ اثر ؔکا چوتھا شعری مجموعہ ہے جو ۱۹۴۲ء میں تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور کے زیر اہتمام طبع ہو کر شائع ہوا۔’’ راحت کدہ ‘‘حضرت اثر صہبائی کے اس کلام پر مشتمل ہے جو انہوں نے اپنی جواں مرگ رفیقہ حیات راحت کی موت سے متاثر ہو کر مختلف اوقات میں لکھا۔ اس میں غزلیں‘ نظمیں اور قطعات ہیں جو اس غم کی چھاؤں میں لکھے گئے۔ پانچواں شعری کلام ’’روحِ صہبائی‘‘ ۱۹۴۵ء میں تاج کمپنی لمیٹڈ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ یہ رباعیات اور قطعات کا مجموعہ ہے۔ اثرؔ کا چھٹا شعری مجموعہ ’’بامِ رفعت‘‘ ۱۹۴۵ء میں اکادمی پنجاب ادبی دنیا منزل لاہور نے شائع کیا۔ یہ جون ۱۹۳۳ء سے دسمبر ۱۹۳۷ء تک کے کلام کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں رباعیات‘ غزلیات اور نظمیں ہیں۔ ’’نورو نکہت‘‘ اثر کا ساتواں شعری مجموعہ ہے جو ۱۹۶۰ء میں جاوید پریس کراچی نے شائع کیا۔

آٹھواں شعری مجموعہ ’’محبت کے پھول‘‘ جنوری ۱۹۶۳ء میں نوائے وقت پرنٹرز لمیٹیڈ لاہور نے شائع کیا۔ نواں شعری مجموعہ ’’بحضور سرور کائناتؐ‘‘ نعتوں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ کتب خانہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے زیرِ اہتمام طبع ہوا۔

اثرؔ صہبائی برصغیر کے صفِ اول کے شعرامیں سے تھے۔ علامہ سلیمان ندوی‘ پنڈٹ برجموہن دتاتریہ کیفی دہلوی‘ مولانا ابو الکلام آزاد‘ اثر لکھنوی اور دیگر ناقدینِ فن نے ان کے فن اور شاعری کو جی کھول کر سراہا۔

اثر ؔکی شعر گوئی کا آغاز گیارہ سال کی عمر میں ہوا۔ تیرہ سال تک شاعری کی حیثیت تک بندی تک محدود رہی۔ چودہ برس کی عمر میں اثرؔ کو شاعری کی الہامی کیفیت محسوس ہونے لگی۔(۳۵۱) اس زمانے کا کلام تمام تر تلف ہو گیا ہے۔ چند اشعار یاد گار ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اس زمانے کا کلام بھی تضات سے مبرّا اور جذبات سے لبریز تھا۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

چاہتا ہے جی کہ میں اور بخت بد

 

7خوب روئیں مل کے باہم ایک دن

 

-شعلۂ نارِ محبت کی تپش

 

;خود بخود ہو جائے گی کم ایک دن

 

5روئیے ایسا کہ کوئی ہنس پڑے

 

7خوب کہتی تھی یہ شبنم ایک دن

 

;میں ہوں تیرا مونس و ہمدم اثرؔ

 

مجھ سے کہتا تھا میرا غم ایک دن

(۳۵۲)

ýانیس برس کی عمر تک غزل اور نظم کی مشق جاری رہی۔ رباعی گوئی کا آغاز بیس برس کی عمر میں ہوا اور اس کا محرک حضرت عمر خیام کی رباعیاں تھیں۔ غالب‘ اقبال اور میر کے علاوہ جس شاعر سے متاثر ہوئے وہ عمر خیام ہی تھے۔ ان کی اکثر رباعیاں عمر خیام کے رنگ کی ہیں۔(۳۵۳)

اثرؔ نے بچپن سے شاعری کا آغاز کیا اور وفات تک مسلسل لکھتے رہے۔ یہ سرمایہ کئی اصنافِ سخن پر مشتمل ہے۔ لیکن ان کی شاعری کا جائزہ موضوعات و فن کے حوالے سے لیا جائے گا۔

اثر ؔزندگی کی بے ثباتی امیدوں کی ناکامی اور آغاز و انجام پریشان کن مسائل پر غور کر کے مغموم ہو جاتے ہیں۔ افکار پریشاں میں اپنا نظریہ حیات اس طرح واضح کرتے ہیں:

زندگی کیا ہے! قضا کیا ہے!!

 

6ابتدا کیا ہے! انتہا کیا ہے!!

:یہ فنا کیا ہے! اور بقا کیا ہے

 

2 یا الٰہی! یہ ماجراکیا ہے

1دل کہ برق و شرار ہوتا ہے

دم میں مشتِ غبار ہوتا ہے

رواح زارو نزار ہوتی ہے

 

/ہجر میں بے قرار ہوتی ہے

+سر بسر اضطرار ہوتی ہے

 

-اک غریب الدیار ہوتی ہے

-جوشِ وحشت اسے ستاتا ہے

اک سیل جنوں بناتا ہے

خانہ دل کو توڑ دیتی ہے

 

+پیکرگل کو توڑ دیتی ہے

1اپنے محمل کو توڑ دیتی ہے

 

/سب سلاسل کو توڑ دیتی ہے

/گیت آزاد یوں کے گاتی ہے

اور فضا میں سمائے جاتی ہے (۳۵۴)

کائنات اور زندگی کے بارے میں کہتے ہیں۔

ہے ازل سے موج زن بحرِ رواں زندگی

 

ہجر بے پایاں ہے بحرِ بیکراں زندگی

 

انجمن آرائے ہستی ہے ظہورِ زندگی

 

ہے ضیا پاش دو عالم شمع نور زندگی

(۳۵۵)

Ôاثر کی بیشتر نظموں میں تلاشِ حسن پایا جاتا ہے۔ حسن سے ان کی مراد حسنِ ازلی ہے۔ اثرؔ پہاڑ‘ برسات‘ شام و سحر غرض کہ ہر نقش میں حسنِ ازلی کو جلوہ گر پاتے ہیں۔ اثر ؔفلسفہ کے طالب علم تھے انہیں الہیات سے غیر معمولی شغف تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں الہیات کو سمو دیا۔ وہ فلسفے کو ارتقائے شاعری کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کے فلسفیانہ مضامین شعریت میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی نظم میں’’کائنات اور انسان‘‘ کے مطالعہ سے ان کی اس نوعیت کی قادر الکلامی کا پتہ چلتا ہے۔ کائنات زندگی سے معمور ہے اور زندگی ایک طوفانِ اضطراب ہے جو اپنی رو میں رواں دواں ہے اور جس کا منتہا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک جھلک اثر کے کلام میں دیکھئے:

ہے ازل سے موجزن بحر رواں زندگی

 

بحر بے پایاں ہے بحرِ بیکراں زندگی

 

انجمنِ آرائے ہستی ہے ظہورِ زندگی

 

ہے ضیا پاش دو عالم شمع نورِ زندگی

 

پیکر ہستی کی ہے رگ رگ میں ہیجانِ حیات

 

