Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

تاریخ ادبیات سیالکوٹ |
Asian Research Index
تاریخ ادبیات سیالکوٹ

عبداللطیف تپش
ARI Id

1688382102443_56116091

Access

Open/Free Access

Pages

140

عبداللطیف تپش(۱۸۹۵ء ۔۱۹۴۳ء) لاہور میں پیدا ہوئے۔ منشی فاضل اور بی۔اے کے امتحانات پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ پنجاب ہائی کورٹ میں ملازمت کی۔ پھر گورنمنٹ انٹر کالج پسرور ضلع سیالکوٹ میں علومِ شرقیہ کے استاد مقرر ہوئے۔ پسرور میں ملازمت کے دوران مزید تعلیم کے لیے مطالعے کو جاری رکھا اور ایم ۔اے فارسی کا امتحان ۱عزاز کے ساتھ پاس کیا۔اس امتحان میں تپشؔ یونیورسٹی بھر میں اول رہے ۔ (۴۲۷) تپشؔ کو شعرو شاعری سے حد سے زیادہ دلچسپی تھی۔ ان کے اوقاتِ تدریس بڑے دلکشا اور معلومات افزا ہوتے۔ کالج میں بزمِ ادب کی جان ہوا کرتے تھے۔ گورنمنٹ کالج پسرور میں قیام کے دوران متعدد ادبی مجالس اور مشاعروں کا مقصد طلبا کے ذوق کی نشوونما اور فروغ زبان اُردو تھا۔ جو بدرجہ اتم ہوا اور کئی طالب علم شاعر بن گئے۔ گورنمنٹ کالج پسرور میں ۴ مارچ ۱۹۳۲ء کو ابو الاثر حفیظ جالندھری تشریف لائے تو کالج کے وائس پرنسپل پروفیسر سراج الدین آذر نے کالج سٹاف کا تعارف کراتے ہوئے عبداللطیف تپشؔ کے بارے میں کہا :

یہ شاعر ہی نہیں شاعر گر بھی ہیں۔(۴۲۸)

تپشؔ کا شعر و شاعری کا ذوق جبلی تھا۔ انھیں سر عبدالقادر (مدیر مخزن) جیسی علمی و ادبی شخصیت کی دامادی کا شرف بھی حاصل تھا۔ جس کی وجہ سے آپ کے شعری ذوق کی بہت جلد اصلاح اور ترقی ہو گئی۔ تپش ؔ نے سر عبدالقادر کی علمی صحبتوں سے بصدِ رنگ استفادہ کیا لیکن آپ کی طبیعت نظم کی طرف مائل نہ ہو سکی۔ بلکہ آپ غزل ہی کے شائق و دلدادہ رہے۔ آپ شروع میں بہت پرگو اور مشکل شاعر تھے لیکن کثرتِ مشق سخن سے ان کے کلام میں سادگی و پرکاری آگئی۔ اُن کے کلام ہندوستان کے ممتاز ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوا کر تاتھا۔ (۴۲۹) آپ کی شاعری میں دل کشی اور سادگی کے ساتھ ساتھ یاس کا پہلو بھی بہت نمایاں ہے اور یوں ان کے اشعار میں دردو کرب کی ایک ہلکی سی کسک پیدا ہو گئی ہے۔ آپ کی شاعری حسن و عشق سے زیادہ ایک حساس درد مند دل کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ اس کہانی میں ایک خاص تاثیر اور دل کو لبھانے والی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

ڈاکٹر وحید قریشی سیالکوٹ کی شعری روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے تپش کے بارے میں کہتے ہیں:

دینی کے علاوہ ادبی لحاظ سے بھی سیالکوٹ کی شعری روایت اہمیت رکھتی ہے۔داغ دہلوی کے کئی شاگرد سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ یہ شہر کشمیر سے آنے والی آبادی کا بھی مرکز ہوا ۔ جموں بھی یہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ سری نگر جانے والے راستے بھی جہلم کے بعد گجرات کے آس پاس سے نکلتے تھے۔ اس لیے ان علاقوں کی ادبی سر گرمیوں کی دھمک سیالکوٹ میں سنائی دیتی تھی۔ اقبال،فوق،امین حزیں،اثر ،عبدالحمید عرفانی ایک مستحکم شعری راویت کے امانت دار تھے۔پسرو رمیں عبداللطیف تپشؔ نے جوت جگائی تھی۔(۴۳۰)

مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ تپشؔ کاسیالکوٹ کی شعری راویت سے گہرا تعلق تھا۔ تپشؔ کی شاعری میں تاریخ گوئی کے ساتھ ساتھ جاندار اور تیکھی تراکیب ،تلمیحات ،استعارات ،محاورات اور روزمرہ کااستعمال بھی مو جود ہے۔ جس سے ان کے کلام میں ایک استادانہ شان آگئی ہے اورا ن کا کلام شعری ادب کا قیمتی سرمایہ بن گیا ہے۔ بحوالہ ’’تاریخِ ادبیاتِ ملتان‘‘ تپشؔ کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

دیکھ لی خوب مسجدوں کی سیر

 

3اب ذرا آؤ جھانک آئیں دیر

7مرتے دم کیا خدا کو یاد کریں

 

9جیتے جی تو بتوں کی مانگی خیر

 

اُڑو گے کہاں تک مرے ہوش بن کر

 

نہ کھلواؤ منہ میرا خاموش بن کر

9سرِ حشر اور پُرشش جُرم اُلفت

 

7عطا پاش ہو کر خطا پوش بن کر

 

اِک حرف تمنا ہے سنا دوں تجھے قاصد

 

ایسا تو نہیں بات کو افسانہ بنا دے

پھر توبہ کے ٹکڑوں پہ گزرے مری ساقی

 

پھر مجھ کو گدائے درِ میخانہ بنا دے

 

طبیعت بے نیاز کفرو دیں معلوم ہوتی ہے

 

یہ دنیا مست صہبائے یقیں معلوم ہوتی ہے

 

غلط ہے ،اس کا سنگِ آستاں اور غیر ٹھکرائیں

 

ہمیں تو اپنی تقدیر جبیں معلوم ہوتی ہے

(۴۳۱)

 

۴۲۷۔ڈاکٹر روبینہ ترین،’’تاریخِ ادبیاتِ ملتان‘‘،اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان،۲۰۱۲ء ،ص :۱۰۱،۱۰۲

۴۲۸۔ایضاً،ص :۱۰۲

۴۲۹۔ایضاً،ص :۱۰۲

۴۳۰۔ڈاکٹر وحید قریشی،’’پیش لفظ‘‘ ،مشمولہ’’باقیاتِ تاثیر‘‘ ،از مجید احمد تاثیر،لاہور،الوقار پبلی کیشنز ۲۰۰۰ء ،ص۵،۶

۴۳۱۔بحوالہ :’’تاریخ ادبیاتِ ملتان‘‘ ،ص:۱۰۳

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...