قطرے قطرے میں ہے پنہاں اک طوفانِ حیات

 

باد پار ہواروہے جس کو غمِ منزل نہیں

 

سیل بے پروا ہے جو شرمندہ ساحل نہیں

 

ابتداء ہے زندگی اور انتہا ہے زندگی

 

کاش کھل جائے کبھی یہ بھی کہ کیا ہے زندگی

(۳۵۶)

êزندگی کے اس طوفان میں انسان نمودار ہوتا ہے۔ انسان خود بھی منظم ہے اور کائنات کی تنظیم میں بھی اس کی ہستی کار فرما ہے:

اس تماشا گاہ میں اک ہستی انسان بھی ہے

 

جو دل آگاہ بھی ہے دیدہ حیران بھی ہے

 

زندگی اس میں سمائی اور درخشاں ہو گئی

 

برق مضطر تھی مگر شمع فروزاں ہو گئی

 

سیل آوارہ تھا لیکن چشمۂ عرفان بنا

 

علم و عقل عشق اور ایثار سے انسان بنا

 

آگہی کا ساز سوز زندگی سے مل گیا

 

ہوش بھی اک گونہ جوش بیخودی سے مل گیا

(۳۵۷)

¶خدائے بزرگ و برتر کی تعریف و توصیف کرنا ایک مومن کے ایمان کا لازمی جز ہے۔ اثرؔ پر بھی اپنی شاعری میں ایک سچے مومن کی طرح حمدو ثنا کرتے نظر آتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی حمد میں ان کی نغمہ سرائی کے حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

تیری بہار جانفزالالہ و یاسمن میں ہے

 

تیرا جمال دلکشاتاروں کی انجمن میں ہے

 

بادِ صبا میں تیری نکہت خوش بسی ہوئی

 

تیرا ہی جلوہ ضوفشاں پھولوں کے پیرہن میں ہے

 

کعبہ و دیر میں عبث ہم تھے ڈھونڈتے رہے

 

تو ہی کلی کلی میں ہے تو ہی چمن چمن میں ہے

 

رنگ میرے خیال کا‘ فیض تیرے جمال کا

 

کیف تیرے وصال کا میری مئے سخن میں ہے

(۳۵۸)

اثرؔ کی طبیعت شروع ہی سے حکیمانہ موضوعات کی طرف مائل تھی۔ کلامِ اقبال کا مطالعہ وہ شروع ہی سے کرتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نوجوان شاعر کا کلام حقائق و معارف کے انمول جواہرات سے مالا مال ہو گیا:

یاد تیری شراب ہے ذکر تیرا سرود ہے

 

کیف طرب میں موج زن میرایم وجود ہے

(۳۵۹)

 

ذرے ذرے میں خیابار ہے طلعت تیری

 

پتے پتے میں چمن ساز ہے جلوہ تیرا

 

سنگِ اسود میں ہے مستور حقیقت تیری

 

اور صنم خانوں میں ہے جلوہ پیدا تیرا

 

تیرا ہی ہے کعبہ ہو کہ مے خانہ ہو

 

شیخ تیرا ہے‘ غریقِ خم صہبا تیرا

(۳۶۰)

 

گو کوئی کہیں نظر نہ آیا

 

1ہر ذرے پہ تھا نشان کس کا

(۳۶۱)

 

بارہا ہوا دھوکہ مجھ کو اپنی ہستی پر

 

9نقش غیر فانی کا مظہر تجلی کا

(۳۶۲)

 

زیرِ نقاب ہے بھی کوئی حسنِ دلفریب

 

9یونہی اک فریب ہے رنگ نقاب کا

(۳۲۳)

 

منزل میری بلند ہے خورشید و ماہ سے

 

خورشید و ماہ پر ہی ٹھہرنا نہیں مجھے

 

مسجد مہر و ماہ ہوں معبود کائنات

 

سجدہ کسی کے در پہ بھی کرنا نہیں مجھے

(۳۶۴)

àحیات بعد الموت کے اہم مسئلے کو بھی اثر ؔنے خوبی سے بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک انسان کی ہستی غیر فانی ہے۔ موت کے ہاتھوں وہ صرف ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے اور ہم اس غیرمرئی حالت کو دیکھ نہیں سکتے لیکن در حقیقت انسانی زندگی قائم و دائم ہے:

موجود بھی ازل سے ہوں اور جا وداں بھی ہوں

 

خوفِ فنا نہیں ہے کہ مرنا نہیں مجھے

(۳۶۵)

Þاثر نے فنا کے خوف کو دل سے نکال دیا ہے اور زندگی کو ازلی اور جاودانی قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:

ساحل پہ جاؤں گا بھی تو موجوں کو چیر کر

 

کشتی کے بل بھی پار اترنا نہیں مجھے

(۳۶۶)

جب یہ خزاں بھی اک فریبِ بہار میں

 

ہر چند نغمہ ریز رہا ساز ہست و بود

لیکن کھلا نہ راز نوا ہائے ساز کا

 

@پندار نے وجود و عدم کو سمجھ لیا!

دیکھا تو یہ بھی راز تھا اور وہ بھی راز تھا (۳۶۷)

غمِ محبت یا زندگی کی ناکامیوں کا غم چشمِ بصیرت کو بہت تیز کر دیتا ہے۔ حقائق و معارف کا صحیح احساس‘ انسانی جذبات کی عمیق ترین گہرائیوں سے شناسائی اور تخیل کی بلند ترین چوٹیوں تک رسائی اس غم کی بدولت ہوتی ہے۔ اثر کے شعری مجموعے ’’راحت کدہ‘‘ کی غزلیں جس قدر سوزو گداز سے پر ہیں دوسرے مجموعوں کی غزلیں اس درد کو نہیں پہنچتیں۔ ’’راحت کدہ‘‘ سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

چشم مشتاق دید یار رہی

 

-شام تک محوِ انتظار رہی

 

'رات کا قصہ مختصر ہے

 

-صبح ہونے تک اشکبار رہی

 

3راز سمجھا نہ کچھ گل خنداں

 

-کس لیے شبنم اشکبار رہی

(۳۶۸)

 

دل میں ذوقِ آرزو ہی نہیں

 

7لب کو اب شوقِ گفتگو ہی نہیں

 

1تیرہ و تار ہے قضائے حیات

 

5جلوہ آرا وہ ماہر و ہی نہیں

 

)گلشنِ آرزو ہوا ویران

 

0آہ! وہ جانِ آرزو ہی نہیں

 

-مستیوں سے شراب خالی ہے

 

3روح میں شور ھاو ھوہی نہیں

 

2اے میری جان! اے میری راحت

 

9زندگی کیاہو جب کہ تو ہی نہیں

(۳۶۹)

 

یہ سلسلہ حیات کیا ہے

 

1یہ غم کی طویل رات کیا ہے

 

3دل بیٹھ نہ جائے یار غم سے

 

/بیچارے کی کائنات کیا ہے

 

-ہے چپ سی لگی ہوئی اثرؔ

 

1معلوم نہیں کہ بات کیا ہے

(۳۷۰)

 کیف و سرور و مستی غزل کا جزو اعظم سمجھی گئی ہے لیکن ہر شام نے اس کا مفہوم اپنے اپنے خیال کے مطابق سمجھا ہے۔ اثرؔ کے تمام کلام میں خواہ وہ غزلیں ہوں نظمیں ہوں یا قطعات و رباعیات سب میں کیف و مستی پائی جاتی ہے:

پلائے جا ساقیا ! پلائے جا انتظار کیا ہے

 

جو لڑ کھڑا جائے ایک دو ساغروں میں وہ بادہ خوار کیا ہے

 

چمن میں رقص طرب ہے برپا اٹھا لے اپنا رباب مطرب

 

عبث یہ انجمن ہے تیرے دل میں کہ پھول کیا ہیں بہار کیا ہے

 

ازل سے خورشید و ماہ کے جام بزمِ ساقی میں چل رہے ہیں

 

مرید پیرِ مغاں کی نظروں میں دور لیل و نہار کیا ہے

(۳۷۱)

±اسی طرح ایک دوسری غزل میں بھی کیف و مستی اور رندی و سرشاری کے حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں:

بزمِ جہاں ہے مے کدہ جم مرے لیے

 

ہے دورِ جام گردشِ پیہم مرے لیے

 

چھیڑا ہے کس کے حسن نے تاربابِ عشق

 

رقصاں ہے ایک نغمہ پیہم مرے لیے

 

تیری نگاہِ لطف ہے موج مئے نشاط

 

;اب ہو گئی حرام مئے غم مرے لیے

 

ہے کائنات تیری ضیا سے حسین کہ تو

 

5ہے آفتابِ حسن مجسم مرے لیے

 

تو ہمکنار ہے تو خزاں بھی بہار ہے

 

کیا ہو گا پھر بہار کا موسم مرے لیے

(۳۷۲)

Ôفلسفہ کی روح عقل‘ مذہب کی روح عمل اور شاعری کی روح جذبات ہیں۔ اثرؔ جذبات پرست ہیں لیکن اثرؔ کی طبیعت میں خوشگوار توازن او ر اعتدال پایا جاتا ہے۔ جذبات کی پاکیزگی‘ اندازِ بیان کی شگفتگی اور مضامین کی تازگی ان کی شاعری کی خاص خصوصیت ہے:

پھر خندہ زیرِ لب آتا ہے اے اثرؔ

 

پھر جھک رہا ہے سر میرا عجزِ نیاز سے

 

پھر جگمگا رہی ہے مری بزمِ آرزو

 

دیکھا کسی نے پھر نگہ دل نواز سے

 

آنکھیں بجھی ہوئی ہیں تیری راہ گزر میں

 

آغوشِ شوق وا ہے تیرے انتظار میں

(۳۷۳)

üاثرؔ کی شاعری میں تغزل کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کا تغزل رچا ہوا اور پوری سنجیدگی و متانت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایسا تغزل ہے جسے خلوص کی شدت نے پر تاثیر بنا دیا ہے۔ اثرؔ کے مندرجہ ذیل اشعار سے صحیح تغزل کی مثال واضح طور پر سمجھ میں آ جاتی ہے:

ڈوبی ہوئی نگاہ ہے رنگ حجاب میں

 

یا کوئی نوشگفتہ کلی نیم خواب میں

 

رنگینیوں میں غرق ہوئی ہے نقاب بھی

 

تم ہو کہ آفتاب چھپا ہے سحاب میں

 

زیرِ نقاب بھی تو بہت بے نقاب ہو

 

ہو جاؤ بے نقاب کہ تم آفتاب ہو

(۳۷۴)

 

ان کی نظریں بجلیاں بنتی گئیں

 

/وہ قیامت آفریں ہوتے گئے

 

5ان کے عارض برگ گل بنتے گئے

 

7ان کے کا کل سنبلیں ہوتے گئے

(۳۷۵)

مناظر قدرت کے حسن سے کیف اندوزی صاحب ذوق و وجدان کی خصوصیت ہے اثر مناظر پرست ہیں۔ ان کی اکثر غزلیات ایک ہی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں۔

مناظر فطرت کے علاوہ اثر ؔکے ہاں تخیل کی بلند پروازی اور جدت ادا جیسی صفات بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ ان صفات کے حوالے سے کلام اثر ؔسے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

اندوہ ربا ہے منظر ابر

 

1کیا روح فزا ہے منظرِ ابر

 

3مستانہ خرام آ رہا ہے اکبر

 

1گلزار پہ برس رہا ہے اکبر

 

/میخانہ بدوش ہیں گھٹائیں

 

/پیغامِ سروش ہیں گھٹائیں

 

3گل ہائے چمن کھلے ہوئے ہیں

 

5یا مے سے سبو بھرے ہوئے ہیں

(۳۷۶)

کانپ اٹھا ہے فلک دیکھ کے یہ زندہ دلی

 

مسکراتا ہے اثرؔ پھونک کے خرمن اپنا

 

سرحد عقل سے پرے‘ رفعت عرش سے بلند

 

جانے کہاں کھو گیا میں تجھ کو ڈھونڈتا ہوا

(۳۷۷)

 

تیری یاد اس طرح دل کی کلی کو گد گداتی ہے

 

کہ جیسے صبحدم موجِ نسیم مشکبار آئے

 

نہ جانے کیا کشش ہم کو یہاں تک کھینچ لائی ہے

 

تیری محفل میں ہم آئے مگر بے اختیار آئے

(۳۷۸)

Ëڈاکٹر ابو اللیث صدیقی صہبائی کی جدتِ ادا‘ مضمون آفرینی اور شوخی و رنگینی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

مجھے صہبائی کی رباعیوں‘ قطعات میں غزلوں سے زیادہ رنگینی اور رس معلوم ہوتا ہے اور میرا خیال ہے کہ ان کا اصلی رنگ بھی یہیں آ کر ظاہر ہوتا ہے ۔(۳۷۹)

ایک حساس شاعر جہاں زندگی کے گہرے مسائل کو نظر انداز نہیں کرتا وہاں وہ ملکی سیاسیات سے بھی لا پروا نہیں ہو سکتا۔ آج کا شاعر ماضی کے شاعر کی طرح بے حس نہیں کہ دنیا میں کیسا ہی انقلاب کیوں نہ آئے۔ حالات کتنے ہی سازگار ہوں وہ ماحول کا اثر قبول نہ کرے۔ اثرؔ کی طالب علمی کا دور سر گرم عملی سیاسیات میں گزرا۔ مقامی‘ بین الاقوامی ‘ معاشی اور سیاسی مسائل ان کی نظر میں ہیں اور دنیا کے رستے ہوئے ناسوروں کے لیے وہ بھی ایک علاج پیش کرتے ہیں جو ارباب ہوش و خردکے لیے قابلِ غور و فکر ہے:

بے دل و بے حس پڑا ہے کارواں کا کارواں

 

نعرہ ہائے ھاو ھو سے اس کو گرماتا ہوں میں

(۳۸۰)

©اثرؔ کو افسوس ہے کہ اس کی قوم میں بے حسی بہت شدید ہے جس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں:

بولا نہ کہیں سے بھی کوئی میری صدا پر

 

اس دشت میں ہر سمت بہت میں نے پکارا

(۳۸۱)

اثرؔ کے نزدیک قومیں جس جذبہ سے زندہ رہتی ہیں وہ آزادی ہے:

وہ آتش سے ملے گر تو آتش اچھی

 

وہ کشت و خون سے ہو حاصل تو کشت و خون بہتر

(۳۸۲)

کشمیر اثر کا آبائی وطن تھا اور ملازمت کے دوران اس نے عمر کا بیشتر حصہ کشمیر میں گزارا۔ قیامِ کشمیر کے دنوں تحریکِ آزادیٔ کشمیر زوروں پر تھی کشمیری مسلمانوں پر ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے۔ مسلمانوں کی بے چارگی اور مظلومیت کا اثر ؔکو گہرا احساس تھا کیونکہ ان کی حساس نظروں نے کئی ہنگامے دیکھے۔ وہ براہِ راست تحریکِ آزادی سے واقف تھے۔ ان کی تمام ہمدردیاں مظلوم کشمیری قوم کے ساتھ تھیں:

آہ! مظلوم کی سنتا نہیں فریاد کوئی

 

میں نے مظلوم کو ظالم سے چھڑانا ہے

(۳۸۳)

¨ان کی شاعری میں قومی و ملی شاعری کے عناصر بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں قومی و ملی رنگ کو اثرؔ نے مستقل طور پر اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ ان کی نظم ’’سرود سفر‘‘ قومی شاعری کا بہترین نمونہ ہے۔ اس نظم کے اشعار ملاحظہ ہوں:

چمن کے نغمہ گر اپنی نوا بدل ڈالیں

 

چمن کا رنگ‘ چمن کی فضا بدل ڈالیں

 

خزاں کی شام گئی صبحِ نو بہار آئی

 

نہائیں غنچہ و گل اور قبا بدل ڈالیں

 

چراغِ حق سے اگر ان کے ہاتھ خالی ہیں

 

نکالیں راہ نئی‘ راہنما بدل ڈالیں

 

نئے نئے ہیں سمندر‘ نئے نئے طوفاں

 

رکھیں خدا پہ یقیننا خدا بدل ڈالیں

 

وطن کی پاک زمیں کا ہے نام ’’پاکستان‘‘

 

اثرؔ دلوں کو اب اہل ریا بدل ڈالیں

(۳۸۴)

Þوجود مطلق یا ہستی خدا صوفیانہ شاعری میں یہ مسئلہ ہمیشہ زیرِ بحث رہا ہے اس کے ساتھ مسئلہ جبر و قدر بھی ہمیشہ ہمیشہ سے انسانی خیالات کا موضوع رہا ہے۔ فلاسفر اور صوفی تو کیا ایک عام انسان بھی کبھی کبھار یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ مسائل نہایت اہم اور پیچیدہ ہیں اور قوم کے مفکر ان کے متعلق اپنے اپنے نظریات رکھتے ہیں۔ اثر ؔصہبائی نے بھی ان مسائل پر روشنی ڈالی ہے:

تیری ہستی کا کچھ یقیں بھی نہیں

 

میرے لب پر مگر ’’نہیں‘‘ بھی نہیں

 

5دیکھتا ہوں تو ہر جگہ موجود

 

سوچتا ہوں تو پھر کہیں بھی نہیں

(۳۸۵)

 

رازِ عدم و وجوہ پایا نہ گیا

 

یہ پردۂ مرگ و زیست اٹھایا نہ گیا

 

انکار بھی ہو سکا نہ تجھ سے ہمدم

 

ایمان بھی مگر خدا پر لایا نہ گیا

(۳۸۶)

Xمسئلہ جبر و قدر کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:

بیگانہ ہوش ہوں کہ ہوشیار ہوں میں

 

ہوں عالمِ خواب میں کہ بیدار ہوں میں

 

9فطرت کی ستم ظریفیاں تو دیکھو

 

’’مجبور‘‘ کو وہم ہے کہ ’’مختار‘‘ ہوں میں

(۳۸۷)

 

ہر چند سلاسل ’’مکافات‘‘ ہیں

 

کچھ وجہ شکست و فتح ’’حالات‘‘ بھی ہیں

 

تدبیر خود بھی عزم ہمت بھی درست

 

دنیا میں مگر کچھ ’’اتفاقات‘‘ بھی ہیں

(۳۸۸)

®انسانی عظمت‘ درسِ عمل اور بلندیٔ غزائم اقبال کی شاعری کے اہم ترین موضوعات ہیں۔ اثرؔ نے ان موضوعات پر قطعات اور رباعیاں لکھی ہیں۔ اثر ؔنے شاعرانہ طور پر اقبال کے پیغام کو آگے بڑھانے اور ان کے سوزِ بصیرت کو عام کرنے میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ ان کے نزدیک انسان کی ہستی جامع صفات ہے۔ اس میں ساری دنیا کو اپنے اندر جذب کر لینے کی پوری صلاحیت موجود ہے:

گر اصل سے اپنی آشنا ہو جائے

 

یہ مشتِ غبار کیا سے کیا ہو جائے

 

ہے بے خبری میں بھی مسجود ملائک

 

;ہو جائے جو با خبر خدا ہو جائے

(۳۸۹)

 

گو ہستی آتشیں ہے فانی میری

 

;ہے بزمِ جہاں میں ضوفشانی میری

 

خود جلنا مگر جہاں کو روشن کرنا

 

/مانند شرر ہے زندگی میری

(۳۹۰)

انسانی ترقی کا راز عمل اور بلندیٔ عزم میں مضمر ہے۔ مولانا روم اور اقبال نے عمل کو جوہرِ حیات اور روح قرار دیا ہے۔ صہبائی بھی اس رنگ میں ان کے قدم بقدم نظر آتے ہیں:

مسجد میں رہیں سبہ خوانی کب تک

 

1اندیشہ رزم زندگانی کب تک

 

زندہ ہے تو کارزارِ ہستی میں نکل

 

7یہ فکر شکست و کامرانی کب تک

(۳۹۱)

 

ہے ذوق تیز کامرانی ہے یہی

 

9سرمایۂ لطف و شادمانی ہے یہی

 

7تقدیر کا اے اثرؔ پلٹا معلوم

 

7ہو گرمِ عمل کہ زندگی ہے یہی

(۳۹۲)

5ناکامیٔ زندگی سے ڈرنا کیسا

 

7ہنگام شکست سے آہ بھرنا کیسا

 

زندہ ہے اگر تو ننگِ ہستی کیوں ہے

 

9یہ موت سے پیشتر ہی مرنا کیسا

(۳۹۳)

7اثرؔ نے مرد مومن کی صفات بیان کرتے وقت اس صفت پر زیادہ زور دیا ہے کہ مرد مومن فنا و نیستی کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے۔ وہ اپنے عمل صالح کے ذریعے اس مرتبے تک رسائی حاصل کر لیتا ہے کہ خود اﷲ تعالی کا ہاتھ بن جاتا ہے۔ اس میں وہی صفات پیدا ہو جاتی ہیں جن سے اس کے خالقِ حقیقی کی ذات متصف ہے:

طوبی سے بھی بلند ہے رفعت تیری

 

;کونین سے بھی بڑی ہے وسعت تیری

 

7ہو جائے اگر تو آپ اپنا محرم

 

پھر ارض و سما میں ہے حکومت تیری

(۳۹۴)

 

مردانِ خود آشنا ہیں ممتاز و بلند

 

پھیلی ہوئی دو جہاں پہ ہے ان کی کمند

 

ظاہر میں ہیں مشتِ خاک باطن میں ہیں نور

 

ذروں میں تجلیوں کے خورشید ہیں بند

(۳۹۵)

Pاُردو کے دوسرے تمام شاعروں کی طرح اثر نے نعتیہ شاعری بھی کہی ہے۔ ان کی یہ شاعری رسمی طور پر ہی نہیں بلکہ اس صنفِ سخن کو دوسری اصنافِ سخن کی طرح سے باقاعدہ اپنایا ہے۔ جس طرح دوسری اصناف میں اثرؔاقبال سے متاثر ہیں اس طرح اس صنف میں بھی انہوں نے خاصا اثر لیا ہے۔ بقول سید محمد جعفر شاہ ندوی پھلواری:

اثر ؔکے کلام میں جا بجا اقبال کی جھلک نظر آتی ہے اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ اقبال کے افکار سے خاصے متاثر ہیں۔ انہوں نے اپنی نعتوں میں شعریتِ محسنہ سے اجتناب کیا ہے اور کوشش یہ کی ہے کہ بیان حقائق اور جذبات عشق کی آمیزش سے نعت کا ایک انداز و رنگ پیدا ہو۔(۳۹۶)

اب اثرؔ کا نعتیہ رنگ ملاحظہ ہو۔ اثرؔ صفاتِ نبویؐ کو بڑے خوبصورت انداز میں اس طرح پیش کرتے ہیں:

تیرا روئے پاک حق کا آئینہ

 

/چادر مہتاب سے پاکیزہ تر

 

3اسوۂ احسن تیرا خلقِ عظیم

 

5بوئے گل‘ آبِ گہر‘ نورِ سحر

 

5تیرے سوزِ عشق سے پیغامِ حق

 

;زندہ تر‘ تابندہ تر‘ پائندہ تر

 

تو نے صہبائی کو کیا کچھ دے دیا

 

9عشق حق‘ جوشِ جنوں ‘ حسنِ نظر

(۳۹۷)

Ûنعتوں میں معجزات‘ صفات اور اخلاقِ حسنہ کے متعلق لکھتے ہوئے اپنے جذبات دلی اور عشقِ رسولؐ کو بھی پیش کرتے ہیں۔ انہیں رسول کریمؐ کے دیدار کی بے حد تمنا تھی جس کا اظہار اپنے نعتیہ شعری مجموعے ’’بحضور سرور کائناتؐ‘‘ کے پسِ منظر میں کرتے ہیں:

میں اکثر سونے سے پہلے اس خدا نما انسان کی

 

زیارت کے لیے دعائیں مانگتا ہوں

(۳۹۸)

'ترنم و موسیقی اثر ؔکی نظموں اور غزلوں کی ایک خاص صفت ہے۔ ان کی شاعری میں اس قدر ترنم ہے کہ گاکر پڑھنے کے بغیر بھی وہ جاذب سماعت و روح افزا ہوتی ہے:

ہنگامہ ہائے رونق دنیا کو کیا کروں

 

میں آبدیدہ رنگِ تماشا کو کیا کروں

 

کیا کیا ہیں میرے دل میں خلشہائے جستجو

 

ذوقِ نظر کو دیدۂ بینا کو کیا کروں

 

;پیشِ نظر نہیں ہے سرمایۂ نشاط

 

آغوشِ جام و گردنِ مینا کو کیا کروں

(۳۹۹)

Ö۱۹۳۵ء میں ترقی پسند تحریک اردو ادب میں شروع ہوئی۔ یہی دور اثرؔ صہبائی کی شاعری کا زریں دور ہے۔ اس تحریک کا کوئی خاص اثر‘ اثر ؔکی شاعری نے قبول نہیں کیا ماسوائے حقیقت نگاری کے۔ کسی شاعر کو رومانوی یا ترقی پسند کہتے وقت اس کے غالب رجحانات کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ یہ شاعر رومانوی ہے یا ترقی پسند۔ اثر ؔکے ہاں رومانوی رجحانات کا اثر زیادہ ہے اور یہ ترقی پسند تحریک سے سرسری طور پر متاثر ہوئے۔ اب ہم اثرؔ صہبائی پر دوسرے عظیم شعراء کے اثرات کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔ اپنے بڑے بھائی امینِ حزیں سیالکوٹی کی طرح اثر بھی دوسرے شعرا سے زیادہ اقبال سے متاثر ہوئے اور دونوں اس رنگ میں دوسرے متبعین سے زیادہ کامیاب رہے ہیں:

خود ہی مے ہوں‘ خود ہی خم ہوں خود ہی خم خانہ ہوں میں

 

بے نیاز ساقی و مینا و پیمانہ ہوں میں

(۴۰۰)

                ساقی کے علاوہ اور بہت سی اصطلاحات کو اثرؔ نے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ یہ وہی اصطلاحات ہیں جس سے اقبال نے اپنے فکر و پیام کا تانابانا تیار کیا ہے مثلاً جفا طلبی ، بادیہ پیمائی‘ شعلہ طور‘ شعلہ مینائیبتانِ آذری اور مسجود ملائک کا استعمال اقبال کی نظموں اور غزلوں میں کثرت سے ہے۔ انہیں اصطلاحات کی مدد سے اقبال نے اپنے فلسفۂ زندگی کو وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اثرؔ صہبائی اور اقبال کے فلسفۂ زندگی میں مماثلت کے بہت پہلو نکلتے ہیں۔ مثلاً ذوق عملامید‘ یقین‘ عزم و اعتماد اور مردِ مومن کے موضوعات دونوں کے یہاں مشترک ہیں۔ اقبال کی طرح اثرؔ نے بھی ان اصطلاحات سے استفادہ کیا ہے۔ بعض الفاظ تو الفاظ و معانی دونوں لحاظ سے اقبال ہی کے اشعار کی صدائے باز گشت معلوم ہوتے ہیں۔ اثر ؔنے اقبال کے ترتیب دیئے ہوئے الفاظ ہی سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان تراکیب کی وضع پر خود بھی بعض اچھی ترکیبیں وضع کی ہیں۔ مثلاً بربطِ یزداں‘ شمشیرٔ‘ اھرمن کش‘ نشہ ہائے یزداں اور خیبر اھرمن۔ ایک اور بات جس میں اثر ؔصہبائی نے اقبال کا اثر قبول کیا ہے وہ چند مکالماتی نظمیں ہیں مثلاً ’’شاعر اور دنیا‘‘ اور ’’شاعر اور خدا‘‘۔ فغان نیم شبی کی اصطلاح اقبال نے بیشتر مواقع پر استعمال کی ہے۔ اس سے مراد وہ نیم شبانہ آہ و زاری اور تڑپ و گداز ہے جو عاشق صادق کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے۔ ایک جگہ اس کا استعمال ملاحظہ ہو:

ہزار مرحلہ ہائے فغاں نیم شبی

اثرؔ کے یہاں اس اصطلاح کا استعمال ملاحظہ ہو۔ بالکل وہی فضا پیدا کی ہے جو اقبال کے اکثر اشعار کی جان ہوتی ہے۔ ’’بامِ رفعت‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

ادھر بھی اک نگہ دلنواز ہو جائے

 

7مرا وجود سراپا گداز ہو جائے

 

فغان نیم شبی کو عطا ہو سوزو گداز

 

;ہر ایک آہ و آئینہ خلوص و نیاز

(۴۰۱)

ºاب اثر ؔکے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں جو موضوعات اور اسلوب کے لحاظ سے اقبال سے ملتے جلتے ہیں:

موجود ہوں جاوداں ہوں موہوم نہیں

 

ہو جاؤں فنا یہ میرا مقسوم نہیں

 

9بوسیدہ ہے تجھ میں حیاتِ ابدی

 

معلوم ہے مجھ کو تجھ کو معلوم نہیں

(۴۰۲)

 

کچھ حق سے جدا نہیں مردانِ خدا

 

;مجبور فنا نہیں ہیں مردانِ خدا

 

لا ریب خدا کے دست و بازو ہیں یہی

 

ہر چند خدا نہیں ہیں مردانِ خدا

(۴۰۳)

 

جب ہمت اہلِ دل سنبھل جاتی ہے

 

9تقدیر سے تدبیر کی چل جاتی ہے

 

7گر صدق طلب ہو اور شمشیر عمل

 

;تقدیر بھی اے دوست بدل جاتی ہے

(۴۰۴)

 

عقل حیرانی نگاہ سے تنگ

 

)عشق آماجگاہ بارش سنگ

 

9روح فرسا ہے عقل و عشق کی جنگ

 

,ساقیا! ساغر مئے گل رنگ

 

/محبت کی مجھے تابندگی دے

 

1محبت میں مجھے پائندگی دے

 

5جو وقف سوز ہو وہ دل عطا کر

 

3جو صرف عشق ہو وہ زندگی دے

(۴۰۵)

 

میں سلسلۂ خرد کا پابند نہیں

 

9ہوں بحر حباب کی طرح بند نہیں

 

میں اپنے جنوں پہ خوش ہی خوش ہوں یا رب

 

ہے تیرا کرم کہ میں خرد مند نہیں

(۴۰۶)

 

گو سلسلۂ دیر و حرم کو چھوڑا

 

;واعظ کو برہمن کو صنم کو چھوڑا

 

5افکار کی قید سے نہ آزاد ہے

 

;زنجیرِ خیال نے نہ ہم کو چھوڑا

(۴۰۷)

 

طوبیٰ سے بھی ہے بلند رفعت تیری

 

;کونین سے بھی بڑی ہے وسعت تیری

 

7ہو جائے تو اگر آپ اپنا محرم

 

پھر ارض و سما میں ہے حکومت تیری

(۴۰۸)

 

سرمایہ افتخار آدم ہے یہی

 

;جبریل یہی ہے اسمِ اعظم ہے یہی

 

9ہے تیرے مقدر میں غمِ عشق اگر

 

خوش باش کہ حاصل دو عالم ہے یہی

(۴۰۹)

اُردو شاعری میں بہت سے شعرا نے میرؔ کے اسلوب کو اپنانے کی کوشش کی لیکن وہ میر کے رنگ کو بہت دنوں تک نہ نبھا سکے اور بہت جلد اس اسلوب کو ترک کر دیا۔ اثرؔ صہبائی کے ہاں اقبال کے ساتھ ساتھ میر کا بھی کچھ کچھ انداز ملتا ہے۔ اثر نے ’’جامِ طہور‘‘ کے دیباچے میں خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ’’راحت کدہ‘‘ میں میر کا اثر غالب ہے۔    (۴۱۰)

’’راحت کدہ‘ کا مقدمہ لکھتے ہوئے اثر لکھنوی نے بھی لکھا ہے:

متعدد اشعار میں میر کا رنگ بھی جھلکتا ہے اور یہی ایک پرستار میر ؔکے عقیدے میں شاعری کی معراج ہے۔(۴۱۱)

میر کی طرح کی شاعری میں بھی غمِ عشق کی فراوانی پائی جاتی ہے۔ اثرؔنے میر کی بعض غزلوں کی زمینوں کو بھی نہایت خوبصورتی کے ساتھ اپنی غزلوں میں استعمال کیا ہے۔ اثرؔ کے شعری مجموعے ’’راحت کدہ‘‘ کی غزلوں میں میر کی طرح کا سوزو گداز دیکھا جا سکتا ہے۔ اس شعری کلام کی بعض رباعیاں اور غزلیں مضمون کے اعتبار سے ایسی ہیں جن کو پڑھ کر گماں گزرتا ہے کہ میر کی ہونگی۔ اب اثر کی شاعری میں میر کے اسلوب اور انداز کی جھلک ملاحظہ ہو:

سطح دریا پر ابھر آتے ہیں

 

7بلبلے ہیں تیرتے جاتے ہیں ہم

 

5تیر کر لیکن ذرا کچھ دور تک

 

اس نئی ہستی سے گھبرا جاتے ہیں ہم

 

-تنگ آ کر وحشت افکار سے

 

سرا نہیں موجوں سے ٹکراتے ہیں ہم

 

ٹوٹ کر دریا میں ہو جاتے ہیں غرق

 

9پھر سکون بے خودی پاتے ہیں ہم

(۴۱۲)

 

آہ منزل تک نہ پہنچا کاروانِ آرزو

 

راہ میں ہی کارواں کا کارواں مارا گیا

 

تھا دل بیچارہ تنہا اور ہجوم رنج و غم

 

جانے اس گھمسان میں وہ اب کہاں مارا گیا

 

سوزِ الفت پر ہی تھا جس کا مدارِ زندگی

 

سوزِ الفت ہی سے وہ آتش بجاں مارا گیا

(۴۱۳)

 

دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں

 

/گوش مشتاق گفتگو ہی نہیں

 

1تیرہ و تار ہے فضائے حیات

 

5جلوہ آرا وہ ماہ رو ہی نہیں

 

)گلشنِ آرزو ہوا ویران

 

.آہ! وہ جان آرزو ہی نہیں

 

:اے میری جان! اے میری ’’راحت‘‘

 

زندگی کیا ہے؟ جب کہ تو ہی نہیں

(۴۱۴)

تیرے ہی جلوے عیاں ہیں گل کے ہر انداز میں

 

تیرے ہی نغمے رواں ہیں ہر صدائے ساز میں

 

تیری ہی تصویر ہے دنیا کا ہر نقش جمیل

 

تیری ہی آواز سنتا ہوں ہر اک آواز میں

(۴۱۵)

 

ایک ماتم کدہ ہے بزمِ جہاں

 

/آج مجھ پر یہ آشکارا ہوا

 

3گوشہ گوشہ سے آ رہی ہے صدا

 

/کون ہے جو نہ سوگوار ہوا

(۴۱۶)

Âاثر ؔکی فلسفیانہ فکر ایک نشاطیہ لہجہ دیتی ہے۔ ’’راحت کدہ‘ کے بعد اثرؔ اپنی محبوب بیوی کے عارضی غم سے باہر نکل آئے تھے اور زندگی کے بارے میں رجائی طریقہ اختیار کر لیا تھا۔ اس طرح میر کے رنگ کی جھلک ان کے کلام میں عارضی ثابت ہوئی۔ اس غم نے ایک فائدہ پہنچایا کہ زندگی اور موت کے بارے میں خدا اور انسان کے بارے میں سوچ بچار کا موقعہ ملا۔ اردو شاعری میں فکری لحاظ سے غالب کا کلام بڑی اہمیت رکھتا ہے جنہوں نے اپنی غزلوں میں حیات و کائنات کے بارے میں فکر کی دعوت دی ہے۔ اس لحاظ سے اثر صہبائی کی شاعری میں غالب کا اثر میر سے زیادہ ہے۔ غالب کے شعری اثرات کا اعتراف کرتے ہوئے اثر ’’جامِ طہور‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

چودہ برس کی عمر میں شاعری کی الہابی کیفیت محسوس ہونے لگی۔ انہیں ایام میں مجھے غالب اور اقبال کے کلام سے لگاؤ پیدا ہوا جو آج تک برابر ترقی کر رہا ہے۔(۴۱۷)

غالب کا نظریہ زندگی کے بارے میں میر کی طرح افسردہ نہیں بلکہ وہ غم و اندوہ میں بھی نشاطیہ پہلو تلاش کر لیتے ہیں مثلاً

کچھ تو دے اے فلک نا انصاف

 

3آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی

اس طرح اثر صہبائی بھی زندگی کے بارے میں نا امید نہیں وہ کہتے ہیں:

شامِ فرقت کو بھول جاتا ہوں

 

3صبح عشرت کو بھول جاتا ہوں

 

-بادہ ذکر میں فنا ہو کر

 

7رنج و راحت کو بھول جاتا ہوں

(۴۱۸)

 

زندگی کو حباب کہتے ہیں

 

+آرزو کو سراب کہتے ہیں

 

3تو سمجھتا ہے جس کو بیداری

 

9اہلِ ہوش اس کو خواب کہتے ہیں

(۴۱۹)

˜خدا کے متعلق مرزا غالب کا نظریہ مندرجہ ذیل شعر سے بہت اچھی طرح واضح ہوتا ہے:

اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے

 

حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

Žاثر ؔصہبائی کا خیال بھی خدائے بزرگ و برتر کے معاملے میں کچھ ایسا ہی ہے:

تو ہی ساری ہے جب ہر ایک شے میں

 

7جائے موجود کیا ہے معدوم کیا

(۴۲۰)

یہ خواب ہے کہ حقیقت نہ ہو سکا معلوم ہے

 

رہی یہ بات کہ ’’کچھ ہے‘‘ سو وہ کیا معلوم ہے

(۴۲۱)

žاثر ؔصہبائی اور مرزا غالب کا نظریہ مندرجہ ذیل شعر سے بہت اچھی طرح واضح ہوتا ہے:

اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے

 

حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

Œاثر صہبائی کا خیال بھی خدائے بزرگ و برتر کے معاملے میں کچھ ایسا ہی ہے:

تو ہی ساری ہے جس ہر ایک شے میں

 

7جائے موجود کیا ہے معدوم کیا

(۴۲۰)

یہ خواب ہے کہ حقیقت نہ ہو سکا معلوم ہے

 

رہی یہ بات کہ ’’کچھ ہے‘‘ سو وہ کیا معلوم ہے

(۴۲۱)

ôاثر صہبائی نے مرزا غالب کے بعض خیالات اور تراکیب کو اپنی شاعری میں بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا ہے۔ ایک غزل میں غالب کہتے ہیں:

اثر صہبائی نے مرزا غالب کے بعض خیالات اور تراکیب کو اپنی شاعری میں بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا ہے۔ ایک غزل میں غالب کہتے ہیں:

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

 

-اب کسی بات پر نہیں آتی

اس خیال کو اثر نے یوں ادا کیا ہے:

اب کسی پہلو میرے دل میں خوشی آتی نہیں

 

مجھ کو اپنے حال پر بھی اب ہنسی آتی ہے

(۴۲۲)

©غالب کے ہاں جدت ادا کی مثالیں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں اور یہ وصف غالب کا وصف خاص ہے:

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

 

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

˜اثر صہبائی کے ہاں بھی جدتِ ادا کی مثالیں کافی مل جاتی ہیں۔ایک شعر ملاحظہ ہو:

سنگِ اسود میں ڈھونڈتا ہے

 

5جلوہ پیرا ہے وہ حسینوں میں

(۴۲۳)

اثر صہبائی پر مرزا غالب کی زبان کا اثر بھی خاصا معلوم ہوتا ہے۔ اثر صہبائی جہاں غالب سے فکری لحاظ سے متاثر ہوئے وہاں غالب کی زبان سے بھی متاثر نظر آتے ہیں۔ اثر نے اپنے اشعار میں بھی ان لفظوں کو استعمال کیا جنہیں مرزا غالب برت چکے ہیں۔ مثلاً پہلوئے اندیشہ‘ غرق نمکداں‘ گلبانگ تسلی‘ زنجیر رسوائی‘ خانہ زاد زلف‘ موج نگاہ‘ تشنۂ فریاد‘ خلوت ناموس‘ خود داری ساحل‘ گزر گاہ خیال‘ آئینہ انتظار‘ دامِ تمنا‘ جنت نگاہ‘ فردوس گوش‘ غبار وحشت‘ دعوتِ مژگاںِ اثر نے مرزا غالب کی تراکیب سے ہی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان تراکیب کی وضع پر خود بھی اچھی تراکیب بنائی ہیں۔ مثلاً قلزمِ صہباہ ‘ موجِ خون‘ موجِ آتشیں‘ شبہائے نار‘ شعلہ آتشِ تمنا‘ برقہائے حسن‘ شرربار‘ گیسوئے عنبرفشاں‘ خمخانہ نشاط اور سرشار تمنا۔ ان تراکیب کو اثر نے نہایت خوبی سے اپنے اشعار میں برتا ہے:

کعبہ و دیر سے بیگانہ ہے شیدا تیرا

 

جانے کیا شخص ہے سرشار تمنا تیرا

(۴۲۴)

پھر برق ہائے حسن شرر بار ہیں اثر

 

حافظ ہے اب خدا ہی دلِ بے قرار کا

 

اک موجِ آتشیں تھی کہ برباد کر گئی

 

نظارہ کیا ہوا ہے رخِ بے نقاب کا

(۴۲۵)

وہ ذوقِ دید کیا جو نہ سرشار کر سکے

 

Dوہ حسن کیا! جو قلزمِ صبا نہ ہو سکا

(۴۲۶)

۳۵۰۔ حبیب کیفوی،’’کشمیر میں اردو‘‘،لاہور،مرکزی اردو بورڈ،بار اول،۱۹۷۹ء ص:۲۱۳۔ ۲۱۹

۳۵۱۔ اثر صہبائی،’’جامِ طہور‘‘، لاہور، تاج کمپنی لمیٹڈ، ۱۹۳۷ء، ص:۴

۳۵۲۔ رسالہ، ’’قوسِ قزح‘‘ ،سالانہ نمبر ۱۹۲۶ء ص:۱۵

۳۵۳۔ اثر صہبائی ،’’خمستاں‘‘،سیالکوٹ،آزاد بک ڈپو،۱۹۳۳ء ص ۳۱

۳۵۴۔ ایضاً،ص: ۴۰

۳۵۵۔ ایضاً ، ص:۱۳۹

۳۵۶۔ ایضاً ،ص: ۱۳۹

۳۵۷۔ ایضاً،ص: ۱۴۰

۳۵۸۔ ایضاً ، ص:۱۷۰

۳۵۹۔ ایضاً ،ص:۱۵۰

۳۶۰۔ ایضاً، ص:۷۰

۳۶۱۔ ایضاً ،ص:۷۲

۳۶۲۔ایضاً، ص:۱۳۵

۳۶۳۔ ایضاً،ص:۱۳۷

۳۶۴۔ ایضاً،ص:۸۷

۳۶۵۔ ایضاً، ص:۹۵

۳۶۶۔ ایضاً، ص:۱۰۵

۳۶۷۔ ایضاً،ص:۱۲۱

۳۶۸۔اثر صہبائی،’’راحت کدہ‘‘، لاہور،تاج کمپنی لمیٹڈ۴۲ ۱۹، ص:۱۱

۳۶۹۔ ایضاً ،ص: ۲۰

۳۷۰۔ ایضاً ،ص:۳۵

۳۷۱۔ ایضاً،ص:۵۰

۳۷۲۔ایضاً ،ص: ۵۸

۳۷۳۔ ایضاً ، ص: ۷۷

۳۷۴۔ اثر صہبائی،’’روحِ صہبائی‘‘ ،لاہور،تاج کمپنی لمیٹڈ، ۱۹۴۵ء، ص:۱۱

۳۷۵۔ایضاً ،ص: ۲۵

۳۷۶۔ ایضاً،ص: ۳۵

۳۷۷۔ ایضاً،ص: ۴۴

۳۷۸۔ ایضاً،ص: ۵۵

۳۷۹۔ تبصرہ روحِ صہبائی از ابو اللیث صدیقی، ریڈیو براڈ کاسٹ،لکھنؤ ،محفوظ تراشا از اثر مرحوم

۳۸۰۔ اثر صہبائی ،’’روحِ صہبائی‘‘ ،ص:۹۲

۳۸۱۔ ایضاً،ص: ۱۳۲

۳۸۲۔ایضاً ،ص: ۱۵۲

۳۸۳۔ ایضاً ،ص: ۸۵

۳۸۴۔ ایضاً، ص: ۱۷۰

۳۸۵۔ اثر صہبائی،’’جامِ طہور‘‘ ، ص: ۳۵

۳۸۶۔ ایضاً ،ص: ۴۵

۳۸۷۔ ایضاً،ص: ۷۲

۳۸۸۔ ایضاً،ص: ۷۸

۳۸۹۔ ایضاً،ص: ۱۵۶

۳۹۰۔ ایضاً، ص: ۱۵۸

۳۹۱۔ اثر صہبائی،’’جامِ صہبائی‘‘ ‘ لاہور‘ دار التالیف‘ ۱۹۲۸ء ‘ ص:۱۸

۳۹۲۔ ایضاً ،ص: ۴۰

۳۹۳۔ ایضاً ،ص: ۵۲

۳۹۴۔ اثر صہبائی، ’’جامِ طہور‘‘ ، ص:۱۸

۳۹۵۔ ایضاً، ص: ۲۸

۳۹۶۔ سید محمد جعفر شاہ، ’’مقدمہ ‘‘ ،مشمولہ،’’بحضور سرورِ کائناتؐ‘‘ از اثر صہبائی، لاہور،انجمن حمایتِ اسلام،س۔ ن،ص:۲۴

۳۹۷۔ اثر صہبائی،’’حضور سرورِ کائناتؐ‘‘، ص:۳۵

۳۹۸۔ ایضاً،ص: ۳۹

۳۹۹۔ اثر صہبائی،’’روحِ صہبائی‘‘، ص:۱۴

۴۰۰۔ اثر صہبائی،’’بامِ رفعت‘‘ ، لاہور، اکادمی پنجاب،۱۹۴۵ء، ص:۱۸

۴۰۱۔       ایضاً ، ص: ۲۵

۴۰۲۔ایضاً،ص: ۵۵

۴۰۳۔ ایضاً،۵۸

۴۰۴۔ اثر صہبائی، ’’جامِ طہور‘‘ ، ص:۸۰

۴۰۵۔ ایضاً،ص: ۹۵

۴۰۶۔ اثر صہبائی،’’بامِ رفعت‘‘،ص:۱۱۰

۴۰۷۔ اثر صہبائی،’’جامِ صہبائی‘‘ ، ص:۳۲

۴۰۸۔ اثر صہبائی’’بامِ رفعت‘‘ ، ص: ۵۶

۴۰۹۔ ایضاً،ص: ۷۶

۴۱۰۔ اثر صہبائی،’’اشارات‘‘ ، ’’جامِ طہور‘‘، ص:۹

۴۱۱۔        اثر لکھنوی،’’مقدمہ‘‘ ،’’راحت کدہ‘‘ ص:ی

۴۱۲۔ اثر صہبائی،’’راحت کدہ‘‘ ،ص:۱۱۵

۴۱۳۔ ایضاً ،ص: ۳۸

۴۱۴۔ ایضاً،ص: ۴۲

۴۱۵۔ ایضاً،ص: ۱۰۲

۴۱۶۔ ایضاً ،ص: ۱۱۱

۴۱۷۔اثر صہبائی،’’اشارات‘‘، جامِ طہور، ص:۸

۴۱۸۔ اثر صہبائی،’’خمستاں‘‘ ،ص:۷۲

۴۱۹۔ ایضاً،ص: ۷۵

۴۲۰۔ ایضاً ،ص: ۵۰

۴۲۱۔       ایضاً،ص: ۵۳

۴۲۲۔ ایضاً ، ص: ۷۸

۴۲۳۔ ایضاً ،ص: ۹۳

۴۲۴۔ ایضاً ،ص: ۲۵

۴۲۵۔ ایضاً ،ص: ۲۰

۴۲۶۔ ایضاً، ص: ۲۹

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...